مایا کی آنکھ کھلی تو اسے ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے بے اختیار اٹھنے کی کوشش کی مگر رسیوں کی وجہ سے اٹھ نہ سکی چند لمحوں بعد اس کا زہین آہستہ آہستہ بیدار ہونا شروع ہوا۔ بے ہوش ہونے سے پہلے کا واقعہ کسی فلم کی طرح زہین کے پردے پر گھوم گیا۔ اس نے اپنے ساتھ دیکھا تو وہاں عنایہ بھی ہوش میں آ رہی تھی۔ مایا نے کمرے پر نظر گھمائی۔
وہ ہال نما ایک کمرہ تھا۔ کمرہ بلکل خالی تھا بس دائیں طرف دیوار میں دو دروازے تھے۔ وہ شاید کمرے ہو۔ مایا نے سوچا۔ وہ دونوں کرسیوں پر بندھی بیٹھی تھی۔ اس کے علاوہ دو اور کرسیاں کمرے میں ان کے سامنے پڑی تھی ۔ اسے وہاں گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔
“یہ کونسی جگہ ہو سکتی ہے۔ ” اسے مایا کی آواز سنائی دی تو اس نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر گہرے سنجیدگی تھی۔
” پتہ نہیں۔ بس اللّٰہ ہماری عزت کی حفاظت کریں۔” مایا نے گیرے سنجیدگی سے اپنگ آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔
عنایہ “آمیں” کہہ کر خاموش ہوگئی۔
دونوں کو اپنے دماغ ماؤف ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ دونوں چیخنے چلانے میں اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے اپنے اللّٰہ سے اپنی عزت کی حفاظت کرنے کی دعا کررہی تھی۔ کسی معجزے کا انتظار کررہی تھی۔ اپنے اللّٰہ کے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔
یک دم دروازہ کھلا اور دو بیس بائیس سال کے نوجوان آگے پیچھے اندد داخل۔ہوئے۔
دونوب کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ان کی دعاؤں میں شدد آگئی تھی۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
پیچھے والے نوجوان کو دیکھ کر مایا کے رونے میں شدد آگئی تھی۔ وہ شعیب تھا۔
سعیب چلتا ہوا اس کے پاس آ کر رک گیا۔
” کہا تھا نہ تم سے کہ تم بہت جلد میرے پاس ہوگی۔ دیکھ لیا۔۔ بہت ترپایا ہے تم نے مجھے میری جان۔ اب دیکھنا میں تمھیں کیسے ترپاؤ گا” شعیب بولتا آخر میں زور سے قہقہ لگا کر ہنسا تھا۔ خباثت اس کے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔ مایا نے منہ دوسری پھیر لیا تھا۔
دوسرے طرف وہ لڑکا بھی عنایہ کی طرف گہری نظروں سے دیکھتا ہوا اس کے پاس آ کر رک گیا تھا۔
” واہ ۔۔۔ کیا مست مال ہے یہ۔ تھینکس شعبی۔ آج تو بہت مزا آنے والا ہے۔۔!!” دوسرا غباثت سے بولا۔
” ہاں۔ انجوائے کر” شعیب نے جواب دیا۔ وہ لڑکا آصف اب عنایہ کے چہرے پر انگلی پھیر رہا تھا۔
عنایہ نے ضبط سے پہلے آنکھیں بند کی مگر پھر فورا آنکھیں کھول کر ایک دم اس پر تھوک دیا تھا۔ آصف ایک دم پیچھے ہٹا۔
ہاتھ مت لگانا مجھے گھٹیا انسان” عنایہ زور سے چیخی تھی۔
آصف نے آگے بڑھ کر زورداد ٹھپر اس کے منہ پر مارا تھا۔
” لگاؤ گا ہاتھ۔۔۔ کیا کرو ہاں۔۔ کرہی کیا سکتی ہو تم دو ٹکے کی لڑکی۔ ” وہ بھی چلایہ تھا۔
” دانیال۔۔ دانیال” آصف زور زور سے باہر کھڑے دانیال کو آوازیں دینے لگا۔
” جی سر۔۔ جی سر” دانیال گھبرایا ہوا اندر داخل ہوا۔
” اس لڑکی کو میرے کمرے میں چھوڑ آؤ۔ اور ڈرنکس لے کر آؤ میرے کمرے میں” وہ اونچی آواز میں بولا۔ دانیال آگے بڑھ کر عنایہ کی رسیہ کھولنے لگا۔
ان دونوں کے دل دڑ سے کانپ رہے تھے۔ ان کے رونے میں شدت آ چکی تھی۔
دوسرے طرف شعیب مایا کا دوپٹہ کھینچ کر اتار دیا۔ اور وہ پنس لگے ہونے کی وجہ سے کہی جگہوں سے پٹھ گیا تھا۔ مایا دوپٹہ اترنے لر زور سے چیخی تھی۔ اتنی زور سے کہ اس کی آواز کمرے کی باہر تک نکلی تھی۔
فہیم۔۔۔ تم یہ سب۔۔ کیا مطلب۔۔ تمھارا دماغ تو ٹھیک پے؟؟” سب سے پہلے موئذ کو ہوش آیا۔ اس نے غصے سے پوچھا۔
