وہ اس وقت سر اشفاق کا لیکچر سن رہی تھی جب اسے خود پر کسی کی نظروں کا شدت سے احساس ہوا ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کون ہو سکتا ہے۔ بے اختیار ناگواری سے اس نے اپنے آنکھیں میچی۔
آج عنایہ کی طبیعت بھی کچھ ناساز تھی اور وہ یونی بھی نہیں آئی تھی۔ یہ لاسٹ کلاس تھی۔
” بس ماہی بیٹا تھوڑا سا ٹائم اور برداشت کرلو۔۔۔ ” اس نے بڑبڑاتے ہوئے خود کو تسلی دی۔
اور پھر جب پانچ منٹ رہ گئے تو وہ اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔ پروفیسر صاحب کلاس سے جا چکے تھے۔ اس دوران مایا مسلسل شعیب کے نظروں کے حصار میں رہی تھی۔ سب سٹوڈنٹس باہر نکلنے لگے ۔ کلاس میں اب صرف جار پانچ سٹوڈنٹس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ وہ بھی کلاس خالی ہونے سے پہلے باہر جانا چاہتی تھی مگر اس کا ایک پین نہیں مل رہا تھا۔۔ وہ پین عنایہ نے اسے گفٹ کیا تھا۔ وہ پین ڈھونڈنے لگی۔ اور کلاس خالی ہو گئی۔ وہاں اب صرف مایا اور شعیب ہی تھے۔
شعیب اس کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔اور پھر مایا کا بازو پکڑ کر زور سے اپنی طرف کھینچا۔ اور مایا جو شعیب کو چند لمحوں کے لیے بھول گئی تھی اسے اپنے سامنے دیکھ کر کانپنے لگی۔ اور کلاس پر نظر دوڑائی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
” منع کیا تھا نہ کسی بھی لڑکے سے بات کرنے سے۔ سمجھ نہیں آتی کیا۔ آئیندہ تم مجھے احمد یا کسی بھی لڑکے سے بات کرتی نظر نہ آنا۔ جو بات کرنی ہے۔مجھ سے کرو۔ تم ہر صرف میرا حق ہے۔ تم صرف میری ہو۔ صرف میری۔ اور ہاں۔اب تم کبھ دنوں بعد میرے پاس ہوگی۔ صرف کچھ دنوں کی بات۔ یہ چند دن سکون سے گزار لو۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ یہ چند دنوں کی محلت بھی میں تم سے چھین لوں” وہ سفاکی سے اس کے گالوں کو دبوچے کھڑا تھا۔ مایا بولنا چاہ رہی تھی مگر کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔ وہ بس دل میں اللّٰہ سے دعا کررہی تھی۔
” اور ہاں۔۔ ایک آخری بات اور۔ اگر تم نے مجھ سے دور کہی بھاگنے کی کوشش کی تو انجام کی زمہ دار تم خود ہوگی۔ میری نظریں ہر وقت تم پر رہے گی۔!!” یہ کہہ کر اسنے مایا کو پیچھے کی طرف دھکا دیا اور اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا ۔
مایا پیچھے دیوار سے ٹکرائی تھی۔ اس کی باتیں ہٹھوڑیں کی ماند سر پر برس رہی تھی۔ مایا نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔ ” یا اللّٰہ” بے اختیار اس کے ہونٹوں سے سسکاری سی نکلی۔
وہ دل میں اللّٰہ سے دعائیں کرنے لگی۔ اور پھر بیگ اٹھا کر باہر نکلنے لگی تو موئذ کی کال آنے لگی۔ مایا نے کاٹ دی ۔
اسکا انداز فیصلہ کن تھا۔ جیسے وہ کچھ سوچ چکی ہو۔ جیسے وہ کوئی فیصلہ کرچکی ہو۔!!
دن گزرتے جا رہے تھے۔ امتحان شروع ہو چکے تھے۔ ساتھ ہی بڑوں کی تیاریوں میں اور تیزی آگئ تھی۔
ایک طرف جہاں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سعد کی خوشیاں بڑھتی جا رہی تھی وہی دوسری طرف ندا بے چین ہوتی جا رہی تھی۔
ایک غلطی کا احساس اس کے اندر سر اٹھا رہا تھا۔ جسے وہ بری طرح جھرک دیتی۔
اور پھر وہ دن آپہنچا جس کا سب کو انتظار تھا۔
والدین اور دوستوں کو شادی کا۔
سعد کو ندا کا۔
شعیب کو مایا کا۔۔
اور،،،
فہیم کو ندا کو سعد سے دور کرنے کا۔۔!!
