“حماد!!حماد!!۔۔۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ مجھے حماد کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔حماد!!” سرجری کرکے اس کے کندھے سے گولی نکال دی گئی تھی۔۔۔۔۔ اسے پورے تین دن بعد ہوش آئی تھی اور تب سے بس حماد کو ہی پکارے جارہی تھی۔۔۔۔۔ نرسز سے اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔
“جاؤ اس کے بھائی کو بلا کر لاؤ!” سنیر نرس نے جونیر کو حکم دیا تھا جو فوراً نکلی تھی۔
شزا کی کنڈیشن کو مدنظر رکھتے وہ اسے نیند والا انجیکشن بھی نہیں دے سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سر آپ کی سسٹر۔۔۔۔۔۔ ہوش میں آگئی ہے وہ۔۔۔۔ بہت واویلا مچارہی ہے۔۔۔۔۔ اپنے شوہر کو بلارہی ہے۔۔۔۔۔۔ ہمارے لیے انہیں سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے۔۔۔۔۔آپ پلیز جلدی آئیے!” جازل جو کیفے میں کافی پینے آیا تھا نرس کی بات سنتا فوراً وہاں سے نکلا تھا۔
تیز تیز قدم اٹھاتا وہ کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں وہ چیختی چلاتی بس حماد کو پکارے جارہی تھی۔
جازل کی آنکھیں پل بھر میں نم ہوئیں تھی۔
“بھابھی” دھیمی آواز میں اس نے شزا کو پکارا تھا جو بس چلائے جارہی تھی۔
“بھابھی” اب کی بار پکار اونچی تھی۔
“جج۔۔۔جازل۔۔۔۔۔جازل تم، حماد۔۔ حماد کہاں ہے جازل؟ مجھے، مجھے اس کے پاس جانا ہے جازل۔۔۔۔۔۔۔ یہ جانے نہیں دے رہے، بتا بھی نہیں رہے،۔۔۔۔۔ مجھے حماد کے پاس لیجاؤ!” التجائی انداز میں وہ روتے ہوئیے بولی تھی۔
“بھائی۔۔۔۔۔۔بھائی ٹھیک ہے بھابھی۔۔۔۔۔”
“نہیں۔۔وہ نہیں ٹھیک، اسے۔۔اسے گولی لگی تھی جازل۔۔۔۔ وہ، وہ خون میں بھیگا ہوا تھا۔۔۔۔۔ میں دیکھا تھا، وہ تکلیف میں تھا۔۔۔۔ مجھے اس کے پاس لےکر جاؤ” اب کی بار وہ چلائی تھی۔
“بھائی ٹھیک ہے بھابھی، آپ پلیز ریلیکس کیجیئے۔۔۔۔۔ میں، میں آپ کو لیجاؤ گا۔۔۔۔۔ آپ پلیز اپنی طبیعت خراب نہ کرے، بےبی کی صحت پر اثر پڑے گا” جازل نے نہایت تحمل سے اسے سمجھایا تھا، جس پر شزا بھی نارمل ہوتی سر اثبات میں ہلاگئی تھی۔
“اب آپ ریسٹ کیجیئے۔۔۔۔” وہ اسے نصیحت کرتا مڑا تھا۔
“کب،کب لیجاؤ گے۔۔۔۔۔ مجھے، مجھے تکلیف ہورہی ہے یہاں” اسے نے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔
“اسے کچھ ہوا تو نہیں نا؟” جازل کی پیٹھ اس کی جانب تھی، سر نفی میں ہلائے وہ کمرے سے نکل گیا تھا۔
مزید دو دن ہسپتال رہ لینے کے بعد اسے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔
اس تمام عرصے میں کوئی بھی اس سے ملنے نہیں آیا تھا صرف جازل ہی تھا جو چوبیس گھنٹے اس کے پاس رہتا تھا۔
“ہم کہاں جارہے ہیں۔۔۔۔ حماد، حماد پاس جانا ہے نا؟” ڈسچارج پیپرز دیکھ وہ چونکی تھی۔
“وہ حماد بھائی یہاں نہیں ہے انہیں شفٹ کردیا گیا تھا اسی لیے” اس نے نظریں چرائی تھی۔
“کیوں؟” وہ چونکی
“بھابھی دیر ہورہی ہے ہمیں چلنا چاہیے” اس کے سوال کو اگنور کرتا وہ گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔
“جازل!!۔۔۔۔۔گھر سے کوئی ملنے کیوں نہیں آیا؟” آس پاس کے نظاروں میں گم اس نے سوال کیا تھا۔