” تم لوگ یہاں کیسے۔ تمھیں کس نے بتایا” فہیم نے حیرانی سے بے اختیار انداز میں پوچھا۔
” اللّٰہ نے بیجھا ہے ہمیں یہاں” سعد نے ندا کو دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔ اس کا چہرہ کسی بھی تاثر سے خالی تھا۔
ندا سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔ ساتھ بھیٹھی مہک بھی دوائی کے اثر ختم ہو جانے پر ہوش میں آ رہی تھی۔ فہیم بھی سخت تاثرات کے ساتھ انہیں دیکھ رہا تھا۔
” فہیم یہاں اور کوئی بھی ہے کیا؟؟” موئذ کو اچانک مایا یاد آئی تو اس نےسنجیدگی سے اس سے ہوچھا۔
” ہا۔۔ ہاں ہاں ہے کیوں؟” فہیم نے چونک کر اسے دیکھا۔
” مبارک ہو پھر۔ آپ یہاں کسی اور کی بہن کو اغوا کر لائے ہے۔ اور یہاں ہی کوئی اور تیری بہن کو بھی اغوا کر کے لایا ہے۔اسی لئے کہتے ہیں کچھ بھی کرنے سے پہلے مکافات عمل کو سوچ لینا چاہیے۔۔’ سعد نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ فہیم کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ ایک دم دروازے کی طرف بھاگا۔ پیچھے سعد اور موئذ بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ فہیم تھوڑی آگے موجود سیڑھیوں کی طرف بھاگا تھا جو نیچے بیسمنٹ کی طرف جاتی تھی۔ نیچے ایک چھوٹی سی راہداری تھی جس کے آخر میں ایک دروازہ نظر آرہا تھا جو کھلا ہوا تھا۔ وہ تینوں نیچے ہہنچے ہی تھے کہ وہاں مایا کی چیخنے کی آواز گونجی موئذ کی رفتار اور تیز ہو گئی تھی۔ کمرے کے باہر پہنچ کت وہ تینوں ایک سیکنڈ کے لئے رکے تھے۔ آصف عنایہ کا چہرہ پکڑے پوری طرح سے جھکا ہوا تھا۔ جبکہ دانیال اس کے رسیاں کھول رہا تھا۔ اور مایا کے سامنے شیعب کھڑا تھا جس کی وجہ سے وہ نظر نہیں آرہی تھی۔
فہیم اور موئذ بیک وقت اندر بڑھے تھے۔ جبکہ سعد نے باہر پڑی دانیال کی بندوق اٹھائی تھی جو کافی بھاری تھی۔
فہیم نے اندر جاتے ہی آصف کی شرٹ پیچھے سے پکڑ کے پیچھے کی طرف ہی دھکہ دیا ساتھ ہی ایک زور دار تھپر اس کے منہ پر لگایا تھا۔
دوسری طرف موئذ نے بھی شعیب کو پیچھے ہٹاتے ہوئے تھپر مار کر زور سے نیچے گرایا تھا اور یکے بعد دیگرے کئی لاتیں ماری تھی۔
جبکہ سعد کی نظر مایا پر پڑی تھی جو بغیر دوپٹے کہ کھڑی تھی۔ سعد نے آج تک اسے نقاب میں ہی دیکھا تھا۔ اس دن یونی میں ٹکر ہوئی تھی تو اس نے نقاب نہیں کیا ہوا تھا مگت اس سے پہلے اس نے کبھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا اس لئے پہچانا نہیں تھا۔ اور مایا کا نہیں جانتا تھا کہ وہ اسے کیوں نہیں ہہچانی تھی۔ وہ نظریں چراتا تیزی سے آگے بڑھا اور اسے دوپٹہ اوڑھا دیا۔
دانیال جو بت بنا سب دیکھ رہا تھا ایک دم ہوش میں آتے باہر بھاگنے کی کوشش کی مگر سعد نے بندوق کا رخ اس کی طرف کردیا اور زور سے چلایا” خبردار اگر اپنی جگہ سے ہلا تو” سعد نے پہلی بار بمدوق پکڑی تھی مگر پھر بھی وہ پر اعتماد تھا۔ بندوق دیکھ کر سب اپنی جگہ تھم گئے تھے۔
” دونوں اٹھو اور دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جاؤ۔ موئذ تم ان کی تلاشی لو۔” اس نے ایک اور حکم جاری کیا۔ فہیم نے خود ہی آگے بڑھ کر عنایہ کی رسیاں کھولی تھی جو تقریبا پہلے ہی آدھی کھلی ہوئی تھی۔ اپنی کی رسیاں کھل جانے ہر عنایہ مایا کی طرف بڑھ گئی تھی۔ وہ دونوں ابھی تک رو رہی تھی۔ اور دل میں اللّٰہ کا شکر ادا کررہی تھی۔ مایا کی رسیاں کھول کر عنایہ بھاگ کر فہیم کے گلے لگ گئی تھی۔
موئذ تلاشی لے چکا تھا۔ ان تینوں کے پاس ہی سوائے والٹ اور موبائل کہ کچھ نہیں تھا۔
” فہیم سالے تجھے چھوروں گا نہیں میں۔ اپنی والی کے مزے کر لئے اب ہماری باری آئی تو اپنے ساتھیوں کو لے آیا” شعیب نے غصے سے کہا تھا۔