#21
سعد ابھی تک سو رہا تھا۔
شارق اور زمان نے اندر جھانک کر دیکھا ۔ اور پھر افسوس کرتے اس کی طرف گئے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر مخصوص اشارہ کیا اور پھر سعد کے بیڈ پر پڑے تکیے لے کر اس پر پوری قوت سے برسانے لگے۔
” اٹھ جا کمینے اٹھ جا” اور بیچارہ سعد۔۔ حملوں کی تاب نہ کا کر ہڑبڑا کر اٹھا۔
” ہاں ہاں کیا ہوا۔۔ کس نے حملہ کیا۔ ندا کیسی ہے۔ کیا ہوا ہے۔۔” وہ اٹھ کر نیند کے زیر اثر بولتا گیا۔ اور اس کی بات سن کر دونوں نے افسوس سے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔
” کچھ نہیں ہوا بھابھی کو۔ اور اگر آپ نے خوابوں میں نکاح بلکہ شادی کرلی ہو تو پلیز اٹھ جائیں اور حقیقت میں بھی نکاح کر لیجیے”زمان نے مہذب انداز میں طنز کیا تو سعداپنے سر پر ہاتھ پھیرتا کھسیانی سہ ہنسی ہنسا۔
“اوو ہاں۔۔ آج تو نکاح ہے میرا۔ اپز۔۔۔ بارہ بج گئے۔ کسی نے اٹھایا کیوں نہیں مجھے۔ ” وہ دھیرے سے بولا نگر جیسے ہی نظر گھڑی پر پڑی تو اچھل کر بیڈ سے اتر کر کھڑا ہوگیا۔
“ایک بار نہیں دس بار اٹھایا ہے۔ مگر آپ تو جیسے بنگ پی کر سو رہے تھے۔اٹھ ہی نہیں رہے” شارق نے جلے بھنے لہجے میں کہا تو وہ اپنا سر کھجانے لگا۔
“چل اٹھ جلدی تیار ہو کر آ پھر تیری شکل کی مرمت بھی کروانی ہے”
زمان کہتا شارق کو ساتھ لیئے کمرے سے نکل گیا اور سعد کپڑے نکال کر فریش ہونے چل دیا۔
نکاح کی تقریب بھی گھر پر ہی رکھی گئی تھی۔
ندا اس وقت مہک کے ساتھ پارلر میں موجود تھی۔ ندا تیار ہو چکی تھی۔
وائٹ کلر کا غرارہ اور شرٹ جس ہر گولڈن کلر سے کام کیا گیا تھا زیب تن کیا ہوا تھا۔ دوپٹہ سر پر سلیقے سے اوڑھے اور ماہرانہ انداز میں کئے گئے میک اپ میں وہ کوئی پری معلوم ہو رہی تھی۔
مکمل طور پر تیار ہونے کے بعد ندا کے کہنے پر مہک نے ندا کے موبائل سے حسین صاحب جو کال کی تاکہ وہ کسی کو لینے کہ لیئے بھیج دیں۔
“ندا وہ کال پک نہیں کررہے ہیں” مہک نے کہا۔
“تم انہیں مسج کردو”
” اف پاگل۔۔ کال تو پک کر نہیں رہے۔ مسج پڑھ لیں گے۔۔ ہو سکتا ہے وہ کام میں مصروف ہو۔ فہیم بھائی کو کردوں؟؟” مہک نے کہا تو ندا نے کچھ سوچ کر دھیرے سے اثبات میں سر ہلا دیا۔
مہک نے کال ملائی تو دوسری بیل پر ہی کال اٹھا کی گئی۔
“ہیلو” دوسری طرف سے کہا گیا۔
” ہیلو۔ میں ندا کی فرنڈ بات کررہی ہوں پارلر سے۔ ہم یہاں فارغ ہو چکے ہیں۔ آپ یا تو خود آجائیے یا کسی کو بھیج دیں ہمیں لینے کے لیے”
“جی ۔۔اوکے میں ڈرائیور کو بھیج رہا ہوں آپ کو لینے کے لیے۔” یہ کہہ کر فہیم نے فون بند کردیا۔ جبکہ مہک ندا کو بتا کر انتظار کرنے لگی۔ پارلر گھر سے چند منٹ کے فاصلے پر تھا۔ مہک بھی پارلر میں تیار ہو چکی تھی۔ آج سب لڑکیاں کالے رنگ کے غراروں میں ملبوس تھی۔ ہلکے میک اپ میں وہ بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
