فہد رش ڈرائیو کرتے ہوئے فارم ھاؤس پہنچا اور پھر تقریباً بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف گیا
تو سنجا بی جو کہ باہر گیٹ کے پاس فہد کا ہی انتظار کر رہی تھیں وہ بھی فہد کے پیچھے بھاگیں
مگر جیسے ہی فہد نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو دروازہ لوکڈ دیکھ کر پلٹ کر وہ اپنے سپیشل روم کی طرف دھوڑا
اور پھر اپنے کمرے کی چابی اٹھا کر دوبارہ اپنے کمرے کی طرف آ یا اور دروازہ کھول کر جلدی سے کمرے میں داخل ھوا جبکہ سنجا بی بھی فہد کے پیچھے ہی کمرے میں داخل ھوئیں
عیلی
عیلی کہاں ھو تم
فہد زور زور سے عیلی کو پکارتے ھوئے کمرے کا جائزہ لے رھا تھا مگر عیلی کہیں بھی نہیں تھی
اس سے پہلے کے فہد پھر سے عیلی کو بلاتا اسے باتھ روم سے شاور کے چلنے کی آ واز سنائی دی
عیلی
فہد بھاگ کر باتھ روم میں داخل ھوا تو اسے عیلی زمین پر گری ھوئی نظر آئی
عیلی عیلی اٹھو یار
کیا ھو گیا ھے تمہیں
فہد نے فوراً شاور بند کیا اور پھر عیلی کے زخمی چہرے کو دیکھ کر زور زور سے چیخ کر عیلی کو ہوش میں لانے لگا مگر عیلی کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ھو رہی تھی
سنجا پلیز
پ۔۔۔۔۔پلیز تم عیلی کے ککپڑے چ۔۔۔۔چینج کرو
مم۔۔۔۔۔میں ابھی ڈا۔۔۔۔ڈاکٹر کو کال کر۔۔۔۔۔کرتا ھوں
فہد نے عیلی کو اٹھا کر بیڈ پر لیٹاتے ھوئے پاس کھڑی شوکڈ سی سنجا بی سے کہا جو بغیر پلکیں جھپکائے عیلی کو دیکھ رہی تھیں
آ ج پہلی بار زندگی میں فہد کی آواز کانپ رہی تھی
شاید عیلی کو کھونے کے ڈر سے
وہ اس وقت کوئی مجنو ہی لگ رھا تھا جو عیلی کے کچھ ھو جانے سے فوراً خود بھی مر جائے گا
سنجا جلدی کرو
فہد وحشت زدہ آ واز میں سنجا بی پر چیخا تو وہ واپس ہوش میں آئیں اور پھر دھوڑ کر ڈریسنگ روم میں عیلی کے کپڑے لینے چلی گئیں
جبکہ فہد سنجا بی کے ھاتھ میں عیلی کے کپڑے دیکھ کر فوراً کمرے سے باہر نکل گیا تو سنجا بی بھی عیلی کے کپڑے چینج کرنے لگیں
بھائی جی میں نے ھوسپیٹل پہنچا دیا ھے اسے
لیکن میں نے اس سالے کی ٹانگ پر اس جگہ گولی ماری تھی کہ وہ لنگڑا ضرور ھو گیا ھے
اور وہ دوبارہ
قا۔۔۔۔قااسم قاسم
اب۔۔۔۔ابھی ڈاکٹر لے کر فا۔۔۔۔۔فارم ھاؤس پ۔۔۔۔۔پہنچو ابھی
قاسم نے فہد کی کال اٹینڈ کرتے ہی فوراً اسے ساری بات بتانی چاہی مگر فہد نے قاسم کی بات کاٹتے ھوئے جلدی سے اسے ڈاکٹر لانے کا کہا
جی بھائی جی میں لاتا ھوں ڈاکٹر کو
لیکن سب خیریت تو ہے جی
قاسم ڈاکٹر لاؤ
ابھی اور اسی وقت
ورنہ جان سے مار دوں گا میں تمہیں
قاسم کو فہد پریشان لگا اس لئے وہ فہد سے وجہ پوچھنے لگا جبکہ فہد غصے سے قاسم پر چیخا اور کال کاٹ دی
عیلی تمہیں کچھ نہیں ھو گا