موئذ نے عنایہ اور مایا کو اوپر ندا کے پاس جانے کو کہا تھا جو ابھی تک بندھی ہوئی تھی۔
” بکواس بند کرو اپنی ورنہ گولی سے اڑا دوں گا۔” فہیم اس کی بات سن کر آگ بگولہ ہو کر چلایہ تھا۔
” چیخ کیوں رہا اب تو۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے وہ۔ کسی اور کی بہن کا اغوا بھی تو کروانا تھا نا تم نے۔ اتفاقاً وہ تیری بہن نکل آئی تو بکواس ہوگئی۔” سعد جو کب سے فہیم کو برداشت کررہا تھا اب چپ نہ رہ سکا۔ جبکہ فہیم غصے کے گھونٹ پی کر رہ گیا کیونکہ وہ تھیک کہہ رہا تھا۔
” سعد اس سے بعد میں نپٹ لیں گے پہلے ان کا کچھ کر” موئذ نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا۔ غصہ تو اسے بھی بہت تھا مگر پہلے شعیب کا کچھ کرنا تھا۔
” ان کو کرسیوں پد باندھ دو اور موئذ باہر جس گارڈ کو ہم نے باندھا تھا اسے بھی لے آؤ” سعد نے کہا تو موئذ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ فہیم کی مدد سے ان تینوں کو کرسیوں ہر باندھ کر وہ سعد سے بندوق لے کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔ جبکہ سعد کرسیوں کے عین ہیچھے بنی ایک الماری کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے الماری کھولی تو سامنے ہی اسے ایک رومال اور دو شیشیاں بھی پڑی تھی۔ دوسرا بھی کافی سامان تھا لیکن وہ بس شیشیاں اور رومال لے کر واپس آگیا۔ وہ دونوں شیشیوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بے ہوشی کی لئے کونسی شیشی استعمال ہوگی۔
” یہ والی شیشی بے ہوش کرنے کے لیے ہے” اسے فہیم کی آواز سنائی دی۔ چونکہ فہیم کے سامنے ہی اس گارڈ نے ندا کو ہوش دلایا تھا اس لئے وہ دوسری شیشی یقینا بے ہوش کرنے کے لئے ہی تھی۔
سعد نے اس شیشی سے تھوڑا سا مایا انڈیلا اور اور ان چاروں کی مزاحمت خاطر میں نہ لا کر انہیں بے ہوش کردیا۔ اس دوران موئذ بھی چوکیداد کو اندر لا چکا تھا۔
سعد نے شیشیاں اپنی جیب میں رکھ لی تھی۔
اس کے چہرے پر پھیلی سفاکی دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی پہلے والا معصوم شرارتی سا سعد ہے۔۔!!
ان سب کو غائب ہوئے 2 گھنٹے ہو چکے تھے۔ سب کو ہی دلہا اور دلہن دونوں کی ہی گمشدگی کا پتہ چل گیا تھا۔
حسین صاحب، سونیا بیگم، حسن صاحب، شگفتہ بیگم، وقار صاحب اور سعدیہ بیگم سب ہی بہت پریشان حسین صاحب کے کمرے میں جمع تھی۔ تینوں خواتین کی سسکیاں وقفے وقفے سے کمرے میں گونج رہی تھی۔سب خاموش تھے۔
ندا، مہک اور فہیم کا موبائل آف تھا جبکہ مایا، عنایہ، موئذ اور سعد کو کال تو جا رہی تھی کوئی بھی اٹھا نہیں رہا تھا۔
کچھ دیر پہلے ہی حازق، معصب، زمان، شارق اور دو تین اور لوگ سب کو ڈھونڈنے کے لئے جا چکے تھے۔
تقریبا پندرہ منٹ بعد حازق اندر داخل ہوا۔
آرہے ہیں وہ سب۔ فون ایا تھا مجھے موئذ کا۔ تفصیل وہ آکے بتائے گا” اس نے سلام کرنے کے بعد سب جو بتایا۔ اس کے پیچھے باقی سب لڑکے بھی آگئے تھی۔ تقریبا آدھے گھنٹے بعد وہ سب آگئے تھے۔
سعد اپنی ویسکوٹ گاڑی میں اتار آیا تھا۔ باقی سب کی حالت بھی بکھری بکھری سی تھی۔ ان سب کی اترے چہرے اور بکھری حالت دیکھ کر سب بڑے اپنا غصہ بھول گئےتھے۔
“کہاں تھے تم سب؟” خاموشی کو حسین صاحب کی با رعب آواز نے توڑا تھا۔
” قید خانے میں.” سعد نے جواب دیا۔ ان میں سے کوئی بھی نہ کسی سے ملا تھا نہ بیٹھا تھا۔ سب مجرموں کی طرح کھڑے تھے۔
یہ کہہ کر سعد حسین صاحب کی طرف بڑھا تھا۔ان کی ہاتھ تھام کر اس نے انہیں صوفے پر بیٹھایا اور خود بھی ان کے برابر میں بیٹھ گیا۔
