انگلینڈ پہنچ کر ارشد خان بار بار راحیلہ کو کال پے کال کر رہا تھا مگر وہ آگے سے فون نہیں اٹھا رہی تھی ۔۔۔۔
اور یہ بات اس کی پریشانی میں مزید اضافہ کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔
تبھی اس نے اپنے دوست کو کال کی ۔۔۔
جس کے ذریعے اس نے حسام اور رحیلہ کے رہنے کا بندوبست کیا تھا ۔۔۔
اس نے ارشد خان کو ایک ہوسپٹل کا پتہ دیا /۔۔۔
ارشد خان بھاگتا ہوا ہوسپیٹل کی طرف روانہ ہوگیا ۔۔۔
وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا۔۔۔۔
تو سامنے کا کوریڈ میں رحیلا اپنے چھوٹے سے پانچ سالہ بیٹے ابتسام کے ساتھ کھڑی بے یارومددگار رو رہی تھی ۔۔۔۔
بھاگ بھاگ اپنی بہن کے پاس پہنچا ۔۔۔۔
” کیا ہوا ہے رحیلا بتاؤ مجھے ۔۔۔۔
کب سے کال پہ کال نہیں کر رہا ہوں ۔۔۔
مگر تم فون نہیں اٹھا رہی ۔۔۔
آخر بات کیا ہوئی ہے؟؟؟
اتنی پریشانی میں تم نے بلایا ہے۔۔۔۔
اور یہاں ہوسپیٹل میں کیا کر رہی ہو ؟؟؟
اور اس حسام کہاں پہ ہے ۔۔۔۔
بتاؤ جلدی ۔۔۔😑😒”
ارشد خان نے رحیلا کے پاس پہنچتے ہی سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔۔۔۔
اور پریشانی سے اپنے سارے سوال پوچھے۔۔۔۔
” ارشد !!!!😥😥
وہ وہ ۔۔۔۔
حسام ۔۔۔۔ ”
اتنا بول کر رحیلہ راشد خان کے گلے لگ کر رونا شروع ہوگی ۔۔۔۔
“بتاؤ تو پتا چلے گا کیا ہوا ہے؟؟؟
اس طرح تم مجھے مزید پریشان کر رہی ہو ۔۔۔۔
رحیلہ پلیز کچھ تو بولو۔۔۔۔
بتاؤ تو کیا ہے اور تم سے کب سے پوچھ رہا ہوں حسام کا ۔۔۔
احسام کہاں پر ہے جلدی بتاؤ مجھے ۔۔۔۔”
راحیلہ کو سامنے کر کے پوچھا ۔۔۔۔
” حسام ۔۔۔
وہ ۔ارشد حسام 😥😥😥۔۔۔”
راحیلہ بس اتنا سیر بول رہی تھی ۔۔۔۔
روئی جاری تھی ارشد کو رہیلا کو چپ کرو انا مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔
” کیا ہوا ہے حسام کو؟؟؟
وہ ٹھیک تو ہے بتاؤ مجھے۔۔۔۔”
ارشد حسام کا پوچھ رہا تھا مگر راحیلہ اس کنڈیشن میں نہ تھی کہ وہ کچھ بتا پاتی ۔۔۔۔
” ایکسکیوز می ۔۔۔۔
آپ رحیلہ ہیں؟؟”
ڈاکٹر نے آکر راحیلہ سے انگلش میں کہا ۔۔۔
” ج جی ۔۔۔
میں راحیلہ ہوں ۔۔۔”
راحیلہ نے جواب دیا ۔۔۔
” آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے ۔۔۔۔
اور وہ
آپ کو بلا رہے ہیں ۔۔۔۔
ان کی حالت بہت سیریس ہے۔۔۔
اس لیے آپ زیادہ دیر با ت نہ کیجئے گا۔۔۔ ”
ڈاکٹر نے راحیلہ کو کہا ۔۔۔
یہ سن کر راحیلہ بھاگی ہوئی کمرے کی طرف کے گئی ۔۔۔۔
جبکہ ارشد ڈاکٹر کی طرف گیا تھا۔۔۔۔ کہ ان سے ساری معلومات لے سکے ۔۔۔
ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ آج سے دو دن پہلے رات کے گیارہ بجے حسام نامی ایک پیشنٹ کو یہاں پر لایا گیا ۔۔۔
ان کی حالت بہت سیر یس تھی۔۔۔
کار ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ان کی با ڈی کی کافی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھی ۔۔۔
اور اور دماغ میں اندرونی بلیڈنگ ہونے کی وجہ سے وہ کوما میں چلے گئے تھے ۔۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے ان کو ہوش آیا ہے۔۔۔
