مرتضیٰ اطہر(دہلی)
(’’آدمی کی زندگی ‘‘کے حوالے سے)
عہد حاضر کی شاعرات میں فہمیدہ ریاض ایک منفرد اور نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ۱۹۶۷ء میں ’’پتھر کی زبان‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور پھر اس کے بعد ’’بدن دریدہ ‘‘،’’دھوپ ‘‘، کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے‘‘،ہمرکاب ‘‘ اور ’’آدمی کی زندگی ‘‘ بالتر تیب شائع ہوئے۔کلیات ’’میں مٹی کی مورت ہوں ‘‘ کے نام سے پاکستان سے شائع ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے شیخ ایاض کے سندھی کلام اور ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد کے فارسی کلام کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔نثرمیں بھی انہوں نے دو ناولٹ (گوداوری اور زندہ بہار)اور ایک افسانوی مجموعہ’’ خط رموز ‘‘کے نام سے تخلیق کیا ہے اور جو منظر عام پر آچکے ہیں ۔
فہمیدہ ریاض کی شاعری کے مطا لعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے دور کی جدید عورت نے نہ صرف یہ کہ ایک بے حد حساس اور زندگی کی نئی معنویت سے آگاہ ذہن کی بیداریوں کا اندازہ کروایا ہے ،بلکہ اس اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے جو اس صلاحیت کے نتیجے میں اس کے اندر پیدا ہو اہے ۔ان کی شاعری میں ایک ایسی عورت مکالمہ کرتی نظر آتی ہے جو اپنے بدن کی معنویت اور اہمیت سے پوری واقفیت تو رکھتی ہی ہے تاہم ذہن اور شعور کی پختگی کا احساس بھی اس کے اندرموجودہے ۔
انکے پہلے مجموعے ’’پتھر کی زبان ‘‘(۱۹۶۷ء)سے لیکر ’’آدمی کی زندگی ‘‘(۱۹۹۹ء)تک کے شعری سفر میں فکر اور فن کی سطح پر ارتقائی عمل کا ر فرما نظر آتا ہے ۔’’پتھر کی زبان ‘‘ کی نظمیں جہاں ایک نو عمر لڑکی کے رومانی جذبات اور اس کی نفسیات کی ترجمانی کرتی ہیں وہیں ’’بدن دریدہ ‘‘،’’دھوپ ‘‘ اور ’’ہمرکاب ‘‘ کی نظمیں ایک لڑکی سے ایک عورت اور ایک عورت سے ایک ماں بننے میں عورت کے احساسات اور محسوسات کا آئینہ ہیں ۔’’آدمی کی زندگی ‘‘ میں ایک ایسی عورت نظر آتی ہے جو بدلتے ہوئے عمرانی اور معاشی ماحول میں موجودہ دور کے انسان کو لاحق پیچیدہ مسائل سے پوری واقفیت رکھتی ہے اور اس کے تجربے اور مشاہدے کی وسعت اس کی فکر میں بھی گہرائی اور وسعت پیدا کرتی نظرآتی ہے۔
’’آدمی کی زندگی ‘‘ میں شامل نظموں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنسی تفریق ،فرقہ واریت ،مذہبی انتہا پسندی ،تشدد ،کرپشن وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو پا کستانی معاشرے میں جڑ پکڑ چکے ہیں اور جن سے چھٹکارا پا ئے بغیر پاکستانی معاشرہ جدید عہد میں ایک متوازن ،منظم اور ترقی یافتہ سماج نہیں بن سکتا ۔پاکستانی معاشرے کے مزاج کی بنیادی خصوصیات میں آج بھی وہی عناصر کار فرما ہیں جو کئی دہائیوں قبل تھے ۔اور سماجی ،معاشرتی ،علمی اور فکری سطح پر اگر کوئی تبدیلی آئی بھی ہے تو وہ اتنی معمولی ہے کہ بحیثیت مجموعی کوئی انقلابی تبدیلی پیدا کرنے سے بہر طور قاصر ہے ۔