حال
“جب سب ٹھیک ہو چکا تھا تو پھر ایمان اس حال میں کیسے؟” مجھے تعجب ہوا تھا۔۔ آخر ایسی بھی کیا وجہ تھی کہ ایمان اس قدر بدتر حال میں ہسپتال میں پڑی تھی۔۔
“وہ وجہ میں تھا۔۔” میری پیشانی شکن آلود ہوئی “میری ہی وجہ سے ایمان وآپس اس حال میں پہنچی تھی۔۔”
“مگر کیسے؟؟؟” اطراف میں لوگ گزرتے اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔۔ قریب پڑی کرسیاں اور ونڈ سکرین سانس روکے اس کے جواب کے منتظر تھے۔۔
“میں ایمان سے شادی کا خواہشمند تھا۔۔ مجھے اس کے ماضی کے متعلق تقریبا معلوم تھا اور میں اسے زندگی کی جانب وآپس موڑنا چاہتا تھا۔۔ مگر وہ۔۔ وہ تیار نہ تھی۔۔”
“کیا مطلب؟؟” میں الجھی۔۔ وہ مزید تفضیل بیان کرتا میری الجھن مٹانے لگا۔۔
“میری امی نے طاہرہ آنٹی سے ہمارے رشتے کے متعلق بات کی تھی۔۔ امی خوش تھیں۔۔ طاہرہ آنٹی پہلے پہل سوچ میں ڈوبی رہیں مگر بلآخر انہوں نے رشتے کے لئے حامی بھر لی۔۔۔ میں بہت خوش تھا(ہی کہتے اس کی آنکھوں میں زخمی سا تاثر ابھرا) مجھے میری محبت نصیب ہو رہی تھی۔۔ شاید دنیا میں اس سے خوبصورت احساس کوئی بھی نہیں تھا۔۔ بہرحال مجھے ایسا ہی لگتا تھا۔۔ یہ سب بہت خوبصورت تھا۔۔ نہایت ہی خوبصورت احساس۔۔۔” لہجے سے حسرت ٹپک رہی تھی۔۔ “ہر شے حسین لگنے لگی تھی مگر پھر ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ ایمان ہسپتال میں ہے۔۔
اسے پھر سے مائگرین اٹیک ہوا تھا۔۔ میرے لئے یہ غیر متوقع تھا۔۔ میرے مطابق اسے خوش ہونا چاہئے تھا۔۔” اس کے چہرے پہ سایہ سا لہرایا۔۔ مجھے اس کی حالت پہ ترس آیا۔۔ یہ محبت بھی بڑی ظالم شے ہے۔۔ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔۔ وہ مزید کہنے لگا۔۔
“ڈیوٹی کے بعد جب میں اس سے ملنے آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس رشتے سے خوش نہیں تھی۔۔ درحقیقت وہ آج بھی شاہ سے محبت کرتی تھی۔۔ شاہ کی اچانک موت نے اسے ڈرا دیا تھا۔۔ ایمان کو لگتا تھا وہ جس شخص سے بھی جڑے گی، وہ یونہی اسے چھوڑ جائے گا۔۔ اور میں۔۔ میں آج بیچ چوراہے پہ کھڑا ہوں۔۔ سوچ رہا ہوں کیا فیصلہ کروں۔۔ چھوڑ دوں یاں تھام لوں۔۔ چھوڑ دیا تو محبت کی ہار ہوگی۔۔ تھام لیا تو شاید ایمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دوں گا۔۔”
“تھام لیں۔۔” میں نے اسکی مشکل آسان کرنی چاہی۔۔ “لے جایئں اسے اپنے ساتھ۔۔ اسے شاہ کی قید سے صرف آپ کی محبت رہائی دلوا سکتی ہے۔۔ وہ ابھی اس بات کو دل سے تسلیم کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔۔ مگر۔۔ ایک نہ ایک دن۔۔ اسے احساس ضرور ہوگا کہ۔۔ آپ ہی تھے۔۔ جنہیں اسکی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔۔ شاہ زندہ ہوتا تب بھی وہ اسے کبھی حاصل نہ کر سکتی۔۔”
“محبت کے پرندوں کو قید نہیں کیا جاتا۔۔ بلکہ انہیں کھلی فضاؤں میں سفر کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔۔ میں ایمان سے محبت کرتا ہوں اور اس وقت کا منتظر ہوں۔۔ جب وہ شاہ کی قفس محبت سے رہائی حاصل کرتی از خود میرے پاس آئے گی۔۔ اور تب تک مجھے محض انتظار کرنا ہے۔۔ اب یہ انتظار کتنا طویل ہوتا ہے، یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے۔۔”
علی کو اپنی محبت پہ بلا کا یقین تھا، مگر یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے مشکلیں آسان نہ ہونی تھیں۔۔ مجھے میری داستان محبت مل چکی تھی اور میں جانتی تھی ایک نہ ایک روز ایمان کو علی کی محبت کا یقین ضرور ہونا تھا۔۔ اسے خوشیاں نصیب ہونی تھیں مگر وہ ازخود تنہائیوں میں رہنے کو ترجیح دے رہی تھی۔۔ جانے اب اس داستان میں کس کی جیت ہونا قرار پائی تھی محبت کی یاں قید کی؟؟؟
* * * * * * *
کئی دن بیت گئے۔۔ ایمان کی طبیعت اب سمبھال چکی تھی۔۔ میں ہر روز اس سے ملنے کی غرض سے ہسپتال جاتی تھی۔۔ چند ضروری معلومات حاصل کرتے میں اس کی داستان تحریر کرنے لگی۔۔ ہر روز ہسپتال سے وآپسی پہ میری ملاقات علی سے ہوتی تھی جو ڈیوٹی سے سیدھا ایمان سے ملنے آ پہنچتا تھا۔۔
نیند کی قلت کے باعث اس کی رنگت زرد پڑنے لگی تھی، مگر اسے ایمان کی صحت کے علاوہ کسی شے کی پرواہ نہ تھی۔۔ آج اتوار کا روز تھا جب میں ایمان سے آخری بار ملنے گئی تھی۔۔ وہ سٹریچر سے ٹیک لگائے بیٹھی ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی۔۔ چہرہ دھلا دھلایا اور رنگت اب پہلے کی نسبت قدرے بہتر لگتی تھی۔۔
اس کے پہلو میں بیٹھا علی پھل کاٹتا مسلسل ٹی وی پہ نشر ہونے والی خبر پہ تبصرہ کر رہا تھا۔۔ وہ گاہے بگاہے نگاہ موڑتی علی کی جانب دیکھ مسکراتی۔۔ پھل کاٹتے علی نے پلیٹ ایمان کی جانب کھسکائی۔۔
“کھا لو۔۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ پھل کاٹنا اتنا مشکل کام ہے۔۔” ٹشو سے ہاتھ پونچھتے وہ پلیٹ سے سیب کی کاش اٹھاتا اسے کھانے لگا۔۔
“جنہیں بارڈر پہ دشمنوں کو کاٹنے کا فن آتا ہو، انہیں ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔۔” علی دھیما سا ہنس دیا۔۔
“خدا کی قسم میں نے آج تک کسی دشمن کے ٹکڑے نہیں کئے۔۔” سر جھٹکتے ایمان ہنس دی۔۔ دفعتاً اسکی نگاہ مجھ سے ٹکرائی۔۔
سلام میں پہل کرتی میں ان تک گئی۔۔ علی مجھ سے حال احوال دریافت کرتا کمرے سے نکل گیا۔۔ میں علی کی خالی کردہ نشست سمبھال گئی۔۔ “اب آپکی طبیعت کسی ہے؟؟؟؟”
“پہلے سے بہتر ہوں۔۔” مختصر کہتے وہ ٹی وی کا ریموٹ تھام اس کی آواز دھیمی کرنے لگی۔۔
“میں نے آپکی کہانی لکھنے کا آغاز کر دیا ہے، مس ایمان۔۔۔” میں نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔۔ وہ جبرا مسکرائی۔۔ “مگر۔۔” مجھے خاموش ہوتا دیکھ ایمان کی پیشانی سلوٹ زدہ ہوئی۔۔
“لیکن کیا؟؟؟”
“آپ کی کہانی کا اختتام۔۔۔ میں سمجھ نہیں پا رہی کہ۔۔ مطلب اختتام کہاں پر ہوگا؟؟؟”
“حقیقی داستانوں کا اختتام نہیں ہوتا۔۔۔ حقیقت میں انسان کو ہر موڑ پہ امتحانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔ انسان ختم ہو جاتا ہے مگر اس کی داستان کا اختتام صرف اور صرف اس آخری آرام گاہ میں ہوتا ہے جو مجھے نصیب نہ ہوئی۔۔”
وہ روئی نہ تھی۔۔ مخروطی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے ٹی وی کی جانب دیکھتی سادہ سے لہجے میں بولی تھی۔۔ “علی آپ سے محبت کرتے ہیں، مس ایمان۔۔”
“میں جانتی ہوں۔۔” نگاہیں سیب کی کٹی کشوں پہ مرکوز کئے وہ بیڈ کور کو انگلیوں سے نوچنے لگی۔۔
“پھر آپ نے کیا سوچا؟؟؟”
“مجھے ڈر لگتا ہے۔۔ ایسا لگتا ہے میں علی کو بھی کھو دونگی۔۔” گال پہ ننھی سی اشک کی بوند بہی تھی۔۔
“اور یہی خوف علی کے دل میں بھی ہے۔۔” وہ چونک کر میری جانب دیکھنے لگی۔۔ “علی آپ سے محبت کرتا ہے، مس ایمان۔۔ اس کے جذبات خالص ہیں۔۔ بظاہر وہ کہتا ہے کہ اسے آپ کی فکر ہے۔۔ وہ آپ کے فیصلے کا احترم کرتا ہے۔۔ مگر کیا آپ نے اس کی آنکھوں میں نہیں جھانکا؟ اس کی نگاہوں سے خوف ٹپکتا ہے۔۔ آپ کو کھو دینے کا خوف۔۔ سچ پوچھیں تو مجھے علی میں ایمان کی پرچھایاں دکھائی دیتی ہیں، جو شاہ کی جدائی پہ ہر روز تڑپتی ہے۔۔ مت تڑپائیں علی کو۔۔ اپنی تقدیر پہ بھروسہ رکھیں۔۔ اس ذات (آسمان کی جانب اشارہ کیا) پہ بھروسہ کریں۔۔ علی کو ایک موقع دیں۔۔ اس سے قبل کہ ایک اور ایمان وجود میں آئے۔۔”
اس کی آنکھیں ویران ہو گئیں۔۔ میں نے مزید وہاں رکنا مہذب نہ سمجھا۔۔ اس کا شانہ تھپکتے میں اسے کمرے میں تنہا چھوڑ روانہ ہو گئی۔۔ اسے فیصلہ کرنا تھا اور میں جانتی تھی اب فیصلہ کرنا ایمان کے لئے آسان تھا۔۔
ہر کہانی کے اختتام پہ اک نئی کہانی کا آغاز ہوتا ہے تو ایسا کیسے ممکن تھا کہ ایک مصنفہ ایمان کی کہانی کا اختتام اچھی صورت نہ کرتی۔۔
* * * * * * *