چند لمحوں بعد ندا کے موبائل کی سکرین جگمگائی۔ وہاں کسی انجان نمبر سے مسج آیا ہوا تھا۔
” ندا بی بی آپ باہر آجائیے۔ مجھے فہیم بھائی نے بھیجا ہے” مسج پڑھ کر اس نے ندا کو بتایا اور سامان اٹھا جو ایک چھوٹے سے بیگ پر مشتمل تھا۔
باہر گاڑی کے ساتھ ایک اجنبی شخص کھڑا تھا۔ چہرے سے وہ چالیس پنتالیس سال کا مرد لگتا تھا۔ انہیں دیکھ کر وہ ان دونوں کے پاس چلا آیا۔
” آپ ندا بی بی اور مہک بی بی ہیں نہ” اس نے پوچھا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ انہیں آنے کا کہہ کر گاڑی کے پاس پہنچ گیا۔
گاڑی میں بیٹھ کر مہک نے تو اپنا موبائل نکال لیا جبکہ ندا سر جھکائے گم سم سی بیٹھی رہی۔ ہوش تب آیا جب تقریباً 15 منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک اندھیر جگہ پر رک گئی۔ سامنے اندھیرے میں ڈوبی ایک کوٹھی تھی۔
وہ لوگ اب گیٹ سے اندر جا رہے تھے۔ دونوں مو یک دم ہوش آیا۔
“یہ یہ کہا لے آئے” وہ۔دونوں بیک وقت بولی مگر بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک تیز بدبو انکے نتھنوں سے ٹکرائی اور پھر انہیں اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ اگلے ہی لمحے وہ دنیا و مافیا سے بےگانہ ہو چکی تھی۔
محبت انسان کا اندھا کردیتی ہے۔
فہیم بھی ندا کی محبت میں اندھا ہو چکا تھا۔
اتنا کبھ کرتے وہ اپنے ماں باپ جیسے چاچو اور چاچی کی عزت بھی بھول گیا تھا۔
وہ بھول گیا تھا کہ عین نکاح کے وقت جب وہاں ان کی بیٹی نہیں ہو گی تو ان پر کیا گزرے گی۔
مگر وہ تو اندھا ہو چکا تھا ۔
اسے تو اندھیرے میں صرف اپنی محبت کا احساس تھا۔
ندا کی کال آنے پر وہ اپنا آدمی بھیج چکا تھا جو ندا اور مہک کو پارلر سے اپنے گھر لانے کی بجائے انہیں ایک خاص جگہ چھوڑ دیتا۔
حسین صاحب کا موبائل وہ سائیلنٹ پر لگا چکا تھا۔ وہ جانتا تھا حسین صاحب کام میں مصروف ہو گے اس لئے انہیں معلوم نہیں ہوگا۔ اور خود بھی ان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اور حسن صاحب کا موبائل بھی احتیاطا وہ اپنے پاس رکھ چکا تھا۔
اب بھی بظاہر وہ ادھر ادھر کے کام دیکھتا کسی کی کال کا منتظر تھا۔
ٹھوڑی دیر ہی گزری تھی جب اسکا موبائل بجا۔ اس نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر فون نکال کر کان سے لگا لیا۔
“ہوگیا کام کہ نہیں؟؟” فہیم نے بےتابی سے پوچھا۔۔
” ہاں ہاں ہو گیا۔ اب بتا کیا کرنا ہے؟؟ تو کب تک آئے کا؟؟” دوسری طرف سے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا گیا۔
اور اس کی ہنسی سن کر فہیم کو کافی عجیب لگا۔
اسے گبھراہٹ سی محسوس ہونے لگی۔
” ہاں۔۔۔ ہاں۔ میں آتا ہوں ٹھوڑی دیر تک۔۔!!” یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ اسے اپنی پیشانی پر نمی کا احساس ہو رہا تھا۔ فہیم نے ہاتھ لگایا تو اس کا پورا چہرہ پسینے سے تر تھا۔ اندر کہی اسکا ضمیر اس پر ہنس رہا تھا۔۔۔!!