اسی لیے عورت کا تجربہ بھی اسی پس منظر میں سامنے آرہا ہے جو مرو جہ پس منظر رہ چکا ہے ۔’’کوتوال بیٹھا ہے ۔۲‘‘ اسی نا قابل تبدیل سماجی صورت حال کا اشاریہ ہے ۔آج پاکستان میں ضیاء الحق کے دور حکومت جیسا اندھا مار شل لائی نظام نہیں ہے ۔لیکن سماجی سطح پر آج بھی عورت کو انہیں تفریقات اور نا انصا فیوں سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں پہلے کی عورت کو در پیش تھے۔’’آدمی کی زندگی‘‘ میں شامل نظم ’’حاشیہ ‘‘عورت کی اسی افسوسناک حالت کی ترجمانی کرتی ہے :
کبھی تم نے سوچا
کرو ذکر جب اپنی قدروں کا
اور اپنے ’’مشرق کی اخلاق ‘‘کی رفعتوں کا
جہاں سے نظر تم کو آتا رہا ہے
تمدن پرایہ نہا یت حقیر
کرو جب رقم زوفشاں داستاں
اپنے اعلیٰ عروجوں کے اوصاف کی
تو اک حاشیہ اس میں تاریک چھوڑو
کہ لیٹی ہوئی ہیں وہاں با حیا مشرقی عورتیں
جن کو چشم فلک نے نہ دیکھا کبھی
وہاں درج ہے ان کے جسموں پر خود انکے ہاتھوں سے
تحریر ہوتی کہانی
تسلسل سے اب تک لکھی جارہی ہے
بہت قابل رحم ہے یہ داستاں
ہے تمہارے تمدن کا وہ حاشیہ
کہ اوجھل رہا ہے سب کی نظروں سے اب تک
اب اتنا بتا دو
کہ تم اس سے نظریں چراؤ گے کب تک
جبر اور نا انصافی کے اس طویل اور مسلسل چلنے والے عمل کے سبب لا حاصلی کا احساس پیدا ہو جانا بھی فطری ہے ۔’’ادمی کی زندگی ‘‘ کی بعض نظموں میں لا حا صلی اور نا مرادی کی کیفیت ملتی ہے ۔’’بڈھی انقلابی عورت ‘‘ کی ابتدا میں معاشرے کے تغیر پذیر نہ ہو نے کا رنج اور انقلاب کی کوششوں کے کار لا حصل ثابت ہو جا نے کا افسوس دکھا ئی دیتا ہے لیکن اس ذہنی کشمکش سے گزرنے کے بعد بڑھیا انقلاب کی راہ پر جمے رہنے کا عزم مستحکم کرتی ہے :
بڑھیا نے کب اس کی مانی بڑھیا نے کب اس کی مانی پھر ایک نئی جنگ جوتنے چل نکلی وہ
آسماں پر تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے
اور کہتے تھے
یہ شاید اس کی عادت ہے
یا شاید اس کی فطرت ہے (بڈھی انقلابی عورت ۔آدمی کی زندگی )
اسی مجموعے میں شامل ایک اور نظم ’’ایک زن خانہ بدوش ‘‘ایک بنجارن کی زندگی اور اس کے مسائل کو موئثراور جذباتی انداز میں پیش کرتی ہے ۔پاکستان میں گزشتہ برسوں میں عورتوں کے ‘تحفظ آبرو ‘ کے نام پر قتل (Honour killing) کے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں ۔اس غیر انسانی طریقہ کا ر پر ’’نینا عزیز ‘‘ کے عنوان سے ایک بیحد موئثر نظم موجود ہے ۔
یہ ساری نظمیں بنیادی طور پر احتجاجی نظمیں ہی ہیں اور نا انصافی اور جبر کے خلاف مزاحمت ان کا مرکزی خیال ہے ۔لیکن احتجاج اور مزاحمت کے باوجود فکر میں سنجیدگی اور لہجے میں ایک ٹھہراؤ نظر آتاہے جو ’’بدن دریدہ ‘‘ اور ’’اپنا جرم ثابت ہے ‘‘ میں نا پید ہے ۔جھنجھلاہٹ (Frustration) اور والہانہ پن کے بجائے سنجیدگی اور ٹھہراؤ اب انکے لہجے کی شنا خت بنتے دکھائی دیتے ہیں ۔