” اب میں جو کہو گا آپ پلیز اسےتحمل سے سنئے گا” سعد کی بات سن کر ندا اور فہیم جا جھکا سر مزید جھک گیا تھا جیسے وہ جانتے ہو کہ وہ کیاکہنے والا ہے۔ جبکہ موئذ عنایہ اور مایا نے افسوس سے سعد کو دیکھا تھا۔
” بولو بیٹا میں سن رہا ہوں” انہوں نے چونک کر جواب دیا۔ سعد نے گہری سانس لی۔ “انکل۔ میں معافی چاہتا ہوں آپ سے۔ مجھے یہ کرتے ہوئے بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا لیکن شاید اللّٰہ کو یہی منظور ہے۔ میں ندا سے نکاح نہیں کر سکتا” وہاں بیٹھے سب افراد کے سروں پر اس نے اس پل جیسے دھماکہ کردیا تھا۔ وہ سب چونک جر سیدھے کو بیٹھے تھے۔ وقار صاحب کے چہرے پر چٹانوں جیسی سختی در آئی تھی۔
” وجہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔ ہاں مگر بتا سکتا ہوں کہ اگر یہ شادی ہوگئی تو یہ شادی نہیں بلکہ ایک سمجھوتا ہوگا۔ کیا آپ چاہے گے کہ آپ کی بیٹی کی نہئ زندگی کا آغاز سمجھوتے پر ہو؟
وجہ ایک راز ہے جو اگر راز کا مالک بتا دیں تو بہتر ہے۔
بس یوں سمجھ لیں کہ تقدیر کو ہم دونوں کا ساتھ منظور نہیں تھا۔
مجھے سمجھ نہیں آرہا میں آپ سے معافی کیسے مانگو۔ انکل پلیز مجھے غلط مت سمجھئے گا۔ میں ایسا کبھی نہ کرتا اگر مجھے ان نازک لمحات میں حقیقت کا علم نہ ہوتا۔مجھے اجازت دیں اب۔ اللّٰہ حافظ” سعد سے مزید ضبط۔کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ سب کو سکتے میں چھوڑ کر باہر کی طرف بڑھ گیا تھا۔
” حسین چاچو! ندا کا نکاح ابھی اور اسی وقت ہو گا۔ میں کروں گا ندا سے شادی” وقار صاحب سعد کو روکنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے جب فہیم نے بلند آواز میں کہا تھا۔
جبکہ سعد کچھ بھی سنے بغیر باہر نکل گیا تھا۔ جبکہ وہاں سب ہی پریشان تھے۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا ہو رہا ہے یہاں۔
” اور انکل۔ آنٹی آپ پلیز سعد سے ناراض مت ہوئیں گا۔ اس کا کوئی قصود نہیں ہے۔ آپ پلیز اس کی بات پہلے سن لیجئے گا” فہیم نے وقار صاحب اور سعدیہ بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اس کی بات پر سب خاموش ہو گئے تھے۔ سب کے چہروں ہر گہری سنجیدگی تھی۔ چند لمحوں بعد ماحول کے تناؤ کو کم کرنے کے لئے حسن صاحب حسین صاحب کی طرف بڑھے اور ان کے ہاتھ تھام لئے۔
” بتائے بھائی۔ کیا آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟” ان کی بات پر حسین صاحب نے گہری سانس لی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ اتنا تو وہ بھی سمجھ گئے تھی کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ان سب بچوں کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ اس لئے انہوں نے ندا سے نہیں پوچھا تھا۔
رشتہ ہونے پر سب نے سکون کی سانس کی تھی۔
سعد نے وہاں سے نکل کر گاڑی گھر کے راستے پر موڑ لی تھی۔ اس کا دماغ سائیں سائیں کررہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے آج اس کے اندر سے روح کھینچ لی گئی ہو۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کمرے کا منظر گھومنے لگا۔
شعیب، آصف اور دانیال کو بے ہوش کرنے کے بعد وہ سب اوپر آگئے تھے جہاں ندا اور باقی سب موجود تھے۔
” ندا میری بات سنو۔ مجے بلکل سچ سچ بتاؤ۔ تم مجھ سے محبت کرتی ہو یا فہیم سے” سعد نے کمرے مین آتے ہی سرد انداز میں اس کے پاس آکر پوچھا تھا۔
فہیم عنایہ کو اپنے ساتھ لگائے سر جھکائے کھڑا تھا۔ عنایہ کو یہاں ان لوگوں کے رحم و کرم پر دیکھ کر اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ ندا تو اسے بھول یہ گئی تھی۔ سب وہی کررہے تھے جو سعد کہہ رہا تھا۔