میں کچھ ھونے ہی نہیں دوں گا
میں تمہیں کھونے کی ہمت نہیں رکھتا ھوں خود میں عیلی
تمہیں کچھ بھی ھونے سے پہلے میں خود مر جاؤں گا
پلیز عیلی مجھ سے بس دور مت ھونا
فہد کرب سے عیلی کے بارے میں سوچتے ہوئے قاسم کا انتظار کرنے لگا جبکہ جس کے لئے وہ اتنا مرے جا رھا تھا وہ تو اس سے شدید نفرت کرتی تھی
ڈ۔۔۔۔۔ڈاکٹر ک۔۔۔۔کیا ھوا ھے عیللی ککو وہ ٹھ۔۔۔۔ٹھیک تو ھے نا
فہد نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر کہا جو کہ عیلی کا معائنہ کر رہے تھے
انھیں کس بات کی ٹینشن ھے کیا
ڈاکٹر صاحب نے اپنا رخ فہد کی طرف کر کے کہا جو کہ بے چینی سے ڈاکٹر صاحب کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا
آ پ پلیز انھیں ہر قسم کی ٹینشن سے دور رکھیں یہ ان کا دوسری دفعہ نروس بریک ڈاؤن ھوا ھے
اگر تیسری دفعہ ایسا ھوا تو ہم انھیں بچا نہیں پائیں گے
اس لئے آ پ اس بات کا بہت دھیان رکھیں کہ انھیں کسی قسم کی ٹینشن نہ ھو
ڈاکٹر صاحب بولنے کے ساتھ ساتھ عیلی کے انجیکشن لگا رھے تھے
میں نے ایک دفعہ تو انھیں انجیکشن دے دیا ھے تو یہ انشاللہ کچھ گھنٹوں بعد ھوش میں آ جائیں گی
لیکن دوبارہ ایسا نہیں ھونا چاھئے
ورنہ نقصان کے ذمہ دار آپ خود ھوں گے
ڈاکٹر صاحب نے فہد کے بکھرے ہوئے حلیے کو دیکھ کر کہا جبکہ فہد اس ایک بات پر ہی شوکڈ ھو گیا تھا کہ یہ عیلی کا دوسری دفعہ نروس بریک ڈاؤن ھے
تو پہلی دفعہ کب ھوا تھا
اور عیلی کو ایسی کون سی ٹینشن ھے کہ اس کا نروس بریک ڈاؤن ھو گیا
اور اگر عیلی خدانخواستہ
نہیں نہیں میں عیلی کو کچھ نہیں ھونے دوں گا
میں اسے ہر ٹینشن سے دور رکھوں گا
وہ ہمیشہ میرے پاس رھے گی
ھاں ھاں
عیلی میرے پاس رھے گی ہمیشہ
فہد اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جبکہ قاسم ڈاکٹر صاحب کو واپس چھوڑنے کے لیے جا چکا تھا
عیلی میری جان
کیا ھو گیا ھے تمہیں
پلیز عیلی ٹھیک ھو جاؤ نا
کیوں تنگ کر رہی ھو مجھے
فہد عیلی کے پاس بیٹھا اس کے ھاتھ کو پکڑ کر بھرائی ہوئی آواز میں بول رھا تھا جبکہ سنجا بی فہد کو یوں ٹوٹا بکھرا ھوا دیکھ کر رونے لگیں اور عیلی کی سلامتی کی دعا کرنے لگیں
رات کے تقریباً 11 بج گئے تھے مگر عیلی کو ہوش نہیں آیا تھا اور فہد یوں ہی عیلی کے پاس بیٹھا اس کا ھاتھ پکڑے اسے دیوانہ وار دیکھے جا رھا تھا
جبکہ سنجا بی بھی عیلی کے سامنے صوفے پر بیٹھیں دعائیں پڑھ پڑھ کر عیلی پر پھونک رہی تھیں
چھوٹے سائیں جی
آ پ کچھ کھا پی لیں جی
پانی تک نہیں پیا ھے آ پ نے
بی بی جی اب ٹھیک ھیں جی
اور کچھ دیر تک انشاللہ ہوش بھی آ جائے گا انھیں
اس لئے آ پ تھوڑا سا کچھ کھا پی لیں اور تھوڑی دیر سو بھی جائیں
