سلطانیِ جمہور، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی علم بردار ترقی پسند ادیبہ فہمیدہ ریاض 21۔ نومبر 2018 کی شب لاہور میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ وہ اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے کراچی سے لاہور پہنچی تھیں۔ بائیس نومبر 2018 کو ان کی نماز جنازہ جامع مسجد عسکری، لاہور میں ادا کی گئی اور بہار شاہ شہر خموشاں (لاہور) کی خاک نے ترجمہ نگاری، تانیثیت، جرأتِ اظہار، انقلابی شاعری، ترقی پسند سوچ اور حریتِ فکر کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ فہمیدہ ریاض نے اپنے اسلوب میں پامال راہوں اور عام روش سے ہٹ کر اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کو شعار بنایا۔ ایک زیرک، فعال، جری اور حریتِ ضمیر سے جینے کی آرزو مند ادیبہ کی حیثیت سے فہمیدہ ریاض نے ان موضوعات پر بھی کھل کر لکھا جو خواتین کے لیے بالعموم شجر ممنوعہ سمجھے جاتے ہیں۔ فہمیدہ ریاض نے اٹھائیس جولائی 1946 کو میرٹھ (اتر پردیش، بھارت) میں ایک علمی و ادبی گھرانے میں اپنے ننھیال میں جنم لیا۔ ان کے والد ریاض احمد کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور ان کا شمار اپنے عہد کے ممتاز ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا جو سال 1930 میں حیدر آباد سندھ میں ہجرت کر گئے تھے۔ چار سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تو والدہ حسنہ بیگم نے ایک ذہن منتظم کی حیثیت سے گھر کا انتظام سنبھالا اور اپنی ہونہار بیٹی کی بہترین تربیت کی۔ فہمیدہ ریاض نے میٹرک کا امتحان سندھ یونیورسٹی سے پاس کیا اور پورے سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ فہمیدہ ریاض کی مادری زبان اردو تھی اس لیے بچپن ہی سے انھیں اردو شاعری کا بہت شوق تھا۔ جب وہ پندرہ برس کی تھی تو اس کی پہلی نظم احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلہ فنون میں شائع ہوئی۔ بی۔ اے کی تعلیم کے لیے فہمیدہ ریاض نے زبیدہ گرلز کالج حیدر آباد (سندھ) میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے سیاسیات میں ایم۔ اے کرنے کے لیے جامعہ سندھ میں داخلہ لیا۔ جامعہ سندھ میں فہمیدہ ریاض نے جن ممتاز ماہرین تعلیم کے خیالات سے استفادہ کیا ان میں فرانس کی نو آبادی مارٹیک (Martinique) سے تعلق رکھنے والے مارکسی فلسفی، انقلابی، ماہر نفسیات اور پس نو آبادیاتی ادبیات کے نباض فرانز فینن (Frantz Fanon: 1925-1961) اور الجیرین ناول نگار، ترجمہ نگار اور فلم ساز فاطمہ زہرہ ایمالین آسیہ ڈجبار (Fatima-Zohra Imalayen 30 June 1936 – 6 February 2015) شامل ہیں۔
ٖفاطمہ زہرہ ایمالین آسیہ ڈجبار (Assia Djebar)نے خواتین کے حقوق کے موضوع پر کھل کر لکھا۔ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی ادیبہ ریتا فاو لکنر (RITA FAULKNER)نے تیسری دنیا کی خواتین کے مسائل کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا انھیں فہمیدہ ریاض نے انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ریتا فاو لکنر(September 24, 1962 – August 11, 2018) نے پس نو آبادیاتی دور میں ) ترقی پزیر ممالک کی خواتین کے مسائل اور اس عہد کے ادب پر جو جرأت مندانہ موقف اپنایا اسے دنیا بھر کی خواتین نے سراہا۔
فہمیدہ ریاض نے ریڈیو پاکستان سے نیوز کاسٹر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بائیس برس کی عمر میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’پتھر کی زبان‘‘ منظر عام پر آیا۔ فہمیدہ ریاض نے زمانہ طالب علمی میں سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس کی پر جوش تقاریر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی تھیں۔ پاکستان میں صدر ایوب کے دور حکومت (1958-1969) میں نافذ ہونے والے یونیورسٹی آرڈی ننس، پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس، فیملی لا آرڈی ننس اور ایبڈو کے خلاف فہمیدہ ریاض نے بائیں بازو کی طلبا تنظیموں سے مل کر بھر پور احتجاج کیا۔ سال 1984 میں ضیا الحق کے دور میں مارشل لا آرڈر کے تحت طلبا کی یونینز پر پابندی پر بھی فہمیدہ ریاض نے سخت تنقید کی۔ گریجویشن کرنے کے بعد سال 1967 میں فہمیدہ ریاض نے اپنے خاندان کی مرضی سے صابر علی ہاشمی سے شادی کر لی اور شوہر کے ہمراہ برطانیہ چلی گئیں۔ لندن میں اپنے شوہر کے ساتھ قیام کے دوران میں وہ کچھ عرصہ ایک کتب خانے میں معاون کے طور پر خدمات پر مامور رہیں۔ برطانیہ میں قیام کے دوران میں انھوں نے برطانیہ کے نشریاتی ادارے بی بی سی اردو سروس میں نیوز کاسٹر کی حیثیت سے ملازمت کی۔ اس کے ساتھ ہی اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور لندن فلم سکول سے فلم کی تیاری کے کورس میں ڈگری حاصل کی۔ اس شادی میں ان کی ایک بچی (سارہ) پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی شوہر نے طلاق دے دی۔ سارہ ان دنوں امریکہ میں مقیم ہے۔ اپنے پہلے شوہر سے طلاق ملنے کے بعد فہمیدہ ریاض سال 1973 میں واپس پاکستان چلی آئیں اور کراچی میں ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں ملازم ہو گئیں۔ جلد ہی انھوں نے اپنے ذاتی ادبی مجلہ ’’آواز‘‘ کی اشاعت کا آغاز کر دیا۔ جبر کے ماحول میں جب متاع لوح و قلم چھین لی گئی تو ’’آواز‘‘ کی مجلس ادارت نے جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا شعار بنا لیا۔ کراچی میں ان کی ملاقات بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے فعال اور مستعد سیاسی کارکن اور سندھی قوم پرست ظفر علی اجن سے ہوئی۔ باہمی رضا مندی سے دونوں نے شادی کر لی۔ ظفر علی اجن کی کتاب ’’Bhutto Speaks from the Grave‘‘ کا پہلا ایڈیش سال 1983 میں شائع ہوا جب کہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن سال 2007 میں شائع ہوا۔