فہمیدہ کی ۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موضوعات کی سطح پر قابل قدر وسعت ان کی شاعری میں آئی ہے ۔اب ان کی شاعری میں انسان دوستی ،امن ،بھائی چارہ ،منا ظر فطرت ،سائنسی اور میکا نیکی مسائل جیسے موضوعات بھی اپنے موجودہ سیاق و سباق میں جگہ پا تے ہیں ۔’’ادمی کی زندگی ‘‘ کے مطالعے سے ایک ایسی عورت ظاہر ہوتی ہے جو عرفان ذات اور عرفان کائنات دونوں کی آگہی رکھتی ہے ۔ان کی شاعری میں داخلی موضوعات اور خارجی موضوعات کی حد بندی نہیں ،بلکہ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم کی طرح ان کی شاعری میں گھل مل گئے ہیں ۔’’آدمی کی زندگی ‘‘کی بعض نظموں میں نا کا می ،نا مراد ی ،احساس تنہائی ،اقدار کے شکست و ریخت کا غم جیسے عناصر نظر آتے ہیں ، تو دوسری طرف سماجی ،عالمی صورت حال پر لکھے ہوئے خارجی مضامین کی بھی کمی نہیں ۔ایسے موضوعات کے بیان کے لئے وہ عام طور پر نثری نظم کے پیرائے کو اپناتی ہیں ۔’’آدمی کی زندگی ‘‘ کی یہی خصو صیات اس کا رشتہ ما بعد جدید شاعری کی فکری بنیادوں سے جو ڑ دیتی ہیں ۔
’’آدمی کی زندگی ‘‘ کی نظموں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ایک ایسی عالمی فضا کے قیام کی خواہش موجود ہے جس میں انسا نیت اور بھا ئی چارگی کے جذبے کو مرکزی حیثیت حا صل ہو اور اس میں جنگ و جدل کے بجائے امن و شانتی کا بو ل بالا ہو ۔انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ آج کے دور میں صرف پا کستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں ’فتنے اور شر ‘کا بول بالا ہے ۔مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی ایسے عوامل ہیں جو انسانیت کی راہ میں حائل ہیں اور دنیا کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے ذریعے اس منفی رویے کو اپنے مفاد کے حصول کی غرض سے فروغ دیا جاتا ہے ۔لیکن ایسی صورت حال میں بھی ہمارے دانشور اورادیب اپنے فرائض کو پوری طرح انجام دینے سے قاصر ہیں ۔
فہمیدہ کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ جب تک شدت پسند نام نہادمذہبی رہنما موجود ہیں وہ مذہب کے نام پر فرقہ واریت کو فروغ دیتے رہیں گے ۔پاکستان میں ہی مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان باہمی تشدد اور خوں ریزی کے واقعات آئے روز سنائی دیتے ہیں ۔’شیعہ اور سنی ‘ ’،وہابی اور بریلوی ‘ کے درمیان تشدد کے واقعات میں ہزاروں لوگ ہر سال جاں بحق ہو جا تے ہیں ۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے جس بے باکی اور اعتماد کے ساتھ کفر اور شرک کا فطویٰ جاری کرتا ہے ،وہ واقعی مضحکہ خیز ہے ۔اس صورت حال پر ان کی نظم ’’خاکم بدہن ‘‘ایک بے باک طنز ہے :
میں عازم میں خانہ تھی کل رات کہ دیکھا
اک کوچہ پر شور میں اصحاب طریقت
تھے دست و گریباں
خاکم بدہن ،پیچ عماموں کے کھلے تھے
فتوں کی وہ بوچھا ڑ کہ طبقات تھے لر زاں
دستان مبارک میں تھیں ریشان مبارک
موہائے مبارک تھے فضاؤں میں پریشاں
کہتے تھے وہ باہم کہ حریفان سیہ روح
کفار ہیں بد خو
زندیق ہیں ،ملعون ہیں بنتے ہیں مسلماں !
ہاتف نے کہا روکے کہ اے رب سماوات !
لا ریب سراسر ہیں بجا دونوں کے فتوات
خلقت ہے بہت ان کے عذابوں سے پریشاں
اب ان کی ہو ں اموات !
