ہوں اس لڑکی کی ہمت کیسے ہوئی اپنے گھر والوں کے ذریعے میرے پاپا کو شکایت کرنے کی آخر اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہے اس طرح میں اسے چھوڑ دؤں گا تو یہ اس کی بھول ہے اب تو میں اسے ہر قیمت پر حاصل کر کہ رہوں گا چاہیے اس کے لیے مجھے اسے اغوا کرنا پڑا تو کرؤں گا وہ شرٹ سے بے نیاز بیڈ پر اوندھا لیٹا اس کے بارے میں سوچ رہا تھا –
*****************
آپ کے لاڈلے نے لگتا ہے آفس نہیں جانا آج وہ ڈائننگ ٹیبل پر کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے بولے –
ایک تو تھوڑا سا لیٹ ہو جائے آپ ایسے شروع ہو جاتے ہیں –
وہ بیٹے کی حمایت کرتے ہوئے بولیں
آپ زیادہ اس کی حمایت نہ کیا کریں تو بہتر ہے اس کے لیے –
آپ آج اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں ؟
سائرہ بیگم اپنے بیٹے کو سمجھا دیں اپنی حرکتوں سے باز آ جائے وہ اسے دیکھتے ہوئے بولے –
کیوں اب اس نے کیا کر دیا ؟
جاوید آفندی کی رات کو کال آئی تھی ان کی بیٹی کو آپ کے لاڈلے یونیورسٹی میں جا کر دھمکیاں دیتے ہیں مجھے سے شادی کے لیے ہاں کہہ دؤ ورنہ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں -جب انہوں نے کہا کہ اپنے بیٹے کو سمجھا دیں اپنی حرکتوں سے باز آ جائے -آپ نہیں جانتی مجھے کتنی شرمندگی ہوئی -کیا سوچتے ہوں گے پتہ نہیں ہمارے بارے میں تمہارا بیٹا میری عزت بھی خراب کرنے پر لگا ہوا ہے وہ غصے سے چائے کا کپ رکھتے ہوئے بولے –
آپ ایسے غصہ کر رہے ہیں بچہ ہے ابھی میں سمجھا دؤں گئی – وہ ان کو سمجھتے ہوئے بولیں –
ہوں بچہ ہے چوبیس سال کا ہو گیا ہے پتہ ہے وہ طنز کرتے ہوئے بولے –
یہ کبھی نہ ماننا کہ قصور میری تربیت کا ہے -آپ ہی نے آج تک سر پر چڑھیا ہوا ہے ہمیشہ ہر برے کام میں اس کا ساتھ دیا ہے وہ غصے سے بولے –
بس جاوید زیادہ مجھ پر غصے کرنا کی ضرورت نہیں ہے –
میں بھی آپ سے مزید بات نہیں کرنا چاہتا اپنے بیٹے کو سمجھا دینا اپنی حرکتوں سے باز آ جائے وہ وہاں سے اٹھتے ہوئے سخت لہجے میں بولے اور باہر چلے گئے –
ہوں ہر بار مجھے تربیت کا طعنہ دیتے ہیں خود نہیں کر سکتے تھے پھر –
******************
وہ دستک دے کر روم میں داخل ہوئی تھیں -جنید بیٹا اٹھ جاؤ آج آفس نہیں جانا -وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھرتے ہوئے بولیں –
وہ اس وقت بیڈ پر اوندھا لیٹا ہوا تھا
مما میں آج آفس نہیں جارہا وہ آنکھیں کھولتے ہوئے بولا –
کیوں بیٹا ؟
بس ویسے مما دل نہیں آج جانے کو
اچھا بیٹا اٹھ تو جاؤ ناشتہ تو کر لو پھر مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے وہ پیار سے بولیں –
مما جو بات آپ کو کرنی ہے ابھی کر لیں میں ابھی نہیں اٹھ رہا ہوں –
اچھا بیٹا جیسے تمہاری مرضی میں تم سے یہ کہنا چاہتی تھی کہ اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ –
تمہاری وجہ تمہارے پاپا مجھے تربیت کے طعنے دیتے ہیں کہ تم نے اپنے بیٹے کی ٹھیک تربیت نہیں کی وہ اسے سمجھتے ہوئے بولیں –
مما پاپا کی تو عادت ہے ان کو تو میری ہر بات پر اعتراض ہوتا ہے وہ غصے سے بولا –
بیٹا وہ آپ کی بہتری کے لیے بولتے ہیں وہ نرم لہجے میں بولیں اب جو کرتے پھر رہے ہو یہ ٹھیک ہے کیا ؟
اب میں نے کیا کر دیا وہ انجان بنتے ہوئے بولا –
زیادہ انجان بھی نہ بنا کرؤ جنید جب وہ اس شادی پر راضی نہیں تو تم اس بچی کو یونیورسٹی میں جا کر دھمکیاں کیوں دیتے ہو وہ اس بار سخت لہجے میں بولیں –
