رضا کی بات کے بعد شاہ زر نے خاموشی اختیار کرلی تهی اس نے سوچ لیا تها وہ رضا کی بات پہ عمل کرے گا
جبکہ دوسری طرف سماهر تهی جس نے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تها اور ایمان اسے چپ کروا کروا کر تهک گئی تهی
“سماهر پلیز چپ کر جاؤ شاہ زر بهیا اتنے برے نہیں هیں”
اب بهی وہ اسے چپ کروانے میں مصروف تهی
“میں نے کب کہا وہ برے هیں تم بهی جانتی هو سب جانتے ه
ہیں میں نے ہمیشہ انہیں بهائی کی نظر سے دیکها هے اور اب وہی میرے ۔ ۔ ۔
اس سے آگے سوچ کر هی اسکے رونے میں شدت آ گئی اور ایمان نے اسے گلے لگا لیا
“بس چپ کرو ۔ ۔ ۔ تم قسمت سے نہیں لڑسکتی پلیز بس چپ”
اور وہ ٹوٹ کر رو دی اور کر بهی کیا سکتی تهی
۔
۔
۔
۔
“شاہ زیب بهیا چلو مجهے مارکیٹ لے کر چلیں پلیز”
منال نے شاہ زیب کے پاس آکر کہا جو ابهی ابهی سارہ بیگم کو شاپنگ کروا کر لوٹا تها
اور اب منال کی بات سن کر ایک جهٹکے سے اٹھ بیٹها تها
“کیا؟؟ کیا کہا تم نے۔ ۔”
شاہ زیب کو اپنے کانوں پہ شک هوا
“مارکیٹ ۔ ”
منال نے قدرے اونچی آواز میں کہا
“کل تو تمهیں لے کر گیا تها پورے چار تهیلے خرید کے لائی تهی تم ۔ ۔ ۔ کها گئی ہوکیا”شاہ زیب حیران تها
“مجهے ابهی ابهی یاد آیا هے میرے پاس میچنگ رنگز نہیں هیں”
آرام سے بولی اور شاہ زیب کو کرنٹ لگا
“منال کی بچی اب تمهاری رنگز کے لئے میں تمهیں اس وقت بازار لے کر جاؤں؟ ؟ ۔۔ ۔ ۔ ٹائم دیکها ہے رات کے دس بج رهے هیں ۔ ۔ اور ویسے بهی میں بہت تهک گیا هوں تو ایم سوری ۔ ”
یہ بول کر وہ بیڈ پہ دراز هوگیا
“مجهے کیا مت لے کر جائیں ایمان آپی کو گفٹ دینے کے لئے هی لینے تهے میں بهی بتا دونگی کہ شاہ زیب نہیں لے کر گئے تهے انکا گفٹ لینے کیلئے”
مزے سے بول کر وہ جانے کے لئے مڑی
دوسری طرف ایمان کے نام پہ شاہ زیب چونکا
“منال بات سن ”
“هاں۔ ۔ ۔ آپ نے مجهے بلایا؟”
طنزیہ انداز میں بولی
“سچ میں ایمان کے لئے لینے هیں؟”
اسکے طنز کا یکسر نظرانداز کرتا هوا بولا اور منال نے زور و شور سے سر هلایا
“اچها چلو لے چلتا هوں کیا یاد کروگی تم بهی”
گویا اس پہ احسان کرتا هوا اٹها
“آپ تو تهک گئے تهے نا غالبا”
“تهکا نہیں تها بس ذرا ریسٹ کر رها تها ۔ ۔ ۔ ۔”
جلدی سے بولا اور منال مسکرا دی
“ایشال تم نے مارکیٹ سے کچھ لینا هے تو چلو”
جاتے جاتے ایشال سے پوچها
“نہیں لینا تو کچھ نہیں پهر بهی چلیں آئس کریم کهلا دینا”
جلدی سےدوپٹہ ٹهیک کرکے انکے ساتھ هولی
۔
۔
ایشال اور منال نے اپنے ساتھ ساتھ سماهر اور ایمان کے لئے بهی کچھ چیزیں پسند کی ساتھ هی چند گفٹ بهی لئے
جبکہ شاہ زیب نے سب سے چهپا کر ایک بے حد نازک سا خوبصورت بریسلٹ ایمان کے لئے پسند کیا
اور پهر خریداری سے فارغ هوکر تینوں آئس کریم سے انصاف کرکے گهر لوٹے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور بالاخر وہ دن آ گیا جس کے ٹل جانے کی سماهر نے بے شمار دعائیں مانگی تهیں مگر وقت کا کیا وہ بهلا کب کسی کے لئے رکتا هے اسے کیا غرض کسی کے دکھ سکھ غم خوشی سے وقت کا کام تو بس گزر جانا هے سو گزر هی جاتا هے
ایمان نے ضد کرکے پارلر سے تیار هوکر آئی تهی جبکہ سماهر نے گهر پہ هی تیار هونے کا فیصلہ کیا تها بی جان نجمہ بیگم سب نے بہت کہا پارلر چلی جاؤ مگر اسکے کان پہ جوں تک نہ رینگی تهی
هاں اس ایک هفتے میں اس نے رو دهوکر بی جان سے ایک فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا تها اور وہ تها