سعد کی بات سن کر ندا کا سر جھک گیا تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سعد کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
” بولو ندا” سعد اس بار زور سے چیخا تھا۔ اس کی آواز سن کر موئذ اندر آگیا تھا جو باہر کال کرنے گیا تھا۔
” ائی ایم سوری سعد۔ ویری سوری۔ پلیز مجھے معاف کر دینا۔” وہ روتے ہوئے اتنا ہی بول پائی تھی۔ سعد ساکت سا اس کو دیکھے گیا۔ اس کو اپنے دماغ پر ہتھوڑے برستے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔
یہ سوری اس وقت اسے کسی مردہ کے لئے کہے جانے والا سوری محسوس ہوا تھا۔ ہاں وہ بھی تو مردہ ہی ہوا تھا اس ایک پل میں۔ اس کی بھی تو روح کھینچ لی گئی تھی۔ موئذ نے افسوس سے ندا اور فہیم کو دیکھا تھا۔
” تم نے ایسا کیوں کیا پھر میرے ساتھ۔ کسی کے سچے جزبات سے کھیلتے تمھیں زرا سی بھی شرم نہیں آئی۔ مجھے بتاؤ۔ اگر تم مجھ سے محبت نہیں کرتی تھی تو کیوں تم اس نکاح کے لئے راضی ہوگئی تھی۔ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ کوئی ایک وجہ بتاؤ۔” سعد غصے سے غراتا ہوا ندا کی طرف بڑھا تھا۔ ندا سہم کر دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔ جبکہ موئذ نے اگے بڑھ جت اسے کندھوں سے پکڑا تھا۔
” کیونکہ بدلہ لینا تھا مجھے۔ میں صرف فہیم کو دکھانے کے لئے تمھارے ساتھ رہی تھی۔ بہت غلط کیا میں نے میں جانتی ہوں۔مجھے نہہں معلوم تھا تم اتنی جلدی ہماری شادی کی بات کر کو گے۔ میں نے منگنی صرف اس لئے کی تھی تاکہ میں فہیم کو دکھا سکو کہ اس کے علاوہ بھی کوئی مجھے چاہ سکتا ہے۔ اور اس منگنی کے ذریعے کا شعوری طور ہر میں نے یہ پیغام بھی دیا تھا کہ اب بھی وقت ہے۔ اگر کچھ کر سکتے یو تو کر لو۔ مگر اس کی طرف سے ہنوز خاموشی ہی رہی۔ مجھے یہی لگا کہ شاید اب اس کے دل میں میری محبت نہیں رہی۔ شاید اسے کوئی اور مل گئی ہو۔ یہی سوچ کر میں آج نکاح کے لئے تیار ہوئی۔ منگنی سے نکاح سے ایک دن پہلے تک میں نے فہیم کا انتظار کیا۔ لیکن وہ نہیں آیا۔ اب آ گیا ہے۔ لیکن میں جانتی ہو اب اگر میں فہیم سے شادی سے انکار کر بھی دوں تب بھی اب تم کسی اور کے عشق میں مبتلا لڑکی سے کبھی شادی کروں گے۔ پلیز معاف کردینا مجھے” ندا نے پہلے چیختے ہوئے اور پھر آہستہ آواز میں سب کہا تھا۔ سعد صدمے میں اسے دیکھ رہاتھا۔
” بہت خوب۔ کمال ہے ویسے۔ آفرین ہے آپ کی سوچ پہ۔ چلیں اور چل کر سب سے معافی مانگیں آپ دونوں” موئذ نے سخت لہجے میں کہا تھا دونوں سے۔
” نہیں گھر جا کر کوئی فلحال کوئی کسی کو کچھ نہیں بتائیں گا۔ مہمانوں میں تماشہ بنانیں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بعد میں جس نے ھو بھی بتانا ہو بتا دیں مگر فلحال سب خاموش رہے گے۔” سعد نےموئذ کی بات سن کر آہستہ سے کہا تھا۔ وہ بات کرتے کرتے فہیم کے پاس آیا ” میں حسین انکل سے خود ہی نکاح نہ کرنے کی بات کر لوں گا۔ باقی تم خود ہی سنبھال لینا” وہ کسی تھکے ہوئے انسان کی طرح لگ رہا تھا۔ ایسے مسافر کی ماند جسے صحرا میں دور سے پانی نظر آئے اور قریب ہہنچنے ہر پتا چلے کہ وہ ورف آنکھوں کا دھوکا تھا اور کبھ نہیں۔
وہ اب اپنے گھر کے قریب مسجد کے باہر پہنچ چکا تھا۔ گاڑی ایک جگہ کھڑی کر کے وہ مسجد کے اندر کی طرف بڑھ گیا تھا۔ مسجد اس وقت خالی تھی۔ اس وقت اس سے بہتر آسرا کوئی نہیں تھا۔
عشاء کی نماز ادا کر کے اس نے اپنے دونوں ہاتھ اللّٰہ کی بارگاہ نیں اٹھا دیے تھے۔ کب سے ضبط کئے اس کے آنسو ہتھیلیوں پر گر رہے تھے۔