“وہ دراصل بھابھی۔۔وہ سب، وہ سب حماد کے پاس ہیں!” جازل کی بات پر اس نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا تھا۔
“یہ، یہ ہم کہاں جارہے ہیں؟” اسے قبرستان کی جانب گاڑی موڑتے دیکھ وہ چونکی تھی۔
جازل نے بنا کوئی جواب دیے گاڑی قبرستان کے باہر روکی تھی۔
بنا کچھ بولے گاڑی سے نکلے اس کی جانب کا دروازہ کھولے جازل نے اسے باہر نکلنے کا اشارہ کیا تھا۔
“نہیں۔۔جج۔۔۔جازل نہیں۔۔۔یہ، یہ سچ نہیں۔۔۔۔” سیٹ بیلٹ کو سختی سے تھامے اس نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“بھابھی پلیز۔۔۔” اس کا ضبط ٹوٹ رہا تھا، آنکھوں میں نمی آنا شروع ہوگئی تھی۔
کانپتی ٹانگوں سمیت گاڑی سے نکلتی وہ جازل کی قیادت میں اس سنسان نگر میں داخل ہوئی تھی۔
نمکین پانی بھری آنکھوں سے اس نے ان تمام قبروں کو دیکھا تھا۔
اس کا ہاتھ تھامے جازل اسے ایک قبر کی جانب لیکر آیا تھا جو ابھی تازہ ہی تھی۔
“حماد شبیر زبیری” نام پڑھتے ہی جازل کا ہاتھ چھوٹا،۔۔۔۔۔ وہ زمین پر ڈھہہ گئی تھی۔
“ایم سوری” آنسوؤں کو پیچھے دھکیلے وہ وہاں سے چھ قدم دور ہوا تھا۔
“حماد” قبر پر ہاتھ پھیرے اس کا نام لیا تھا۔
“حماد۔۔۔” وہ سسکی تھی۔
“حماد!!” اب کی بار اس کا نام پکارتی وہ رو دی تھی۔
“حماد اٹھو پلیز۔۔۔۔۔ حماد، حماد نہیں کرو۔۔۔۔۔ حماد” چیختے چلاتے اس نے قبر کی مٹی کی کھودنا شروع کردیا تھا۔
جازل اس کی حرکت دیکھ بھوکلاتا فوراً آگے بڑھا اور اسے تھاما مگر وہ اس کی قید میں مچلنے لگ گئی تھی۔
“چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔ چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔ حماد۔۔ مجھے میرے حماد کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑووووو” اس کی گرفت میں چیختی چلاتی وہ اپنے بال نوچنا شروع ہوگئی تھی۔
آس پاس موجود چند ایک افراد نے افسوس سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔ مگر دور کھڑے اس شخص کی آنکھیں اس کی ایسی حالت دیکھ سرخ انگارہ ہوئیں تھی۔
“حماد۔۔۔۔حماد۔۔۔۔۔۔۔حماد نہیں کرو۔۔۔۔ اٹھ جاؤ حماد۔۔۔۔ حماد پلیز۔۔۔۔۔۔۔ حمادددد” جازل اسے کھینچتا ہوا قبرستان سے باہر لیجانے لگا جب کہ اس کی چیخ و پکار مزید اونچی ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن آتے ہی ان دونوں نے ہر طرح سے گڑیا کے بارے میں معلوم کرنا شروع کردیا تھا مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا تھا۔۔۔۔ نجانے شبیر زبیری نے اسے کہاں چھپایا ہوا تھا۔۔۔۔
صرف کچھ دنوں میں وہ مکمل طور پر چکرا کر رہ گئے تھے۔
“سر۔۔۔۔” ان کا ایک ماتحت پھولی سانسوں سمیت بھاگتا ہوا ان کی جانب آیا تھا۔
“کیا ہوا تم اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہو؟” سنان چونکا تھا۔
“سر وہ شبیر زبیری۔۔۔۔۔ سر وہ اس کے بیٹے اور بہو پر کسی نے قاتلانہ حملہ کروایا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں اس وقت آئی۔سی۔یو میں ہیں” وائے۔زی جو ہاتھ میں پین تھامے اسے گھمانے میں مصروف تھا پین فوراً اس کے ہاتھ سے چھوٹ زمین پر گرا تھا جبکہ اس کا رنگ پل بھر میں بدلا تھا۔
“ڈیم اٹ۔۔!” سنان نے زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا تھا۔
اگر ان دونوں میں سے کسی کو کچھ ہوجاتا تو الزام ارحام شاہ اور اس کے آدمیوں پر آجانے کے چانسز تھے کیونکہ وہ اس وقت لندن میں موجود تھے اور دونوں گینگز کے درمیان سرد جنگ سے ہر کوئی واقف تھا، جس کا مطلب تھا ایک بڑی جنگ۔
“شٹ” سنان نے بالوں کو جکڑا جبکہ وائے۔زی وہ ابھی تک سناٹوں کی زد میں تھا۔
“شزا!!” اس کے لب پھڑپھڑائے۔۔۔ تیزی سے گاڑی کی چابی اٹھاتا وہ وہاں سے نکلا تھا۔۔
سنان اسے پیچھے سے آوازیں دیتا رہ گیا جنہیں وہ اگنور کرچکا تھا۔
رات ہونے کو آئی تھی مگر وائے۔زی کا کچھ اتا پتہ نہ تھا۔ سنان اسے کالز پر کالز کرتا تھک چکا تھا مگر بےکار۔
“سر۔۔۔۔۔۔ایک بری خبر ہے!” اس کا ماتحت فوراً وہاں آیا تھا۔
“کیا؟” وائے۔زی کو کال ملائے بنا اس کی جانب دیکھے اس نے سوال کیا تھا۔
“سر وہ حماد شبیر زبیری۔۔۔۔۔ سر اس کی ڈیتھ ہوگئی ہے۔۔ ابھی ابھی!” اس کی بات سن سنان نے آنکھیں بند کیے خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا۔
“اور سر ایک اور بات۔۔۔۔۔ سر باتیں پھیلنا شروع ہوگئیں ہیں کہ یہ سب ارحام شاہ کے آدمیوں کا کام ہے!” اب کی بار سنان کا دل چاہا وہ اپنا سر پھاڑ لے۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ شبیر زبیری سے ڈرتا تھا مگر فلحال وہ کسی ڈرامے کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔
“کم آن وائے۔زی پک اپ دی کال!” ماتھا مسلے اس نے وائے۔زی کو ایک بار پھر سے کال ملائی تھی جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتال کی پارکنگ میں موجود گاڑی میں بیٹھا نجانے وہ کتنی سیگرٹس پھونک چکا تھا۔
اس کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھی جبکہ دماغ میں اٹھتی ٹیس اسے الگ تکلیف دیے ہوئی تھی۔۔۔۔۔ بےبسی سے اس نے سامنے موجود اس شاندار عمارت کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے اتنے قریب ہوکر بھی اس کی پہنچ سے کتنی دور تھی۔۔۔۔۔ یک طرفہ محبت کی اذیت میں عجب لذت ہوتی ہے جس کا ذائقہ اس نے چکھا تھا۔
وہ چاہتا تھا تو اس کے پاس جاسکتا تھا مگر خود کو یہ اذیت دینا اس نے بہتر سمجھا تھا۔۔۔۔۔ اس کے سسرال والے حماد کی ڈیڈ باڈی لیجا چکے تھے مگر کسی نے بھی پلٹ کر شزا کا حال تک نہ پوچھا تھا۔۔۔۔ اسے صرف جازل کو ہی اس کے پاس پایا تھا۔
پانچ دنوں سے وہ سب سے غافل تھا حتیٰ کہ خود سے بھی۔۔۔۔ دل و دماغ میں بس وہی سوار تھی۔
آج پانچ دنوں بعد اس نے اسے جازل کے ساتھ گاڑی کی جانب جاتے دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک الگ ہی روشنی تھی۔۔۔
کیا اسے حماد کے متعلق نہیں معلوم تھا؟۔۔۔ شائد نہیں۔۔۔ اور جب معلوم ہوگا تب؟
یہ سوچیں اسے مزید اذیت سے دوچار کررہیں تھی۔
اپنی گاڑی ان کی گاڑی کے پیچھے، مگر زرا فاصلے پر لگائے وہ قبرستان تک جاپہنچا تھا۔
اس کا کانپنا۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں موجود خوف۔۔۔۔ اس کا حماد کی قبر پر رونا، چیخنا چلانا۔۔۔۔۔ کچھ بھی اس کی نگاہوں سے مخفی نہ تھا۔
وہ تکلیف میں تھی تو وہ بھی تکلیف میں تھا۔
نظریں بھٹک بھٹک کر اس کے زخمی کندھے پر جارہی تھی جہاں سے خون رسنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ اس کے سٹیچیز کھل گئے تھے۔۔۔۔ پٹی خون سے بھر گئی تھی۔۔۔۔۔ مگر وہ اپنی تکلیف سے بےپرواہ بس حماد کو پکارے جارہی تھی۔
وائے۔زی نے سختی سے لب بھینچے تھے۔۔۔
سر جھکاتا وہ اس کے پاس سے گزرتا قبرستان کی حدود پار کرگیا تھا۔
گاڑی کی جانب جاتے اسے ایک بار پھر سے سنان کی کال آئی تھی جو اس بار اٹھا لی گئی تھی۔
“وائے۔زی کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔ کب سے کالز کررہا ہوں۔۔ اٹھا کیوں نہیں رہے۔۔۔۔۔ کیوں پریشانی دے رہے ہو مجھے؟” سنان اسے پر چڑھ دوڑا تھا
“آ رہا ہوں” اس نے جواب دیا۔
“مگر تم۔۔۔۔” سنان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس نے کال کاٹ ڈالی تھی۔
فلحال وہ کسی کو سننے کے موڈ میں نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شزا کی دوبارہ پٹی کرواتا وہ اسے گھر لے آیا تھا جو پورا کا پورا سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔
افسوس کرنے والے ابھی بھی آرہے تھے۔
اسے سہارا دیے جازل لاؤنج میں آیا تھا جب ایک تیز آواز ان کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔
“یہ۔۔یہ لڑکی یہاں کیا کررہی ہے؟ تم اسے گھر کیوں لائے جو جازل؟ کیا تمہیں نہیں معلوم یہ ڈائن ہے؟ میرا بچہ چھین لیا اس نے اور اس کی ہونے والی منہوس اولاد نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے نکالو یہاں سے۔۔۔۔۔ کیوں لائے ہو یہاں!” مسز زبیری اسے دیکھ کر بھڑک چکی تھی۔
“تائی امی کیا کررہی ہے آپ۔۔۔۔ بھابھی کی حالت تو دیکھے” جازل افسوس سے بولا تھا۔
“ارے سب ڈرامہ ہے اس کا۔۔۔۔۔۔ اسی نے مارا ہے میرے بیٹے کو۔۔۔۔ اگر یہ اس دن مال نہ جاتی تو کیا ہوجاتا؟ مگر نہیں اسے تو جانا تھا۔۔۔۔ میرا بچہ، میرا بچہ مرگیا، اس نیچ، فحاشہ عورت کی وجہ سے!” وہ اور اونچا چلائی تھی۔
“بھابھی۔۔۔۔” ان کے سخت الفاظ سن جازل کی ماما نے انہیں ٹوکا تھا جبکہ شزا سسکی تھی۔
“کیا بھابھی؟ سچ بول رہی ہوں۔۔۔۔ نیچ فحاشہ ہی تو تھی یہ۔۔۔۔۔ ارے کیسے میرے بیٹے سے شادی کرنے سے پہلے بار میں ناچ ناچ کر لوگوں کو اپنا جسم دکھاتی تھی۔۔۔۔ انہیں گناہ پر اکساتی تھی۔۔۔۔۔۔ گھٹیا عورت۔۔۔۔۔” ساتھ ہی ایک تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا تھا انہوں نے۔
اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی جازل اسے سنبھال چکا تھا۔
“پلیز تائی۔۔ تھوڑا خیال کیجیئے۔۔۔۔۔۔ حماد بھائی کی بیوی، ان کی بیوہ ہے یہ۔۔۔۔۔۔ ان کی محبت، ان کے ہونے والے بچے کی ماں!” جازل خود پر ضبط کیے بولا تھا۔
“میرے حماد کا بچہ؟ نہیں۔۔۔۔ نہیں ہے یہ میرے حماد کا بچہ۔۔۔ یہ ضرور اس فحاشہ کی کالی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔ تبھی تو اپنے جیسی فحاشہ اولاد پیدا کرنے جارہی ہے۔۔۔۔۔۔ بتا مجھے کس کی اولاد ہے؟ کس کا گند ہمارے سر پر تھوپ رہی ہے تو؟” اسے مارنے کو مزید آگے بڑھی تھی مگر جازل بیچ میں آگیا تھا۔
“بس تائی امی، بس کردے۔۔۔ اب آپ حد پار کررہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ ان کے کردار پر کیچڑ اچھال رہی ہے، بہتان لگا رہی ہے۔۔۔۔ مت کرے!”
“تمہیں بڑی آگ لگ رہی ہے؟ کیوں؟ کہی اس کے وجود میں پلتا بچہ تمہارا تو نہیں؟”
“بھابھی!!”
“تائی!!” دونوں ماں بیٹا کی حیرت میں ڈوبی آواز گونجی تھی۔
“کیا ہاں؟ سچ ہے نا یہ؟ بتاؤ سچ ہے نا؟”
“تایا ابو سنبھالے تائی امی کو اب میں مزید برداشت نہیں لاسکتا!” اس نے تب سے خاموش کھڑے شبیر زبیری کو متوجہ کیا تھا۔
شزا تو اس قدر گھٹیا اور غلیظ بہتان پر چکرا کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔ اس کی طبیعت مزید خراب ہوگئی تھی۔
اس سے پہلے وہ بیہوش ہوتی زمین بوس ہوتی جازل نے آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا۔
“بھابھی۔۔۔۔ بھابھی” ایک بار پھر تاریکی کو گلے لگاتے اس نے یہ الفاظ سنے تھے۔
“حماد!” مکمل طور پر اندھیرے میں جانے سے پہلے اس کے لب ہلے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دیکھیے آپ کے پیشنٹ کو ذہنی دھچکا لگا ہے اور اوپر سے ایسی کنڈیشن جب ان کے ساتھ مزید دو جانیں جڑی ہوئی ہیں۔۔۔۔ نروس بریک ڈاؤن ہوسکتا تھا!” شزا کا چیک اپ کرتی ڈاکٹر باہر نکل کر ان پر برسی تھی۔
“دو جانیں؟” شبیر زبیر کا دماغ بس یہی اٹکا تھا۔
“مگر ڈاکٹر میری بہو کا تو بس ایک بچہ ہے وہ بھی لڑکی۔۔۔ تو پھر یہ دو؟” شبیر زبیری نے چونک کر سوال کیا تھا۔
وہ اور جازل دونوں اسے ہسپتال لیکر آئے تھے۔
“جی دو۔۔ ٹوئینز۔۔۔۔ اور جہاں تک بات رہی ایک کی تو عموماً الٹراساؤنڈ کی رپورٹ غلط بھی نکل آتی ہے۔۔۔۔ شائد اس وقت دوسرا بےبی شو نہ ہوا ہوں۔۔۔۔ مگر اب جو ٹیسٹ کیے گئے ہیں اس کے مطابق ان کے ٹوئینز ہیں!” ڈاکٹر کی بات سن شبیر زبیری کا دماغ ایک بار پھر چلنا شروع ہوگیا تھا۔
“ڈاکٹر کیا، کیا صنف جان سکتا ہوں میں؟”
“شیور۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں معلوم ہوجائے گا!” شبیر زبیری نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
اس تمام عرصے میں دیوار سے ٹتیک لگائے کھڑا جازل بس ان کی سنے جارہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد الٹراساؤنڈ کی رپورٹ انہیں ملی تھی جس کے مطابق ایک بیٹا اور دوسری بیٹی تھی۔
ایک کمینی مسکراہٹ نے شبیر زبیری کے لبوں کو چھوا تھا۔
کیا ہوا اگر بیٹا مرگیا، پوتا آرہا تھا نا بہت جلد کردیتا کمی کو پورا!
اپنی سوچ پر ان کا قہقہ لگانے کو دل چاہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اور جازل تھوڑی دیر بعد ہی شزا کو لیے دوبارہ گھر آگئے تھے۔۔۔۔ کمرے کی سمت جاتی شزا کی نظر اچانک سامنے دیوار پر گئی تھی جہاں اس کی اور حماد کی شادی کی تصویر بڑی کرکے فریم کروائی گئی تھی مگر اب وہ غائب تھی۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں بھرآئیں تھی۔
“چلو بیٹا کمرے میں چلے!” جازل کی ماما نے آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا۔
“بھابھی اسے کمرے میں لیجائے۔۔۔۔ میں زرا آیا۔۔۔” ان کا اشارہ سمجھتی وہ سر ہلائے اسے سہارا دیے وہاں سے جا چکی تھی۔
اسے تھامے وہ اسے اس کے اور حماد کے کمرے میں لے آئی تھی۔
کمرہ دیکھ اس کی آنکھیں پھر سے بھر آئیں تھی۔۔۔۔ کچھ ماہ پہلے وہ اس کمرے میں اس کی بیوی بن کر آئی تھی اور آج بیوہ۔
“اب تمہیں اسی کمرے میں اپنی عدت گزارنی ہے۔۔۔۔۔ کوشش کرنا کہ کمرے سے باہر کم سے کم نکلو تاکہ تم جازل یا بھائی صاحب کے سامنے نہ آ پاؤ۔۔۔۔ باقی رہی بھابھی کی بات تو انہیں سنبھال لے گے ہم!” اسے بیڈ پر بٹھائے انہوں نے ہدایت دی تھی جس پر اس نے صرف سر ہلایا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں انہیں شبیر زبیری کے کمرے سے اونچا اونچا چلانے کی آواز آئی تھی۔
“تم آرام کرو میں کچھ کھانے کو بھجواتی ہوں تب تک تم شاور لے لو!” اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتی وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔
مردہ قدم اٹھاتی وہ ڈرسینگ روم کی جانب بڑھی تھی جب اپنے کپڑے نکالے اس کے ہاتھ میں حماد کی ایک شرٹ آگئی تھی۔
شرٹ کو ہاتھ میں تھامے نجانے کتنے اشک اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔
شرٹ سینے سے لگاتی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
لبوں پر بس ایک ہی گزارش تھا کہ “حماد واپس آجاؤ!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ کا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا۔۔۔ آپ کیسے اس حرافہ، فحاشہ کو اس گھر میں رکھ سکتے ہیں؟” شبیر زبیری کی بات سنتی وہ ہتھے سے اکھڑی تھی۔
“بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔ بس کچھ ماہ کی بات ہے ویسے بھی کونسا ہمیشہ کے لیے یہاں رکھنا ہے۔۔۔ ایک بار بچے ہوجانے دو پھر نکال پھینکے گے باہر اسے!” شبیر زبیری سمجھاتے بولے تھے۔
“مجھے ان بچوں سے کوئی غرض نہیں۔۔۔۔۔ اللہ جانے کس کا گند ہمارے سر پر ڈال رہی ہے؟” وہ بھڑکی تھی۔
“بےوقوفی والی باتیں نہیں کرو۔۔۔۔ ہمارے حماد کے بچے ہیں وہ۔۔۔۔۔ کیا چاہتی ہو تم آخر؟ بیٹا تو چلا گیا اب کیا پوتا، پوتی سے بھی ہاتھ دھونا چاہتی ہو؟ دیکھو بیگم ہم نے اپنے بیٹے اور بیٹی دونوں کو کھویا ہے۔۔۔۔۔ اپنی دو اولادیں کھوئی ہیں ہم نے۔۔۔۔ اب ہمیں ان کا بہترین نعم البدل مل رہا ہے۔۔۔۔۔ پوتا پوتی کے روپ میں کیا گنوانا چاہتی ہو انہیں؟” شبیر زبیری کی اس بات پر کچھ کچھ بات ان کی بھی عقل میں سمائی تھی۔
“ٹھیک ہے مگر صرف بچوں کے پیدا ہونے تک اسے یہاں برداشت کروں گی میں” انگلی اٹھائے انہوں نے وارننگ دی تھی۔
“ٹھیک جیسی تمہاری مرضی!” انہوں نے حامی بھری۔
