“سالی یہ بھی ختم ھو گئی ”
قاسم نے خالی شراب کی بوتل کو الٹا کر غصے سے کہا۔۔۔۔۔ اور پھر اٹھ کر نئ بوتل اٹھانے لگا کہ اس کی نظر اچانک اپنے کمرے کے دروازے پر پڑی جہاں اسے کالا دوپٹہ نظر آیا جو کہ کسی کی موجودگی کو ظاہر کر رھا تھا ۔۔۔۔۔
“کون ھے وہاں ”
قاسم لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولا اور پھر تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔۔
جبکہ زینب قاسم کی آ واز سن کر ڈر گئی اور پھر قاسم کی چلنے کی آ واز اپنے قریب محسوس کر کے قاسم کے اسے دیکھنے سے پہلے ہی تیزی سے داخلی دروازے کی طرف بھاگی۔۔۔۔۔۔
کیونکہ اب اس کا ارادہ سیدھا فہد کے فارم ہاؤس کی طرف جانے کا تھا۔۔۔۔۔
اب جو بھی تھا وہ فہد کو مرنے نہیں دے سکتی تھی۔۔۔۔
فہد اس نہ سہی مگر زندہ تو ھو گا اور زینب کے لئے یہ بات ہی کافی تھی کہ وہ زندہ اور سہی سلامت رھے ۔۔۔۔۔
محبت میں ایسے ہی تو ھوتا ھے اور زینب بھی تو فہد سے محبت کرتی تھی پھر بھلا اسے مرنے کیسے دیتی۔۔۔۔
مگر زینب کے داخلی دروازے سے باہر نکلنے سے پہلے ہی قاسم اسے دیکھ چکا تھا اور پھر تیزی سے اپنی گن( جو کہ فہد نے اسے سیفٹی کے لئے دی تھی) اسے اٹھا کر زینب کے پیچھے بھاگنے لگا۔۔۔۔۔
فہد کے کمرے سے چلے جانے کے بعد عیلی بہت دیر تک روتی رہی آ خر یہ کوئی چھوٹی سی بات نہیں تھی کہ وہ بھی ایک قاتل ھے۔۔۔۔۔
آ ج تک کبھی اس نے کسی چیونٹی تک کو نہیں مارا تھا۔۔
مگر اب وہ ایک انسان کا قتل کر چکی تھی۔۔۔۔
مارنا تو وہ فہد کو بھی چاہتی تھی مگر اتنی ہمت اور اتنا ظالم دل کہاں سے لاتی اس لئے فہد کو بھی وہ مار نہ سکی یا شاید فہد سے محبت ھو گئ تھی اس لئے۔۔۔۔۔
“میں نے قتل کا ھے وہ بھی سائیں جی کے بھائی کا”
“تو میں کیسے کسی انسان کی جان لے کر خود سکون سے رہ سکتی ھوں”
“تکلیف اور اذیت تو مجھے بھی ملنی چاھیے ”
“مجھے بھی تو سزا ملے قتل کرنے کی ”
“ھاں یہ ٹھیک ہے”
“مجھے یہی کرنا پڑے گا ”
“میں اسی قابل ھوں ”
عیلی نے بے دردی سے اپنے آ نسوں صاف کیے اور پھر اٹھ کر فہد کو ڈھونڈنے لگی ۔۔۔۔
آ خر اب اپنا فیصلہ (جو وہ جذبات میں آکر کر چکی تھی ) وہ فہد کو بھی تو سنانا تھا۔۔۔۔۔
“سوری گائیز پر اب مجھے تم سب کی ضرورت نہیں ہے ،
وہ کیا ھے نا کہ اب میرے پاس میری عیلی ھے ،
جو ہمیشہ میرے ساتھ رھے گی ”
“تو جب میرے پاس میری عیلی ھوتی ھے تو مجھے اور کچھ نہیں چاھیے ھوتا ”
“ویسے بہت مس کروں گا میں تم سب کو ”
“آ خر میرے ہر غم ہر تکلیف میں دوست رھے ھو تم سب،
لیکن وہ کیا ھے نا کہ میری عیلی کو تم سب پسند نہیں ھو تو مجھے تم سب کو چھوڑنا ھو گا ”
اس وقت فہد اپنے سپیشل روم میں موجود اپنی ڈرنکس کے ساتھ بات کر رھا تھا ۔۔۔۔۔