” ایسا کیوں ہوا اللّٰہ۔ کیوں۔ میں نے تو اتنی محبت جی تھی اس سے۔ تیرے بعد سب سے بڑھ کر اسے چاہا تھا۔ بدلے میں اس نے کیا کیا۔ دھوکہ دے دیا مجھے۔ محبت تو دور وہ تو اپنے دل میں میرے لئے کوئی جذبہ ہی نہیں رکھتی۔ دو سال۔۔ پورے دو سال اس نے میرے ساتھ ایک جھوٹا رشتہ رکھا۔ اور کیسے اس نے اتنی آسانی سے بول دیا کہ اس نے صرف انتقام لینے کے لئے میرے ساتھ رشتہ رکھا۔ صرف ایک بدلے کے لئے میرے ساتھ منگنی تک کرلی۔ کیا کوئی اتنا بے حس بھی ہو سکتا ہے اللّٰہ۔۔ اتنا بے حس۔ کہ کسی کے سچے جذبات روندتے ہوئے اسے زرا دکھ نہیں ہوا۔ کہ ۔۔ کہ ۔۔ایک بہت چاہنے والے کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا جائے کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی۔ بس اپنی محبت کو نیچا دکھانے کے لئے ایک جھوٹا رشتہ رکھا تم سے۔”
وہ ہچکیوں کے درمیان بول رہا تھا۔ “یا اللّٰہ۔۔ اتنا بڑا دھوکا کیوں دیا اس نے مجھے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کیا۔ کیا کوئی انتقام کے نشے میں اتنا بھی ڈوب سکتا ہے کہ کسی کو دل کو بکھرتے اسے احساس تک نہ ہو۔ کوئی اتنا بےحس کیسا ہو سکتا ہے یااللہ۔کیسے۔ تو نے اسے مجھ سے چھیننا ہی تھا تو ملایا ہی کیوں اسے مجھ سے۔ کیوں جدا کردیا اسے مجھ سے” بے اختیار اس کے منہ سے شکوہ نکل گیا۔
” معاف کردے مجھے۔ یقینا وہ میرے حق میں بہتر نہیں ہے۔ بس مجھے اب صبر دے۔یہ سب برداشت کرنے کی ۔ مجھے ہمت دے یہ سب سہنے کی۔ بے شک تو اپنے بندوں کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔ ” وہ کافی دیر اسی طرح ہاتھ پھیلائے بیٹھا رہا اور جب اس کے دل کو تھوڑا سکون ملا تو وہ وہی لیٹ گیا اور اگلے چند ہی لمحوں میں وہ دنیا و مافیا سے بیگانا ہو گیا تھا۔
فہیم اور ندا کا نکاح اور رخصتی ہو چکی تھی۔
ندا کی رخصتی فہیم کے کہنے پر اور اتنے غیر معمولی حالات کو دیکھتے ہوئے سب کی باہمی رضامندی سے آج ہی کردی گئی تھی۔
ندا کو کچھ دیر پہلے ہی فہیم کے کمرے میں لایا گیا تھا۔ سب حالات کو دیکھتے ہوئے کسی نے کوئی رسم بھی نہیں کی تھی۔ ندا اس وقت پریشان سی کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے ان کپروں میں الجھن سی ہو رہی تھی۔ اس کا کوئی کپڑا بھی یہاں نہیں تھا۔ ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی جب عنایہ دروازہ نوک کر کے اندر داخل ہوئی۔ندا کھڑی ہوگئی تھی۔ عنایہ کے چہرے پر پتھروں جیسی سختی تھی۔
“یہ کپڑے چینج کر لیں آپ۔ پھر نیچے ابو کے کمرے میں آجائیں۔ ہم سب وہی ہے۔” عنایہ نے سرد آواز میں کہا اور ہاتھ میں پکڑے کپڑے بیڈ پر رکھ کر باہر کی طرف بڑھ گئی۔
چند لمحوں بعد ندا کپڑے چینج کمرے سے باہر نکل کر تایا ابو کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی تو وہاں سب کی جامد خاموشی نے اس کا استقبال کیا۔ اتنی خاموشی میں تھوڑی ٹھوڑی دیر بعد عنایہ کی سسکیاں گونج رہی تھی۔ حسن صاحب اور شگفتہ بیگم عنایہ کے منہ سے سب سننے کے بعد ساکت بیٹھے فہیم کو دیکھ رہے تھے اور وہ سامنے دیوار کے ساتھ مجرم بنا سر جھکا کر کھڑا تھا۔دروازہ کھلنے کی آواز پر جیسے سب ہوش میں آئے تھے۔
حسن صاحب عنایہ کا سر اپنے سینے سے ہٹا کر فہیم کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ ایک لمحہ کھڑے رہنے کے بعد انہوں نے ایک زناٹےدار تھپر اس کے منہ پر مارا تھا۔ سب ہکا بکا انہیں دیکھتے رہ گئے۔