فہمیدہ ریاض کی اس دوسری شادی سے ایک بیٹی ویرتا علی اجن اور ایک بیٹا کبیر علی اجن پیدا ہوئے۔ ویرتا علی اجن بڑی ہے جب کہ کبیر علی اجن چھوٹا ہے۔ حریت فکر کے علم بردار ادیبوں کے مجلہ ’’آواز‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کو مقتدر حلقوں نے نا پسند کیا۔ مجلہ ’’آواز‘‘ کی مجلس ادارت زیر عتاب آ گئی حکومتی احکامات کے تحت مجلہ کی اشاعت کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اس مجلے کے صرف آٹھ شمارے شائع ہو سکے۔ اس کے بعد صدر ضیا الحق کی حکومت نے فہمیدہ ریاض اور ان کے شوہر کی گرفتاری کے احکامات صادر کر دئیے۔ اس کے بعد مجلہ ’’آواز‘‘ کے خلاف چودہ (14) مقدمات درج کر لیے گئے۔ ان مقدمات سے ایک 124-A پاکستان پینل کوڈ بھی تھا، جس کے تحت مجلہ کی مجلس ادارت کو کسی دشمن ریاست سے ساز باز کرنے اور غداری کی بنا پر سزائے موت بھی ہو سکتی تھی۔ فہمیدہ ریاض کا کہنا تھا کہ بے بنیاد الزامات کے تحت قائم ہونے والے فرضی مقدمات کے باعث یاس و ہراس کی ایسی فضا پیدا ہو گئی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ صحن چمن پر موت کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ گرفتاری سے پہلے فہمیدہ ریاض نے ضمانت کرا لی مگر ان کے شوہر ظفر علی اجن کو جیل بھیج دیا گیا۔ اس اعصاب شکن ماحول سے پریشان ہو کر فہمیدہ ریاض ایک عالمی مشاعرے میں شرکت کی غرض سے امریتا پریتم (Amrita Pritam: 1919-2005) کی مشاورت سے اپنے دونوں بچوں ویرتا علی اجن اور کبیر علی اجن اور اپنی بہن کے ہمراہ بھارت چلی گئیں اور وہیں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔ جیل سے رہائی ملنے کے بعد فہمیدہ ریاض کا شوہر بھی اپنے اہلِ خانہ کے پاس بھارت پہنچ گیا۔ خود ساختہ جلا وطنی کے عرصے میں اس خاندان کو بھارتی حکومت کی طرف سے سہولتیں فراہم کی گئیں۔ بھارت میں مقیم فہمیدہ ریاض کے رشتہ داروں نے مقدور بھر بھی اس خاندان مدد کی۔ فہمیدہ ریاض کے خاندان نے سات برس (مارچ 1981 تا دسمبر 1987) بھارت میں قیام کیا۔ جلا وطنی کے عرصے میں فہمیدہ ریاض نے سال 1920 میں روشنی کا سفر شروع کرنے والی بھارت کی پبلک سیکٹر کی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں سکونتی شاعرہ (poet in residence) کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فہمیدہ ریاض کو جواہر لعل یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو (Senior Research Fellow) بھی مقرر کیا گیا۔ بھارت میں اپنے قیام کے عرصے میں فہمیدہ ریاض نے پس نو آبادیاتی دور کے ادب کے سلسلے میں بھارتی وزیر اعظم کے مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ اسی عرصے میں ہندوستان کی 3500 سال قدیم زبان سنسکرت بھی سیکھی اور اس زبان کے ادب کا وسیع مطالعہ کیا۔ اپنی شاعری میں فہمیدہ ریاض نے دنیا بھر کی خواتین کو حوصلے اور عزم و ہمت سے کام لیتے ہوئے منزلوں کی جستجو جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ الجیریا میں نو آبادیاتی دور کے مسائل پر فہمیدہ ریاض کی گہری نظر تھی۔ پس نو آبادیاتی دور سے تعلق رکھنے والے اردو ادب کے موضوعات پر گزشتہ صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں جن خواتین نے کھل کر لکھا ان میں فہمیدہ ریاض کا نام نمایاں ہے۔ ان کی نظمیں ان کی سوچ کی آئینہ دار ہیں۔ ان کے اسلوب میں معاشرتی زندگی کے مسائل کی عکاسی کی گئی ہے اور وہ ایک ایسی جری عوامی ادیبہ کی حیثیت سے سامنے آئیں جس نے درِ کسریٰ کے سامنے صدا کرنے اور جبر کے سامنے سہر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔
سال 1988 میں جب پاکستان میں سلطانی ٔ جمہور کا دور آیا تو فہمیدہ ریاض بھی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان چلی آئی۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت (1988-1990) میں فہمیدہ ریاض نیشنل بک کونسل (موجودہ نیشنل بک فاؤنڈیشن) کے منیجنگ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز رہیں۔ بے نظر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت (1993-1996) میں فہمیدہ ریاض وزارت ثقافت سے وابستہ رہیں۔ فہمیدہ ریاض نے گیارہ برس (2000-2011) اردو ڈکشنری بورڈ کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اکسفرڈ یونیورسٹی نے بہ حیثیت مشیر فہمیدہ ریاض کی خدمات سے استفادہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی خواتین میں عصری آگہی کی نمو، خواتین کے حقوق، اور قومی مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو مہمیز کرنے میں جن خواتین نے فعال کردار ادا کیا ان میں افضل توصیف، الطاف فاطمہ، بانو قدسیہ، پروین شاکر، ثمینہ راجا، جمیلہ ہاشمی، خدیجہ مستور، ذکیہ بدر، رضیہ بٹ، رضیہ فصیح احمد، فاطمہ ثریا بجیا، فضل بانو، قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں، نسرین انجم بھٹی، سارا شگفتہ، عصمت چغتائی، فہمیدہ ریاض، نجمہ صدیق اور ہاجرہ مسرور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ فہمیدہ ریاض نے پاکستانی خواتین کے حقوق کے لیے ’’وعدہ‘‘ کے نام سے ایک NGO قائم بھی کی۔ ’’وعدہ‘‘ نے پس ماندہ طبقے کی خواتین سے جو عہدِ وفا استوار کیا اسی کو علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے فہمیدہ ریاض نے زندگی بھر اپنی جد و جہد جاری رکھی۔ فہمیدہ ریاض نے پس نو آبادیاتی دور میں خواتین کے مسائل پر توجہ مرکوز رکھی۔ فلسطین سے تعلق رکھنے والے کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈورڈ سعید (Edward Said: 1935-2003) کی ان تحریروں کو ہمیشہ سراہا جو انھوں نے پس نو آبادیاتی ادب کے بارے لکھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ تہذیب اور ثقافت میں کسی قسم کے تصادم کا کوئی اندیشہ نہیں۔ فطرت کے تقاضوں کے مطابق تہذیب و ثقافت کو کبھی گہن نہیں لگ سکتا۔ جہاں سے کوئی شاخ ٹوٹتی ہے وہیں سے کسی نئی شاخ کو نمو ملتی ہے۔ تہذیب و ثقافت کے ارتقا کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور اسے ہر عہد میں نمو ملتی رہے گی۔
ظفر علی اجن اور فہمیدہ ریاض نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ بڑی بیٹی ڈاکٹر ویرتا علی اجن شعبہ طب سے وابستہ ہیں۔ ان کی شادی ہو چکی ہے اور ایک بیٹے کی ماں ہیں۔ فہمیدہ ریاض کا بیٹا کبیر علی اجن اعلیٰ تعلیم کے لیے سال 2000 میں امریکہ چلا گیا۔ کبیر علی اجن نے تعلیم کے سلسلے میں سات سال امریکہ میں گزارے مگر اس عرصے میں اس کی تعلیمی مصروفیات اس قدر زیادہ رہیں کہ شدید خواہش کے باوجود کبھی وطن نہ آ سکا۔ اس عرصے میں اس کی والدہ فہمیدہ ریاض تو اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے امریکہ جاتی رہی مگر والد ظفر علی اجن امریکہ نہ جا سکا۔ کبیر علی اجن نے سال 2007 میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور مناسب ملازمت کی تلاش شرع کر دی۔ اِدھر پاکستان میں فہمیدہ ریاض اور ظفر علی اجن نے اپنے اُنتیس سالہ اکلوتے نوجوان بیٹے کبیر علی اجن کی شادی کے لیے مناسب رشتے کی تلاش شروع کر دی۔ اُدھر تقدیر جو ہر مرحلہ اور ہر گام پر انسانی تدابیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اکتوبر 2007 کی ایک منحوس شام اس خاندان کے لیے شام الم ثابت ہوئی جب ان کا بیٹاکبیر علی اجن اپنے چند معتمد ساتھیوں کے ہمراہ ایک پکنک پارٹی میں شامل ہوا۔ یہ پکنک پارٹی ایک وسیع باغ میں ہوئی جہاں تیراکی کے لیے صاف پانی کا ایک گہرا تالاب بھی موجود تھا۔ اس تالاب میں تیراکی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے تمام حفاظتی انتظامات موجود تھے۔ کبیر علی اجن اپنے ساتھیوں سمیت مسکراتا ہوا تیراکی کے تالاب میں اُترا۔ وہ ایک مشاق تیراک تھا اس نے گہرے پانی میں غوطہ لگایا مگر خلاف معمول جب وہ سطح آب پر نہ اُبھرا تو اس کے وفا دار ساتھیوں کا دِل بیٹھ گیا اور سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان کبیر علی اُجن جہاں سے اُٹھ گیا اور دوستوں کی حسرت بھری نگاہیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔ درد کی اس مسموم ہوا نے فہمیدہ ریاض کی اُمیدوں کے چمن کو ویران کر دیا۔ ضعیف والدین کی آنکھوں سے جوئے خون رواں تھی اور دِل اشک بار تھا۔ نیم جاں ضعیف ماں اپنے نو جوان بیٹے کی میت پاکستان لانے کے لیے امریکہ روانہ ہو گئی۔ اس جان لیوا صدمے نے ظفر علی اجن اور فہمیدہ ریاض کی روح کو زخم زخم کر دیا۔ پیہم سات سال تک اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کو ترسنے والے باپ نے جب اپنے بیتے کی دائمی مفارقت کی خبر سنی تو وہ زندہ در گور ہو گیا۔ نو جوان بیٹے کی وفات کے بعد فالج کے ایک حملے نے ظفر علی اجن کو بستر تک محدود کر دیا۔ تقدیر کا یہ زخم سہنے کے بعد فہمیدہ ریاض کی زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ گیا مگر اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ تقدیر کے لگائے ہوئے صدمات کے ایسے گہرے گھاؤ سہنے کے بعد کارِ جہاں کے ہیچ ہونے اور فرصتِ زندگی کے انتہائی کم ہونے کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ مرزا اسداللہ خان غالب نے عارف کی الم ناک موت کے صدمے سے نڈھال ہو کر جن الفاظ میں اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کبیرعلی اجن کی وفات پر وہی کیفیت فہمیدہ ریاض کی تھی:
لازم تھا کہ دیکھو مِرا رستا کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دِن اور
تم ماہِ شب چار دہم تھے میرے گھر کے
پھِر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کیوں جیتے ہو غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دِن اور
دردِ دِل صرف درد آشنا ہی سمجھ سکتا ہے میں فہمیدہ ریاض اور ظفر علی اجن کے درد کو سمجھتا ہوں۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے چھے جولائی 2017 کو میرا نو جوان بیٹا سجاد حسین مجھ سے چھین لیا۔ جب میں اس جان لیوا صدمے سے نڈھال تھا تو فہمیدہ ریاض، صدیقہ بیگم، شاہین زیدی، کوثر پروین، عطا الرحمن میو، محمد رمضان، غلام قاسم خان، غازی علم الدین، ریاض شاہد اور اشرف بھٹی مرہم بہ دست پہنچے۔ ان کی غم گساری نے مجھے مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی راہ دکھائی۔
میرا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس کے سوا کچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے۔ عزیز ہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبر فشاں پھول شہر خموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرشتۂ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیر سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی، اذیت ناک محرومی اور عبرت ناک احساس زیاں کے باعث ہوتی ہے۔ غم بھی ایک متلاطم بحرِ ذخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ غم و آلام کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح، ذہن اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے۔ کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس، ابتلا و آزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارۂ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہیں۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناً ہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہو گا۔ سینۂ وقت سے پھُوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک، کومل اور عطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کر دائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے۔ تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو، رُوپ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا صبر و رضا کا قفل بھی کھُل جاتا ہے۔ سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں، من کے روگ، جذبات حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِل دہل جاتا ہے۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو چشم بھر آتی ہے۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں؟ یادِ رفتگاں کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی نظم ’’عالم برزخ‘‘ کے چند اشعار پیش ہیں:
یہ تو برزخ ہے، یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اِک برس تھا کہ مہینہ، ہمیں اب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں، وہی انگارہ زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گراں، زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
سُود خوروں کی طرح در پہ سحر آتی تھی
فہمیدہ ریاض کا شعری مجموعہ ’’تم کبیر۔۔ ۔۔ ۔‘‘ جو سال 2000-2015 کے عرصے کی شاعری پر مشتمل ہے۔ اکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اس شعری مجموعے کاتعارف مسعود اشعر نے لکھا ہے۔ ’’شعری مجموعہ ’’تم کبیر۔۔ ۔۔‘‘ میں فہمیدہ ریاض کی ذہنی کیفیت اور داخلی کرب نمایاں ہے۔ اپنے اس شعری مجموعے (تم کبیر۔۔ ۔‘‘ کی اشاعت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فہمیدہ ریاض گلو گیر لہجے میں کہا کرتی تھیں:
’’پہلے میں اس کا نام رکھنا چاہتی تھی ’’موسموں کے دائرے میں‘‘ لیکن پھر جیسے کہ میں نے لکھا ہے کہ میرا بیٹا ایک حادثے میں مجھے چھوڑ گیا، اس کا نام کبیر تھا۔ تو بس پھر اس کے بعد اس مجموعے کا نام بھی بدل گیا ’’تم کبیر۔۔ ۔‘‘ بن گیا اس کا نام۔ پہلے میں سوچتی رہتی تھی میں کبیر کی کوئی یادگارقائم کروں، کچھ کروں، کچھ کروں وہ سب یادگار میں قائم نہیں کر سکی۔ نہ مجھ میں اتنی ہمت رہ گئی تھی نہ اتنی طاقت رہ گئی تھی مگر جو میں کر سکتی تھی وہ یہ کہ اپنی آخری کتاب کا نام میں نے ’’تم کبیر۔۔ ۔‘‘ رکھ دیا۔ تو اب تو جب بھی فہمیدہ ریاض کی کتابوں کا ذکر آئے گا تو ’’تم کبیر۔۔ ۔‘‘ کا بھی ذکر آ جائے گا۔‘‘
فہمیدہ ریاض کے آخری شعری مجموعے ’’تم کبیر۔۔ ۔۔‘‘ کی ایک نظم ’’نئی ڈکشنری۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ زندگی کی حقیقی معنویت کا سامنے لاتی ہے۔ اس نظم کی چند سطور پیش ہیں:
بناتے ہیں ہم ایک فرہنگِ نو
جس میں ہر لفظ کے سامنے درج ہیں
وہ معانی جو ہم کو نہیں ہیں پسند
جرعۂ تلخ کی مثل پی جائیں گے
اصل کی اصل جو بس ہماری نہیں
سنگ سے پھوٹتا آبِ حیواں ہے یہ
جو ہمارے اشارے پہ جاری نہیں
ہم فسردہ چراغ اِک خزاں دیدہ باغ
زخم خوردہ اناؤں کے مارے ہوئے
اپنی توصیف حد سے گزارے ہوئے