کیونکہ دو دن بعد فہد عیلی کو لے کر ہمیشہ کے لئے اپنی حویلی جانے والا تھا تو اس لئے آ خری بار اپنی ڈرنکس کو الوداع کرنے اور اپنی شارٹ گن (جسے وہ چپھا کر اس روم میں رکھتا تھا ) لینے آ یا تھا اور پھر وہ اس روم کو ہمیشہ کے لئے لوکڈ کر دینے والا تھا ۔۔۔۔۔
“سو باے گائیز فار ایور”
فہد نے مسکرا کر کہا اور پھر شارٹ گن اپنی جیب میں ڈال کر باہر نکلنے کے لئے قدم اٹھائے
اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھولتا اچانک سے دروزاہ کھول کر عیلی کمرے میں داخل ھوئ ۔۔۔۔
“عیلی تم”
“کیا ھوا”
فہد نے عیلی کی سوجھی ھوئی سرخ آ نکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اس کے بہت دیر تک رونے کو ظاہر کر رہی تھیں ۔۔۔۔
“مجھے آ پ سے بات کرنے ھے ”
عیلی نے بے تاثر چہرے کے ساتھ فہد کے خوبرو چہرے کی طرف دیکھا اور پھر جلدی سے اپنی نظریں جھکا لیں
کیونکہ فہد کے چہرے پر خوشی بہت واضح ھو رہی تھی جیسے اس نے پوری دنیا فتح کر لی ھو ۔۔۔۔۔
مگر فہد کی یہ خوشی عیلی کے درد کو مزید بڑھا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
“ھاں بولو کیا کہنا ھے تمہیں ”
“بلکہ رکو بیٹھو یہاں پر ”
“بیٹھ کر سکون سے بات کرتے ھیں ”
فہد نے عیلی کے پاس آ تے ھوئے مسکرا کر کہا جبکہ عیلی نے فوراً فہد کو رکنے کا اشارہ کیا اور پھر نظریں اٹھا کر دوبارہ فہد کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
“میں نہیں جانتی تھی کہ میں بھی قاتل ھوں ”
“میں بھی کسی کی موت کا باعث بنی ھوں ”
“تو جب میں قتل کر ہی چکی ھوں، تو سزا بھی تو ملنی چاھیے نا مجھے”
“اور میرے نزدیک میرے لئے آ پ کے ساتھ سے بڑھ کر اور کوئی سزا نہیں ھو سکتی ”
“کر لیں تیاریاں اپنے ولیمے کی ”
“مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ میں اسی اذیت اسی دن رات کے ٹارچر کے قابل ھوں ”
“جو مجھے آ پ کے ساتھ رہ کر ملے گا ”
” مبارک ھو آ پ کو ”
” آ پ کی ضد پوری ھو گئی”
“آ پ کے کھیلنے کے لئے آ پ کو پسندیدہ کھلونا مل گیا ”
“جو کبھی آ پ سے کوئی شکوہ کوئی شکایت نہیں کرے گی ”
“کیونکہ وہ خود قصور وار ھے ”
عیلی نان سٹاپ فہد کو دیکھتے ہوئے بولے جا رہی تھی جبکہ فہد عیلی کی باتیں سن کر خود کو مرتا ھوا محسوس کر رھا تھا ۔۔۔۔۔
یعنی عیلی کبھی اس کی محبت کو سمجھ ہی نہیں سکی بلکہ وہ خود کو ٹارچر کرنے کے لئے فہد کے ساتھ کو قبول کر رہی ھے ۔۔۔۔
“عیلی میری بات سن لو پلیز”
عیلی اپنی بات مکمل کر کے جانے کے لئے مڑی ہی تھی کہ فہد نے کرب سے عیلی کو پکارا ۔۔۔۔
“جی بولیں سائیں جی ”
” بندی کیا خدمت کر سکتی آ پ کی”
عیلی نے جلدی سے فہد کی طرف دیکھ کر کہا جبکہ اس سے پہلے کہ فہد کچھ بولتا ۔۔۔۔
انھیں ھال سے زینب کے زور زور سے فہد کو پکارنے کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔
” یہ زینب ھے نا ”
” اسے کیا ھو گیا ”