” تمھاری ہمت کیسے ہوئی کسی عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہوئے بے شرم انسان۔ تم نہ صرف ایک عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے بلکہ آج تم اپنے عزیز از جان چچا کا سر بھی سب کے سامنے جھکانے جا رہے تھے۔ کیا یہ تربیت دی ہے ہم نے تمھیں۔ بغیرت انسان۔شرم آرہی ہے مجھے تمھیں اپنی اولاد کہتے ہوئے۔ اپنی بہن کا تو خیال کیا ہوتا۔ اسے تو فخر ہونا چاہیے تھا کہ اس کے پیچھے اس کا بھائی کھڑا ہے۔ اس کی حفاظت کرنے کا ایک ذریعہ۔ مگر اب اسے خرم آرہی ہوگی تمھیں اپنا بھائی کہتے ہوئے۔ جو شخص دوسروں کی عزت خراب کر سکتا ہے اس شخص سے تو یہ امید بھی نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ کسی کی حفاظت کریں گا۔ دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔ یہ نہ ہو کہ آج میں اپنی اولاد کا قاتل بن جاؤ۔ دفع ہو جاؤ. اور سب سن لو۔ اگر یہ بات بھائی کو پتہ چلی تو اچھا نہیں ہوگا ” وہ حلق کے بل چلا رہے تھے۔ ندا سہم کر دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئی۔ جبکہ فہیم تیزی سے وہاں سے باہر نکل گیا تھا۔ حسن صاحب گہری گہری سانس لیتے وہاں صوفے پر ہی دھے گئے تھے۔
” ابو ۔ ابوو۔۔۔ آپ ٹھیک ہے نہ” عنایہ دوڑ کر ان کے پاس آئی۔
” ہاں بیٹا میں ٹھیک ہو. فکر نہیں کرو تم”
ندا مرے مرے قدموں کے ساتھ واپس اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
” ہاں غلطی میری بھی تو تھی۔ مجھے کیا ضرورت تھی فہیم کو نیچا دکھانے کی۔ اس کی ایک مزاق میں کہی بات کو دل سے لگانے کی۔ ” وہ سوچ رہی تھی۔
” تم سے کوئی لڑکا شادی تو دور تمھیں منہ لگانا بھی پسند نہیں کرے گا” تین سال پہلے کہے گئے فہیم کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے۔
اسے ندامت سی محسوس ہورہی تھی۔ اسے یونہی بیٹھے تین گھنٹے بیت چکے تھے۔ سب سو چکے تھے جب دروازہ کھول کر فہیم اندر داخل ہوا۔ اسے جاگتا دیکھ کر ایک طوفان سا اسکے اندر جاگ تھا۔ وہ دروازہ بند کر کے تیزی سے اس کی طرف بڑھا تھا۔
“سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے۔ تم۔نے مجھ سے میرے ماں باپ دوست بہن سب چھین لیا۔ سب تمھادا قصور ہے۔ تمھادا قصور ہے سب” وہ اس کا بازو پکڑے سرد لہجے میں بول رہا تھا۔ آخر میں اس کا بازو جھٹک کر اس نے دوسری طرف سے اپنا تکیہ اٹھایا اور صوفے کی طرف بڑھ گئا۔
ندا آنسو پیتی اسے صوفے پر لیٹتا دیکھتی رہ گئی۔۔
وقار صاحب اور سعدیہ بیگم ندا اور فہیم کا نکاح کی تقریب حسین صاحب کے اسرار پر اٹینڈ کرکے کھانا کھائے بغیر واپس آگئے تھے۔موئذ اور مایا بھی ان کے پیچھے آگئے تھے۔ اور گھر جاتے مسجد کے قریب ایک طرف کھڑی گاڑی بھی پہچان چکا تھا۔
” ماہی۔۔ تم گھر جاؤ۔۔ انکل آنٹی کو مختصر سب بتاؤ۔ میں سعد کے پاس ہوں۔ مسجد میں۔۔!!” موئذ نے ماہی کو بتایا اور گھر کے باہر گاڑی دوک مر ماہی کو اندر جانے کا اشارہ کیا اور خود گاڑی موڑ مسجد کی طرف بڑھ گیا۔
وہ گاڑی کھڑی کر کے اندر داخل ہوا تو وہاں سوئے ہوئے سعد پر نظر پڑتے ہی اسکے لب مسکرا دیئے۔ وہ جا کر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔
” یا اللّٰہ۔ اس کی مشکلیں آسان کر اور صبر عطا کر۔ اسے اس کے صبر کا پھل دینا” موئذ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر دل سے اس کے لئے دعا کی۔ اس کا دل کیا کہ وہ اسے ایسے ہی سوتا رہنے دے مگر مسجد کا خیال کر کے اسے اٹھا دیا۔ چند لمحوں بعد جب وہ پوری طرح ہوش میں آیا تو موئذ کو اپنے سامنے دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا اور وہ بے ساختہ موئذ کے گلے لگ گیا۔ اشک اس کی آنکھوں سے بہنے لگا۔
” چل اٹھ جا میری جان۔ سب تھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ چل گھر چلتے ہیں۔ انکل آنٹی انٹی آنتظار کررہے ہیں۔ مایا نے انہیں سب بتا دیا ہے۔” موئذ بچوں کی طرح سعد کو پچکارتا اسے کھڑا کرنے لگا۔ اور پھر وہ دونوں گھر کی طرف چل پڑے۔
ایک سال بعد۔۔۔!!
