سب سے پہلے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس مضمون کی ذمہ داری سونپتے ہوئے میری بہت سی مشکلات کو آسان کردیا۔ایک مشکل یہ آسان ہوئی کہ یورپی ممالک میں اردو شعروادب کے جائزہ میں مجھے برطانیہ کے شاعروں اور ادیبوں کے ذکر سے آزادکردیاگیا کہ برطانیہ کے شعرو ادب کے لئے کسی اور صاحب سے الگ سے مضمون لکھوایا جا رہا ہے۔دوسری مشکل یہ آسان ہوئی کہ مجھے کہا گیا میں مضمون میں ادب کی صورتحال کے صرف مثبت پہلو ہی اجاگر کروں، منفی صورتحال اور منفی کرداروں کو یعنی یورپ میں شاعروں اور ادیبوں کی بڑی اکثریت کو نظر انداز کر دوں۔دونوں آسانیوں سے میرا ہی بھلا ہو گاسو اب مجھے اس مضمون میں یورپ میں اردو ادب کی صورتحال پر صرف میٹھی میٹھی باتیں کرنا ہیں(کہیں ہلکی سی کھٹاس آجائے ”تو کھٹا میٹھا“ بھی برا نہیں ہوتا)۔ جو لوگ یورپ میں اردو شعرو ادب کے لئے کوئی اہم کام کر رہے ہیں اور میری نظر میں اس کام کی کوئی اہمیت بنتی ہے ان کا اس جائزہ میں تھوڑا سا تذکرہ کر وں گا۔چند فوت شدہ اہم ادیبوں کو تو میں ادبی طور پر فوت شدہ شمار نہیں کرتا البتہ جو لوگ یہاں سے نقل مکانی کرکے کسی اور ملک میں چلے گئے ہیں انہیں میں یورپ کے مکینوں میں شمار نہیں کروں گا۔شاعری اور فکشن کی کتابوں کا ذکر تو کروں گا لیکن تراجم کے کام پر بات نہیں کروں گا کیونکہ تراجم کا ذکر ہوا تو شاید تخلیقی کام سے زیادہ اس کا ذکر کرنا پڑے گا اور یہاں اتنی گنجائش نہیں ہے۔
عمومی طور پر یورپ میں مقیم اردو کے شاعر اور ادیب شاعری کو ذریعۂ اظہار بناتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے بعض شعراءاپنے تخلیقی اظہار میں اتنے ہی کامیاب ہیں جتنے ادب کے مرکزی دھاروں کے اہم شعراءکامیاب ہیں۔ آفتاب حسین(آسٹریا)،افضل عباس(ناروے)،فیصل ہاشمی(ناروے)،جمیل الرحمن (ہالینڈ) ، جمشید مسرور (ناروے) ،ناصر نظامی(ہالینڈ)کے نام ان کی بعض شعری تخصیصات کی بنیاد پر اردو کے اچھے شاعروں میں لئے جا سکتے ہیں۔
آفتاب حسین اردو کے نوجون غزل گو ہیں۔ان کی ایک شہرت پاکستان سے اٹل بہاری واجپائی کی شاعری کا اردو ترجمہ ”جنگ نہ ہونے دیں گے“شائع کرنے والے ناشر کی ہے۔اس کادیباچہ بھی انہوں نے ہی لکھا تھاتاہم وہ ایک الگ موضوع ہے۔بطور شاعر ان کا ایک شعری مجموعہ ”مطلع“ پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں چھپ چکا ہے ۔ ادبی رسائل میں چھپتے رہتے ہیں زود گو نہیں ہیں لیکن جتنا لکھتے ہیں عمدہ لکھتے ہیں۔ان کی غزل کو یورپ کے اردو شعراءکے سامنے ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
کلی کھلی تو اُسی خوش سخن کی یاد آئی صبا بھی اب کے چلی سوگوار کرتے ہوئے
یہ دل کی راہ چمکتی تھی آئنے کی طرح گزر گیا وہ اسے بھی غبار کرتے ہوئے
ایسا نہیں کہ آٹھ پہر بے دلی رہے بجتے ہیں غم کدے میں کبھی جلترنگ بھی
وہ بادِ تیز ہے کہ کہاں شعلۂ غمیں نایاب ہو گیا ہے یہاں دُودِآہ تک