” عیلی میں میں ابھی کچھ دیر میں تم سے بات کرتا ھوں، تب تک تم یہیں رکو ”
فہد نے جلدی سے عیلی کو دیکھتے ھوئے کہا اور پھر فوراً کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ عیلی خاموش سی وہیں کھڑی رہی ۔۔۔۔۔
اور پھر کچھ سوچتے ھوئے فہد کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
“کیا ھوا تمہیں”
“اس طرح کیوں بلا رہی تھی مجھے”
فہد نے جانچتی ھوئی نظروں سے زینب کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ زینب جو جھک کر اپنے پیٹ پر ھاتھ رکھے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی ۔۔۔۔۔
فہد کی آ واز پر چونک کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
“فہد سائیں فہد سائیں مجھے آ پ سے بہت ضروری بات کرنی ھے”
زینب پھولی ھوئی سانسوں کے ساتھ فہد کو دیکھتے ہی جلدی سے بولی۔۔۔۔
“ھاں بولو ”
“کیا کہنا ھے تمہیں ”
“لیکن پہلے بیٹھ جاؤ”
“کافی تھکی ھوئی لگ رہی ھو”
فہد نے صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زینب سے کہا ۔۔۔۔
“نہیں جی ”
“مجھے بیٹھنا نہیں ھے”
“میری بات جلدی سے سن لیں جی”
“فہد سائیں اسد سائیں کو آ پ کی بیوی نے نہیں بلکہ قاسم بھائی نے مارا ھے جی”
“میں نے ابھی سنا اپنے کانوں سے قاسم بھائی نشے میں بول رھے تھے ”
“اور اور قاسم بھائی آ پ کو ”
کچک !
اس سے پہلے کہ زینب مزید کچھ بولتی ھال میں کچھ گرنے کی آواز سنائی دی جس پر فہد اور زینب دونوں نے اپنے بائیں جانب دیکھا۔۔۔۔۔
عیلی جو فہد کے پیچھے ہی ھال میں داخل ھوئ تھی کہ زینب کی بات سن کر لڑکھڑا کر پاس پڑے چھوٹے سے ٹیبل سے ٹکرائی ۔۔۔۔۔
جس سے ٹیبل پر موجود چھوٹا سا شو پیس زمین پر گر کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ھو گیا جبکہ عیلی آنکھیں پھاڑے فہد کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
فہد نے جب عیلی کی ایسی حالت دیکھی تو جلدی سے عیلی کی طرف بڑھنے لگا جبکہ زینب کے چیخنے کی آ واز پر مڑ کر اپنے پیچھے دیکھا جہاں قاسم فہد کی طرف گن تانے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔
“قاسم تو نے یہ سب ”
فہد غصے میں بولتے قاسم کی طرف بڑھا کیونکہ فہد کے سر پر اس وقت قاسم کا خون سوار ھو چکا تھا ۔۔۔۔۔
یہ بات اسے شدید تیش دلا رہی تھی کہ وہ آ ستین کا سانپ اتنے سال ان کے ساتھ کر اسد کو اپنے ھاتھوں سے مار سکتا ھے ۔۔۔۔۔
“آ ہ ھاں نا نا بھائی جی”
“آگے مت بڑھنا ”
“ورنہ مارے جاؤ گے ”
“لیکن میں آ پ کو مارنا نہیں چاہتا”
“بلکہ میں تو اس چوہیا کو ماروں گا ،جو ساری دولت ہڑپنے کے لئے آ گئ ھے ”
“اور جب یہ ہی مر جائے گی تو آ پ تو ویسے ہی جیتے جی مر جائیں گے ”
“مطلب پھر یہ ساری دولت مجھ بیچارے کو ہی سنبھالنی پڑے گی”
قاسم نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ فہد کو دیکھ کر کہا ۔۔۔۔