کہ پہلے ایمان اور شاہ زیب کی منگنی کی رسم ادا کی جاۓ گی اسکے کچھ دیر بعد هی وہ شاہ زر سے منگنی کرے گی اسکی غیر هوتی حالت کو دیکهتے هوۓ بی جان نے اسکی یہ بات مان لی تهی
“سماهر جاؤ چینج کرو جا کر باهر سب آ چکے هیں “ایمان نے سماهر کو دیکهتے هوۓ کہا جو اب تک عام سے حلئیے میں گم صم سی بیٹهی تهی
“هاں ۔ ۔ ۔ ۔ کیا هوا”
ایمان کے اسے کندهے سے پکڑ کر هلانے پہ وہ چونکی
“سماهر پلیز جا کر چینج کرو باهر سب انتظار کر رهے هیں”
ایمان نے ملتجی لہجے میں کہا اور سماهر نے خالی خالی نظروں سے بنی سنواری اپنی بہن کو دیکها
“یااللہ ۔ ۔ ۔ ۔ سماهر اب تک تم تیار نہیں هوئی”
نجمہ بیگم کی جونہی نظر سماهر پر پڑی انہوں نے سر پکڑ لیا
“ایشال منال بیٹا ایمان کو لے کر جاؤ میں آتی هوں”
نجمہ بیگم نے دونوں کو کہا اور وہ اسے لے کر لان کی طرف چل دیں جہاں شاہ زیب بے چینی سے اسکی ایک جهلک کا منتظر تها
۔
“سماهر بیٹا یہ کیا حالت بنا رکهی هے اٹهو جاؤ جاکر جلدی سے تیار هو جاؤ”
نجمہ بیگم نے پیار سے اسے کہا
“آپ جائیں مما میں بس پندرہ منٹ میں تیار هوجاؤں گی”
اور نجمہ بیگم نے پیار سے اسکا ماتها چوما تها وہ جانتیں تهیں انکی اس بیٹی کو سجنے سنوارنے کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں
“جلدی تیار هونا میں پندرہ بیس منٹ میں آتی هوں”
نجمہ بیگم نے کہا اور وہ سر هلا کر رہ گئی
۔
دوسری طرف ایمان پہ پہلی نظر پڑتے هی شاہ زیب کو اپنا دل بے قابو هوتا محسوس هوا
کام والے پرپل کلرکے فراک میں سلیقے سے لئے دوپٹے میں چہرے میں نفیس میک اپ کیساتهه خراماں خراماں قدم اٹهاتی وہ بہت خوبصورت اور باوقار لگ رهی تهی
اسے لا کر اسٹیج پہ شاہ زیب کے برابر بیٹهایا گیا بی جان بار بار دونوں کی بلائیں لے رهی تهیں سارہ بهی نظروں هی نظروں میں دونوں کی نظر اتار رهی تهیں فیضان صاحب بهی خوش تهے جبکہ شاہ زر پریشان پریشان سا رضا کیساتھ لگا کهڑا تها
“هاۓ ربا!!! منگنی کو دفع کرتے هیں ڈائریکٹ نکاح کر لیتے هیں؟؟ کیا خیال هے”
شاہ زیب نے سرگوشی کی اور جواب میں ایمان نے مسکراتے هوۓ اسے کہنی رسید تهی
“چلو بهئی بسم اللہ کرو”
بی جان نے کہا تو سارہ بیگم دونوں کی انگوٹهیاں لے کر آگے بڑهیں
دونوں کی ایک دوسرے کو رینگز پہنانے کے بعد مبارک باد کی آوازوں کیساتھ زبردست هوائی فائرنگ کی گئی
تبهی اچانک نجانے کیسے ایک گولی فیضان صاحب کو لگی اور وہ نیچے بیٹهتے چلے گئے
آن کی آن میں ماحول تبدیل هوگیا جبکہ شاہ زر شاہ زیب اور رضا فیضان صاحب کو گاڑی میں ڈال کر هوسپٹل کیطرف روانہ هوۓ
شور سن کر سماهر بهاگتی هوئی باهر آئی اپنے جان سے پیارے باپ کو خون میں لت پت شاہ زر کے بازوں میں دیکهکر اپنے حواس کهونے لگی اور وهیں بے هوش هوکر گرپڑی
سماهر کو بے هوش دیکهکر سارہ بیگم کے ساتھ ساتھ سبهی اسکی جانب سماهر کو بے هوش دیکهکر سارہ بیگم کے ساتھ ساتھ سبهی اسکی جانب لپکے
“منال ایمان کو اندر لے جاؤ اور ایشال تم سماهر کو اٹهانے میں مدد کرو”
دوسری طرف بی جان نے سب مہمانوں کو نجانے کیسے رخصت کیا نجمہ بیگم کا رو رو کر برا حال تها
“بابا ۔ ۔ ۔ بابا کیسے هیں۔ ۔ ”
بے حد مشکل سے سماهر کو هوش آیا
سماهر هوش میں آنے کے بعد بس ایک هی سوال دهرا رهی تهی اور اسکے اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ سماهر هوش میں آنے کے بعد بس ایک هی سوال دهرا رهی تهی اور اسکے اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تها
¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...