ورنہ آ پ کی طبیعت خراب ہو سکتی ھے اس طرح مسلسل بیٹھے رہنے سے
مزید آ دھا گھنٹہ بیٹھنے کے بعد سنجا بی نے فہد کی دیوانگی کو دیکھتے ہوئے کہا
جو مکمل اپنے ہوش وحواس سے بیگانہ بس عیلی کو ہی دیکھے جا رھا تھا
سنجا بی کتنی حیران تھیں فہد کے اس روپ کو دیکھ کر
وہ جس چھوٹے سائیں کو جانتی تھیں وہ ایسا تو نہیں تھا وہ تو بہت ظالم اور اصول پرست تھا
ایسا فہد تو وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھیں
چھوٹے سائیں جی
ہوش میں آئیں بی بی جی ٹھیک ھیں اب
کچھ دیر تک تو سنجا بی نے فہد کے جواب کا انتظار کیا لیکن جب فہد نے کوئی جواب نہ دیا تو سنجا بی اٹھ کر فہد کے پاس آ ئیں اور پھر فہد کے کاندھے کو ہلا کر اسے ہوش میں لائیں
ھاں ک۔۔۔۔کیا ھوا
فہد نے اچانک سنجا بی کو اپنے قریب کھڑے دیکھا تو جلدی سے بولا
وہ جی کچھ کھا پی لیں آ پ
ورنہ طبیعت خراب ہو جائے گی آ پ کی
اور اگر آ پ ٹھیک رہیں گے تبھی تو بی بی جی کا دھیان رکھ پائیں گے
سنجا بی نے بہت شفقت سے فہد کو سمجھایا تو فہد بھی خاموشی سے ھاں میں سر ہلا کر ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر پی گیا
تم بھی جا کر آ رام کر لو سنجا
تھک گئی ھو گی تم
میں ھوں عیلی کے پاس
اس لئے تم جاؤ
فہد نے سنجا بی کے تھکے ھوئے چہرے کو غور سے دیکھ کر کہا تو سنجا بی بھی خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں جبکہ فہد اس وقت بہت ڈپریس ھو رھا تھا اور اسے ڈرنک کی بہت طلب ھو رہی تھی جسے پینے کے لئے وہ اٹھ کر باہر نکلنے لگا تاکہ اپنے سپیشل روم میں جا کر ڈرنک کر سکے مگر ابھی فہد نے عیلی کے پاس سے اٹھنا سے چاہا تھا کہ اچانک بے ھوشی میں عیلی نے فہد کے ھاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا
تو اچانک فہد نے کن بے تاب نظروں سے عیلی کی طرف دیکھا اور پھر جلدی سے عیلی کے ھاتھوں کو چوم کر اسے پکارتے ھوئے ہوش میں لانے لگا مگر عیلی بے ھوش ہی رہی جبکہ فہد یہ تو سمجھ گیا کہ عیلی بے ھوشی میں بھی اسے جانے سے روک رہی ھے
کہ وہ ڈرنک نہ کر سکے
آئی ایم سوری عیلی
میں بہت تکلیف میں ھوں اس لیے ڈرنک
بٹ میں سمجھ گیا ھوں کہ مجھے تمہارے قابل بننا ھے اور اور میں نہیں کروں گا ڈرنک میں چھوڑ دوں گا سب کچھ بس تم میرے پاس رہنا
میرے قریب
آئی ریلی لو یو عیلی تم میرے لئے کیا ھو
یہ میں خود بھی نہیں جانتا
لیکن بس اتنا پتہ ھے کہ تم میری زندگی ھو
اور تمہارے بغیر ایک سیکنڈ کی بھی زندگی مجھے نہیں چاھیے
فہد اٹھ کر عیلی کے قریب گیا اور پھر عیلی کی زخمی پیشانی (جس پر اب پٹی بندھی ہوئی تھی) اس پر ہلکے سے کس کر کے عیلی کا ھاتھ پکڑ کر لیٹ گیا اور پھر عیلی کو دیکھتے ہوئے ہی جانے کب اس کی آ نکھ لگ گئی