اور پھر تیزی سے گم صم سی کھڑی عیلی کی طرف گن کا رخ کیا جبکہ فہد نے عیلی کی طرف گن کا رخ دیکھ کر حواس باختہ ھو کر جلدی سے اپنی جیب سے شارٹ گن نکالی اور بغیر کوئی تاخیر کیے قاسم پر فائر کر دیا ۔۔۔۔۔
جبکہ قاسم عیلی کو تو کیا گولی مارتا خود فہد کی گولی لگنے سے زمین پر گر کر تڑپنے لگا ۔۔۔۔
مگر وہاں قاسم کی پرواہ ہی کسے تھی سوائے زینب کہ اس لئے زینب بھاگ کر قاسم کے پاس گئ ۔۔۔۔
مگر گولی قاسم کے جگر پر لگی تھی اسی لئے اب وہ اکھڑے اکھڑے سانس لینے لگا تھا ۔۔۔۔۔
جبکہ فہد ان سب باتوں سے بے نیاز ھو کر جلدی سے گن واپس اپنی جیب میں ڈالی اور پھر تیزی سے عیلی کی طرف گیا ۔۔۔۔
اور اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کرنے لگا جو کہ بغیر پلکیں جھپکائے قاسم کو مرتا ھوا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
“عیلی”
” عیلی میری بات سنو ”
فہد بولتے ھوئے عیلی کہ سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تاکہ وہ قاسم کو نہ دیکھ سکے ۔۔۔۔
جبکہ عیلی نے خوفزدہ نظروں سے فہد کی طرف دیکھا اور پھر اچانک بھاگ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ دروازہ لوک کرتی فہد نے جلدی سے ٹھوکر مار کر دروازے کو بند ھونے سے روکا اور پھر تیزی سے عیلی کی طرف بڑھ کر اسے کاندھوں سے پکڑ کر کھڑا ھو گیا ۔۔۔۔
“عیلی عیلی”
” ادھر دیکھو میری طرف ”
” وہ اسی قابل تھا ”
” اگر میں اسے نہیں مارتا تو وہ تمہیں مار دیتا ”
“میں نے تمہیں بچانے کے لیے یہ سب کیا ورنہ وہ ”
فہد تیزی سے عیلی کو سمجھانے کی کوشش کر رھا تھا جو مضبوطی سے آ نکھیں بند کیے کھڑی تھی۔۔۔۔۔
مگر فہد کی بات سننے کے بعد عیلی نے فوراً اپنی آنکھیں کھولیں اور پھر غصے سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
“ورنہ کیا ”
“مر جاتی میں ”
” تو مرنے دیا ھوتا نا ”
“کیوں بچایا مجھے”
” تاکہ آ پ کے ساتھ رہ کر ہر دن ہر لمحے مروں میں”
” لیکن میں ایسے ٹارچر نہیں ھونا چاہتی ھوں سائیں جی”
” آ پ کو یاد ھے کہ آ پ نے کیا کہا تھا کہ اگر میں بے گناہ ھوتی تو آ پ مجھے آزاد کر دیتے ”
“لیکن اب تو آ پ کو پتہ چل گیا ھے نا کہ میں بے گناہ ھوں ”
” تو پلیز مجھے آ زاد کر دیں ”
” مجھے نہیں رہنا آ پ کے ساتھ ”
“میں نہیں مرنا چاہتی ھوں ایسے ”
” آ پ تو محبت کرتے ھیں نا مجھ سے تو پلیز میرے لئے، اتنا کر دیں تاکہ میں کچھ پرسکون زندگی گزار سکوں”
” پلیز سائیں جی ”
” پلیز سائیں جی مجھے آ زاد کر دیں ”
عیلی پہلے تو غصے سے فہد سے بولنے لگی مگر پھر آ خر میں فہد کی منت کرتے ھوئے اس کے سامنے ھاتھ جوڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔
جبکہ فہد شوکڈ سا عیلی کو دیکھے جا رھا تھا ۔۔۔۔۔