نوجوان اولاد کی دائمی مفارقت کا صدمہ بوڑھے والدین کو زندہ درگور کر دیتا ہے۔ اس عہدِ نا پرساں میں جسے دیکھو اپنی فضا میں سرمست دکھائی دیتا ہے۔ یہاں غم زدوں کی چشمِ تر کو دیکھنے والے مسیحا عنقا ہیں۔ دل و جگر سے بہنے والے آ نسوؤں کی برسات کے نتیجے میں تلخی ٔ حالات، الم نصیب خاندان پر دنیا کی عنایات کے بارے میں کئی سوالات اُٹھتے ہیں یکم دسمبر 2018 کو محترمہ کشور ناہید نے روزنامہ جنگ، لاہور میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’کوتوال کو للکارتی فہمیدہ ریاض‘‘ میں جان لیوا صدمات سے دوچار ادیبوں کی کتابِ زیست میں تقدیر کے لکھے لرزہ خیز واقعات اور اعصاب شکن سانحات کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ لمحۂ فکریہ ہے:
’’تقابل کیجیے فلم سنسر بورڈ پنجاب کی چیئر پرسن محترمہ زیبا محمد علی گھر بیٹھے دس لاکھ روپے مہینہ حاصل کر رہی تھیں۔ فہمیدہ ریاض اور خالدہ حسین اسپتالوں کے چکر لگا رہی تھیں۔ دونوں کی بیماری ایک ہی غم تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ان دونوں کو بیٹوں کا غم کھا گیا۔‘‘
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فہمیدہ ریاض، قمر زماں کائرہ، خالدہ حسین، روحی بانو، متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن، ریاض الحق، روبینہ قائم خانی، شہلا رضا، افضل احسن، محمد اکرم، محمد یوسف اور شبیر رانا کو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے زندہ در گور کر دیا۔ فہمیدہ ریاض کا شمار پاکستان میں تانیثیت کی بنیاد گزار ترقی پسند خواتین میں ہوتا ہے۔ فہمیدہ ریاض سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاتا تھا۔ زندگی بھر خواتین کے حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والی اس انتہائی با ہمت اور پر عزم ادیبہ نے تانیثیت کے بارے میں جو واضح موقف اختیار کیا وہ تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ یہاں تانیثیت کا تاریخی تناظر میں مطالعہ مناسب رہے گا۔ فہمیدہ ریاض کا خیال تھا کہ عالمی ادبیات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہر عہد میں مفکرین نے وجود زن کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں رنگ، خوشبواور حسن وخوبی کے تمام استعارے وجودِ زن سے منسوب چلے آ رہے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عصر حاضر میں تانیثیت کو ایک عالمی تصور کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ علامہ اقبال نے خواتین کے کردار کے حوالے سے لکھا ہے ؎
وجود زن سے ہے تصوہر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اِس کی
کہ ہر شرف ہےا سی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اِسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں (1)
دنیا بھر کی خواتین کے لب و لہجے میں تخلیقِ ادب کی روایت خاصی قدیم ہے۔ ہر زبان کے اَدب میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ فہمیدہ ریاض نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ نوخیز بچے کی پہلی تربیت اور اخلاقیات کا گہوارہ آغوش مادر ہی ہوتی ہے۔ اچھی مائیں قوم کو معیار اور وقارکی رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیتی ہیں۔ انہی کے دم سے امیدوں کی فصل ہمیشہ شاداب رہتی ہے۔ یہ دانہ دانہ جمع کر کے خرمن بنانے پر قادر ہیں تاکہ آنے والی نسلیں فروغِ گلشن اور صوت ہزار کا موسم دیکھ سکیں۔ خلوص و درد مندی، ایثار و وفا، صبر و رضا، قناعت اور استغنا خواتین کا امتیازی وصف ہے۔ تانیثیت کی علم بردار اپنے عہد کی مقبول امریکی شاعرہ لوئیس بوگان (Louise Bogan: 1897-1970) نے کہا تھا:
Women have no wilderness in them
They are provident insted
Content in the tight hot cell of their hearts
To eat dusty bread (2)
فہمیدہ ریاض نے مدلل انداز میں قارئین کو اس جانب متوجہ کیا کہ فنون لطیفہ اور ادب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں با صلاحیت خواتین نے اپنی فقید المثال کامرانیوں کے جھنڈے نہ گاڑے ہوں۔ آج تو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنی بے پناہ استعداد کار سے اقوام عالم کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خواتین نے فنون لطیفہ اور معاشرے میں ارتباط کے حوالے سے ایک مضبوط پُل کا کردار ادا کیا۔ فہمیدہ ریاض کو اس بات کا قلق تھا کہ آج کے مادی دور میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ ان لرزہ خیز، اعصاب شکن اور صبر آزما حالات میں بھی انھوں نے خواتین کو اس جانب متوجہ کیا کہ ہر فرد کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے۔ فہمیدہ ریاض اس بات پر دل گرفتہ تھیں کہ مسلسل شکست دل کے باعث مظلوم طبقہ بالخصوص پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو محرومیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے اُداس نسلیں در بہ در، بے خانماں عورتیں خاک بہ سر، رُتیں بے ثمر، کلیاں شر ر، زندگیاں پرخطر، آہیں بے اثر ہو اور گلیاں خوں میں تر کر دی ہیں۔ فہمیدہ ریاض نے اپنے طرز عمل سے اس امر کی صراحت کر دی کہ خواتین نے ہر عہد میں جبر کی مزاحمت کیا، استبداد کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کیا، ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایا اور انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حریتِ ضمیر سے جینے کا راستہ اختیار کیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کا معاشرہ بالعموم مردوں کی بالادستی کے تصور کو تسلیم کر چکا ہے۔ اس قسم کے ماحول میں جب کہ خواتین کو اپنے وجود کے اثبات اور مسابقت کے لیے انتھک جد و جہد کرنا پڑے، خواتین کے لیے ترقی کے یکساں مواقع تخیل کی شادبی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ فہمیدہ ریاض جیسی جری، پر عزم اور اہل وطن سے والہانہ محبت کرنے والی خواتین کی فکری کاوشیں سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر کے مانند ہیں۔ انھوں نے کٹھن حالات میں بھی حوصلے اور امید کا دامن تھام کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کا جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گرش لیل و نہار بھی قرار دیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شعبۂ زندگی میں خواتین بھرپور اور اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ عالمی ادبیات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سماجی زندگی کے جملہ موضوعات پر ادب سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اشہبِ قلم کی جو بے مثال جو لا نیاں دکھائی ہیں ان کے اعجاز سے طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
