مغربی دنیا کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں بہت سے غلط فہمیاں ہماری لاعلمی وبے خبری کے باعث راسخ ہو گئی ہیں۔میرا مقصد مغرب کا دفاع کرنا نہیں ہے کہ انہیں اپنے دفاع کے لیے میرے جیسے کسی لکھنے والے کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔جو قومیں اپنے وضع کردہ اصولوں اور قوانین پر خودعمل پیرا ہوں،ان کا طرزِ معاشرت خوداپنے ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔میں یہاں سیاسی تناظر کو بالکل چھوڑ کر سماجی سطح پر چند مثالیں اور وضاحتیں پیش کروں گا۔تاکہ دونوں معاشروں کا فرق واضح طور پر سمجھ میں آسکے۔
ایک بار پاکستانی اخبار میں خبر چھپی کہ سائنس کے شعبہ کے محققین نے چائے پینے کو صحت کے لیے مفید قرار دیا ہے۔اس پر ایک معروف اخبار کے ممتاز کالم نگار نے طعن و طنزسے چوتھائی کالم بھر دیا۔ دراصل موصوف کے ذہن میں صرف برطانیہ برانڈ پاکستانی چائے تھی۔ مغربی دنیا میں بلیک ٹی کو انگلش ٹی بھی کہا جاتا ہے اور اسے بہت کم پیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس یہاں بعض پھلوں اور جڑی بوٹیوں کی چائے پینے کا رواج عام ہے۔میں ذاتی طور پر سونف کی چائے پیا کرتا ہوں۔کسی علالت کی صورت میں پودینے پیپر منٹ کی چائے پیتا ہوں۔پھلوںمیں سٹرا بیری کی چائے یہاں کافی پسند کی جاتی ہے ۔اس طرح اور بھی کئی اقسام کی چائے پی جاتی ہے۔ محققین نے اس پورے تناظر میں بات کی تھی۔ہمارے پاکستانی ممتاز کالم نگار نے اپنے گھر کی چائے پیتے ہوئے اہلِ مغرب کو برا بھلا کہہ کر اپنے ”صاحبِ ایمان“ہونے کا حق ادا کردیا۔
مغربی دنیا میں زندگی بہت مصروف ہے۔گھر کا ہر فرد اپنی اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوتا ہے۔بزرگوں کے بوڑھے ہو جانے کی صورت میں انہیں اولڈ ہوم میں داخل کرا دیا جاتا ہے۔
جہاں ان کی مناسب دیکھ بھال ہوتی رہتی ہے۔ہم اپنے مشرقی انداز معاشرت کے باعث مغربی طرز عمل کی مذمت کرتے رہتے ہیں۔ ہر چند مغربی معاشرت کے اس انداز میں کچھ منفی بھی ہے،لیکن وہ نہیں جو ہم اپنے طور پر تصور کر لیتے ہیں۔منفی یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی دیکھ بھال اور پرورش پرپوری توجہ نہیں دی جاتی،نوجوان والدین اپنی زندگی کی لذت کشید کرنے میں زیادہ مصروف رہتے ہیں اور بچے ایک طرح کی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ان والدین کے بوڑھے ہونے کے بعدان کے بچے بھی ان کے ساتھ ملتا جلتا سلوک کرتے ہیں،یعنی انہیں اولڈ ہوم میں داخل کرجاتے ہیں۔تاہم اس سارے سسٹم کا سب سے اہم اور قابلِ قدر پہلو یہ ہے کہ جن والدین کو بچے اپنی ملازمتوں کے باعث گھر پر پوری توجہ نہیں دے سکتے۔ان کی غیر موجودگی میں کسی ایمر جینسی کی صورت میں بزرگوں کی زندگی کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے،انہیں اولڈ ہومز میں پوری توجہ دی جاتی ہے۔عام دیکھ بھال سے لے کر کسی ایمر جینسی کی صورت تک اولڈ ہوم میں خدمتگار موجود ہوتے ہیں۔معذور افراد کی دیکھ بھال میں اتنی زیادہ احتیاط کی جاتی ہے کہ گھر پر اتنی توجہ دینااور اتنی نرسنگ ممکن ہی نہیں ۔ والدین کی اولاد کی ان سے وابستگی کم نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھ جاتی ہے۔بھائی ،بہن آپس میں طے کر لیتے ہیں اور لگ بھگ روزانہ یا ہفتہ وار والدین کو ملنے جاتے رہتے ہیں۔اولڈ ہومز میں جو معاشرتی سہولیات میسر ہیں ان کے باعث بوڑھوں ،بزرگوں کی اپنی ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی ہے ۔