یہ تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ عیلی اس سے کبھی ایسی بھی کوئی ڈیمانڈ کرے گی جو وہ مر کر بھی پوری نہیں کر سکے گا ۔۔۔۔۔
” آ پ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کہہ رہی ھوں” “مجھے نہیں رہنا آ پ کے ساتھ ”
” موت سے بھی بڑھ کر سزا ھے یہ میرے لئے ”
” جا رہی ھوں میں آ پ سے دور ”
” اس ماحول سے دور ”
” ہمیشہ کے لئے’
” کیونکہ یہاں مجھے سانس لینا دشوار لگتا ھے ”
عیلی نے جب فہد کو خاموش کھڑا دیکھا تو چیخ کر فہد کو دھکا دیا جس سے وہ ھوش میں واپس آ یا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کے عیلی کمرے سے باہر جاتی فہد نے تیزی سے عیلی کے ھاتھ کو پکڑا اور پھر عیلی کے پاس اس کے قدموں میں گٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
جبکہ عیلی نے غصے میں مڑ کر فہد کی طرف دیکھا تو حیران رہ گئی۔۔۔۔۔
کیونکہ فہد گٹنوں کے بل اس کے پیروں میں بیٹھا اپنی گن نکال کر عیلی کے سامنے کر رھا تھا ۔۔۔۔۔
” تمہارے بغیر مجھے یہ موت سے بھی بدتر زندگی نہیں چاھیے عیلی”
” مجھے مار دو عیلی ”
” کیونکہ میں تمہارے بغیر لمحہ لمحہ کی موت نہیں مرنا چاہتا ”
” میں بہت برا ھوں نا عیلی”
” تمہارے قابل بھی نہیں ھوں”
” یہاں تک کہ تمہاری بے گناہ بہن کا قاتل بھی ھوں میں”
” مگر میں کیا کروں عیلی محبت ہی اتنی ھو گئی ھے تم سے، کہ یہ دل تمہارے بغیر دھڑکنا ہی چھوڑ دے گا ”
” میں ایسی اذیت بھری زندگی نہیں جینا چاہتا ”
“عادت ھو گئ ھے تمہاری مجھے”
” اور اگر تم نہ ملی تو مر جاؤں گا میں ”
” لیکن مجھے جینا ھے عیلی ”
” ابھی تو میں نے خوش رہنا سیکھا ھے ”
” ابھی تو میں نے خواب دیکھے ھیں ”
” ہمارے فیوچر کے خواب”
” پلیز عیلی یا تو میری ھو جاؤ ہمیشہ کے لئے ، یا پھر مار دو مجھے”
” قسم سے اف بھی نہیں کروں گا ”
فہد نے بولتے ھوئے اپنی سرخ ھوتی آ نکھوں سے عیلی کی طرف دیکھا جبکہ عیلی پہلے تو شوکڈ سی فہد کی بات سنتی رہی مگر پھر آ خر میں طنز سے مسکرائی۔۔۔۔۔
” آ پ جانتے ھیں نا سائیں جی”
” کہ دوسرا آ پشن تو میں پورا کر نہیں سکوں گی ”
” تو بچا میرے پاس آ پ کو معاف کرنے کا آ پشن ”
” کتنے خود غرض ھیں نا آ پ سائیں جی ”
” ابھی بھی ”
” ابھی بھی اتنا سب کچھ ھو جانے کے بعد بھی ”
” آ پ مجھ سے یہ امید رکھتے ھیں کہ میں سب کچھ بھول کر آ پ کو معاف کر دوں ”
” اور آ پ کے ساتھ رہ کر آ پ کو خوش رکھوں”
” بٹ سوری مسٹر فہد مصطفیٰ ”
” علیشاہ رانا کا ظرف اتنا بھی بڑا نہیں ھے ”
” کہ وہ اپنی بہین اور اپنے بابا کے قاتل کو معاف کر کے اس کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزارے”
” یہ سب ممکن نہیں ھے مسٹر فہد ”
” مجھے موت قبول ھے مگر آ پ کا ساتھ نہیں”
“بجا رہی ھوں میں آ پ سے دور ہمیشہ کے لیے”
” اور ھاں ایک اور بات!