چیخ اٹھو کہ کراہو صاحب دل دیا ہے تو نباہو صاحب
بھٹک رہا ہوں ادھر اُدھر اور یہ سوچتا ہوں ہزار رستے گماں کے بھی ہیں یقیں سے پہلے
دُکان ِ دل بڑھاتے ہیں،حسابِ بیش و کم کر لو! ہمارے نام پر جس جس کا بھی جتنا نکلتا ہے
آفتاب حسین کے یہ چند اشعار بذاتِ خود ان کی شاعری کا خوبصورت تعارف ہیں۔تاہم یہاں ان کے بارے میں جون ایلیا کی رائے پیش کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں:
”آفتاب حسین کھری اردو،ٹکسالی اردو بلکہ اردوئے معلیٰ کے شاعر ہیں۔مجھے ان کا کلام پڑھ کر اور اپنی غزلیں یاد کرکے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں لاہور میں پیدا ہوا تھا اور آفتاب حسین امروہے میں“ جون ایلیا کے ان الفاظ پر آفتا ب حسین کا تعارف مکمل کرتا ہوں۔
افضل عباس ناروے میں مقیم نوجوان شاعر ہیں۔غزلیں اور نظمیں یکساں قدرت کے ساتھ کہتے ہیں۔پنجابی کے بھی عمدہ شاعر ہیں،اس لئے اردو میں چند عمدہ ماہیے بھی کہہ چکے ہیں۔اب تک ان کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں جن میں سے دو پنجابی شاعری کے اور دو اردو شاعری کے ہیں۔پنجابی مجموعوں کے نام” برف وچھوڑے “اور ”دھیاں دھیانیاں “ اور اردو مجموعوں کے نام”لوحِ برف“اور ”برف سرا“ہیں۔پہلے ان کی غزل کے چند اشعار :
عشق اک قرض ہے پہلے یہ ادا ہو جائے پھر جو ہونا ہے وہی کرب و بلا ہو جائے
کوئی ملتا ہی نہیں عہدِ وفا کے قابل میں نے سوچا تھا مِرا عہد ،وفا ہو جائے
برپا ہو کوئی کرب و بلا ملکِ جفا میں اے اہلِ عزا،شہر میں مروان بہت ہیں
مت مانگ مِرے پاؤں سے ہجرت کی گواہی اَے آبلہ پائی ترے احسان بہت ہیں
افضل عباس کی نظموں میں تین رنگ نمایاں ہیں۔ایک وطن سے دوری کا دکھ اور اس کی مختلف کیفیات،دوسرے ناروے کے برف زاروں سے محبت کی گرمی،اور تیسرے ترقی پسند رویے کا رنگ۔مجموعی طور پر ترقی پسند آہنگ ان کی بیشتر نظموں پر حاوی ہے ۔ان کی نظم ”لوحِ برف“کے چند اشعار کو یہاں پیش کئے دیتا ہوں:
سیمیں برف کے نُقرئی بَن میں برف میں گوندھے گورے تن میں
ناروی انگ نشیلے نین من کو اک پل پڑے نہ چین
کھڑا میں تنہا برف کے بیلے گاؤں نیلی بار کے ڈھولے
تَن رانجھا ، مَن ہیر سیال برف کے بھیتر آگ خیال
افضل عباس کے ماہیوں میں بھی پنجاب سے ناروے تک کے رنگ یوں ملتے ہیں:
کڑوے کوئی سچ ماہیا جوگی کا جوگ کہاں
عاشق ذات کے ہیں برف میں پاؤگے
ہم لوگوں سے بچ ماہیا سانول سے لوگ کہاں
فیصل ہاشمی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔تاہم انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں۔ان کی نظم نگاری نئے طرزِ احساس کی ترجمانی کرتی ہے۔اختصار ان کی نظموں کی خصوصیت ہے۔ایک نظم ”وقت کی دھول ہوں“ملاحظہ کیجئے:
”مجھے اب یقیں ہو چلا ہے میں خلقت سے پیچھے کہیں رہ گیا ہوںاور اب مَیںزمانے کے قدموں سے اپنے قدم کو ملانے کی کوشش میں تھک بھی چکا ہوںجہاں بھیڑ میںلوگ بہتے چلے جا رہے ہیںوہاں پرسڑک کے اُس اگلے کنارے پہ رُک کرفلک پر رواںبادلوں سے الجھتیکئی خواب بُنتی نظرکے تماشے میں مشغول ہوں مَیںگزرتے ہوئے وقت کی دھول ہوں مَیں۔“