مما آپ بھی پاپا کی طرح اب باتیں نہ کریں میں شادی کرؤں گا تو اسی لڑکی سے اور اس کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں وہ غصے سے بولا –
ٹھیک ہے بیٹا اب تمہیں تمہارے پاپا ہی سیدھا کریں گے وہ غصے سے وہاں سے جاتے ہوئے بولیں –
******************
اچھا ایمان تم بتا رہی تھی کہ مما سے تم نے جنید کے بارے میں بات کی ہے وہ دونوں اس وقت کلاس میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں –
ہاں فائزہ اور مما نے بابا سے بھی کر دی ہے اور میرے خیال میں جنید کے پاپا سے بھی بابا نے بات کی ہے –
اب پتہ نہیں وہ اپنے پاپا کی بھی سنتا ہے یانہیں اس نے تو ایک انکار کو اپنے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے –
ہاں ایمان کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو کوئی ضدی انسان ہے –
چلو فائزہ اب خاموش ہو جاؤ لگتا ہے پروفیسر صاحب آرہے ہیں –
*******************
بیگم صاحبہ کوئی جنید صاحب ملنے آئے ہیں –
ٹھیک ہے تم ان کو ڈرائنگ روم میں لے آؤ میں ابھی آرہی ہوں –
ٹھیک ہے بیگم صاحبہ
پروین بھابی یہ وہی جنید تو نہیں جس سے ایمان بیٹی نے شادی سے انکار کیا ہے جی بھابی میرے خیال میں وہی ہے وہ دونوں اس وقت لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھیں -یہ اب کیا کرنے آیا ہو گا ؟
پتہ نہیں بھابی یہ تو مل کر ہی پتا چلے گا -سکینہ چائے لے کر ڈرائنگ روم میں آجانا وہ ملازمہ کو آواز دیتے ہوئے بولیں
جی بیگم صاحبہ
ٹھیک ہے بھابی میں جنید سے مل کر آتی ہوں –
*************
السلام علیکم آنٹی وہ ان کو دیکتھے ہوئے بولا –
وعلیکم السلام جنید بیٹا
وہ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں –
کیسے ہو بیٹا ” ٹھیک آنٹی آپ بتائیں ”
اللہ کا شکر ہے بیٹا میں بھی ٹھیک ہوں
آنٹی میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا تھا
“جی بیٹا بولو”
آنٹی میں ایمان سے شادی کرنا چاہتا ہوں
“بیٹا وہ اس رشتے سے انکار کر چکی ہے اور ہم اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتے وہ سمجھتے ہوئے بولیں ”
“ٹھیک ہے آنٹی جیسے آپ کی مرضی پھر آپ میری بات بھی سن لیں میں اسے شادی کرنے کے لیے اسے اغوا بھی کر سکتا ہوں اور آپ جانتی ہیں ایک لڑکی کی عزت کتنی نازک ہوتی ہے آپ پھر بھی سوچ لجیئے گا ایک بار وہ بدتمیز سے بولا اب میں چلتا ہوں آنٹی جی
خداحافظ وہ آنکھوں پر گلاسز لگاتے ہوئے بولا اور چلا گیا ”
توبہ ہے یہ لڑکا تو میری بچی کے پیچھے پڑ گیا وہ اس کی باتوں سے پریشان ہو گئی تھیں –
**************
پروین بیگم پرشان لگ رہی ہیں میں کب سے آپ کو دیکھ رہا ہوں وہ کون سی بات ہے جو آپ کو پرشان کر رہی ہے –
وہ کتاب کو بک شیلف میں رکھتے ہوئے بولے وہ اس وقت بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں
“میں نے آپ کو بتایا تو ہے جنید آج دھمکی دے گیا کہ آپ نے رشتے کے ہاں نہیں کی تو میں اغواء کر لوں گا آپ کی بیٹی کو”
میں نے جاوید سے بات کی ہے وہ اسے سمجھا دے گئے نہیں تو کچھ اور سوچتے ہیں وہ ہمارے ہوتے ہوئے ہماری بیٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا –
رات کافی ہو گئی ہے پریشانی کسی مسلئے کا حال نہیں ہوتی اب آپ بھی لائٹ آف کر کے سو جائیں میں بھی سونے لگا ہوں وہ ان کی پریشانی دور کرتے ہوئے بولے –
“پریشان تو وہ بھی تھے لیکن اپنی پریشانی ظاہر نہیں کر رہے تھے ”
**************
یوسف آفندی اس وقت آفس میں بیٹھے کام میں مصروف تھے کہ سیکٹری کی کال آئی –
سر آپ سے کوئی جاوید صاحب ملنے آئے ہیں –
ٹھیک ہے آپ ان کو بھیج دیں –