” کہ آ پ میرے بغیر مر جائیں گے تو مسٹر فہد مصطفیٰ ”
” جو لوگ جان لینا جانتے ہیں نا ، وہ خود مر نہیں سکتے اس لئے یہ بڑے بڑے ڈائیلاگ بولنا بند کریں ”
” کیونکہ ان سب کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ھونے والا”
” جانتی ھوں میں آ پ کو بہت اچھے سے ”
” اور اب تو پہچان بھی گئی ھوں ”
عیلی نے زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ فہد کو دیکھا۔۔۔۔۔ جس کے ھاتھ میں ابھی بھی گن موجود تھی۔۔۔۔
اور پھر مڑ کر دروازے کی طرف جانے لگی کہ اسے پھر سے فہد کی آ واز سنائی دی ۔۔۔۔۔
” میں سچ کہہ رھا ھوں عیلی ”
” اگر تم نے ایک بھی قدم اس دروازے کے پار رکھا نا تو میں خود کو شوٹ کر لوں گا ”
” کیونکہ تمہاری محبت نے مجھے بہت جنونی بنا دیا ھے عیلی ”
” اور اگر تم نہ ملی نا مجھے تو مجھے یہ زندگی بھی نہیں چاھیے”
” فیصلہ تمہارا ھے ”
“سوچ سمجھ کر کرو”
” ورنہ کہیں ایسا نہ ھو کہ تم پوری عمر پچھتاتی رھو
کہ کاش تم میری محبت کا یقین کر لیتی ”
فہد کی آ واز انتہائی تکلیف سے بھر پور تھی جبکہ عیلی نے زور سے اپنی آ نکھیں بند کر کے اپنے آ نسووں کو بہنے سے روکا ۔۔۔۔۔
اور پھر بے جان ٹانگوں کے ساتھ دروازے سے باہر نکل گئ ۔۔۔۔
کیونکہ اب جو بھی تھا وہ اپنی خودغرضی (جو کہ فہد سے محبت ھونے کی وجہ سے تھی )میں دعا اور فیصل صاحب کے خون کو معاف نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
یہ کہاں کا انصاف تھا ۔۔۔۔
کہ وہ اپنی فیملی کے قاتل کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزارے۔۔۔۔۔
اور عیلی مر کر بھی یہ کام نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
ابھی عیلی نے اپنے دونوں پاؤں کمرے سے باہر رکھے ہی تھے کہ اسے گولی چلنے کی آ واز سنائی دی ۔۔۔۔۔
جسے سنتے ہی عیلی کو اپنی سانسیں رکتی ھوئی محسوس ھوئیں ۔۔۔۔۔
” یا اللّٰہ پلیز ایسا نہ ھو ”
” سائیں جی نے ایسا کچھ بھی نہ کیا ھو ”
” وہ زندہ ھوں ”
“پلیز اللّٰہ جی ”
“میں انھیں مارنا نہیں چاہتی ھوں”
” پلیز سائیں جی زندہ ھوں”
عیلی بھیگی ھوئی آ نکھوں کے ساتھ دل میں اللّٰہ سے دعائیں کرتی ھوئی جسے ہی کمرے میں داخل ھوئ تو اسے فہد زمین پر گرا ھوا نظر آ یا جبکہ اس کے سر سے بہت تیزی سے خون بہ رہا تھا ۔۔۔۔۔
یعنی اس نے اپنی کنپٹی پر گولی ماری تھی۔۔۔۔۔
” س۔۔۔سا۔۔۔۔۔ئیں ج۔۔۔۔ججی”
عیلی نے زیر لب فہد کا نام لیا اور پھر بے ھوش ھو کر زمین پر گر گئی۔۔۔۔۔
” بابا آ پ نے ابھی تک میڈیسن نہیں لی ”
