پھر کیا هوا پاکستان میچ هار گیا اور ایمان نے رونا شروع کر دیا سب لوگ پرشىان هوگئے ایمان میرى جان کرکٹ میں تو هار جیت هوتى رهتى هیں نانو نے کہا
میں نے تو پہلے ہی کہا تھا پاکستان نے هار جانا ھے گڑیا نے کہا
سب کچھ تمہارى وجہ سے هوا هے اب ایمان گڑیا سے مخاطب ہوى
اچھا بیٹا بس چپ مامى نے ایمان سے کہا
شاه جو چپ کر کہ یہ سب دیکھ رہا تھا اور اپنا قهقها بضط کیا پاگل لڑکی شاه نے دل میں کہا
ایمان یونى سے گھر آئ تو اس کو نانو کے بارے ميں پیته چلا کہ نانو کى طبیت خراب ہے ایمان نانو کے کمرے میں آئ نانو کیا هوا
کچھ نہیں بس اب عمر هو گئی ہے نانو نے جواب دیا
ایمان میں نے ایک فیصلہ کیا ہے
جى نانو
تمہاری اور شاه کے نکاح کا
کیا ایمان کو لگا کہ اس نے کچھ غلط سنا هے شادی زندگی میں ایک بار هوتى هے میرى هوچکى هے ایمان نے کہا
بس کب تک ماضى میں رهوگئ بھول جائے جو کچھ هوا
کیسے نانو نہیں میں یه نکاح نہیں کرسکتى
اس کى بات پر نانو بےهوش هوگئ
نانو پلیز کیا هوا نانو نانو
ایمان کى آواز سن کر شاه کمرے میں ایا
دادو کو کیا ھوا
شاه نانو کو لے کر هسپىاٹل ایا کچھ ٹائم بعد ڈاکٹر باهر آیا
ان کا Bp لو تھا لیکن اب ٹھیک هے
شاه نے ایک نظر ایمان کو دیکھ جو رو رهى تھى اور گہرا سانس لیا
اتنے میں نرس آئی ایمان اور شاه کون هے
شاه ایمان ایک ساتھ نانو کے پاس ائے نانو مجھے اپ کا هر فیصلہ منظور ہے ایمان نے کہا
نانو نے شاه سے کہا اب اس وقت نکاح هوگا
جى بس شاه نے اتنا هى کہا
ایک گھنٹے میں وہ مسز شاه بن گئ
مبارک ہو وہ گڑیا کی آواز سے وہ هوش میں آئ
گڑیا مجھے گھر جانا ھے
گڑیا کو اس کے حالت پر افسوس هوا
اس سے پہلے گڑیا کچھ کہتى
گڑیا مجھے گھر جانا ہے ایمان نے دوبار کہا
گڑیا چپ هوگئ وہ جانتى تھى اب ایمان کچھ ٹائم اکیلے رہنا چاہتى هے
شاه باهر آیا ایک نظر آسمان کو دیکھ ماضى میں چلا گیا
ماضى
(لندن) شاه اس وقت اپنے گھر پر تھا اس کے فون پر علی کی کال آئی علی میرے یار شادی مبارک ہو
شاه میرى بات غور سے سن علی نے کہا
هاں
میں اس وقت ایک اهم مشین پر هو اس میں میرى جان کو خطر هے آج سے 6 ماہ بعد ایمان 20 سال کی هوجائے گئی اس کی جان کو خطر هے اگر مجھے کچھ هوا تو تو پاکستان اکر ایمان سے زدبرستى نکاح کر لینا وہ جب تم پر بھرسے کرنے لگاے گی تو تم کو سب کچھ بیان کر دے گئی شاه یار میرى ایمان کا خیال رہنا اس کو بہت محبت کرنا وه بہت معصوم هے
علی یار کیسى باتیں کر رہا ھے کچھ نہیں ہو گیا
شاه کی بات پر علی نے کہا شاه وعده کر
وعده اب علی کى آنکھیں بھیگ گئی علی یار تو رو رہا ہے
شاه میرى ایمان کا خیال رهنا فون بند ہوگا شاه اب علی کی بات پر غور کرنے لگا نہیں علی کو کچھ نہیں ہو گا
دو گھنٹتے بعد پاکستان سے فون آیا کہ علی اس دینا میں نہیں ہے اب اس گھر میں شاه کے رونے کى آواز تهى على تو تو اس طرح کیسے جاسکتا ھے علی علی علی شاہ کے لب پر ایک نام تھا