تانیثیت کو فہمیدہ ریاض نے ایک ایسی مثبت سوچ، مدبرانہ تجزیہ اور دانش ورانہ اسلوب سے تعبیر کیا جس کے اہداف میں خواتین کے لیے معاشرے میں ترقی کے منصفانہ اور یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کا واضح لائحہ عمل متعین کیا گیا ہو۔ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ خواتین کسی خوف و ہراس کے بغیر کاروانِ ہستی کے تیزگام قافلے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ روشنی کے اس سفر میں انھیں استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں سے خبردار کرنا تانیثیت کا اہم موضوع رہا ہے۔ ایک فلاحی معاشرے میں اس بات کا خیال رکھا جا تا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو ہر قسم کا معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہر فرد کو ملت کے مقدر کے ستارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ تانیثیت نے حق و انصاف کی بالا دستی، حریتِ فکر، آزادی ٔ اظہار اور معاشرے کو ہر قسم کے استحصال سے پاک کرنے پر اصرار کیا۔ فہمیدہ ریاض کو اس بات پر گہری تشویش تھی کہ فکری کجی کے باعث بعض اوقات تانیثیت اور جنسیت کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے حالانکہ تانیثیت اور جنسیت میں ایک واضح حد فاصل ہے بل کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ تانیثیت اپنے مقاصد کے اعتبار سے جنسیت کی ضد ہے۔ تانیثیت کے امتیازی پہلو یہ ہیں کہ اس میں زندگی کی سماجی، ثقافتی، معاشرتی، سیاسی، عمرانی اور ہر قسم کی تخلیقی اقدار و روایات کو صیقل کرنے اور انھیں مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ اس میں خواتین کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے فراواں مواقع کی جستجو پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔
عالمی ادب اور تانیثیت کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یورپ میں تانیثت کا غلغلہ پندرہویں صدی عیسوی میں اٹھا اور اس میں مد و جزر کی کیفیت سامنے آتی رہی۔ جمود کے ماحول میں یہ ٹھہرے پانی میں ایک پتھر کے مانند تھی۔ اس کی دوسری لہر 1960 میں اٹھی جب کہ تیسری لہر کے گرداب 1980میں دیکھے گئے۔ ان تمام حالات اور لہروں کا یہ موہوم مد و جزر اور جوار بھاٹا اپنے پیچھے جو کچھ چھوڑ گیا اس کا لب لباب یہ ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حریت ضمیر سے جینے کی آزادی ملنی چاہیے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے اور ہر قسم کی عصبیت سے گلو خلاصی حاصل کر لی جائے تو یہ بات ایک مسلمہ صداقت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے خواتین کوجس عزت، تکریم اور بلند مقام سے نوازا اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر خلافت راشدہ کے زمانے تک اسلامی معاشرے میں خواتین کے مقام اور کردار کا حقیقی انداز میں تعین کیا جا چکا تھا۔ اس عہد میں مسلم خواتین ہر شعبہ زندگی میں فعال کردار ادا کر رہی تھیں۔ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع اور منصفانہ ماحول میں زندگی بسر کرنے کی ضمانت دی۔ آج بھی اگر وہی جذبہ بیدار ہو جائے تو آگ بھی انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے۔
فہمیدہ ریاض اس بات سے مطمئن تھیں کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پاکستان میں میں تانیثیت کے حوالے سے تنقیدی مباحث روز افزوں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی خواتین تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسے تمام تار عنکبوت جو کہ خواتین کی خوش حالی اور ترقی کے اُفق کو گہنا رہے ہیں انھیں نیست و نابود کرنے کا عزم لیے پاکستانی خواتین اپنے ضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دینے کی صلاحیت سے متمتع ہیں۔ ان کا نصب العین یہ ہے کہ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والے اجلاف و ارزال اور سفہا کے کریہہ چہرے سے نقاب اٹھانے میں کبھی تامل نہ کیا جائے اور ایسے ننگ انسانیت درندوں کے قبیح کردارسے اہلِ درد کو آگاہ کیا جائے۔ یہ صورتِ حال فہمیدہ ریاض کے لیے حوصلے اور امید کی نقیب تھی کہ تانیثیت نے تمام خفاش منش عناصر کو آئینہ دکھایا ہے اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا ہے۔ تانیثیت کا دائرہ کار تاریخ، علم بشریات، عمرانیات، معاشیات، ادب، فلسفہ، جغرافیہ اور نفسیات جیسے اہم شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ تانیثیت میں تحلیل نفسی کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ تانیثیت کے مطابق معاشرے میں مرد اور عورت کو برابری کی سطح پر مسائل زیست کا حل تلاش کرنا چاہیے اور یہ اپنے وجود کا خود اثبات کرتی ہے۔ فہمیدہ ریاض اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتی تھیں کہ تانیثیت نے معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد، استحصال، جنسی جنون اور ہیجان کی مسموم فضا کا قلع قمع کرنے اور اخلاقی بے راہ روی کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا وہ ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے۔ زندگی کی اقدارِ عالیہ کے تحفط اور درخشاں روایات کے قصرِ عالی شان کی بقا کی خاطر تانیثیت نے ایک قابل عمل معیار وضع کیا جو کہ خواتین کو حوصلے اور اعتماد سے آگے بڑھنے کا ولولہ عطا کرتا ہے۔ اخلاقی اوصاف کے بیان میں بھی تانیثیت نے گہری دلچسپی لی۔ قدرت کا ملہ نے ان اوصاف حمیدہ سے خواتین کو نہایت فیاضی سے متمتع کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی عنایات کا دل نشیں انداز میں بیان بھی اس کا امتیازی وصف ہے۔ ان فنی تجربات کے ذریعے جدید اور متنوع موضوعات سامنے آئے اور نئے امکانات تک رسائی کو یقینی بنانے کی مساعی کا سلسلہ چل نکلا۔
فہمیدہ ریاض کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے اس بات پر پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ قدرت کے اس وسیع نظام میں جمود اور سکون بہت محال ہے۔ زندگی حرکت اور حرارت سے عبارت ہے۔ کسی بھی عہد میں یکسانیت کو پسند نہیں کیا گیا اس کا سبب یہ ہے کہ یکسانیت سے ایک مشینی سی صورت حال کا گمان گزرتا ہے۔ اس عالم آب و گل میں سلسلۂ روز و شب ہی کچھ ایسا ہے کہ مرد اور عورت کی مساوی حیثیت کے بارے میں بالعموم تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ تانیثیت نے اس اہم موضوع پر توجہ مرکوز کر کے بلا شبہ اہم خدمت انجام دی۔ فہمیدہ ریاض نے تانیثیت پر مبنی نظریے (Feminist Theory) میں خواتین کو مژدۂ جاں فزا سنایا کہ قید حیات اور بند غم سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ زندگی تو جوئے شیر، تیشہ اور سنگ گراں کا نام ہے۔ عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا، زندگی کی حیات آفریں اقدار کو پروان چڑھانا، خوب سے خوب تر کی جستجو کرنا، ارتقا کی جانب گامزن رہنا، کامرانی اور مسرت کی جستجو کرنا، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا، حریت فکر اور آزادیِ اظہار کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا، تخلیقی فن کار کی انا اور خود داری کا بھرم بر قرار رکھنا اور اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرنا خواتین کا اہم ترین منصب ہے۔ تانیثیت نے افراد، معاشرے، علوم اور جنس کے حوالے سے ایک موزوں ارتباط کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ ممتاز نقاد ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) نے لکھا ہے:
"Feminist theory provided that precious link between academia and society as well as between problems of identity and those of political organization, which was in general harder and harder to come by in an increasingly conservative age.”(3)
تانیثیت کو ادبی حلقوں میں ایک نوعیت کی تنقید سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین جنھیں معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارا جائے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں انھیں تخلیقی اظہار کے فراواں مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ مغرب میں تانیثیت کو سال 1970 میں پزیرائی ملی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپی دانش وروں نے اس کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لی۔ اس طرح رفتہ رفتہ لسانیات اور ادبیات میں تانیثیت کو ایک غالب اور عصری آگہی کے مظہر نظریے کے طور پر علمی اور ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔ سال 1980 کے بعد سے تانیثیت پر مبنی تصورات کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کی سماجی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اس طرح ایک ایسا سماجی ڈھانچہ قائم کرنے کی صورت تلاش کی گئی جس میں خواتین کے لیے سازگار فضا میں کام کرنے کے بہترین مواقع ادستیاب ہوں۔ پاکستان میں فہمیدہ ریاض اور ان کی ہم خیال خواتین نے تانیثیت کے فروغ کے لیے بے مثال جد و جہد کی اور خواتین کو ادب کے وسیلے سے زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں میں اضافہ کرنے کی راہ دکھائی۔ ان کا نصب العین یہ تھا کہ جذبات، تخیلات اور احساسات کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے کہ اظہار کی پاکیزگی اور اسلوب کی ندرت کے معجز نما اثر سے خواتین کو قوت ارادی سے مالا مال کر دیا جائے اور اس طرح انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اہداف تک رسائی کی صورت پیدا ہو سکے۔ اس عرصے میں تانیثیت کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔ خاص طور پر فرانس، برطانیہ، شمالی امریکہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں اس پر قابل قدر کام ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیثیت کی شکل میں بولنے اور سننے والوں کے مشترکہ مفادات پر مبنی ایک ایسا ڈسکورس منصۂ شہود پر آیاجس میں خواتین کے منفرد اسلوب کا اعتراف کیا گیا۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ نسائی جذبات میں انانیت نمایاں رہتی ہے مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے جذبات میں خلوص، ایثار، مروّت، محبت اور شگفتگی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ تانیثیت نے انسانی وجود کی ایسی عطر بیزی اور عنبر فشانی کا سراغ لگایاجو کہ عطیۂ خداوندی ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں تمام مظاہر فطرت کے عمیق مشاہدے سے یہ امر منکشف ہوتا ہے کہ جس طرح فطرت ہر لمحہ لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل ہے اسی طرح خواتین بھی اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت بے لوث محبت کو شعار بناتی ہیں۔ خواتین نے تخلیق ادب کے ساتھ جو بے تکلفی برتی ہے اس کی بدولت ادب میں زندگی کی حیات آفریں اقدار کو نمو ملی ہے۔ موضوعات، مواد، اسلوب، لہجہ اور پیرایۂ اظہار کی ندرت اور انفرادیت نے ابلاغ کو یقینی بنا نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ تانیثیت کا اس امر پر اصرار رہا ہے کہ جذبات، احساسات اور خیالات کا اظہار اس خلوص اور دردمندی سے کیا جائے کہ ان کے دل پر گزرنے والی ہر بات بر محل، فی الفور اور بلا واسطہ انداز میں پیش کر دی جائے۔ اس نوعیت کی لفظی مرقع نگاری کے نمونے سامنے آتے ہیں کہ قاری چشم تصورسے تمام حالات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ تیسری دنیا کے پس ماندہ، غریب اور وسائل سے محروم ممالک جہاں بد قسمتی سے اب بھی جہالت اور توہم پرستینے پنجے گاڑ رکھے ہیں، وہاں نہ صرف خواتین بل کہ پوری انسانیت پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ راجہ اندر قماش کے مسخرے خواتین کے در پئے آزار رہتے ہیں۔ ان ہراساں شب و روز میں بھی خواتین نے اگر
حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھی ہے تو یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔ خواتین نے ادب، فنون لطیفہ اور زندگی کے تمام شعبوں میں مردوں کی ہاں میں ہاں ملانے اور ان کی کورانہ تقلید کی مہلک روش کو اپنانے کے بجائے اپنے لیے جو طرز فغاں ایجاد کی بالآخر وہی ان کی طرز ادا ٹھہری۔ جولیا کرسٹیوا (Julia Kristeva)نے اس کے بارے میں لکھا ہے:
"Truly feminist innovation in all fields requires anUnderstanding of the relation between maternity and feminine creation”(4)
فہمیدہ ریاض نے مردوں کی بالادستی اور غلبے کے ماحول میں بھی حریت فکر کی شمع فروزاں رکھیا اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے آزادیِ اظہار کو اپنا نصب العین ٹھہرایا۔ ان کی ذہانت، نفاست، شائستگی، بے لوث محبت اور نرم و گداز لہجہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھیں اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانے کا قرینہ آتا تھا۔ ان کی سدا بہا رشگفتگی کا راز اس تلخ حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ معاشرتی زندگی کو ہجوم یاس کی مسموم فضا سے نجات دلائی جائے اور ہر طرف خوشیوں کی فراوانی ہو۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ فہمیدہ ریاض کی تخلیقی تحریروں میں پائی جانے والی زیرِ لب مسکراہٹ ان کے ضبط کے آنسووئں کی ایک صورت ہے ان کا زندگی کے تضادات اور بے اعتدالیوں پر ہنسنا اس مقصد کی خاطر ہے کہ کہیں عام لوگ حالات سے دل برداشتہ ہو کر تیر ستم سہتے سہتے رونے نہ لگ جائیں۔ تانیثیت کے حوالے سے فہمیدہ ریاض نے خواتین کے مزاج، مستحکم شخصیت اور قدرتی حسن و خوبی کی لفظی مرقع نگاری پر توجہ دی۔ قدر تِ کاملہ نے فہمیدہ ریاض کو جن اوصافِ حمیدہ، حسن و خوبی اور دل کشی سے نوازا ہے اس کا بر ملا اظہار ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ ان کی تحریریں ایسی دل کش ہیں کی ان کی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ جمالیاتی احساس اور نزاکت بیان کے ساتھ جذبوں کی تمازت، خلوص کی شدت، بے لوث محبت، پیمان وفا کی حقیقت اور اصلیت اور لہجے کی ندرت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تخلیقات کے سوتے حسن فطرت سے پھوٹتے ہیں۔ فہمیدہ ریاض نے ان موضوعات کو بھی اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے جو خواتین کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور عام خواتین ان پر کچھ نہیں کہتیں۔ فہمیدہ ریاض کی طرح فرانس سے تعلق رکھنے والی شاعرہ، ڈرامہ نگار، تانیثیت کی علم بردار، فلسفی، ادبی نقاد اور ممتاز ماہر ابلاغیات ہیلن سکسوس (Helen Cixous)نے اس موضوع پر جرأت مندانہ موقف اپنانے پر زور دیا ہے اور خواتین کے جسمانی حسن، جنس، جذبات اور احسات کے اظہار کے حوالے سے لکھا ہے:
"Write youself ,your body must be heard ” (5)
تانیثیت کے موضوع پر فہمیدہ ریاض کے خیالات کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ تانیثیت کی اس صد رنگی، ہمہ گیری، دل کشی اور موضوعاتی تنوع کے متعلق ما رکسزم، پس نو آبادیاتی ادب، ادبی تنقید اور تانیثیت پر وقیع تحقیقی کام کرنے والی کلکتہ یونیورسٹی (بھارت) اور امریکہ کی سال 1865 میں قائم ہونے والی کارنل یونیورسٹی (CornellUniversity) اور سال 1754 میں قائم ہونے والی کو لمبیا یونیورسٹی (Columbia University) امریکہ میں تدریسی خدمات پر مامور رہنے والی ادبی تھیورسٹ گائتری چکرورتی سپی واک (Gyatri Chakaravorty Spivak) نے لکھا ہے:
Feminism lives in the master -text as well as in the pores.It is not determinant of the last instance.I think less
easily of changing the world, than in the past.” (6)
جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے فہمیدہ ریاض نے استبدادی طاقتوں کے بارے میں جو نظمیں لکھیں ان میں ’خانہ تلاشی‘، ’’کوتوال بیٹھا ہے‘، ’کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے (طویل نظم)‘ اور’بعد میں جو کچھ یاد رہا‘ گہری معنویت کی حامل ہیں۔ اپنی شاعری میں فہمیدہ ریاض نے جو منفرد لہجہ اپنا یا ہے اس کی باز گشت عالمی ادب میں بھی سنائی دیتی ہے۔ اس کی نظمیں ’آج شب‘، ’اب سو جاؤ‘، ’گڑیا‘، ’اک عورت کی نرم ہستی‘، ’وہ اک زن ناپاک ہے‘، ’مقابلہ حسن‘، ’لاؤ ہاتھ اپنا ذرا‘، ’چادر اور چاردیواری‘، ’انقلابی عورت‘ اور ’گرہستن‘ پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خواتین کے بارے میں یہ نظمیں عام روش سے ہٹ کر لکھی گئی ہیں۔ تانیثیت کے موضوع پر فہمیدہ ریاض کی گل افشانیِ گفتار جہاں ان کے غیر متزلزل رویے اور غیر معذرت خواہاں اسلوب کی مظہر ہے وہاں افکار تازہ کی مشعل کو تھام کر جہان تازہ کی جانب سرگرم سفر رہنے کی تلقین بھی ہے۔ مثال کے طور پر ہابیل کی بہن ’اقلیما‘ کے بارے میں نظم میں شاعرہ نے خواتین کے جسمانی خد و خال اور جذبات و احساسات کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے جس فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے وہ قابل توجہ ہے۔ شاعرہ نے یہ تمنا ظاہر کی ہے کہ کاش خالقِ کائنات کبھی اقلیما سے بھی یہ پوچھ لے کہ تجھ پر کیا گزری۔ نظم ’’تصویر‘‘ بھی ایام گزشتہ کی یادوں کا حسین مرقع ہے:
تصویر
مرے دِل کے نہاں خانے میں اِک تصویر ہے میری
خدا جانے اِسے کس نے بنایا، کب بنایا تھا
یہ پو شیدہ ہے میرے دوستوں اور مجھ سے بھی
کبھی بھُولے سے لیکن میں اِسے گر دیکھ لیتی ہوں
اِسے خود سے مِلاؤں تو مِرا دِل کانپ جاتا ہے
ایوارڈ
فہمیدہ ریاض کی سماجی، معاشرتی اور علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں مندرجہ ذیل ایوارڈز سے نوازا گیا:
۱۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے مزاحمتی ادب کے لیے ہیمٹ ہل میں ایوارڈ (2017)
Hemmet Hellman Award for Resistance Literature from Human Rights Watch
۲۔ المفتاح ایوارڈ برائے ادب، شاعری Al Muftah Award for Literature: Poetry (2005)۔ اس ایوراڈ کے ساتھ ایک لاکھ روپے کی رقم بھی ہے۔ اس سے پہلے المفتاح ایورڈانور شعور اور منیر نیازی کو مل چکا ہے۔
۳۔ شیخ ایاز ایوارڈ برائے ادب، شاعری (حکومت سندھ) Sheikh Ayaz Award for Literature: Poetry
۴۔ صدارتی تمغۂ حسن کار کردگی (حکومت پاکستان) (2010)
۵۔ ستارۂ امتیاز (صدر پاکستان)، (23۔ مارچ2010)
۶۔ کمالِ فن ایورڈ ((2014 کے لیے فہمیدہ ریاض کو منتخب کیا گیا۔ اس ایوراڈ کی مالیت پانچ لاکھ روپے ہے۔ (Express Tribune,January,6,2016)
تخلیقی کام
پتھر کی زبان، گوداری(ناول)، خطِ مرموز، کراچی (ناول)، زندہ بہار (ناول)، کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے، گلابی کبوتر، دھوپ، بدن دریدہ، کھلے دریچے سے، حلقہ میری زنجیر کا، آدمی کی زندگی، ادھورا آدمی (جرمنی میں پیدا ہونے والے امریکی مارکسی ماہر نفسیات ایرک فرام (Erich Fromm: 1900-1980) کے تجزیاتی مطالعہ پر مبنی)، قافلے پرندوں کے، پاکستان، ادب اور معاشرہ، یہ خانۂ آب و گِل۔ سب لعل و گہر (کلیات فہمیدہ ریاض) سال اشاعت 2011، قلعۂ فراموشی۔
قلعۂ فراموشی کا تعلق پانچویں صدی عیسوی کے سب سے پہلے سوشلسٹ انقلابی مزدک سے ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے محنت کش طبقے کو جگا کر کاخِ امرا کے درودیوار ہلانے کی بات کی۔ جنوب مغربی ایران کے صوبہ خوزستان کے دار الحکومت اہواز کے قریب قلعۂ فراموشی کے آثار ملتے ہیں۔ قلعۂ فراموشی میں ان قیدیوں کو پابند سلاسل رکھا جاتا تھا جن کی حق گوئی مقتدر طبقے پر گراں گزرتی۔ اس عقوبت خانے کے اسیر اپنا نام، اپنے قبیلے کے افراد کے نام اور رہائش کا مقام تک بھول جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعے میں موت کا عِفریت یادوں اور فریادوں کی صلاحیت سلب کر لیتا تھا۔ حریت فکر کے ایسے مجاہدوں کو حافظے کی صلاحیت سے محروم کر کے استبدادی قوتیں اس زعم میں مبتلا ہو جاتیں کہ انھوں نے تنقید کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ حریت ضمیر سے جینے والے متاع لوح و قلم چھن جانے کے بعد خون دل میں انگلیاں ڈبو کر اپنے دل کا حال زیب قرطاس کرتے رہتے ہیں۔ فسطائی جبر کے ہاتھوں جان جاتی ہے شوق سے جائے مگر حق گوئی کو شعار بنانے والے کبھی جبر کے سامنے سپر انداز نہیں ہو سکتے۔ فہمیدہ ریاض نے پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب میں گہری دلچسپی لی اور ان زبانوں کے ادب کا مطالعہ کیا۔ انھیں عربی، اردو، انگریزی، ہندی، سندھی، برج، بلوچی، پنجابی، پشتو اور فارسی زبان پر خلاقانہ دسترس حاصل تھی۔ خواتین کے مسائل، انسانیت کا وقار اور سر بلندی، حق گوئی و بے باکی، جنگ و جدال کے مسموم اثرات، دشمنی اور عداوتوں کے تباہ کن اثرات، تاریخ، سیاست اور لوک ادب فہمیدہ ریاض کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ ترجمہ نگاری میں فہمیدہ ریاض کی خداد اد صلاحیتوں کا ایک عالم معترف ہے۔ فہمیدہ ریاض نے البانیہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، شاعر اور ڈرامہ نگار اسماعیل کدرے (Ismail Kadare) کی تخلیقات کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ اسماعیل کدرے کا سال 1963 میں شائع ہونے والا ناول ’’مردہ فوج کا سالار‘‘ (The General of the Dead Army) فہمیدہ ریاض کو بہت پسند تھا۔ اس ناول میں اسماعیل کدرے نے البانیہ کے اس سالار کی داستان بیان کی ہے جس کی فوج نے ہزیمت اور پس پائی کے وقت دوسری عالمی جنگ میں زبردست جانی نقصان اٹھایا۔ اسماعیل کدرے کا ایک اور معرکہ آرا ناول محصورین کا قلعہ (The Castle or The Siege)جو سال 1970 میں منظر عام پر آیا اسے اسماعیل کدرے کے جرأت مندانہ منفرد اسلوب کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسماعیل کدرے کا سال 1977 میں شائع ہونے والامقبول ناول ’’عظیم سرما‘‘ (The Great Winter) بھی ان کی توجہ کا مرکز رہا۔ فارسی زبان کے عالمی شہرت کے حامل ممتاز شاعر شاعر مولانا جلال الدین محمد رومی (1207-1273) کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ کرنے کے سلسلے میں فہمیدہ ریاض کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے۔ سندھی زبان کے شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی(1689-1752) اور شیخ ایاز (1923-1997) کی شاعری کا بھی فہمیدہ ریاض نے اِس مہارت سے اردو ترجمہ کیا کہ دو تہذیبوں میں سنگم دیکھ کر قاری اش اش کر اُٹھتا ہے۔ ایرانی شاعرہ فروغ زاد فرخ (1934-1967) کی منتخب نظموں کے تراجم پر مشتمل کتاب ’’کھُلے دریچے سے‘‘ فہمیدہ ریاض کی ترجمہ نگاری کی عمدہ مثال ہے۔
فہمیدہ ریاض کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں بے کمال لوگوں کی پانچوں گھی میں ہیں اور اہلِ کمال کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اپنی تحریروں میں فہمیدہ ریاض نے معاشرے کے پس ماندہ طبقے بالخصوص خواتین کی حالتِ زار کو موضوع بنایا ہے۔ طالع آزما، مہم جو عناصر، فصلی بٹیروں، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے و الوں اور مرغانِ باد نما کی ریاکاری اور منافقت سے انھیں شدید نفرت تھی۔ اس عہدِ نا پرساں میں وقت کے اس سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ یہاں جاہل اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جس معاشرے میں ساغر صدیقی، ماسٹر عاشق حسین، رام ریاض، اطہر ناسک، ضمیر نیازی(صحافی)، اسحاق ساقی، فضل بانو، خادم مگھیانوی، نعیم آروی (افسانہ نگار) اور امیر اختر بھٹی جیسے عجز و انکسار کے پیکر تخلیق کار کسمپرسی کے عالم میں زینۂ ہستی سے اتر جائیں، اس معاشرے کی بے حسی کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ جب کوئی معاشرہ کسی مصلحت کے تحت شقاوت آمیز نا انصافیوں اور جبر و استبداد کو سہہ کر بھی چپ سادھ لے اور ٹس سے مس نہ ہو، اسے تقدیر کی منشا اور قسمت کی تحریر سمجھے تو اسے ایک المیہ سمجھنا چاہیے۔ جب معاشرہ مظلوم کی حمایت میں تامل کرے اور ظالم کے ہاتھ مضبوط کرے تو یہ بات اس معاشرے کی بے حسی کی علامت ہے۔ اس قسم کی اجتماعی بے حسی کسی بھی قوم کی بقا کے لیے انتہائی بُرا شگون ہے۔ منیر نیازی (منیر احمد: 1928-2006)نے معاشرتی زندگی میں راہ پاجانے والی اس بے حسی کے بارے میں کہا تھا:
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دِل سے منیرؔ
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
کہا جاتا ہے کہ کارواں کے دل میں احساس زیاں باقی رہ جائے تو زندگی بھر سنگ ملامت سہنے والوں کی تدفین بھی اعزاز کے ساتھ کی جاتی ہے۔ حیف صد حیف کہ فہمیدہ ریاض نے جب عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھا تو حریتِ ضمیر سے جینے کو شعار بنانے والی اس یگانۂ روزگار ادیبہ کو آ نسوؤں اور آ ہوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ادیب برادری نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ ممبئی جیسے بڑے ادبی مرکز میں میراجی (محمد ثنا اللہ ڈار: B: 25-05-1912,D: 03-11-1949) کے جنازے میں صرف پانچ آدمی (اختر الایمان، مہندر ناتھ، مدھو سودھن، آ نند بھوشن) شامل تھے۔ ن۔ م۔ راشد (نذر محمد راشد: B: 01-10-1910, D: 09-10-1975) کی آخری رسومات میں صرف دو افراد (بیگم شیلا اور ساقی فاروقی) نے شرکت کی۔ ماہ نامہ صبح بہاراں، دولتالہ (راول پنڈی) کے نومبر۔ دسمبر2018کے شمارے میں اپنے ادارتی کلمات میں ذکا اللہ شیخ نے فہمیدہ ریاض کے سفر آخرت پر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے وطن عزیز کے ادیبوں کی افسوس ناک بے حسی کے بارے میں لکھا ہے:
’’ہماری ادیب برادری بہت بے حس واقع ہوئی ہے اور ان کے بلند بانگ آ درشوں کے دعوے نہایت کھو کھلے ثابت ہو جاتے ہیں، جب وہ کسی ادیب دوست کے جنازے اور دعائے فاتحہ تک میں شریک ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ایسا ہی کچھ فہمیدہ ریاض کی آخری رسومات میں ہوا، صرف دو ادیب جنازے میں شریک ہوئے، محلے اور مسجد کے نمازی یا چند اعزا و اقربا۔‘‘
ادب کے بعض سنجیدہ قارئین کا خیال ہے کہ فہمیدہ ریاض کے اسلوب کی پزیرائی کرنے میں بالعموم تامل کا اظہار کیا جاتا رہا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اردو افسانہ نگاری میں جو سلوک سعادت حسن منٹو سے کیا گیا اردو شاعری میں فہمیدہ ریاض کا بھی اسی قسم کے سلوک کا سامنا رہا۔ ان کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے مگر انھوں نے صبر و تحمل کو اپنا مونس سمجھا۔ یہ ان کا کمال ضبط تھا کہ اپنے حرف گیروں کے سادیت پسندی پر مبنی رویے سے دل برداشتہ ہونے کے بجائے انھوں نے اپنا معاملہ وقت کی عدالت میں پیش کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے شعری مجموعے ’’بدن دریدہ‘‘ کے آغاز میں فہمیدہ ریاض نے حالات کے جبر کو محسوس کرتے ہوئے مرزا اسداللہ خان غالبؔ کا یہ شعر شامل کر کے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا ہے:
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہ گزار تھا
٭٭
مآخذ
۱۔ علامہ محمد اقبال ڈاکٹر: ضرب کلیم، کلید کلیات اقبال، اردو، مرتب احمد رضا، 2005، صفحہ 106
2. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearsom Education Singapore 2004, Page 308
3. Terry Eagleton: Literary Theory, Minnesota, London 1998, Page. 194
4. Ross Murfin: The Bedford Glossary of Critical and literary terms Bedford books. Boston, 1998, Page 123
5. Ross Murfin: The Bedford Glossary of Critical and literary terms Bedford books. Boston, 1998, Page 123
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید