عیلی کیچن میں بیٹھی یہ تیسرا پانی کا گلاس پی رہی تھی مگر پیاس تھی کہ ختم ہی نہیں ھو رہی تھی
ایک عجیب سی گبھراہٹ عیلی کے اندر پھیلی ہوئی تھی جس سے عیلی کا دم گھٹ رھا تھا
اس لئے وہ تازہ ھوا میں سانس لینا چاہتی تھی اور ذیہن کو بھی ریلیکس کرنے کے لئے وہ اٹھ کر فارم ھاؤس کو مکمل دیکھنے کی غرض سے چل پڑی
کافی دیر تک فارم ھاؤس کو اندر سے دیکھنے کے بعد عیلی بہت زیادہ تھک گئی کیونکہ فارم ھاؤس بہت بڑا تھا
اس لئے عیلی تھک ھار کر پھر آہستہ آہستہ چلتی ھوئی باہر لان کی طرف آئی اور پھر وہاں موجود کرسیوں میں سے ایک کرسی کو گھسیٹ کر اس پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی
فہد کو سوے ھوئے ابھی دو تین گھنٹے ہی ھوئے ھوں گے کہ اچانک فہد کے موبائل پر کسی کی کال آ نے لگی تو فہد نے ہلکی سے آ نکھیں کھولیں اور پھر نمبر دیکھ کر کال اٹینڈ کی
ھاں بولو قاسم
کیا ھوا
دے تو دیے تھے اسے
کتنے بول رھا ھے
ٹھیک ھے میں آ رھا ھوں
ھاں تم اسے لے کر آ ؤ میں ابھی آ رھا ھوں
فہد نے کہہ کر کال بند کی اور پھر اٹھ کر اپنے آ نکھیں مکمل کھول کر عیلی کو کمرے میں ڈھونڈنے لگا لیکن عیلی کو کمرے میں نا پا کر فہد نے جلدی سے اپنا موبائل جیب میں ڈالا اور پھر اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا تو اسے سنجا بی کیچن میں کھانا بناتی ھوئی نظر آئیں جبکہ زینب بھی بے تاثر چہرے کے ساتھ آٹا گوندھتی ھوئی دیکھائی دی
سنجا عیلی کہاں ھے
فہد کیچن میں آ کر جلدی سے بولا تو سنجا بی نے مسکرا کر فہد کو دیکھا اور پھر بولیں
چھوٹے سائیں جی
میں نے تو بی بی جی کو باہر لان میں جاتے ھوئے دیکھا تھا جی
وہ جی اصل میں بی بی جی پورے گھر کو دیکھ رہی تھیں تو اس لئے باہر لان بھی دیکھنے گئ ھیں
سنجا بی نے فہد کو عیلی کا بتایا اور دوبارہ اپنا کام میں مصروف ھو گئیں جبکہ زینب عیلی کے لئے فہد کی توجہ اور محبت دیکھ کر غصے میں اپنے ھونٹ چبانے لگی
ٹھیک ھے
میں کچھ دیر کے لئے باہر جا رھا ھوں تو تم عیلی کو کھانا کھلا دینا اور عیلی کے پاس ہی رہنا
فہد نے ترچھی نظروں سے زینب کے چہرے کو دیکھ کر کہا جو کہ ہر گزرتے ھوئے لمحے میں سرخ ھو رھا تھا
اور پھر باہر لان کی طرف چل پڑا
عیلی آ نکھیں بند کیے ریلیکس سی کرسی پر بیٹھی تھی کہ اسے فہد کی وہاں پر موجودگی کا پتہ ہی نہیں چلا
احساس تو تب ھوا جب فہد نے عیلی کے چہرے پر بکھرے ھوئے بالوں کو اپنی انگلی سے ہٹا کر اس کے کان کے پیچھے کیا
کیسا لگا تمہیں فارم ھاؤس
فہد نے عیلی کو دیکھ کر کہا جو فہد کی موجودگی سے نظریں جھکا کر اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی
عیلی تم اتنا ڈرتی کیوں ھو مجھ سے
یار میں نے کبھی کچھ کہا تمہیں کبھی ڈرایا
یا کچھ بھی
اوکے میں مانتا ھوں کہ کچھ سختی کی تھی تم پر مگر اب تو معافی مانگ چکا ھوں نا اور پرومس بھی کر چکا ہوں کہ دوبارہ ایسا کچھ نہیں ھو گا
تو اب تو مجھ سے مت ڈرا کرو تم
عیلی ادھر دیکھو میری طرف
فہد نے کہہ کر عیلی کے چہرے کو اپنے ھاتھ سے پکڑ کر اوپر کیا تو اسے عیلی اپنے نچلے ھونٹ کو دانتوں تلے دباے ھوئے نظر آئ
عیلی یار مت کرو ایسے کیوں تکلیف دے رہی ھو خود کو
فہد نے جلدی سے عیلی کے ھونٹ کو ٹچ کر کے دانتوں سے الگ کیا جس سے عیلی خوفناک نظروں سے فہد کو دیکھنے لگی
عیلی یار پلیز
پلیز تم دوبارہ ایسا کبھی نہیں کروں گی
ٹھیک ھے
فہد نے عیلی کے ھونٹوں سے نکلتے ھوئے خون کو اپنے انگوٹھے سے صاف کرتے ھوئے بولا
تو عیلی فہد کی اس حرکت پر کرسی کے ساتھ چپک گئی
اور جلدی سے ھاں میں سر ہلایا
اب میں چلتا ھوں کچھ بہت ضروری کام ھے تو تم اپنا خیال رکھنا میں تھوڑی دیر تک واپس آ جاؤں گا
اور تم ڈرنا نہیں سنجا تمہارے ساتھ ہی ھو گی
اللّٰہ حافظ
فہد نے مسکرا کر عیلی سے کہا اور پھر جھک کر عیلی کے گال پر کس کر کے باہر نکل گیا جبکہ عیلی فہد کی اس حرکت پر شوکڈ سی بیٹھی رہ گئ
پانچ لاکھ کم تھے تیرے لیے
کبھی زندگی میں اتنے پیسے دیکھے بھی ھیں تو نے
ھاں
لیکن اب جب تجھے اتنے پیسے مل گئے تو تیرا لالچ ہی ختم نہیں ہو رھا
کیا چاہتا ھے
تجھے اپنی زندگی پیاری نہیں ھے کیا
اگر تو ویسے پیسے مانگتا نا تو تجھے تیری ضرورت سے زیادہ ہی دے دیتا میں لیکن نہیں تو نے مجھے فہد مصطفیٰ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی
تو اس بات کی سزا تو ملے گی نا تجھے
فہد اس وقت عیلی کے ھوسٹل کے چوکیدار کے پاس موجود تھا جس نے فہد کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی تھی
کہ اس کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج ھے جس میں فہد بے ھوش عیلی کو اٹھا کر ھوسٹل سے باہر لے جا رھا ھے
اور فہد اب اس بات کی سزا اس چوکیدار کو دینے کے لیے قاسم کے ساتھ اسے کڈنیپ کروا کر ایک کھنڈر نما قلعے میں لے کر آ گیا تھا اور اب اپنی گن اس کے سر پر رکھ کر اس سے بات کر رھا تھا
جبکہ وہ اپنی زخمی منہ سے بول کر فہد کی منتیں کر رھا تھا مگر فہد اپنی ظالم اور خونخوار نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھ رھا تھا اور پھر طنزیہ مسکرا کر قاسم کے پاس آ یا اور اسے کچھ کہہ کر وہاں سے چلا گیا
جبکہ فہد ابھی اپنی گاڑی کے پاس ہی پہنچا تھا کہ اسے اس چوکیدار کے چیخنے کی آواز سنائی دی
جس پر فہد نے زور کا قہقہہ لگایا اور پھر جلدی سے گاڑی سٹارٹ کر کے واپس فارم ھاؤس کی طرف چلانے لگا
عیلی کچھ دیر تو اسی طرح شوکڈ سی بیٹھی رہی پھر اچانک اٹھی اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ تقریباً بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں گھس گئی
اور پھر دروازے کو لوکڈ کر کے باتھ روم میں جا کر شاور کے نیچے بیٹھ گئی
آ آ آ ہ
جیسے ہی عیلی پر شاور کا پانی گرا تبھی وہ زور سے چیخی
جبکہ سنجا بی جو کیچن میں کھانا بنا رہی تھیں عیلی کو یوں کمرے میں داخل ھو کر دروازہ بند کرتے ھوئے دیکھ کر فوراً کیچن سے باہر نکلیں اور پھر بند دروازے کو کھٹکھٹانے لگیں
بی بی جی دروازہ کھولیں جی
کیا ھو گیا ھے جی
آ پ نے دروازہ کیوں بند کیا ھے
آ آ آ ہ
ابھی سنجا بی عیلی کو دروازہ کھولنے کا بول ہی رہی تھیں کہ انھیں عیلی کے چیخنے کی آواز سنائی دی
بی بی جی کیا ھوا ھے آ پ کو
دروازہ کھولیں جی
بتائیں تو سہی ھوا کیا ھے
سنجا بی مسلسل دروازہ کھٹکھٹاتے ھوئے عیلی کو پکار رہی تھیں مگر سوائے عیلی کے چیخنے چلانے کے علاوہ اور کوئی آواز سنجا بی کو سنائی نہیں دے رہی تھی
تو سنجا بی گھبرا کر بھاگتے ہوئے فون سٹینڈ تک گئیں اور جلدی سے فہد کو کال کرنے لگیں
جو کہ دوسری ہی بیل پر فہد نے اٹینڈ کر لی تھی
بولو سنجا کیا ھوا
فون کیوں کیا تم نے
فہد نے موڑ کاٹتے ھوئے نارمل سے انداز میں سنجا سے پوچھا جبکہ سنجا بی نے اپنے زور سے دھڑکتے ہوئے دل پر اپنا ھاتھ رکھا کیونکہ سنجا بی کو ایسے محسوس ھو رھا تھا جیسے دل ابھی پسلیاں ٹوٹ کر باہر نکل جاے گا اور پھر جیسے ہی فہد کی آ واز سنجا بی کو سنائی دی تو وہ کانپتے ہوئے لہجے میں فوراً بولیں
چھ۔۔۔۔چھوٹے سائیں ججی
بی بی جی در۔۔۔۔۔دروازہ نہیں کھ۔۔۔۔کھول رہی ھ۔۔۔۔۔ھیں جی
پا۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں ک۔۔۔۔۔کیا ھو گیا ھ۔۔۔۔۔۔ھے ان۔۔۔۔۔۔انھیں
د۔۔۔۔۔۔دروازہ با۔۔۔۔۔۔بند کر چی۔۔۔۔۔۔۔چیخ رہی ھ۔۔۔۔۔ھیں جی
میں نے بہت ک۔۔۔۔۔کوشش کی در۔۔۔۔۔۔دروازہ کھ۔۔۔کھولنے کی ما۔۔۔۔۔۔مگر وہ در۔۔۔۔۔دروازہ نہ۔۔۔۔۔نہیں کھول را۔۔۔رہیں
آا پ ج۔۔۔۔۔جلدی آ جا۔۔۔۔۔۔جائیں جی م۔۔۔۔مجھے بو۔۔۔بہت ڈر لگ ر۔۔۔۔۔رھا ھے
سنجا بی نے روتے ہوئے کانپتی آ واز میں فہد کو ساری بات بتائی جبکہ فہد نے بغیر کوئی جواب دیے کال کاٹی اور فل سپیڈ سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا کیونکہ اب اسے جلد سے جلد اپنی عیلی کے پاس پہنچنا تھا
آ آ آ ہ
آ آ آ ہ ہ ہ
عیلی اپنے بالوں کو نوچتے ہوئے خیخ رہی تھی جو کہ اب مکمل گیلے ھو چکے تھے
کیوں
کیوں کیوں
کیییوں
کیوں قریبب آ تے ہیں میرے
جب نفرت ھے مجھے آ پ سے