ان 6 ماہ میں وہ بس ایمان کے بارے ميں سوچتا تھا
کل رات وه دادو کے روم ميں ایا دادو مجھے آپ سے بات کرنى هے
هاں
دادو میں ایمان سے شادى کرنا چاہتا ہوں
یه تو اچھى بات ہے لیکن ایمان نہیں مانے گئی
جانتا ہوں اس نے دادو کو اس کی اور علی کی بات بتائ
اس کا مطلب تم اس سے محبت نہیں کرتے
دادو بات اگر محبت کی ہے تو نکاح کے بعد محبت هو جاتى ھے اور میں نے علی سے وعده کیا ہے کہ اس کی ایمان کی حفاظت اور محبت دو گا
ٹهیک هے میں کچھ کرتى هوں دادو نے کہا
اوکے دادو شاه نے دادو کے ماتھے پر پیار کیا اور اپنے کمرے ایا
شاه بهائ وه گڑیا کی آواز پر حال میں ایا
هاں
بهائ وه ایمان گهر چلى گئی ہے
کیا تم نے اس کى حالت دیکھى هے اور اس حالت ميں اس کو گھر جانے دیا
بهائ میں نے اس کو روکنا چاہیا لیکن وہ اس کے بعد کچھ کہتى
شاه نے اس کی بات کاٹى بس اندر جاو۔
ایمان غائب دماغ سے گاڑى چلا رهى تھی شاه کی کار اب ایمان کی کار کے پیچھے تھی آج تک اس نے سنا تھا کہ ایمان کار اس طرح چلالتى هے آج اس نے دیکھ لیا تھا اس نے اپنی کار کی سیپڈ اور تیز کر دی تھی لیکن وه تھی هى ایمان
شاه کو اس اس حرکت پر غصه آیا تھا شاه شروع سے هى غصه کا تیز تھا
ایمان گھر آئی لان میں اس نے اپنا جوتا اتار اندر اکر اس نے اپنا دوپٹہ اتار اور اپنے کمرے میں آئی ایک نظر آنیئه میں خود کو دیکھا اپنی بےبسى پر غصہ آیا اور کمرے کی ایک ایک چیر تورنا شروع کر دی
شاه اب گھر ایا اس نے ایمان کا جوتا اٹھا کر اندر لایا اور صوفے پر بیٹھا کچھ دیر بعد وه کچن میں ایا ایک گلاس ميں اس نے جوس ڈالا اس میں نیند کی دوا ڈالى اب وہ ایمان کے روم کى طرف ایا
ایمان جو تمام چیزیں تورا کر اب اس اس کا غصہ ختم ہو گیا تھا اب بس رور جا رہی تھی
شاه اس کے کمرے میں ایا اس نے پورے روم کا جائز لیا کمرے کی حالت دیکھ کر اب اس کو افسوس هوا
ایمان شاه نے نرمى سے ایمان کو پکارا
ایمان جو رونے میں مصرف تھى اس کى آواز پر چپ هوئ
آپ یہاں جائے مجھے کیسى سے بات نہیں کرنى
اهممم بات نہیں کرنى تو نہ کرو اب وه ایمان کو دیکھ رہا تھا
اس کا اس کو اس طرح دیکھنے سے ایمان کو یاد ایا اس کا دوپٹہ کہاں ہے جلدی سے المارى سے دوپٹہ نکال کر سر پر لیا اس کی یہ حرکت سے شاه کی لب پر مسکراہٹ آئی
ایمان کو اس کی یہ مسکراہٹ زهر لگا رهى تھی
ایمان یہ لو شاه نے گلاس اس کو دیا
آپ یہاں کہ کر رہے ہیں ایمان نے پھر سوال کیا
یہ لو شاه نے اس ککے سوال کو نظر انداز کیا
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے ایمان نے کہا
جواب دیتا ہوں تمہار هر سوال پہلے یہ پى لو
نہیں مجھے نہیں پینا
اس کے ضد پر اب شاه کو غصہ آیا
ایمان ایک بار میں هى بات مان لیا کرو
نہیں آپ کون هوتے هیں یہ بات کرنے والے
شاید تم بھول گئی هوں شوھر هوں
تو آپ جائے یہاں سے
ایمان مجھے زبردستی کرنے پر مجبور نہیں کرو