اور ان کی حالت بہت ہی زیادہ نازک ہے ۔۔۔۔
بچنے کے صرف % 2 چانسز ہیں ۔۔۔۔
وہ بار بار راحیلہ کا نام لے رہے تھے۔۔۔۔ ان سے بات کرنا چاہتے تھے شاید ۔۔۔
تبھی ہم نے ان کو ملنے کی اجازت دی ۔۔۔
یہ سب سن کر ارشد کا دماغ ماؤف هو گیا ۔۔۔۔
” ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔
حسام ۔۔۔
نہیں حسام کو میں کچھ نہیں ہونے دونگا۔۔۔
بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس میں علاج کرواؤں گا۔۔۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔
ہاں وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا انشاءاللہ ”
ارشد خان اپنے آنسو پونچھ کر ایک عزم کے ساتھ اٹھا ۔۔۔۔
اگر وہ ابھی سے ہمت ہار جاتا ۔۔۔
تو رحیلہ کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ۔۔۔اور اس نے ابھی حسام کو بھی تو بچانا تھا ۔۔۔۔
اس لیے ارشد کو ابھی مضبوط بنا تھا ۔۔۔
راحیلہ اور حسام دونوں کو اس کی ضرورت تھی ۔۔۔۔
چلتے چلتے ارشد خان کمرے کے سامنے آکر رک گیا جہاں پر حسام ایڈمٹ تھا ۔۔۔۔
” ارشد!!!
ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔۔۔
مجھے تم سے۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ضروری باتیں کرنی ہے۔۔۔۔”
حسا م نے آہستہ آہستہ بولتے ہوئے کہا۔۔۔ کیونکہ اسے بولنے میں دشواری ہورہی تھی۔۔۔۔
ارشد تیزی سے حسام کے پاس آکر بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔
” یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے ۔۔۔۔
بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔
میں آگیا ہوں ۔۔۔
دیکھو تو رہیلہ نہ رو رو کر کیا حال بنا لیا ہے ۔۔۔
تم سے تو راحیلہ کاایک آنسو برداشت نہیں ہوتا تھا۔۔۔
تو آج ایسے کیوں کررہے ہو ۔۔۔”
ارشد خان نے حسام کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔۔
” میں کچھ بھی نہیں کر رہا ۔۔۔
اور تم تو میرے بہت اچھے دوست ہوناں ۔۔۔
میں نے تم سے وعدہ کیا تھا میں ہمیشہ راحیلہ کا خیال رکھوں گا کبھی اسے کوئی دکھ نہیں دوں گا لیکن مجھے معاف کردینا ارشد ۔۔۔
میں اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکا آج میری وجہ سے راحیلا کا اتنا برا حال ہو گیا ہے ۔۔۔
اور میرے پاس اب زیادہ ٹائم نہیں ہے اس لیے
میری بات دھیان سے سنو ۔۔۔”
حسام آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔۔۔۔
لیکن مسلسل اس کے الفاظ کٹ رہے تھے ۔۔۔
“فضول باتیں نہیں کرو ۔۔۔
میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔
تمہیں ابھی بہت زیادہ جینا ہے دیکھو تو۔۔۔
رحیلہ کے ساتھ تمہیں پوری زندگی گزارنی ہے۔۔۔
ابھی وہ دیکھو تمہارا بیٹا ۔۔۔۔اس کی طرف دیکھو ۔۔۔۔
یار ایسے تو نہیں کرو ۔۔۔”
ارشد نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔
بیڈ کی دوسری سائیڈ پر رہیلا مسلسل روی جا رہی تھی ۔۔۔
” آف ر احیلہ ۔!!!
میری جان !!!
تم ا یسے رو کر مجھے مزید تکلیف دے رہی ہو ۔۔۔۔
تم جانتی ہو میں تمہاری آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کر سکتا ۔۔۔
تم مجھ سے وعدہ کرو تم کبھی نہیں رو گی ۔۔۔
اپنا اور میرے بیٹے کا بہت سارا خیال رکھنا ۔۔۔۔
میں تم لوگوں سے دور نہیں جا رہا میں تو ہمیشہ پاس رہوں گا تمہارے دل میں ۔۔۔
جب بھی تمہیں میری کمی محسوس ہوگی تم مجھے ہمیشہ اپنے پاس پاؤ گی ۔۔۔
بس رونا نہیں۔۔۔ میری جان۔۔۔
پلیز یار پلیز۔۔۔۔
حسام لیٹے لیٹے راحیلہ کے آنسو پوچھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اپنے آنسو نکل رہے تھے لیکن چہرے پر مسکراہٹ برقرار تھی۔۔۔
کہ وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا ۔۔۔۔
” پلیز حسام مجھے چھوڑ کے مت جانا۔۔۔ کہیں بھی۔۔۔
میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔
تم نے تو مجھ سے وعدہ کیا تھا ہم دونوں ہمیشہ ساتھ رہیں گے ۔۔کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے ۔۔۔
جب ہمارے چھوٹے چھوٹے پوتے پوتیاں ہؤ گے تو ہم کھلائیں گے۔۔۔ انہیں پارک میں لے کے جائیں گے ۔۔۔”
راحیلہ نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔
“دیکھو راحیلہ /۔۔۔
ایک نا ایک دن تو ہمیں جانا ہی ہے موت برحق ہے یہ تم بھی اچھے سے جانتی ہوں ۔۔۔
اور شاید ہمارا دونوں کا ساتھ یہاں تک ہی تھا اس فانی دنیا میں ۔۔۔
لیکن آخروی دنیا میں ہمیشہ ہم لوگ ساتھ رہیں گے ۔۔۔۔”
حسام نے راحیلہ کو پیار سے سمجھایا ۔۔۔
” ارشد تم رہیلہ اور میرے بیٹے کا بہت خیال رکھنا ۔۔۔
میں دونوں کی ذمہ داری تم پر دے کر جا رہا ہوں ۔۔۔
امید ہے تم میری راحیلہ کا بہت اچھے سے خیال رکھو گے ۔۔۔
کبھی اسے کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گے ۔۔۔۔”
حسام نے مسکرا کر ارشد سے کہا ۔۔۔
راشد چپ کر کے حاموشی سے آنسو بہائی جا رہا تھا ۔۔۔
” رحیلہ ۔۔۔
کبھی مت رونا ۔۔۔
کوئی بھی پریشانی ہو تو مضبوط بننا میں تمہارے ساتھ ہوں گا ۔۔۔۔
میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا ۔۔۔۔
I ….lo….v…e…….yo….u
را …ح۔۔۔۔ی ۔۔۔لہ ۔۔۔
اللہ۔۔۔۔
حا ۔۔۔ف۔۔۔ظ ۔۔۔۔۔”
بولتے بولتے حسام کی آواز بہت آہستہ ہوگی ۔۔۔
تیز تیز سانس لینا شروع ہوگیا ۔۔۔جیسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی ۔۔۔۔
اور اچانک مسکراتے ہوئے راحیلہ کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں ۔۔۔۔۔
حسام اب جا چکا تھا ہمیشہ کے لئے۔۔۔ راحیلہ اور اپنے بیٹے ابتسام کو اکیلا چھوڑ کر ۔۔۔۔
” حسام ۔۔۔۔۔۔
حسام ۔۔۔۔۔۔
تم ایسے نہیں جا سکتے ۔۔۔۔
میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔۔۔ حسام!!!!
آٹھو پلیز یار !!!
آنکھیں کھولو ۔۔۔!!!
حسام !!!!
دیکھو تمہاری راحیلہ مر جائے گی !!!
پلیز حسام !!! ”
راحیلہ پاگلوں کی طرح چیخ وپکار کر رہی تھی
اور حسام کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ تو جا چکا تھا ۔۔۔
اور جانے والے کبھی لوٹ کر واپس نہیں آیا کرتے ۔۔۔۔😥😥😥
ارشد خود ابتسام کو ساتھ لگائے رو رہا تھا ۔۔۔۔
ابتسام پانچ سال کا تھا اس لئے وہ اپنی ماما اور بابا کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
” تا می بیٹا۔۔۔😥😥
اپنے بابا سے کہو نہ اٹھے مجھ سے بات نہیں کر رہے ۔۔۔
وہ مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں۔۔۔
پلیز بیٹا اٹھاؤ ان کو ۔۔۔”
راحیلہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی اور حسام کو اٹھا رہی تھی ۔۔۔
” ڈاکٹر۔۔۔۔
نر س
پلیز یہاں پر آئیں
دیکھے۔۔۔۔
میرے حسام کو کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔
پلیز ان کو بچا لیں ۔۔۔
واپس لائیں ۔۔۔۔”
راحیلہ روتے روتے ڈاکٹر کے پاس گئی اور ان کے پاؤں پکڑ پکڑ کر ان سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔
“ارشد۔۔۔
پلیز تم کچھ کہو نہ ۔۔۔
تمہاری تو ہر بات مانتا تھا نہ اسے کہو نا پلیز ایک دفعہ مجھ سے بات کرے
آنکھیں کھولے۔۔
پلیز مجھ سے دفعہ ایک دفعہ بات کر لے کبھی تنگ نہیں کروں گی ۔۔۔۔”
ارشد کے بازو کو پکڑ کر وہ چیخ کر بولی ۔۔۔
راحیلہ کی چیخیں سارے ہسپتال میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔
ارشد نے اپنے ساتھ لگا لیا مگر وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی ۔۔۔۔
پھر اچانک بے ہوش ہو کر نیچے گرتی چلی گئی ۔۔۔
ارشد نے بھاگ کر تھاما ۔۔۔
ابتسام ڈر کر ا پنے بابا کے ساتھ لگا بیٹھا تھا ۔۔۔
” بابا دیکھیں موم کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔وہ نیچے گر گئی ہیں ۔۔۔
پتہ نہیں موم کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔”
ابتسام حسام کے ساتھ بیٹھا بتا رہا تھا ۔۔۔
” بابا آپ سن رہے ہیں نا ں ۔۔۔
اوہ ۔۔۔ آپ سو گئے ہیں۔۔۔
چلیں میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کرتا۔۔۔
آپ اچھے سے سو جائیں ۔۔۔
بعد میں جب اٹھیں گے پھر آپ ماما کو اچھے سے ڈانٹنا۔۔۔
دیکھیں کیسے کر رہی ہیں۔۔۔ اگر چوٹ لگ گئی تو ۔۔۔”
ابتسام معصوم سا بچہ اپنے باپ سے باتیں کر رہا تھا ۔۔۔
لیکن اسے کیا پتا کہ اس کے بابا بہت دور چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا ۔۔۔۔
#########
تین مہینے بعد ۔۔۔۔۔
“رہیلا!!!
تم میرے ساتھ چلو پاکستان ۔۔۔۔
میں یہاں پر ہرگز تمہیں اکیلے چھوڑ کے نہیں جاؤں گا ۔۔۔۔”
حساب کو گئے ہوئے تین مہینے گزر چکے تھے لیکن راحیلہ آدھی اسی مقام پر کھڑی تھی ۔۔۔
اسے لگتا تھا کہ ابھی حسام کمرے سے نکل کر آئے گا اور پوچھے گا ۔۔۔ رہیلا تم یہاں بیٹھی ہوں میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔
” نہیں ارشد مجھے کہیں نہیں جانا مجھے یہی رہنا ہے اپنے حسام کے پاس ۔۔۔۔”
راحیلہ غصے سے بولی اور اٹھ کر کمرے کی طرف چلے گئے ۔۔۔۔
” زاہدہ۔۔۔
تم ہی سمجھاؤ کچھ۔۔
اتنے بڑے ملک میں اکیلے کیسے رہے گی یہ ۔۔۔
میرے ساتھ چل بھی نہیں رہی۔۔۔ کیا کروں۔۔۔۔
تم بات کر کے دیکھو شاید تمہاری بات مان جائے ۔۔۔”
راشد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔
زاہدہ نے حامی بھر لی ۔۔۔۔
###########
” رحیلہ۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو کمرےمیں اندھیرا کرکے رکھا ہوا ہے ۔۔۔
اور جہاں تک میں تمہیں جانتی ہو تمہیں تو اندھیرا پسند ہی نہیں تھا ۔۔۔۔”
زاہدا راحیلہ کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔۔۔
” بھابی!!!
اب میری زندگی میں روشنی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔۔۔مجھے اندھیروں کے ساتھ ہی جینا ہے ۔۔۔۔ ”
رحیلہ نے روتے ہوئے بولا ۔۔۔
” راحیلہ ایسی مایوسی والی باتیں نہیں کرتے ۔۔۔۔
تم تو بہت ہی ہمت والی لڑکی ہو۔۔۔
مضبوط ۔۔ بہادر بنو رہیلا ۔۔۔۔
تمہیں اپنے بیٹے کے لئے جینا ہے ۔۔۔
دیکھو تو کیا حالت بنا رکھی ہے ۔۔۔
تمہاری اسی حالت کو دیکھ کر تامی کے ذہن پر برا اثر پڑے گا وہ بچہ ہے اسے اس بات کا کچھ پتہ نہیں ۔۔۔۔۔
خود کو زندگی کے معمول پر لاؤ ۔۔۔۔
اپنے لئے نہ سہی اپنے بیٹے کے لئے ہی سہی۔۔۔
لیکن خود کو نارمل کرو ۔۔۔۔۔”
زاہدہ نے راحیلہ کو ساتھ لگاکر سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
” بھابی میں نے بہت کوشش کی ہے لیکن مجھ سے نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔
ہر چیز میں حسا م کی یاد آتی ہے ۔۔۔۔”
راحیل سسکتے ہوئے بولا ۔۔۔
” تم ہمارے ساتھ چلو وہاں جاؤں گی ساتھ میں رہوں گی اب و ہوا بھی چینج ہوگئی تو خود ہی نارمل ہو جاؤ گی۔۔۔۔
یہاں پر اکیلی کیسے رہو گی اور جیسے تم نے حالت بنائی ہوئی ہے مجھے لگتا ہے کہ تم پاگل ہو جاؤں گی اور کچھ نہیں ۔۔۔”
زاہدہ نے کہا ۔۔۔
” نہیں بھابھی میں اس گھر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی اس گھر میں میں نےحسام کے ساتھ دس سال گزارے ہیں ۔۔۔
بہت ساری یادیں جڑی ہیں گھر کے ساتھ ۔۔۔۔
مجھے حسام کے سارے خواب پورے کرنے ہیں ۔۔۔”
راحیلہ نے خود کو مضبوط بناتے ہوئے حتمی فیصلہ کن انداز میں کہا ۔۔۔
” ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی میں تمہارے ساتھ ہوں ۔۔۔
لیکن خود کو نارمل کرو ۔۔۔۔۔
اتنے دن ہو گئے ہیں تم نے خود کو کمرے میں بند کر رکھا ہے اٹھو ہمارے ساتھ بیٹھو باتیں کرو تاکہ تم واپس زندگی کی طرف آؤ ۔۔۔”
زاہدہ نے راحیلہ کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
راحیلہ خاموشی کے ساتھ اٹھ کر ساتھ میں چلی ۔۔۔۔
کیونکہ اب اسے اپنے لئے نہیں اپنے بیٹے کے لئے جینا تھا خود کو مضبوط اور بہتر بنانا تھا تاکہ وہ اپنے بیٹے کے لئے دنیا سے لڑ سکے ۔۔۔۔۔
##########
ارشد اور زاہدہ ۔۔راحیلہ کو بہت ساری ہدایات کرکے چاروناچار واپس آگئے ۔۔۔۔
کیونکہ پیچھے مانم اکیلی تھی ۔۔۔
مانم صرف ڈیڑھ سال کی تھی ۔۔۔۔
کچھ پچیدگیوں کی وجہ سے ڈاکٹر نے اسے لمبا سفر کرنے سے منع کیا تھا۔۔۔۔
اس لئے زاہدہ اسے گھر ہی چھوڑ کر گئ تھی اس کی نانی کے پاس ۔۔۔۔۔
راحیلہ نے ایک جاب ڈھونڈی۔۔۔۔
حسام نے کافی سے سیونگ کر رکھی تھی تاکہ مشکل وقت میں کام آ سکے۔۔۔۔
اور یہی وجہ تھی کہ راحیلہ نے کسی سے مدد نہ لی بلکہ اپنے بل بوتے پر گھر کو چلایا۔۔۔
اپنے گھر اور ابتسام کی پڑھائی کا تمام خرچہ اپنے ذمہ لیا۔۔۔۔
راشد روز راحیلہ سے فون پر بات کرتا اس کا حال چال پوچھتا ۔۔۔۔
اور ہر مہینے بعد اسے ایک معقول رقم بھیجتا جیسے راحیلہ بغیر استعمال کیے اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرتی جاتی ۔۔
اور ہر پانچ مہینوں بعد رحیلہ کے پاس ایک چکر لازمی لگاتا۔۔۔۔
اور ضرورت کی تمام اشیاء اسے دے کر اتا ۔۔۔۔
کچھ سال گزرجانے کے بعد اچانک ارشد کو ایک سانس کی بیماری لاحق ہو گئی۔۔۔
جس کی وجہ سے اسے ڈاکٹر نے جہاز کا سفر کرنے سے منع کردیا ۔۔۔۔
لیکن ان سب کے باوجود ارشد پھر بھی ایک دو دفعہ راحیلہ سے ملنے گیا ۔۔۔۔
لیکن پھر شدید طبیعت کی خرابی کی وجہ سے راحیلہ نے اسے اپنی قسم دے کر انے سے منع کردیا ۔۔۔۔۔
کیونکہ بار بار سفر کرنے کی وجہ سے ارشد کی طبیعت زیادہ سے زیادہ خراب ہو گئی تھی ۔۔۔۔
اس کے بعد ارشد اور رہیلا کا رابطہ بس فون کال تک ہی رہ گیا ۔۔۔۔
تامی ارشد کے ساتھ کافی مانوس ہوگیا تھا وہ اپنے ماموں کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتا تھا ۔۔۔۔مگر جب ارشد دو تین سال اس سے ملنے انگلینڈ نہیں آیا ۔۔۔تو
اسی وجہ سے ابتسام اپنے ماموں کو زیادہ پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔
کیونکہ اس کے دل میں تھا کے اس کے ماموں اگر اسے پیار کرتے ہوتے تو اسے ملنے لازمی آتے ۔۔۔۔
راحیلہ نے اسے کافی دفعہ سمجھایا۔۔۔
مگر اس کے ذہن میں ایک ہی بات سوار تھی۔۔۔
اسی بات پر راحیلہ اسے کافی دفعہ ڈانٹ بھی دیا کرتی تھی ۔۔۔۔۔
###########
” اور آج جب کہ تمہاری پڑھائی مکمل ہوچکی ہے تو اب میں چاہتی ہوں میں واپس چلی جاؤں اپنے بھائی کے پاس ۔۔۔۔
اپنے ماں باپ کے پاس واپس جاؤ ۔۔۔
ان سے معافی مانگو اب مجھے معاف کردیں گے امید ہے ۔۔۔۔
زندگی کا آخری حصہ میں اپنے لوگوں کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔”
راحیلہ نے ساری الف سے ے تک کہانی بتاتے ہوئے کہا ۔۔۔
ایک دفعہ پھر سے رہیلا کے زخم تازہ ہو گئے تھے اسے لگ رہا تھا جیسے حسام کی موت کل کی بات ہو ۔۔۔۔
اسی وجہ سے راحیلہ کے آنسو نکل رہے تھے ۔۔۔
” موم !!!
مجھے معاف کردے ۔۔۔
میں نے آپ کو بہت تنگ کیا ہے۔۔۔۔
ماموں سے بھی میں خود بھی معافی مانگ لوں گا ۔۔۔غصے کی وجہ سے میں نے ان سے اتنی سال بات تک نہیں کی۔۔۔ بس حال چال پوچھ لیتا ہوں کبھی ۔۔۔
جائیں گے۔۔۔
پتہ ہے بچپن میں وہ مجھے بہت پیار کرتے تھے جب بھی وہ ناراض ہوتے تو چاکلیٹ دے کر منا لیتا تھا ۔ ۔۔۔۔”
تا می نے رحیلہ بیگم کے آنسو پونچھتے ہوئے اپنے ساتھ لگا کر کہا ۔۔۔۔
” ہا ں ۔۔۔
وہ تمہیں بہت یاد کرتاہے ۔۔۔
جب بھی کبھی کال کروں تو وہ سب سے پہلے تمہارا حال پوچھتا ہے ۔۔۔
وہ تمہیں دیکھنا چاہتا ہے ۔۔۔
میں نے اسے کہا کہ تم اب کافی بڑے ہوچکے ہو ۔۔۔
اونٹ جتنا قد ہوگیا ہے لیکن عقل ابھی بھی نہیں آئی ۔۔۔”
رحیلہ بیگم نے مسکرا کر کہا ۔۔۔
” موم ۔۔۔
کبھی تو سیریس هو جایا کریں ۔۔۔
کبھی اپ نے میری تعریف نہیں کی ۔۔۔
لوگوں کی مما ہیں وہ اتنی تعریف کرتی ہے وہ ذین کی مما کو ہی دیکھ لیں آپ ۔۔۔”
تا می نے منہ بنا کر کہا ۔۔۔۔
” ہاہاہاہا ۔۔۔۔
تم کوئی تعریف کے قابل کوئی کام کرو تو میں تعریف کرو نا ۔۔۔”
راحیلہ بیگم نے مسکراہٹ دبا کر کہا ۔۔۔۔۔
اس پر دونوں ماں بیٹا کا قہقہ نکل گیا ۔۔۔۔