” کتنے لاپروا ھو رھے ھیں بابا آ پ ”
“اگر میں آ پ کی میڈیسن کا دھیان نہ رکھوں نا تو آ پ تو کبھی میڈیسن لیں ہی نہ ”
عیلی نے غصے سے منہ بناتے ھوئے میڈیسن نکال کر حیات صاحب کے منہ میں ڈالی اور پھر انھیں پانی پلاتے ہوئے مسلسل انھیں باتیں سنائے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
جبکہ حیات صاحب عیلی کی باتوں پر مسکرائے جا رھے تھے ۔۔۔۔۔
آ ج فہد کو فوت ھوئے پورا ایک سال ھو چکا تھا ۔۔۔۔۔
جب فہد کو مرا ھوا دیکھ کر عیلی بے ھوش ھوئی تھی۔۔۔۔
تبھی غلام بخش فارم ھاؤس میں داخل ھوا تھا کیونکہ اسے حیات صاحب نے یہاں بھیجا تھا کہ وہ انھیں دیکھ کر بتائے کہ کیا واقعی میں فہد نے نکاح کر لیا ھے۔۔۔۔
مگر غلام بخش ابھی ھال میں داخل ہی ھوا تھا کہ اسے قاسم کی لاش زمین پر پڑی ھوئی نظر آ ئ جسے دیکھ کر غلام بخش فہد کو پکارتے ھوئے فہد کے کمرے میں داخل ھوا تو اسے فہد کا بے جان وجوں زمین پر گرا ھوا نظر آیا جبکہ اس کے پاس عیلی بے ھوش پڑی تھی ۔۔۔۔۔
مگر زینب فہد کے پاس بیٹھی زور زور سے ھنس رہی تھی اور پھر وہ غلام بخش کو دیکھ کر رونے لگی ۔۔۔
اور پھر کچھ دیر بعد ھنسنے لگی ۔۔۔۔۔
یعنی یقیناً زینب سے قاسم کی موت کے بعد فہد کی موت برداشت نہیں ھوئی اور وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی ۔۔۔
غلام بخش نے روتے ھوئے فہد کو اٹھانا چاہا مگر وہ کب کا بے جان ھو چکا تھا ۔۔۔۔۔
کچھ دیر رونے کے بعد غلام بخش عیلی کے پاس آ یا اور پھر اس کی سانسیں چیک کر کے اسے ھوسپیٹل لے گیا ۔۔۔۔
دو دن مسلسل بے ھوش رہنے کے بعد عیلی ھوش میں آئی تو اسے اپنے پاس ویل چیئر پر حیات صاحب بیٹھے ھوئے نظر آ ے۔۔۔۔۔
پہلے تو عیلی نے حیرانگی ظاہر کی مگر پھر غلام بخش کے تعارف کروانے پر عیلی ھاتھ جوڑ کر زور زور سے رونے لگی اور ان سے فہد کی موت کی معافی مانگنے لگی مگر حیات صاحب تو عیلی کو پہلے ہی بے گناہ سمجھتے تھے۔۔۔۔
اس لئے کھلے دل کے ساتھ عیلی کو معاف کر دیا ۔۔۔۔
اور اپنے ساتھ ہی عیلی کو حویلی لے گئے۔۔۔۔۔
کیونکہ عیلی کا بھی کوئی اور سہارا نہیں تھا اور کچھ گلٹ بھی تھا ۔۔۔۔
اس لئے چپ چاپ حیات صاحب کے ساتھ حویلی رکھنے لگی
تب سے عیلی ان کے ساتھ ہی تھی جبکہ عیلی کے کہنے پر زینب بھی ان کے ساتھ ہی رہ رہی تھی مگر اس کی ذہنی حالت اب بھی ویسی ہی تھی ۔۔۔۔۔
“بابا کیا سوچ رھے ھیں آ پ ”
عیلی نے حیات صاحب کو خاموش دیکھ کر ان سے پوچھا تو حیات صاحب ہلکے سا مسکرا کر اپنی نم آنکھوں کو صاف کرنے لگے ۔۔۔۔۔