ہوں یہ جاوید صاحب کیوں آئے ہوں گے-
السلام علیکم یوسف صاحب وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بولے –
جی وعلیکم السلام بیٹھیں آپ کھڑے کیوں ہیں -شکریہ یوسف صاحب
کیسے ہیں آپ ” جی ٹھیک آپ بتائیں ”
میں بھی ٹھیک ہوں یوسف صاحب
معاف کیجیے گا آپ کا قمیتی وقت ضائع کرنے آگیا –
جی ایسی بات کہہ کر آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں – آپ یہ بتائیں چائے لیں گئے یا کافی –
میرے خیال میں کافی ٹھیک ہے
ہیلو شاہد دو کپ کافی لے آؤ میرے کیبن میں ” اوکے سر ”
میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا تھا تو سوچا آفس میں جا کر ہی مل لوں –
جی ضرور کجیئے –
رات کو جب آپ نے مجھے کال کر کہ بتایا کہ میرا بیٹا آپ کے گھر دھمکی دینے آیا تھا کہ وہ آپ کی بیٹی کو اغواء کر سکتا ہے تو مجھے یہ سن کا کر بہت شرمندگی ہوئی -میں نے اپنی طرف سے اسے بہت سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ میری کوئی بات نہیں سنتا میں جانتا ہوں قصور ہمارا ہے ہماری تربیت میں ہی کمی رہے گئی ہے وہ شکست خور لہجے میں بولے –
جاوید صاحب آپ کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ نرم لہجے میں بولے –
یہ کافی پی لیں ٹھنڈی ہو رہی ہے “جی ”
میں آپ کو ایک تجویز دینا آیا تھا جنید کے بارے میں تو آپ کو بتایا ہے وہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے –
جی بتائیں آپ اپنی تجویز –
آپ لوگ اپنی بیٹی کی شادی یا نکاح کر دیں تعلیم تو شادی کے بعد بھی حاصل کر سکتی ہے کیونکہ جنید کو میں جانتا ہوں بہت ضدی ہے وہ ایسے آپ کی بچی کو نہیں چھوڑنے والا اور میں آپ سے معافی چاہتا ہوں میرا بیٹا آپ کے لیے پرشانی کا باعث بن رہا ہے اور میں بھی اس میں کچھ نہیں کر سکتا -وہ شرمندہ سے لہجے میں بولے –
جی اب اس بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا اب بھی کچھ غلط نہیں کہہ رہے ہیں وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے –
جی آپ بھی اس بارے میں سوچیں میں بھی جنید کو سمجھنے کی پھر سے کوشش کرؤں گا –
“جی ضرور ”
ٹھیک ہے یوسف صاحب اب چلتا ہوں میں آپ کا کافی ٹائم لے چکا ہوں وہ گھڑی کو دیکتھے ہوئے بولے –
جی کوئی بات نہیں میں ویسے بھی کوئی خاص کام نہیں کر رہا تھا –
شکریہ یوسف صاحب خداحافظ وہ اٹھتے ہوئے بولے –
جی خداحافظ
****************
ہیلو ایمان آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئی تم ؟
سوری یار تمہیں بتانا بھول گئی تھی امی جان نے آج نہیں جانے دیا
کیوں یار ؟
یار کل جنید دھمکی دینے آیا تھا کہ میں آپ کی بیٹی اغواء بھی کر سکتا ہوں آپ نے ہاں نہیں کی تو بس امی جان تو ڈر گئیں –
اف یار یہ جنید تمہارے پیچھے ہی پڑ گیا
” ہاں فائزہ ”
اب کب تک نہیں آؤ گئی وہ تو باز آنے والا نہیں ہے –
یار کوشش کرؤں گئی کل آؤں گئی بس امی جان کچھ زیادہ ہی ڈر گئی ہیں ورنہ میں اس کی اس دھمکی سے نہیں ڈرنے والی وہ مجھے اغواء نہیں کر سکتا –
وہ اس وقت اپنی روم میں بیٹھی فائزہ کے ساتھ سیل فون پر بات کر رہی تھی –
زیادہ بہادر بنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے وہ اغواء کر بھی سکتا ہے –
مجھے حوصلہ دینے کے بجائے تم ڈرا رہی ہو کیسی دوست ہو فائزہ وہ ناراض لہجے میں بولی –
ڈرا کب رہی ہوں تمہیں حقیقت بتا رہی ہوں –
تم یہ حقیقت اپنے پاس سنبھال کر رکھو
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی –
**************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...