رات کے تقریباً 3 بجے عیلی کی آ نکھ کھلی تو کچھ دیر تک تو وہ چپ چاپ لیٹی سمجھنے کی کوشش کرنے لگی کہ آ خر اسے ھوا کیا تھا
اور پھر جب سب کچھ اسے یاد آ یا تو حواس بھی بحال ھو گئے اور وہ ساری تلخ یادیں بھی دوبارہ سے عیلی کے سر پر سوار ھو گئیں جس سے عیلی کا پھر سے دل گھبرانے لگا اس لئے عیلی جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی مگر اسے اپنا ایک ھاتھ کسی کی مضبوط قید میں محسوس ھوا جس سے عیلی نے مڑ کر ٹیبل لیمپ جلایا اور پھر اپنی دائیں جانب دیکھا تو اسے اپنا دائیاں ہاتھ فہد کے ھاتھ میں موجود نظر آ یا جسے فہد نے مضبوطی سے پکڑ کر اپنے ھونٹوں کے قریب کیا ھوا تھا جبکہ وہ خود گہری نیند میں تھا
ایک پل کے لئے تو عیلی بھی کسی خاص جذبے کے تحت فہد کو حیرانگی سے دیکھتی رہی
کتنا ڈر واضح ھو رھا تھا فہد کے چہرے سے جیسے اگر اس نے ایک سیکنڈ کے لئے بھی عیلی کے ھاتھ کو چھوڑا تو عیلی اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے دور چلی جائے گی
جبکہ فہد ایسا کچھ ھونے سے پہلے خود مرنا پسند کرتا کیونکہ عیلی کے دور چلے جانے سے وہ پل پل کی موت نہیں مر سکتا تھا
عیلی بغیر پلیکس جھپکاے فہد کو کتنی ہی دیر دیکھتی رہی آ خر کیوں جس شخص سے وہ انتہا کی نفرت کرتی تھی وہ شخص اسے اتنا خاص محسوس ھو رھا تھا
شاید یہ فہد کی بے لوث محبت کا ہی اثر تھا جو وہ عیلی کے دل میں اپنے لئے جگہ پیدا کر رھا تھا
اور عیلی اس حقیقت سے جان بوجھ کر انکار کر رہی تھی کہ وہ بھی فہد سے محبت کرنے لگی ھے لیکن اس طرح وہ دعا سے بے وفائی کر جاتی
تبھی تو وہ اندر ہی اندر گھٹن کا شکار ھو رہی تھی
اور اسی ٹا رچر کی وجہ سے عیلی خود کو تکلیف پہنچا رہی تھی
فہد کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے عیلی کو اس کے چہرے پر اپنے لئے کتنی محبت نظر آ رہی تھی جسے عیلی قبول کرنے سے انکار کر رہی تھی
نہیں مجھے میری آ پی سے بے وفائی نہیں کرنی
کچھ نہیں لگتے یہ میرے
نفرت ھے مجھے ان سے
ھاں نفرت کرتی ھوں میں ان سے
مجھے بس اپنا کام مکمل کرنا ھے اور نکلنا ھے یہاں سے
ھاں
مجھے انھیں ختم کرنا ھو گا
عیلی نے فہد کے چہرے سے اپنی نظریں ہٹا کر سامنے موجود دیوار کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا اور پھر بغیر فہد کو دیکھے اپنا ھاتھ آ ہستہ سے فہد کے ھاتھوں سے نکالا اور پھر مڑ کر فہد کے چہرے کو دیکھا جو ابھی بھی گہری نیند میں تھا
قاتل ھیں آ پ میری بہن کے
نفرت ھے مجھے آ پ سے
اور آ پ کی اس دو کوڑی کی محبت سے