اووو تو اب آپ زبردستی کریں گئے ایمان نے کہا
پهر کیا شاه نے اس کو زبردستی جوس پلایا اور روم سے باهر ایا شاه کے جانے کے بعد ایمان نے کہا یہ آپ نے اچھا نہیں کیا اور پھر سے رونا شروع کر دیا
شاه کو ایمان کی باتوں پر غصہ آیا تھا پر اس وقت اس کى حالت پر افسوس هوا تھا وه جانتا تھا ایمان اس سب کو قبول نہیں کر گئی اس کو اس وقت آرام کی ضرورت ہے
شاه 15 منٹ بعد ایمان کے روم میں ایا ایمان کو زمین پر سوتے ہوئے دیکھ اس کے پاس آیا ایمان کو اٹھا کر بیڈ پر
لیٹا اس کى نظر اب ایمان کے ہاتھ پر گئی جو کہ زخمى تھا
اس نے ہاتھ پر پٹى کی
شاه نے ایک بار پورى روم کو دیکھ هر چیز تباہ کردى تھی علی نے کتنى محبت سے روم سجایا تھا شاه نے سوچا
على یار یہ لڑکى بھت غصہ والى ہے اور میں بھی اب آگے کیا هوگا شاه اب اپنی بات پر مسکرا
صبح ایمان کى آنکھ کھلى اس کو سارى بات یاد آی کل ایک دن میں اس کی زندگی بدل گى تھی اس کی آنکھیں پھر بھیگ گئی تھی ایک نظر على کى فوٹو کو دیکھ فریش ہونے چلى گئی اب نیچے آئ سب کو اسلام کیا نانو طبعت کیسى هے اب آپ کی ایمان نے پوچھا
میرى جان اب ٹھیک ہوں
اتنی دیر میں شاه بھی نیچے آیا اسلام و علیکم شاه نے کہا
گڑیا چلو دیر هو رهى هے ایمان نے کہا
لیکن وه اور کچھ کہانا چاہتى ایمان نے اس کى بات کاٹى
نہیں جانا تو میں اکیلے چلى جاتى هوں
چلو اچھا نانو خدا حافظ
لیکن بیٹا ناشتے تو کر کے جاو مامى نے کہا
نہیں مامى بھوک نہیں هے اور باهر آئ ایمان یہ سب کیا تھا
گڑیا نے کہا ایمان نے گہرا سانس لیا
مجھے تمہارا بھائ کى شکل بھی نہیں دیکھنى
ایمان یار وہ اب تمہارے شوھر هے
مجھے پتہ هے لیکن یہ سب ان کے وجہ سے هوا هے
ایمان یار بھائ نے کیا کیا
تمہارے بهائ نکاح کے لئے منع بھی کر سکتا تھا
گڑیا ایمان کی بات پر خاموش ہو گئی ٹهیک هى تو کہ رهى تھی ایمان
ایمان نے گڑیا کو چپ دیکھا اور کہا چلو اب دیر هورهى هے
اهممم شاه جو ان دونوں کی باتوں کو سن چکا تھا اب شاه نے گڑیا کو پکارا
گڑیا
بھائ گڑیا آج سے یونى تم دونوں کو میں ڈواپ کر هوگا
ایمان خود شاه کو مخاطب نہیں کرنا چاہتى تھی اس نے گڑیا کو آنکھیں سے اشارہ کیا اس کی اس حرکت پر شاه مسکرا
نہیں بهائ اس کی ضرورت نہیں ہے گڑیا نے کہا
میں نے تم سے پوچها کہ ضرورت ہے کہ نہیں شاه نے مصنوعی غصہ سے کہا
گڑیا چپ ہو کر کار میں بیٹهى گئی کار شاه بھی بیٹھ گیا
ایمان کو اب گڑیا کی حرکت پر غصہ آیا تھا
کہ تم کو الگ کہانا هوگا شاه نے ایمان سے کہا ایمان غصہ سے شاه کو دیکھا تھا مجھے نہیں جانا آج ایمان نے کہا اور اپنے کمرے میں آئی ایمان کو اس حرکت پر شاه کو غصہ آیا تھا پھر کچھ سوچا کر مسکرا
بهائ مجھے نہیں جانا اب گڑیا نے کہا
کیوّں نہیں جانا
ایمان نے نہیں جانا اس لئے
نہیں تم گڑیا تم جاو گئی اب میں کوئ بات نہ سنو
لیکن میرى دوست مجھے سے ناراض ہو جائے گئی
