فیصل عظیم(امریکہ)
ارزانی
میں کیا کرتا
اس نے کہا تھا
کون ہو اپنا آپ دکھاؤ
اپنا چہرہ پڑھ کے سناؤ
اپنے لفظوں سے اپنی آنکھیں دکھلاؤ
میں کیا کرتا
جو بھی میرے پاس تھا
سب لفظوں میں ڈھال کے
اس کے سامنے رکھ آیا تھا
میں کیا جانوں
اس کی آنکھوں میں کس چہرے اور کن آنکھوں کا سایہ تھا
میں نے جو تصویر دکھائی
اس سے تو بس میرا باطن جھانک رہا تھا
جس پر سچے دل سے
میں لفظوں کے موتی ٹانک رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دائیں بائیں
پہلے پہل جب
بھاری بھاری اور سفاک سے پتھر
راہ میں آجاتے ہیں
دل کہتا ہے
’’بھاگو اِدھر سے
دائیں سے یا پھر بائیں سے نکلو
کون ہٹائے ایسے پتھر‘‘
اتنے اونچے پتھر
جن پر چڑھ کر پار اُترنا مشکل
بس کنّی کترانا ممکن
وہ بھی اگر ممکن ہوٗ تب ہو
لیکن دائیں بائیں بھی ایسے ہی پتھر ہوں
تو پھر سامنے والے ہی سے سر ٹکراؤ
اور انہیں بھی گزرے ہوؤں کی صورت
ایک طرف کو رکھو
اور بڑھ جاؤ
اور پھر اگلے پتھر تک پہنچو تو
یہ سب پھر دہراؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب ندارد
کسے خبر تھی
کہ یہ پہاڑوں کا سلسلہ ہے
طویلٗ اونچے
دلوں کے یہ سب پہاڑ جن میں
ہر اک صدا خود پلٹ کے حملہ کرے
تو لگتا ہے کوئی بولا
کسے خبر تھی
کہ بات کرنے کا زعم جس کو ہے وہ
پہاڑوں کے ٹھنڈے پتھر کو بھی سماعت سمجھ رہا ہے
وہ سب صدائیںٗ جو اس تک آتی ہیں اس کی اپنی
بھٹکتیٗ بہکی ہوئی صدائیں ہیںٗ وہ صدائیں!
جو اَن سنی ہیں
جو پتھروں سے پلٹ پلٹ کر تھکی ہوئی ہیں
اور اپنے ماخذ سے پوچھتی ہیں
کہ وہ اکیلے میں گفتگو کس سے کر رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجات
تم بھی آجاؤ گے
گرتے پڑتے یونہی
ڈگمگاتے قدمٗ ڈولتے جسم کو خود سہارا دیے
ایک دن تم بھی میری طرح راہ پرٗ
جو ہے لمبی بہتٗ راہ تو ہے مگر
تم بھی آجاؤگے
ایک دن راز پا جاؤ گے
میرے جیسے جو ہیں
اَن گنتٗ زخم زخم اور طعنوں کے مارے ہوئے
ان کے شانوں سے شانے ملاتے ہوئے
زندگی کی طرف تم چلے آؤگے
ایک دن تم مرے جیسے ہو جاؤ گے