“ہمم۔۔۔۔ جاتی ہوں کمرے میں، دیکھو تو زرا آخر کیا کررہی ہے!” انہیں بولے وہ کمرے سے باہر نکلی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ سب کیا ہے؟” میڈ کو ٹرالی سیٹ کرتے دیکھ انہوں نے سوال کیا تھا۔
“بھابھی وہ شزا کے لیے کھانا اور دودھ بھیج رہی ہوں!” ان کے جواب پر مسز زبیری نے سر ہلایا تھا۔
“تم آؤ!” میڈ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی وہ شزا کے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔
“اللہ خیر” جازل کی ماما نے پیچھے سے اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ارے واہ بھئی واہ، میں تو سمجھی تھی شوہر کی جدائی میں بیچاری رو رہی ہوگی، تکلیف میں ہوگی۔۔۔۔۔ تو چلو کیوں نہ تھوڑا غم ہلکا کر آؤ مگر یہاں تو بناؤ سنگھار سے ہی فرصت نہیں کسی کو!” وہ جو شاور لیکر آئی تھی اس کے کانوں سے سخت آواز ٹکڑائی تھی۔
مسز زبیری نے حقارت سے اسے دیکھا جو نیوی بلو فراک زیب تن کیے ہوئے تھی۔
“بات سنو بی بی تمہارا شوہر مرا ہے، مکلاوا نہیں ہے۔۔۔۔۔ جو یوں تیار کھڑی ہو!۔۔۔۔ جاؤ کپڑے بدلو!”
وہ سر ہلاتی دوبارہ ڈریسنگ کی جانب بڑھی تھی مگر مسئلہ یہی تھا کہ تمام کپڑے خوبصورت سے خوبصورت ترین تھے۔
“اب کہاں دفعان ہوگئی۔۔۔ آبھی چکو!” ان کی پاٹ دار آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔
“وہ۔۔۔ وہ کوئی کپڑے نہیں” اس کی بات سمجھتے انہوں نے ہنکارہ بھرا تھا۔
“سنو اپنے سارے پرانے کپڑے کل لانا اور اسے دیکر وہ نئے والے لیجانا۔۔۔ بلکہ ایسا کرنا اپنے لیے رکھ لینا!” انہوں نے میڈ کو ہدایت دی تھی۔
جہاں شزا کا چہرہ اہانت سے سرخ ہوا تھا وہی میڈ کو بھی افسوس ہوا تھا ان کی بات سن کر۔
“اور تم۔۔ میری ایک بات غور سے سن لو۔۔۔۔۔۔ بیٹا تو تم میرا مار ہی چکی ہو۔۔۔۔۔مگر اگر میرے پوتے یا پوتی کو کچھ ہوا تو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں گی میں تمہارے۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھی!” اس کے بازو کو سختی سے پکڑے انہوں نے سوال کیا تھا جس پر اس نے تیزی سے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرنا اور یہ کھانا پورا کھالینا۔۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ تمہاری وجہ سے میرے بیٹے کی اولاد کو کچھ ہو۔۔۔۔!” اسے آخری تنبیہ کرتی وہ وہاں سے جاچکی تھی۔
ان کے جاتے ہی وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ ٹپ ٹپ کرتے آنسو قالین پر جاگرے تھے۔
بےبسی ہی بےبسی اسے چار سو نظر آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ویل ڈن میم، ماننا پڑے گا آپ کم عرصے میں بہت اچھے سے سب کچھ سیکھ چکی ہے!” اس کی کاپی دیکھ کریم نے شاباشی دی تھی جس پر وہ کھل کر مسکرائی تھی۔
کریم اسے آج کل ٹینز سکھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ پریسنٹ ٹینز وہ اسے سکھا چکا تھا اور اب پاسٹ شروع کیے تھے۔
“کریم ایک سوال پوچھوں آپ سے؟” گھٹنے پر سر رکھے اس نے کریم کو دیکھا جو اس کی کاپی پر نئے جملے لکھ رہا تھا۔
“جی پوچھیے!” وہ مصروف سا بولا۔
“آپ مجھے میم کیوں بلاتے ہے؟”
“کیونکہ آپ میرے سر کی بہن ہے”
“آپ مجھے میم نہ بلایا کرے، مجھے اچھا نہیں لگتا!” اس نے منہ بنایا تھا۔
“اچھا تو کیا بلاؤں؟” اب وہ اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
“زویا!۔۔۔۔۔ زویا نام ہے میرا۔۔۔۔ زویا بلایا کیجیے!”