اس ایک سال میں عیلی کی بھر پور توجہ کی وجہ سے حیات صاحب پہلے سے بہتر ھو گئے تھے اور اب تو بولنے کے ساتھ ساتھ ہلکا پھلکا چلنے بھی لگے تھے۔۔۔۔
مگر پھر بھی عیلی ان کا بہت خیال رکھتی تھی۔۔۔۔
“مجھے معاف کر دیں بابا ”
“میری وجہ سے سائیں جی ”
“نہیں بیٹے اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ھے ”
“بس مجھے اس بات کا دکھ ھے کہ فہد کو خودکشی نہیں کرنی چاھیئے تھی ”
“اللّٰہ بس اس کی مغفرت فرما دیں ”
“اور اگر میرا بیٹا گیا ھے تو مجھے ایک بیٹی بھی تو ملی ھے ”
“تمہارے روپ میں ”
“اس لئے دل چھوٹا نہیں کرو ”
” اور خوش رھو ”
“مگر ایک بات ضرور کروں گا بیٹے ”
“کہ پلیز فہد کو سچے دل سے معاف کر دو تاکہ اللّٰہ بھی اسے معاف کر دے”
“وہ تکلیف میں ھو گا بیٹے پلیز اسے میری ریکویسٹ سمجھ لو ”
حیات صاحب نے عیلی کے آ نسو صاف کرتے ہوئے بہت منت بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔
جبکہ عیلی ہلکا سا مسکرائی اور پھر ھاں میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔
بابا آ پ ریسٹ کریں میں زینب کو دیکھ کر آ تی ھوں کہ اس نے کھانا کھایا کہ نہیں ۔۔۔۔۔
عیلی خود کو نارمل کرتی ھوئی بولی تو حیات صاحب نے سر ہلا کر عیلی کو جانے کی اجازت دی۔۔۔۔
تو عیلی اٹھ کر تیزی سے کمرے سے باہر نکل کر زینب کے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔
” زینب آ پ نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ”
“یہ تو کوئی بات نہ ھوئی ”
“جلدی سے کھانا ختم کریں ”
عیلی اپنے ھاتھوں سے نوالہ بنا کر زینب کے منہ میں ڈالنے لگی تو زینب بھی چپ چاپ عیلی کے ھاتھ سے کھانا کھاتی گئی۔۔۔۔۔
“چلیں آ پ گیم کھیلیں میں ابھی واپس آ تی ھوں ”
عیلی جلدی سے زینب کو دیکھ کر بولی اور پھر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چل پڑی ۔۔۔۔۔
“آئی ایم سوری سائیں جی ”
“میری وجہ سے آ پ نے خود کی جان لی”
“لیکن شاید ہم ایک دوسرے کے لئے بنے ہی نہیں تھے ”
“اس لئے ایک ھو کر بھی ساتھ نہ رہ سکے ”
“ھو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا ”
“آ ج میں آ پ کو اپنی بہن اور بابا کے قتل معاف کرتی ھوں ”
” بس میرے اللّٰہ آ پ کو معاف کر دیں”
“اور آ پ کی بخشش ھو جائے ”
عیلی نے روتے ہوئے فہد کی تصویر کو دیکھ کر کہا اور پھر پر سکون ھو کر وضو کرنے لگی ۔۔۔۔۔
اب اسے اپنی دعاؤں میں فہد کی مغفرت بھی مانگنی تھی دیر سے سہی مگر آ ج اس نے فہد کو سچے دل سے معاف کر دیا تھا۔۔۔۔۔
ختم شد