فیصل ہاشمی کی ایک غزل کے دو اشعار سے ان کے شعری رویے کی مزید پہچان ہو جاتی ہے:
جب خاک اڑاتا ہوا نیندوں کا سفر ہو پھر کیوں نہ کسی اور ہی دنیا کا سفر ہو
یہ کیسی تمنا ہے کہ اس دشت میں فیصل دریا ہو، کنارا ہو، سفینہ ہو، بھنور ہو
جمیل الرحمن تازہ کار شاعر ہیں۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ان کے انتخاب کی نوعیت کی وجہ سے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑ سکا لیکن اس کے بعد سے وہ مسلسل ارتقائی سفر کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔غزل میں ان کے شعری جو ہر پوری طرح کھلتے ہیں۔ان کی غزلوں کے چند اشعار سے ان کے ہاں موجود شعری امکانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
کیفیتِ وصال ابھی تک ہے دھیان میں ہم چاند پر تھے اور زمیں آسمان میں
رہائی کب دے طلسمِ نگاہ دیکھتے ہیں کہ ملکِ سبز میں روزِ سیاہ دیکھتے ہیں
پاؤں ٹکنے ہی نہیں دیتی زمانے کی ہوا ہم جگر تھامیں کہ دستار سنبھالیں اپنی
دیکھ کر اس کو اچانک مِرے آنسو اُمڈے اُس نے بھی ہنستے ہوئے کھول دیں بانہیں اپنی
وہ کیسی لہر تھی سینے میں جس کے سر اُٹھانے پر سمندر نے مچایا شور دل کے آستانے پر
جمیل آبلہ پائی سے پھول کھِل اُٹھتے پیمبروں سی نہ تھی بات اپنی ہجرت میں
مٹھی میں خواب کی ہوں ستارے تو کیا کریں وہ چاند ہی کا عکس اتارے تو کیا کریں
نکلے تھے خود میں دشت و سمندر سمیٹنے سنبھلے نہ ہم سے اپنے کنارے تو کیا کریں
ناصر نظامی کی اصل پہچان ان کی گیت نگاری ہے۔مروجہ گیتوں کے انداز میں ان کے لکھے گیت کئی مقبول ٹی وی چینلزپر دکھائی دیتے رہتے ہیں لیکن ظاہر ہے اس شاعری کا ادب سے تعلق نہیں بنتا۔ناصر نظامی نے اس انداز کی تھوڑی بہت غزلیں بھی کہی ہیں۔
دل کو بڑا ہی شوق تھا اونچی اڑان کا دھرتی کا ہی رہا ہے نہ اب آسمان کا
ہم سے ا ب چہرہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا جلتے سورج کو دوبارا نہیں دیکھا جاتا
جس کی تاروں کی ہر اک چال پہ ہے گہری نظر اُ س سے کیوں میرا ستارا نہیں دیکھا جاتا
آزاد پرندوں کی رُکتی نہیں پروازیں دَم گھٹنے سے بہتر ہے ،دَم اُڑ کے نکل جائے
تاہم ادبی طور پر ان کا بنیادی حوالہ اردو ماہیا بنتا ہے۔پنجابی شاعری اور موجودہ موسیقی سے ہم رشتہ رہتے ہوئے انہوں نے ماہیے کو اس کی لوک لَے کے ذریعے اختیار کیا اور اس میں اپنی زود گوئی کا کمال دکھا دیا۔ابھی تک ماھیے کے جتنے مجموعے چھپ چکے ہیں ناصر نظامی کے ماہیوں کا مجموعہ ضخامت کے اعتبار سے سب پر بھاری ہے۔۸۲۵صفحات کے مجموعہ”یادوں کی بارش“نے اردو ماہیے کی برسات کر دی ہے۔ان کے چند ماہیوں سے ان کے عمومی انداز کو سمجھا جا سکتا ہے:
جنموں سے جیتے ہیں ململ کا سوٹ لیا
دور تغیر کے پہلی نظر میں ہی
ہم پر کئی بیتے ہیں تم نے مجھے لُوٹ لیا