اچھا تمہارى دوست اور اپنى منکوحہ کو مناکر لاتا هوں شاه نے کہا اور اندر چلا گیا
گڑیا نے آسمان کی طرف دیکھ کہا یاالله ان دونوں کو هدایت دے آمین۔
شاه ایمان کے کمرے میں ایا ایمان جو کہ علی کى فوٹو کو دیکھ رهى تھی ایمان شاه نے کہا
آپ یهاں
مجھے تم سے بات کرنى هے شاه نے کہا مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنى هے ایمان نے کہا
شاه کو اس کے بات پر اب غصه آرها تھا ایمان پہلى بات میں تم سے بڑا هو دوسرى بات میں شوهر هوں تمهارا اس لئے امید کرتا هوں آنئد اس طریقے سے بات نہیں کرو گئی
ایمان شاه کی بات سن کر شرمندہ هوى سورى ایمان نے کہا
شاه نے گہرا سانس لیا ایمان یونى کیوں نہیں جانا
مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا
دیکھوں ایمان میری زندگی میں چار لوگ بہت اهمیت رکھتے ہیں علی دادو ماما اور گڑیا اب ان لوگوں میں تم بھی شامل هو میں نہیں چاهتا کہ تم کو کچھ هو آج تک میں نے دادو سے سنا تھا کہ تم گاڑى تیز چلاتى هو لیکن کل دیکھ لیں تھا اب چلو گڑیا انتظار کررهى هے
یه کهہ کر شاه نے ایمان کا ہاتھ تھام لیا اور اس کو باهر لے ایا ایمان اس کی باتوں سے حیران تھی اس کے ہاتھ پاکرنے کى وجہ سے پرشیان هوگئ تھی
گڑیا نے کار میں بیٹھ کر ان کو اپنی طرف آتے دیکھ شاه کے چہرے پر مسکرا دیکھى شکرا اللہ کہ ان دونوں کا مسله حل هوگے هے گڑیا نے کہا
شاه نے ایمان کو کار میں بیٹھا کر گاڑى چلا دى شاه نے یونى کے گیٹ پر کار روکى گڑیا تم جاو ایمان آتى هے شاه نے کہا
جى بھائ ایمان سارے رستے شاه کی باتوں کو سوچتى رهى ایمان شاه نے اب نرمى سے ایمان کو پکارا
شاه کى آواز سے ایمان هوش میں آئی جى وه یونى اگئ
ایمان نے سوال کيا
اس کہ سوال پر شاه نے کہا هاں ایمان تم نے کل سے کچھ نہیں کھايا پلیز کچھ کھا لینا
جى ایمان نے کہا اور کار سے اتارى
ایمان کے جانے کے بعد مجھے نہیں پىته تھا کہ ایمان میری بات کو اتنى جلدی مانے گئی شاه نے سوچا
کیا هو گڑیا نے ایمان سے پوچھا تو ایمان نے اس کو اپنى اور شاه کى بات بیاتئ
گڑیا شاه کی باتوں میں بہت مان اور محبت تھی میں چاه کر بھی أن کو کچھ نہیں که پائ
ایمان بهائ سب سے محبت کرتے ہیں یہ ان کى اچھى بات ہے
میں تم دونوں کے لئے دعا کرتى هوں بهائ تم کو اور تم بهائ کو سمجھ
ایک هفته گزار گئے ایمان کسى سے بات نہیں کرتى تھی گھر ميں سب پرشىان تھے
شاہ اپنا کمرے میں کام کر رہا تھا کہ گڑیا کمرے میں آئی بھائ مجھے آپ سے بات کرنى هے
هاں کہوں
بھائ ایمان بالکل چپ ہو گئی ہے
گڑیا اس کو وقت دو سب قبول کرنے کا
وه ٹھیک ہے بھائ لیکن وہ اس طرح پاگل ہو جائے گی میں اس سے بات کرنے کى کوشش کرتى هو وه کچھ نہیں بولتى
اور تین دن سے یونى میں کوئی کلاس نہیں لیے رهى هے بس پر وقت سوچتى رهتى هے
اس طرح تو پرھى کا حرج هوگا شاه نے کہا
جى بهائ اس وقت ایمان کو ایک کندھا چاہئے میں چاہتى هوں آپ اس سے بات کرے