کیوں اتنے اچھے بن کے دیکھا رھے ھیں
جب قاتل ھیں آ پ میری بہن کے
عیلی اب روتے ھوئے اپنی بازوؤں کو اپنے گھٹنوں کے گرد لیپٹ چکی تھی
کیسے بول سکتے ھیں آ پ کہ میں سب کچھ بھول جاؤں اور آ پ کو معاف کر دوں
کییسسسے
عیلی نے چیختے ہوئے اپنے ھاتھوں کی مٹھی بنا کر زمین پر زور سے ماری مگر اسے پھر بھی سکون نہیں مل رھا تھا
کیوں ٹچ کرتے ھیں مجھے
اپنے ان ناپاک ھاتھوں سے
جن پر ابھی بھی مجھے میری آ پی کا خون لگا نظر آ تا ھے
کیوں چھوتے ھیں مجھے
کیوں
عیلی اب جنونی انداز میں جہاں جہاں فہد نے اسے چھوا تھا وہاں سے خود کو رگڑ رہی تھی
جبکہ اپنے ھونٹوں کو (جس پر فہد نے اپنے انگوٹھے سے عیلی کے خون کو صاف کیا تھا ) اسے زور سے رگڑنے پر عیلی کے ھونٹوں سے خون نکلنا شروع ھو چکا تھا مگر عیلی کو اپنی پروا ہی کب تھی
پھر اسی طرح اپنے گال پیشانی اور کاندھوں کو( جہاں فہد نے اسے پکڑا تھا ) کو وہ دیوانہ وار رگڑے جا رہی تھی
کیونکہ اس وقت وہ اپنے اندر بہت حبس سی محسوس کر رہی تھی جس وجہ سے اس کی سانس رک رہی تھی اور دل بھی الگ گھبرا رھا تھا مگر اسے اتنا ھوش ہی کب تھا وہ تو صرف اپنے وجود سے فہد کے لمس کو نوچ کر پھیکنا چاہتی تھی تبھی تو خود کو یوں اذیت پہنچا رہی تھی
نفرت ھے مجھے آ پ سے
آ پ کی اس گھٹیا محبت سے
موت بھی نہیں آ تی آ پ کو تو
اور جب میں نے مارنے کی کوشش کی تب بھی نہیں مرے آ پ
کیا فائیدہ میری اتنی پلینگ کرنے کا
جب آ پ کو ہی نہیں مار پا رہی ھوں میں
آ خر کیا ملا مجھے آ پ سے شادی کر کے جب آ پ ہی زندہ پھر رھے ھیں
کچھ نہیں ملا
کچھ نہیں ملا مجھے یہ سب کر کے
اپنی کڈنیپنگ کروا کے
آ پ کو نکاح کرنے کے لئے تیار کر کے
اور آ پ کے قریب رہ کر مظلوم بن کے
کچھ بھی نہیں ملا مجھے
ابھی بھی زندہ ھیں آ پ
اور میری آ پی
میری آ پی تکلیف میں ھیں
کسی کام کی نہیں ھوں میں آ پی
کسی بھی
کچھ نہیں کر سکی میں
آ پ کے قاتل کو جان سے بھی نہیں مار سکی
وہ خوش پھر رھا ھے آ پی
بہت خوش
اور میں ہر گزرتے پل ٹارچر ھو رہی ھوں
کیوں میں
کیوں میں آ پ کا بدلہ نہیں لے پا رہی ھوں
عیلی اس وقت اپنی عمر سے بہت بڑی لگ رہی تھی جو اپنے جنون میں (فہد کو جان سے مارنے کا جنون) پاگل ھو رہی تھی
کیوں ھوں میں اتنی نالائق
جو کبھی کوئی کام نہیں کر سکتی
یہاں تک کہ آ پ کا بدلہ بھی نہیں لے پا رہی
عیلی پھر سے اپنے آ پ کو زور زور سے نوچنے لگی
یہاں تک کے اس کی سکن چھل گئی اور خون نکلنا شروع ھو گیا
پتہ نہیں اور کتنی ہی دیر عیلی خود کو تکلیف پہنچاتی رہتی مگر اس سے پہلے ہی وہ حوش و حواس سے بیگانی ھو کر گر گئی جبکہ شاور ابھی بھی اس کے نازک وجود پر پانی برسا رھا تھا