“اچھا نہیں لگتا میم!” اس نے سر جھٹکا
“مگر مجھے اچھا لگے گا۔۔۔۔ پلیز، پلیز!” آنکھیں پٹپٹاتی وہ معصومیت سے بولی تھی۔
“اوکے”
“اوکے؟”
“اوکے زویا!” آخر کار اس کا نام ادا کردیا گیا تھا، زویا دوبارہ بھرپور مسکرائی تھی۔
“اب آگے پڑھے؟” کریم کے سوال پر اس نے جھٹ سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کافی بناتے غصیلی نگاہوں سے اس نے کونے میں بنی ٹیبل پر بیٹھے معتصیم کو گھورا تھا۔۔۔۔۔ وہ روزانہ ہی اس کافی شاپ پر آجاتا اور ماورا کی ہی سرونگ ٹیبلز میں سے کسی ایک پر بیٹھتا تھا۔
مگر آج اس نے حد کردی تھی۔۔۔۔ آج جب وہ آیا تو ماورا کی تمام سرونگ ٹیبلز فل تھی۔۔۔ ایسے میں اس نے دو کالج سٹوڈنٹس کو ڈرا دھمکا کر وہ ٹیبل خالی کروائی تھی اور اب خود مزے سے وہاں بیٹھا ہوا تھا۔
“تمہاری کافی!” زور سے کافی ٹیبل پر پٹخے وہ دانت پیستی بولی تھی۔
اب تو معتصیم کو اس کے کافی دینے کے اس انداز کی عادت ہوگئی تھی۔
کافی لبوں سے لگائیں اس نے گھونٹ بھرا تھا، جو بہت مشکل سے ہی اندر نگلا تھا اس نے۔۔۔۔۔ کافی آج حد سے زیادہ کڑوی بنائی گئی تھی۔
“اہمم۔۔۔ کیا بات ہے اتنی مٹھاس؟۔۔۔ کیا مجھے پیش کرنے سے پہلے خود چکھی تھی؟” شرارت سے بولتے اس نے مزید ایک گھونٹ بھرا تھا جو حلق میں ہی اٹک گیا تھا مگر وہ ڈھیٹ بنتا پی رہا تھا۔
“مرو تم!” جب ماورا کو اپنی مرضی کا ری۔ایکشن نہ ملا تو غصے سے بڑبڑائی۔
“تم پر؟ وہ تو پہلے کا ہی مر چکا ہوں!” مسکراتا وہ مزید آگ لگا چکا تھا۔
“تم۔۔تم۔” جب کوئی جواب نہ بن پایا تو پیر پٹختی وہاں سے نکل گئی۔
“ہاں ہاں معلوم ہے بہت ہینڈسم ہوں!” پیچھے سے مسکرا کر بولتا وہ آگ بڑھا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سر ان کے بارے میں معلوم ہوچکا ہے!” فہام جونیجو کے ایک آدمی نے اسے اطلاع دی تھی۔
“کہاں؟” وہ فوراً سیدھا ہوا
پہلے پہل اس نے صرف ماورا کو کھوجنا چاہا تھا مگر کچھ سوچتے ہوئے اس نے ماورا کی جگہ معتصیم کو ڈھونڈنے کا حکم دیا۔
“سر پاکستان۔۔۔۔ باقی کی ڈیٹیلز یہ رہی!” ایک فائل اس کے سامنے رکھی تھی جس میں ان دونوں کی کیفے کی کچھ تصاویر تھی۔
“تم نے مجھے ڈبل کراس کرکے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ تیار ہوجاؤ فہام جونیجو نامی طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے!” بڑبڑاتے اس نے ان کی تصویر کو لائیٹر کی مدد سے جلادیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...