شعیب والے واقعے کے بعد سے موئذ نے مایا کا رشتہ ڈھونڈنے شروع کر دیا تھا کیونکہ وہ مزید کوئی بھی رسک نہیں لے سکتا تھا۔ وہ مایا کے پیپرز ہوتے ہی اس کا رشتہ فائنل کردینا چاہتا تھا مگر ایک سال میں یہ چھوتھا رشتہ تھا جو سب فائنل ہونے کے بعد ریجکٹ ہو چکا تھا اور یہ بات وہ دونوں ہی جانتے کہ اس کے پیچھے شعیب کا ہاتھ ہے جو کسی نہ کسی طرح رشتہ والوں تک پہنچ کر مایا کے متعلق کہانی گھڑ تا اور ساتھ ہی اس دن وہاں خفیہ کیمرے سے کھینچی گئی تصویرے دکھا دیتے۔
مایا اس وقت اپنے روم میں بیڈ پر نیم دراز چھت کو گھورتی زوچوں کے ایک جہان میں گم تھی جب دروازہ نوک کرتی عنایہ اندر داخل ہوئی۔ اس واقع کے بعد بھی ان دونوں کی دوستی میں موئی فرق نہیں آیا تھا۔ مایا کو اس کی آمد کا احساس نہیں ہوا تھا۔ عنایہ افسوس سے اسے دیکھتی چلتی ہوئی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
” مایا نے چونک کر اسے دیکھا۔
” ماہی” اس نے نرمی سے اس کے ہاتھ تھام مر کہا۔
” ماہی کیا ہو گیا ہے یار۔ ہر بات کو سر ہر سوار کیوں کر لیتی ہو۔ عمر نکل گئی ہے کیا تمھاری جو اس طرح منہ لٹکا کر بیٹھی ہو؟” عنایہ نے غصے سے کہا تو مایا نے اس کی گود نیں سر رکھ دیا۔
” آنی۔عمر نہیں نکلی جس طرح متواتر سے رشتے ختم ہو رہے ہیں مجھے اب خوف آنے لگا ہے۔ میرا بھائی میری وجہ سے پریشان ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے میرے اوپر اب داغ لگ چکا ہو جو پوری دنیا آرام سے دیکھ سکتی ہو” وہ آہستہ سے بولتی چپ ہوگئی۔
” بہت افسوس ہوا تمھاری یہ سوچ جان کر مجھے۔ کم از کم مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔وہ بندی جو گہرے سیاہ اندھیرے میں بھی اللّٰہ سے روشنی کی امید رکھتی تھی وہ اب ہلکے سے اندھیرے سے ہی ڈر گئی۔نا امید ہوگئی۔ مایوس ہوگئی۔ تمھیں پتہ ہے چیزوں کا خوف، انسانوں کا خوف صرف وہی ہم پر ہاوی ہوتا ہے جہاں ہم اللّٰہ کی طرف سے ناامید ہوجاتے ہیں۔ ناامیدی مایوسی کو کہتے ہے۔ اور مایوسی کفر ہے۔ ہم مایوسی کو خوف کا نام دے کر خود کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں۔ دھوکے میں رکھتے ہیں خود کو کہ میں بس خوفزدہ ہوں مایوس نہیں ہوں۔۔ جب مایوسی ہی نہیں،، جب اللّٰہ لر پورا یقین تو پھر ڈر خوف کس بات کا۔ جیا تمھیں اپنے اللّٰہ پر یقین نہیں ہے کہ وہ تمھارے ساتھ اپنے بندے کے ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں کریں گا۔ شکر کروں کہ وہ پہلے ہی انکار کردیتے ہیں۔ شادی کے بعد وہ تمھیں طنز و طعنوں کے تیر مار کر تمھاری روح کو زخمی کرکے دھتکار نکیں دیتے۔ شکر کروں کہ ایسا نہیں ہوا۔ اور وبر رکھوں کہ ایک دن کوئی آئے گا جو تمھاری سچائی ہر یقین کریں گا۔ دوسروں کی باتوں میں نہیں آئے گا۔ جو تمھارے حق میں بہتر ہوگا۔ بس صبر رکھو اور شکر کرو۔” عنایہ اسے سمجھانے لگی اور ناہی کو اس کی باتیں اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی۔ اسے اپنا آپ ایک دم ہلکا محسوس ہوا۔
” صیحح کہہ رہی ہو یار تم۔ میں واقعی مایوس ہو گئی تھی۔ اللّٰہ معاف کریں مجھے۔ انشاءاللہ سب ٹھیک ہوگا” مایا نے گہری سانسے کر اٹتے ہوئے کہا۔
“انشاء اللہ.. چلو اٹھو اب۔ حلیہ ٹھیک کرو اپنا۔ پوری چڑیل لگ رہی ہو۔ چلو۔۔ پھر لڈو کھیلے گے” عنایہ نے ماحول کو ہلکا کرنے کے لئے کہا۔ جس پر مایا مسکراتی ہوئی اٹھ کر الماری کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ عنایہ نے گہری سانس لے کر اسے دیکھا۔