مغربی زندگی کے اس پہلو پر جب ہمارے لکھنے والے حسبِ عادت غیر ضروری تنقید کر رہے ہوتے ہیں تو مجھے اپنے ہاں کے ایسے کئی بزرگ یاد آتے ہیں جنہیں ان کی اولاد نے بڑھاپے میں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔جو کوئی مناسب اولڈ ہوم نہ ہونے کے باعث انتہائی تکلیف دہ بڑھاپا گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔عام کہانیوں کو چھوڑیں ہمارے اردو ادب کے نامور ادیب صحرا نورد کے خطوط والے میرزا ادیب جب عمر کے بے بسی والے دور میں داخل ہوئے تو انہیں ان کے اس بیٹے نے گھر سے نکال دیاجنہیں انہوں نے محنت مشقت کر کے ڈاکٹری کرائی تھی۔اور وہ دوسرے ادیبوں سے پوچھتے پھرتے تھے کہ ہمارے ہاں کوئی اولڈ ہوم نہیں ہوتا؟
مغربی معاشرت کی ایک اورخوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ہاں کی گندگی کو قالین کے نیچے چھپا کر نیکی اور تقویٰ کے بلند بانگ دعوے نہیں کرتے۔بلکہ جہاں کہیں کوئی گندگی دکھائی دیتی ہے،اسے سب کے سامنے لایا جاتا ہے۔مسیحی چرچ میں جونئیرپادریوں کے ساتھ یا نن خواتین کے ساتھ جنسی مسائل سامنے آتے ہیں تو کسی خوف کے بغیر ان کو بھی سرِ عام بیان کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ بعض اوقات پوپ کو خود معذرت کرنا پڑ جاتی ہے۔اس کے بر عکس ہمارے ایک وزیر مملکت نے بعض دینی مدارس میں اسی نوعیت کے اخلاقی مسائل کی نشان دہی کی تو ان کے خلاف ایک طوفانِ بد تمیزی برپا کر دیا گیا۔کچھ عرصہ کے بعدموصوف کی وزارت بھی جاتی رہی۔ہم قالین کے نیچے گندگی کو چھپا کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا ۔حالانکہ اس سے تو سارے معاشرے میں تعفن پھیل جاتا ہے۔
جرمنی یورپ کا سب سے زیادہ صاف ستھرا ملک ہے۔ہم اپنے پاکستانی معاشرے میں اس فرمانِ نبوی پر ایمان رکھتے ہوئے کہ”صفائی نصف ایمان ہے“،صفائی سے بیگانہ ہیں۔ہمارے گلی، محلے،شہر سب صفائی کی افسوسناک حالت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اس سب کے بر عکس مغربی دنیا کسی حدیث شریف کا حوالہ دئیے بغیر گلی،محلوں اور شہروں میں صفائی کا جو منظر پیش کر رہی ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ان بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں سے شاید ہمیں اپنی سوچ پر از سرِ نَو غور کرنے کی توفیق ملے۔اور ہم نئے سرے سے یہ سوچنا شروع کر سکیں کہ دوسری اقوام کیسے اتنی ترقی کر گئیں اور ہم کیوں اتنا پیچھے رہ گئے۔
روزنامہ مقدمہ کراچی مورخہ ۵جنوری ۲۰۱۰ء
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی مورخہ ۸جنوری ۲۰۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