گھر واپس مڑنے میں شہروں میں رہتے ہیں
دیر تو لگتی ہے اپنے لگائے ہوئے
دل ٹوٹ کے جُڑنے میں پہروں میں رہتے ہیں
غم کس لئے کرتا ہے سچائی سزا دے گی
جتنا دامن ہو ناصر سے تم کو
اتنا ہی بھرتا ہے منصور بنا دے گی
جمشید مسرورغزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔اب تک ان کے پانچ شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔”شاخِ منظر“ ۔”دیوارِہوا پر آئنہ“۔”میری خوشبوئیں،میرے پھول“۔”لمحوں کے سمندر“اور ”پچھلے برس کی دھوپ“۔ان کی غزلوں کے چند اشعار سے ان کی غزل کے مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے:
جب حقیقت کھل گئی سب کچھ خیال و خواب ہے رُوح کیوں پیاسی ہے پھر دل کس لئے بیتاب ہے
جذبہ و احساس کی دولت جہاں نے لُوٹ لی شعر اب کیا ہیں خیالِ خاطرِ احباب ہیں
ہو وصل کہ تنہائی کم آمیز بہت ہے وہ رنگ عنایات سبک خیز بہت ہے
عادی ہے مِرا گھر مِری ہجرت کا ولیکن یہ موجۂ گرداب سفر تیز بہت ہے
ہٹ کے اس رہ سے جو ہے وقف بس انکار کے نام آؤ پھر شعر کہیں گیسوئے دلدار کے نام
جمشید مسرور کی ایک نظم ”منتظر“سے ان کی نظموں کا انداز کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے:
”عکسِ محبوب مہکتا ہی چلا جاتا ہیشمع رُخسار لئے وعدۂ دلدار لئیجنتِ چشم و لبِ یا ر سے خورشید بکفجاں کی تنہائی میں قندیلِ صبا اترے گینور سے دکھ کے سیہ راستے دُھل جائیں گےریگزاروں کی جبینوں سے گھٹا اترے گیذہن سے رُوح کی ویران گزرگاہوں تکنکہت و رنگ کے گلبار دریچے آخرشوق کی دستکِ بے تاب سے کھل جائیں گیاسی امید میں شاید کوئی جھونکا آئیاورچپکے سے کوئی درز،کوئی چاک کھُلی چاندنی دل کے کواڑوں سے لگی بیٹھی ہے“۔
ان شعراءکے علاوہ بھی چند شعراءہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ان میں سویڈن سے جمیل احسن،ہالینڈ سے احسان سہگل، جرمنی سے راجہ یوسف اورطاہر مجید،اٹلی سے ارشد اقبال آرش، ناروے سے مسعود منور، ڈنمارک سے نصر ملک اورترغیب بلند نقوی وغیرہ شامل ہیں۔ جرمنی سے نعیمہ ضیاءالدین بطور شاعرہ بھی چھپتی رہتی ہیں۔ان کا اولین شعری مجموعہ ”کربِ ذات“ ان کی بطور شاعرہ تفہیم میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔٭
افسانہ نگاروں میں ہرچرن چاولہ(ناروے)،نصر ملک(ڈنمارک)،منیرالدین احمد( جرمنی)، سعید انجم(ناروے)،اہمیت کے حامل ہیں۔ہرچرن چاولہ تو افسانہ نگاروں کی مین سٹریم کے اہم افسانہ نگار تھے۔انہیں مغرب یا ناروے کی علاقائی حد بندی کے بغیر اردو ادب کے اہم افسانہ نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ان کی ساری تصانیف کا ریکارڈ شاید پیش نہ کر سکوں تاہم ان کی فکشن کی کتابوں کے جو نام مجھے ملے ہیں پیش کئے دیتا ہوں۔ پانچ افسانوی مجموعے ”عکس اور آئینے“۔”ریت سمندر اور جھاگ“۔”آتے جاتے موسموں کا سچ“۔”دل،دماغ اور دنیا“۔”ہرچرن چاولہ کے منتخب افسانے“ اور چار ناول”درندے“۔”چراغ کے زخم“ ۔” بھٹکے ہوئے لوگ“اور ”آگے سمندر ہے“ ۔یہ تصانیف اردو فکشن میں ہرچرن چاولہ کے گرانقدر اضافہ کا ثبوت ہیں۔یورپ میں ایشیائی تارکین وطن جس ثقافتی تصادم کے المیہ سے دوچار ہیں اس کی بھر پور نمائندگی ہرچرن چاولہ کے افسانہ ”گھوڑے کا کرب“ سے ہوتی ہے۔اسے ان کا نمائندہ افسانہ کہا جا سکتا ہے۔