ٹھیک ہے میں ایمان سے بات کرتا ہوں
شاه ایمان کے کمرے میں ایا ایمان جو على کى فوٹو کو ہاتھ میں لیے کچھ سوچ رهى تھی کہ شاه کہ آنا کا پیته هى نہیں چلا شاه کچھ دیر ایمان کو دیکھاتا رہا
ایمان
ایمان شاه کى آواز سے دنیا میں آئی
آپ کب آئے اس وقت میرے کمرے میں کوئی کام تھا کیا
ایک ساتھ انتے سوالا پر شاه مسکرا ایمان مجھے تم سے بات کرنى هے
جى ایمان سب گھر والے پرشىان هے تمهارے لئے تم چپ کیوں رہتى هوں بات کیا کرو یار اگر کسى بات پر پرشىان هو تو مجھے سے بات کرو مجھے سے نہیں تو گڑیا سے بات کرو مسله کا حل نکالو
ایمان کو شاه کی باتوں پر رونا ارها تھا وه ضبظ کیے هو تھی
شاه اس کو دیکھ رہا تھا کمرے میں کچھ دیر کى خاموشی هوئ شاه پهر بوالا ایمان جواب دو لیکن ایمان اب بھی چپ تھی شاه نے گہرا سانس لیا شاه نے ایمان کو کچھے کر اپنے گلے سے لگایا اور گرفت مضبوط کر دی
ایمان اس حملہ کہ لئے تیار نہیں تھا شاه کى حرکت پر غضه ایا تھا مسٹر شاه یہ کیا کر رہے هے چھورے مجھ
ایمان تم رو لو پھر تم کو آزاد کرتا ہوں
نہیں رونا مجھے وہ مسلسل خود کو آزاد کروانے کی کوشش کر رہى تھی شاه کو اس کی کوشش سے فرق نهيں پرا اس نے اپنی گرفت اور مضبوط کر دى
ایمان نےاب شاه کہ سینے پر موکے مارنے شروع کردے تھے
شاه اس کی اس حرکت پر مسکراے تھا
ایمان چندا تم رو لو تو تمکو آزادى مل جائے گی شاه نے پیار سے کہا مجھے نہیں رونا پلیز مسٹر شاه چھورے مجھے ایمان اب بھی مزحمت کررهى تھى ایمان کو شاه کہ چہرے پر سکون دیکھ کر رونا آرها تھا اپنی بےبس پر
پهر کیا ایمان نے رونا شروع کر دیا شاه نے کچھ دیر رونے دیا پهر نرمى سے خود سے الگ کیا ایمان بیڈ پر بیٹھایا ایمان اب بھی رونے میں مصروف تھی شاه نے پانى اس کو دیا
بس اب چپ ایمان شاه اب ایمان کو چپ کروا رها تھا ایمان دیکھ میں طرف ایمان چپ هو کر شاه کو دیکھنے لگئ
میں جانتا هو کہ یہ سب آسان نہیں هوگا لیکن یقىن کرو یار کوشش کرو یه ناممکن نہیں ہے اپنے ماضى کو بھولا
مسٹر شاه آپ کو کیا لگتا ھے میں کوشش نہیں کرتى لیکن یہ اتنا اسان نہیں ہے
جانتا ہوں تم على سے بہت محبت کرتى هو اس کو بھولا اسان نہیں ہے
بات على کى نہیں ہے بات ماضى کى هے لیکن میں کوشش کرو گئی
ٹھیک ہے میں گڑیا دادو ماما سب تمهارا ساتھ دے گئے
مسٹر شاه آپ نے اچھا نہیں کيا میرے ساتھ
ایمان شاه کو کچھ دیر پہلے والى حرکت دیا کروائی
شاه ایمان کی بات پر مسکرایا چندا تم کو اس کی ضرورت تھی
ایمان کو اس کی بات پر غضه ایا تھا
میں کوئی چندا نہیں هوں ایمان نام هے میرا
شاه اس کو بات پر قهقها لگایا اوکے ایمان تم کو پىته هے غضه میں تم اور بھی پیارى لگاتى هوں اچھا چندا سو جاو رات بهت هوگئ هے شاه نے کہا اور کمرے سے باهر ایا
ایمان کو اس کی بات پر پھر غضه ایا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...