فہمیدہ ریاض نے اپنے عہد کے دوسرے جدید شعرا کی طرح سائنسی ،میکا نکی دور کے مسائل اور انسان کے کرب اور تنہائی کے ا حساس کو بھی اپنی نظموں میں قلم بند کیا ہے ۔ادب میں داخلی اور خارجی موضوعات کی حدبندی کا رجحان عام ہے ۔لیکن فہمیدہ اس رویے کو قبول نہیں کرتی ہیں ۔ان کے مطابق :
’’اندرون ذات خود خارج کا ڈھالا ہوا پیکر ہوتا ہے۔‘‘۱
(فہمیدہ ریاض ،دیباچہ ،دھوپ ،مشمولہ ’’میں مٹی کی مورت ہوں ‘‘،ص ۲۱۸)
یہی و جہ ہے کہ انسان کے ذاتی تجربات اور احساسات کا رشتہ بھی کہیں نہ کہیں اس کے اطراف کے حالات اور ماحول سے جڑا ہوتا ہے ۔ہجر اور تنہائی کے آنسوؤں کا دھارا اندرون ذات سے نہیں بلکہ ذات کے چاروں طرف بکھرے ہوئے سنگین حالات سے پھوٹتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ فہمیدہ کی شاعری میں خارجی اور داخلی موضوعات یکساں طور پر موجود ہیں ۔یعنی ان کی شاعری ایک ہی وقت میں ترقی پسند بھی ہے اور جدید بھی ۔
ہمارے عہد کے شعرا نے جن موضوعات کو شعری اظہار میں شامل کیا ہے ان میں سائنسی اور میکا نیکی ایجادات کے ذریعے پیدا ہونے والے نئے مسائل اہم موضوع کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے سبب پورے انسانی وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔فہمیدہ ریاض نے انسان کے اسی کرب کو محسوس کیا اور انسانی رشتوں اور کارو باری زندگی کے درمیان تقابل کر کے جدید زندگی میں نئے رشتوں کی تلاش شروع کی ۔آج کے اس صنعتی دور میں معیشت اور سیاست کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی بھی بازار پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے ۔دولت کی ہوڑ نے انسان کو حد درجہ خود مرکوز(Self Centred )اور انفرادیت پسند (Individualistic)بنا دیا ہے ۔ایسے ماحول میں شاعر کا حساس دل اپنے ہی شہر میں خود کو اجنبی پاکر افسردہ ہو جا تا ہے ۔وہ بھیڑ میں کھڑا ہو کر بھی خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے :
اس شہر میں اجنبی یوں تو نہ تھی میرے خدا
اس کی زمیں ،اس کے فلک ،اس کی ہوا کو کیا ہوا
پہچان میں آتا نہیں ،پہچان بھی پاتا نہیں مجھ کو کوئی
بدلا ہوا سارا سما
ہے روشنی اتنی مگر کچھ بھی نظر آتا نہیں
شاعر پریشان ہوکر خود سے سوال کرتا ہے کہ ’کیوں مٹ گئے سارے نشاں ؟‘اور پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ :
اب تو فقط ہر موڑ پر ہر گام پر
بازار ہے ،بازار ہے ،بازار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بازار کے اندر مگر فرصت کسے دیکھے ادھر
ساگر کے تٹ تک چھا گیا ،سانسوں کی حد آگیا
جو ہر طرف بازار ہے
بازار ہے ،بازار ہے (’’اس شہر میں ‘‘۔آدمی کی زندگی )
ہمارے عہد میں جس طرح رشتے ٹوٹ رہے ہیں اور انسانیت کے اقدار ریزہ ریزہ ہوکر بکھر رہے ہیں ،وہ ایک حساس ذی شعور شخص کے لئے فکر کا موضوع ہے :
جس سمت نظر اٹھا کے دیکھیں
پامال زمیں پر پڑے ہیں
قدروں کے ایاغ ریزہ ریزہ
انسان کے خواب ریزہ ریزہ
ہر کاخ و مکاں سے ہویدا
لیکن فہمیدہ کو یہ یقین بھی ہے کہ ایسی صورت حال ہمیشہ نہیں رہے گی ۔انسان رشتوں اور قدروں کی اہمیت کو سمجھے گا اور پھر ان کی طرف رجوع کرے گا :
اقدار ہیں شرط آدمیت
انسان دیکھے گا خواب اک دن
بچھڑا دل تجھ سے آملے گا
جیسے لپکا گھٹا میں کوندا
جیسے برسی گھٹا گرج کر
بارش میں سوچتا ہے شاعر(’’بارش میں‘‘آدمی کی زندگی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کو کبھی چکھا نہیں اس کا مزہ ہی اور ہے
آپ بہشت مانگئے،میری دعا ہی اور ہے
(شہزاد احمد)