عیلی نے نفرت سے فہد کو دیکھتے ہوئے سوچا اور پھر کچھ سوچ کر اپنے سرھانے کو اٹھا کر فہد کے منہ پر رکھنا چاہا تاکہ فہد کی سانس روک کر اسے مار سکے مگر پتہ نہیں کیوں عیلی جب یہ کرنے لگی تو اس کے ھاتھ کانپنے لگے اور آ نکھیں بھی آ نسووں سے بھرنے لگیں
عیلی نے ایک ھاتھ سے اپنے آ نسوں کو بے دردی سے رگڑا اور پھر دل مضبوط کو کے فہد کے چہرے پر سرھانہ رکھنے لگی
جبکہ دل تھا کہ یہ کرنے پر راضی نہیں ہو رھا تھا تبھی عیلی نے ایک زور دار چیخ کے ساتھ سرھانہ کو زمین پر پٹخا اور پھر زور زور سے رونے لگی
عیلی میری جان کیا ھوا تمہیں
تم تم ٹھیک ھو نا
رو کیوں رہی ھو تم
فہد ہڑبڑا کر عیلی کے چیخنے سے اٹھا اور پھر روتی ھوئی عیلی کو اپنے سینے سے لگانے لگا جب عیلی نے زور سے فہد کے ھاتھوں کو جھٹک دیا اور پھر سرخ آ نکھوں سے فہد کے حیران چہرے کو دیکھنے لگی
عی۔۔۔۔عیلی کیا ھوا
میں نے کچھ کیا ھے کیا
فہد نے حیرانگی سے عیلی کے چہرے کو دیکھ کر کہا جہاں اس وقت کتنی تکلیف واضح ھو رہی تھی
دور رہیں مجھ سے
سمجھ آ ئ آ پ کو
دور رہیں
ورنہ میں جان سے مار لوں گی خود کو
عیلی نے چیخ کر فہد سے کہا جو عیلی کی طرف ہی بڑھ رھا تھا
فہد کو عیلی اس وقت اپنے حواسوں میں نہ لگی اس لئے وہ عیلی کو سنبھالنا چاہتا تھا کہ کہیں عیلی دوبارہ سے ٹینشن لے کر کچھ نقصان ہی نہ کروا بیٹھے
اس لئے فہد تیزی سے عیلی کی طرف بڑھا (جو اب بیڈ سے اٹھ کر صوفے کے پاس کھڑی تھی) اور پھرعیلی کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا جبکہ دونوں ھاتھوں سے عیلی کو اچھے سے پکڑا ھوا تھا جس سے عیلی فہد کے سینے سے چپک کر کھڑی تھی اور چاہ کر بھی فہد سے الگ نہیں ھو پا رہی تھی
کیوں
کیوں کیوں کیا آ پ نے
کیوں مارا میری آ پی کو
کیوں
عیلی زور زور سے روتے ہوئے فہد کی کمر پر اپنے نازک ھاتھوں سے مکا مار رہی تھی اور ساتھ ساتھ فہد سے شکوے کر رہی تھی جبکہ فہد چپ چاپ عیلی کو مضبوطی سے پکڑے اسے سن تھا تھا
آ ئ ایم سوری عیلی
مجھے پلیز معاف کر دو
میں مانتا ھوں کہ مجھ سے بہت بڑا گناہ ھوا مگر میں یہ سب کچھ کرنا نہیں چاہتا تھا
آئی ایم سوری
عیلی کے کافی دیر تک رونے کے بعد فہد نے کچھ دیر تک تو عیلی کی خاموشی نوٹ کی پھر بولتے ھوئے عیلی کو خود سے الگ کیا تو عیلی آ نکھیں بند کیے سو رہی تھی شاید اس انجیکشن کا ہی اثر تھا کہ عیلی دوبارہ سو چکی تھی
فہد نے عیلی کو دیکھ کر ایک لمبی سانس لی اور پھر نرمی سے عیلی کو اٹھایا اور اسے بیڈ پر لیٹا کر خود اس کے پاس بیٹھ گیا اور عیلی کی باتوں پر غور کرنے لگا جو وہ انجانے میں فہد سے کہہ چکی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...