سعید انجم کا افسانہ ”جھوٹ سچ“ بھی اپنی فنی مہارت اور موضوعاتی اہمیت کے لحاظ سے تارکین وطن کے ثقافتی تصادم سے پیدا ہونے والی المناک صورتحال کو عمدگی سے اجاگر کرتا ہے۔سعید انجم کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔”سب اچھا ہو گا“ اور ”سوتے جاگتے“۔ ایک اور مختصر سا مجموعہ”سوچیں“بھی چھپا تھا۔ وہ فکری طور پر ترقی پسند رجحان رکھتے تھے ۔ان کے زیادہ تر افسانے ترقی پسند آہنگ میں لکھے گئے۔”جھوٹ سچ“جیسا دھیما پن بہت کم افسانوں میں ملتا ہے۔
منیرالدین احمد کے دو افسانوی مجموعے ”زرد ستارہ“ اور” بنتِ حرام“ شائع ہوئے ہیں۔ ایک اور مجموعہ” شجرممنوعہ“ بھی ہے جس میں نثرانوں اور نظمانوں کے ساتھ افسانے بھی شامل ہیں۔منیرالدین احمد نے ایک عرصہ تک اردو کو یکسر چھوڑ کراپنی توجہ جرمن زبان پر مرکوز کئے رکھی۔اس کے نتیجہ میں انہیں جرمن زبان و ادب کی تفہیم میں تو بہت آسانیاں ہو گئیں اور وہ ترجمہ کا کام عمدگی سے کرنے لگے۔تاہم جب طویل عرصہ کے بعد انہوں نے اردو میں کہانیاں لکھنا شروع کیں تو اردو سے طویل قطع تعلق کے باعث ان میں وہ تخلیقی روانی پیدا نہ ہو سکی ۔اسے میری بدقسمتی کہہ لیں کہ انہیں پڑھتے ہوئے مجھے ایسے ہی لگتاہے جیسے کوئی ترجمہ پڑھ رہا ہوں۔جرمن زبان میں مہارت ھاصل کر لینے کے بعد اگر وہ جرمن زبان میں افسانے لکھتے تو شاید جرمن لوگ ان سے متاثر ہوتے، اس کے باوجود منیرالدین احمد کی مجموعی ادبی خدمات کے باعث انہیں بطور افسانہ نگار بھی یاد رکھا جانا چاہئے۔
نصر ملک کے افسانوں کے دو مجموعے ”ہوئے مر کے ہم جو رُسوا“ اور”قسط در قسط زندگی“ چھپ چکے ہیں۔ان کے افسانوں میں مغرب میں مقیم ایشیائیوں کی جذباتی کشمکش بہت نمایاں ہے۔ان کا افسانہ”کربِ تنہائی“اس حوالے سے ان کا نمائندہ افسانہ ہے۔جمشید مسرور کا افسانوی مجموعہ تو ابھی تک شائع نہیں ہوا تاہم ان کے کئی افسانے ادبی رسائل میں چھپ چکے ہیں۔جمیل احسن نے بھی چند افسانے لکھے ہیں۔نعیمہ ضیاءالدین کا افسانوی مجموعہ”منفرد افسانے“شائع ہو چکا ہے۔تاہم ان کے دو افسانوں”کاغذ کی کتاب“ اور ”گیان“٭٭کو ان کے نمائندہ افسانے سمجھا جانا چاہئے۔
اوپر میں جن شاعروں اور افسانہ نگاروں کا ذکر کر چکا ہوں ان میں سے بعض تو بلاشبہ ادب کے مرکزی دھارے کے اہم لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔تاہم یورپ میں اردو ادب کی عمومی صورتحال کے بارے میں میری بڑی واضح رائے ہے۔میں نے دو سال پہلے اپنے ایک مضمون”تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اردو کا منظر“میں جو کچھ لکھا تھا میرے نزدیک اب بھی وہی صورتحال ہے سو اپنے اسی مضمون کے ایک متعلقہ اقتباس کے ساتھ اپنے اس مضمون کو مکمل کرتا ہوں۔
