وقار مسعود خان(چین)
کبھی کبھار سطح ورق پر رنگینیاں بکھیرتے ہوئے جیسے قلم کی نوک اچانک کسی پیچیدہ سے موضوع پر لفظ اگلنے لگتی ہے ٹھیک اسی طرح اس کی زندگی کی سڑک جو شروع سے ہی پہاڑوں پر بنے زگ زیگ راستوں کی طرح تھی اچانک ایک پرخطر موڑ مڑ گئی۔اور یہ موڑ مڑنے کے بعد راستہ کچھ فاصلہ طے کر کے دل سوز منزل کے قدموں میں جا کر ضم ہو گیا۔آج چوبیس تاریخ تھی۔آج منزل پر پہنچنے کا دن تھا۔آج راستہ منزل کے قدموں میں تحلیل ہو جانا تھا۔
جیسے ہی بابر نے سردار رزاق خان پر گولی چلائی اسی لمحے پولیس کی ایک وین جو پیچھے سے زوں زوں کرتی دوڑی چلی آرہی تھی رزاق خان کی لاش کے گرد لگے مجمع کے قریب آ کر رک گئی۔پولیس کا بے موقع ٹپک پڑنا بابر کے منصوبے میں شامل نہیں تھا۔اس نے قتل کرنے کے لئے کوئی انوکھا طریقہ استعمال نہیں کیا تھا۔سردیوں کی رات تھی اور اس نے اوڑھی ہوئی چادر کی اوٹ سے گولی چلا دی تھی۔گولی نے اس لئے بر وقت اثر دکھایا کیونکہ وہ رزاق خان سے چند گز کے فاصلے پر موجود تھا۔پولیس کی گاڑی کی بے وقت آمد نے اس کے بنے بنائے پروگرام کو خاک میں ملا دیا۔لوگوں کی نظر جیسے ہی گولی چلنے والی سمت پر پڑ ی تو وہ بد حواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔داتا بازار کے ساتھ والے بازار میں داخل ہوا اور پھر چھوٹی بڑی ان گنت گلیوں نے اس کو نگل لیا۔یہ اس کا آخری قتل تھا۔
اسے جانداروں ……خاص طور سے بے حس انسانوں سے بے حد نفرت تھی۔اس نفرت کے دائرے کا آخری شکار سردار رزاق خان بنا جو کہ داتا دربار پر نذرو نیاز چڑھانے آیا تھا۔اپنے ہی میر جعفر صفت دوستوں کی مخبری سے وہ پکڑا گیا اور اسے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ۔اسی لئے آج چوبیس تاریخ تھی۔آج بابر کو پھانسی ہونی تھی……دشوار گزار راستے کا اختتام ہونا تھا۔
زندگی کسے کہتے ہیں۔ اس لفظ کو بہتر انداز سے سمجھنا یا اِس کی گہرائی میں اتر کر حقائق کو جاننا بابر کے لئے آسان نہ تھا۔اُس وقت وہ بمشکل تیرہ سال کا تھا۔آٹھویں جماعت کا طالبعلم جس کو ہنسنے ،کھیلنے اور شرارتوں کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا ،زیست جیسے فلسفانہ اور سنجیدہ موضوع پر کچے دماغ کی مشینری کو حرکت میں کیوں لاتا۔لازماً اسکے سلسۂ حیات کی شاہراہ پر کوئی ایسی اونچ نیچ ہوئی ہو گی جس کی وجہ سے وہ پتنگیں اڑانے اور کنچے کھیلنے کی عمر سے بے نیاز ہو کر کائنات میں مقصدِ حیات کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوا۔وہ پڑھائی میں طاق تھا۔کرکٹ بھی نہایت عمدہ طریقے سے کھیل لیتا تھا۔اور گھر سے باہر کھیلنے کودنے کا یہی وقت اس کے لئے کل مسرت کا سامان تھا۔جیسے ہی وہ گھر کی چوکھٹ پر قدم رکھتا، آواز آ جاتی…………
بد ذات لڑکے! پھر اُن کتے کے پلوں کے ساتھ کھیلنے گیا تھا۔کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ اکرم خان کے بچوں کے منہ نہ لگا کر ،تجھے اُلی اور کائی کی طرح باسی کر چھوڑیں گے۔مگر تو ہے کہ پھر ان کی گلی کی طرف منہ کر کے اونٹ کی طرح دوڑا چلا جاتا ہے،تیرا باپ آنے والا ہے جا کر بازار سے دہی لے کر آ،میرے تو نصیب پھوٹے جو اس جہنم میں قدم رکھ دئے۔ایک شوہر اور ایک ہی بیٹا……دونوں نکھٹو…………
ایک شام کو وہ ریاضی سے سوال حل کر رہا تھا۔کمرے میں بجنے والے دھیمے دھیمے میوزک کے زیر اثر اس کا قلم روانی سے چل رہا تھا کہ ساتھ والے کمرے میں ماں باپ کے مابین نونک جھونک شروع ہو گئی۔لڑائی ہمیشہ ذرا سی بات پر شروع ہوتی تھی اور مار پیٹ پر آ کر ختم ہوتی تھی یعنی اسکی ماں شوہر سے مار کھا کر سارا غصہ تھپڑوں اور مکوں کی صورت میں بے وجہ اُس پر نکالتی تھی۔اِس دوران وہ کتاب الٹا کر دایاں گال میز کے بدن پر رکھے سوچوں میں گم ہو گیا۔
خادم کے ابو کتنے اچھے ہیں نا……روز اسے موٹر سائیکل پر سکول چھوڑنے آتے ہیں ،اتوار کے اتوار سیر کرانے کے لئے لے جاتے ہیں ،بازار جا کر اپنے ہاتھ سے کتابیں دلواتے ہیں …………اور میرے ابا……ہوں……سکول میں داخل کروا نے کے بعد آج تک مجھے سکول چھوڑنے نہیں آئے۔واپسی پر لینے نہیں آئے ۔یہ بھی نہیں سوچتے کہ سڑک سے کوئی لچا لفنگا بوری میں بند ہی کر لے جائے،پَر میں کیوں کسی سے ڈروں ، میں اب چھوٹا تھوڑی نہ ہوں،اگر کسی نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی تو مار مار کر اس کا بھرکس نکال دوں گا۔جب وہ اداس ہوتا تھا تو اِس بے جان میز کے جسم کے لمس سے اس کو میٹھے جذبات کی وہ روح افزا حدت محسوس ہوتی تھی جو اس کے ماں باپ یا دوسری جاندار اشیاء اس کو نہیں دیتے تھے۔وہ انہی خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسکی ماں غصے سے بپھری پیر پٹختے اسکے کمرے میں داخل ہوئی۔تڑاخ کر کے ایک تھپڑ اس کے ریشم ایسے گال پر جڑدیا۔اور بولی…………
کمینے……تجھے ہوم ورک کرنے کا کہا تھا ……یہ نہیں کہ کمرے کو کنجر خانہ بنا کر میٹھے میٹھے سپنوں میں کھو جائے۔تیرے چاچا نے بھی نت نئی چیزیں لا کر تیری عادتیں بگاڑ دی ہیں……خانہ خراب ہو اُس نا مراد کا……اسکی ماں غصے میں بڑبڑاتی ٹیپ کی طرف بڑھی……اور اس کے گرم گرم آنسو لکڑی کی میز پر چشموں کی طرح بہنے لگے۔
اس کے گھر کا ماحول ایسا ہی تھا۔باپ کتابوں کے لئے پیسے دینے کے ساتھ ساتھ گالیاں بھی دیتا تھا۔کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ وہ بن باپ پیدا ہوا ہے۔وہ سوچتا تھا کہ ابا نے اگر پیسے دینے ہی ہوتے ہیں تو محبت اور پیار سے کیوں نہیں دیتا۔ماں نے کوئی بات سمجھانی ہوتی ہے تو اپنے ساتھ چمٹا کر،چھاتی سے لگا کر چوم چوم کر لاڈ اور پیار سے کیوں نہیں سمجھاتی۔ہاتھ اور جوتی سے مار کر کیوں سمجھاتی ہے۔کیا میں اسکے بدن کا حصہ نہیں ہوں۔اس نے سن رکھا تھا کہ ہر بچہ ماں کے جسم کا حصہ ہوتا ہے اور یہاں اسے محسوس ہوتا کہ وہ بہت بڑا ہو گیا ہے۔اسے زندگی کا مفہوم سمجھ آنے لگا ہے۔مگر سب کی زندگی ایسی کیوں نہیں ہوتی۔میں تو سائنس کے فوائد پر چند سطروں سے زیادہ مضمون نہیں لکھ سکتا اتنی بڑی بڑی باتیں کیوں سوچنے لگا ہوں۔مجھے شاید بیماری ہو گئی ہے۔بڑوں جیسی باتیں سوچنے والی بیماری………………………………
آہستہ آہستہ اسے ہر جاندار سے نفرت ہونے لگی۔وہ چیونٹیوں کو مسلنے لگا۔اپنی کتابوں سے باتیں کرتا،آئینے کے روبرو کھڑے ہو کر اپنے عکس کی آنکھوں سے آنسو پونچھتا۔اسے ہر اس بے جان چیز سے انس ہونے لگا تھا جو چپ چاپ اس کے گلے شکوے سنتی تھی۔انسانوں سے اسے ہول اٹھنے لگا تھا۔ماں باپ سے دوری ہونے لگی تھی۔دل چاہتا تھا قید خانے جیسے اس گھر سے بھاگ جائے۔
جب وہ دسویں میں ہوا تو بھی گھر میں لڑائی جھگڑے،نفرت،مار پیٹ،تنگی اور کھینچا تانی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔اتوار کو اسے چھٹی ہوتی تھی۔مگرماں نے سختی سے اسے باہر نکلنے سے منع کیا ہواتھا۔کہتی تھی…………
خبردار جو گھر سے باہر قدم نکالا ۔تیرا باپ بھی سارا دن گھر سے غائب رہتا ہے۔شام کو دو پیسے کما کر لاتا ہے،پیٹ کا تندور بھر کر ساری گرمی مجھ پر نکالتا ہے……تو بھی اس کی طرح نکما اور ہوس خور بن جائے گا۔باہر کے خبیث لوگوں سے نہ ملا کر …………
بابر یہی سوچتا رہ جاتا کہ اللہ میاں نے اسے اس دنیا میں قیدی بنا کر بھیجا ہے۔اسکی قسمت میں ہنسنا،کھیلنا کودنا نہیں بلکہ گھر کی چار دیواری میں گھٹ گھٹ کر جینا لکھا ہے۔
اِس اتوار بھی وہ باہر نہیں جا سکا۔ٹیپ اُس دن سے ماں کے کمرے میں تھی۔گانے بھی نہیں سن سکتا تھا۔صبح اٹھا تو ابا کہیں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔کپڑے استری نہ ہونے کی چھوٹی سی وجہ پر ماں سے لڑنا شروع کر دیا۔روز مرہ کے ان ہنگاموں سے وہ تنگ آچکا تھا۔وہ چپکے سے صحن میں چلا آیا۔تازہ تازہ صبح نے اس کے تھکے ماندے ذہن کو ازحد تسکین پہنچائی۔اس نے طوطے کے لٹکتے ہوئے پنجرے کو اتارا اور ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔پیار سے بولا……تمہارا یہ سبز رنگ مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔میری بھاری بھاری آنکھوں کو طراوت بخشتا ہے……وہ طوطے کو پنجرے سے نکال کر پیار کرنے لگا۔طوطے نے اس کی انگلی اپنی نازک سی چونچ میں دبا لی۔درد کی مزیدار سی ٹیس اٹھ کر اس کے پورے بدن میں پھیل گئی۔بہت مزا آیا……بولا…… کاٹ شوق سے کاٹ……اور کاٹ……ہاں اور زور سے……شاباش……اسے درد میں بہت سکون ملتا تھا……کبھی کبھی وہ شہادت کی انگلی کو دانتوں میں دبا لیتا اور اس کے بدن میں میٹھا سا کرنٹ دوڑ جاتا۔دانت رسیلے ہونٹوں میں گاڑ دیتا۔اس طرح اس کے دل کو تسکین پہنچتی تھی۔سرور ملتا تھا……بلی کے بچوں اور کتوں کوستانے میں اس کو بڑا مزا آتا تھا…………
اس نے طوطے کے نرم ملائم ہڈی والے سر پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔اچانک اس کی گردن کے گرد گرفت مضبوط کر دی۔جی چاہا کہ گیلے کپڑے کی طرح مروڑ کر رکھ دے مگر اسکے اندر سے کوئی بولا…………اپنا غصہ اس بے زبان پر کیوں نکالتا ہے……مگر اس سے بھی اونچی ایک آواز آئی۔کیوں چھوڑے گا اسے……کیا تجھے ماں کے سینے سے لگنا نصیب ہوتا ہے۔جبکہ ماں روز اس طوطے سے گھنٹوں بیٹھی باتیں کرتی ہے۔اسے پیار کرتی ہے۔باپ تجھے کبھی سیر کرانے نہیں لے کر گیا۔ماں نے کبھی چمکار چمکار کر تجھ سے پسندیدہ کھانے کا نہیں پوچھا۔جبکہ یہ کمبخت روزانہ چاٹ مصالحوں سے تیارشدہ امرود کھاتا ہے۔ہر وقت ماں تجھے جلی کٹی سناتی رہتی ہے،مارتی ہے،خرم،علی،خادم اور حسن کے امی ابو تو ان کے ساتھ ایسا نہیں کرتے۔تیرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہے۔اس نے طوطے کو دونوں ہاتھوں میں دبایا……بھینچا……زور لگا کر……اور زور لگا کر اسے دبا ڈالا……بابر کا دل پھٹ رہا تھا۔جسم پر لرزہ طاری تھا۔ذ ہن میں ملے جلے خیالات ناچ رہے تھے۔دو مختلف فیصلے اس کو اپنی اپنی طرف کھینچنے لگے۔یکدم اس کو جسم میں کسی بھاری سی چیز کے بیٹھ جانے کا احساس ہوا۔طوطے کے نرخرے سے خر خر کی آوازیں نکلنے لگیں۔بابر کا پھنسا ہوا سانس نکل گیا۔اس کے دل میں کوئی چیز تڑ سے ٹوٹ گئی۔بے قرار سی روح بدن میں حلول کر گئی۔متلی سی محسوس ہونے لگی۔اس نے ایک دوسرے سے جڑے دونوں ہاتھ کھولے تو جھٹ سے کوئی چیز نیچے آگری۔بابر پھٹی پھٹی نگاہوں سے زمیں پر پڑی طوطے کی مڑی تڑی لاش کو دیکھتا رہ گیا۔سبز رنگ اس کی بھاری بھاری آنکھوں کو طراوت بخشتا تھا۔اس کا حلق سوکھ گیا۔اور وہ نڈھال ہو کر زمین پر بیٹھ گیا۔یہ اسکا پہلا قتل تھا۔
یہیں سے اس کی زندگی کی سڑک نے وہ انوکھا موڑ کاٹا جس کے بعد راستہ کچھ فاصلہ طے کر کے روح فرسا منزل کے قدموں میں جا کر دم توڑ گیا۔اسی لئے آج چوبیس تاریخ تھی۔آج فیصلے پر عمل درآمد کا دن تھا۔آج اسے پھانسی ہونی تھی۔