لے گے وہ ساتھ اپنے زندگی کی رونقیں
اپنا تو یہ عالم ہے اُن کے روٹھ جانے کے بعد
جِس طرح دیہات کے اسٹیشنوں پہ دِن ڈھلے
اِک سکوں تے بے قرار گاڑی گذر جانے کے بعد
اِس جہاں میں کوئی بھی اُس کے سوا اپنا نہ تھا
حال میرا پوچھنے وہ بےوفا آیا نہ تھا
ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں کیوں میری تصویر کے
بے زبان تھی اِس نے کُچھ بھی آپ سے مانگا نہ تھا
حال میرا پوچھنے وہ
تیری گلیوں سے ہی گذری دیکھ لے میت میری
بعد مرنے کے بھی میں نے راستہ بدلا نہ تھا
حال میرا پوچھنے وہ
سائے کی مانند میرے ساتھ رہتا تھا صدا
بچھڑ کر بھی بیووفا مُجھ سے کبھی بچھڑا نہ تھا
حال میرا پوچھنے وہ
مُسکرا کے کانٹوں پہ چلنا پڑا اُس کے لیے
ورنہ ایسے راستوں سے میں کبھی گذرا نہ تھا
حال میرا پوچھنے وہ
کون تُجھ کو دے گیا صادقؔ خزانے درد کے
ایسی دولت کا تو تیرے پاس ایک پیسہ نہ تھا
حال میرا پوچھنے وہ
سُن کے میرے پیار کی رُوداد وہ بھی رو دیا
میں نے جِس کی آنکھ میں آنسو کبھی دیکھا نہ تھا
حال میرا پوچھنے وہ