”وہ شاعر اور ادیب جو مغربی ممالک میں طویل قیام کی پہچان رکھتے ہیں اور دلجمعی کے ساتھ ادبی خدمت میں مشغول ہیں،ان سب کی ادبی پہچان ادب کے مرکزی دھارے کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔مغربی ممالک کی تخصیص کے ساتھ ان کی انفرادیت ادبی طور پر سامنے نہیں آتی۔مثلاً شاعری میں ابھی تک روایتی اور ترقی پسند انداز کا ملا جلا رنگ رائج ہے۔البتہ کبھی کبھی یادِ وطن کے حوالے سے بعض اچھے اشعار ضرور سامنے آجاتے ہیں ۔یہاں کے افسانہ نگاروں کا ایک اہم موضوع ہجرت یا ترکِ وطن ہے۔اس موضوع پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں ۔لیکن ہجرت کے موضوع پر ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں جس پائے کی کہانیاں لکھی جا چکی ہیں،مغرب کے ہمارے اردو افسانہ نگار اس سطح کو مس بھی نہیں کر سکے۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ۷۴۹۱ءکی ہجرت نے دلوں میں گہرے گھاؤ پیدا کئے تھے۔سب دکھی تھے۔جبکہ مغرب میں آبسنے والے وطن سے زیادہ آرام کی دنیا میں آتے ہیں ۔یہاں کا کھلا ماحول انہیں شاید ان کیفیات سے آشنا ہونے ہی نہیں دیتا جو تخلیقی کرب کا لازمہ ہے۔مغربی چکا چوند میں جنس نگاری کی طرف رغبت فطری بات ہے۔لیکن اس میں بھی خرابی یہ ہوئی کہ منٹو ، عصمت چغتائی اور ممتاز مفتی اس حوالے سے جتنا کچھ اردو کو دے گئے ہیں،اس کے بعد مغرب کے اردو افسانہ نگار جنسی لذت تو کشید کر لیتے ہیں لیکن فن کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جو ایک معیار کے طور پر پہلے سے اردو میں موجود ہے۔ افسانے کی دنیا میں جہاں ہمیں اپنے ثقافتی تصادم کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جہاں مختلف ثقافتی المیے سامنے آتے ہیں وہاں چند اچھی کہانیوںنے تبدیلی کا احساس دلایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاہم ثقافتی تصادم کی عام کہانیاں بھی اخباری رنگ میں زیادہ بیان کی گئی ہیں یا پھر خواتین کے زیب النساءطرز میں لکھی گئی ہیں۔ مغرب میں شاعروں اور ادیبوں نے مغربی سائنسی ترقیات اور جدید تر صورتحال کو تاحال گہری اور تخلیق کارکی نظر سے نہیں دیکھا۔یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات سے ان کے افسانے خالی ہیں۔اس کے باوجود وہ سارے اوریجنل تخلیق کار داد اور تحسین کے مستحق ہیں جو پردیس میں بیٹھ کر اپنے دیس کی زبان کو نہ صرف یاد رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کی محبت میں اپنی بساط کے مطابق تخلیقی کام بھی کئے جا رہے ہیں۔ان سب کا جذبہ قابلِ قدر ہے۔“
(یہ مضمون ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی فرمائش پر فروری ۲۰۰۵ء میں لکھا گیا تھا۔)
(مطبوعہ عکاس اسلام آباد شمارہ :مارچ ۲۰۰۷ء)
٭پتہ نہیں ”کربِ ذات“ کو چھپوا لینے کے بعد کیوں چھپایا جا رہا ہے؟