وہ سسکتی ہوئی اپنا سر اس کے سینے سے اٹھایا اور اسی لمحے لائیٹ اگئی ۔۔ عیان کے نزدیک اس طرح کھڑا ہونا اور اس کا ضبط سے ہاتھ بھینچنا وہ دل و جان سے کانپ گئی ۔۔۔ شرمندگی ہوئی اسے اپنے لفظوں کے یاد انے پر ، اسے افسوس ہوا ، اندھیرے نے اس کے حواس گم کردیۓ تھے جو ایسے لفظ بول بیٹھی ۔۔۔ اب حواس بھال ہوۓ تو شرمندگی نے جگہ گھیر لی ۔۔۔
” آئی ایم سوری عیان بھا۔۔۔۔ ایک دم اپنی زبان دانتوں کے بیچ دبائی انشاء نے ۔۔۔ وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہورہی تھی ۔۔ شاید پرانی عادتیں چند لمحوں میں کہاں چھوٹتی ہیں ۔
رونے کی وجہ سے آواز بھاری ہو گئی تھی ۔۔۔وہ شرمندہ سی کھڑی تھی ۔۔۔ ایک کڑی نظر اس پر ڈال کر عیان کمرے کے واحد صوفے پر جا بیٹھا ۔۔۔ کافی دیر اپنا سر مسلتا رہا سر درد سے پھٹنے کو تھا ۔۔۔ وہ اب تک وہیں کھڑی تھی اسی پوزیشن میں ۔۔
آخرکار عیان نے کہا ۔۔۔
” کیا ساری رات یہیں کھڑے ہو کر گزارنے کا ارادہ ہے کیا ، جاؤ جا کر کپڑے بدلو ۔۔۔
اس کی سرد اواز پر وہ چونکی اور واشروم کی طرف بڑھی ۔۔
“کیسے گزرے گی زندگی ، باباجان کس مشکل میں ڈال دیا مجھے اپ نے ۔۔۔ وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر سوچ رہا تھا ۔۔۔
“ایمان اتنا جلدی کیوں چھوڑ گۓ ہمیں ۔۔۔ دیکھو کتنی مشکل ہوگئی ہے زندگی ۔۔
ابھی وہ تھوڑی دیر اور کچھ سوچتا اس سے پہلے انشاء چیختی ہوئی واشروم سے نکلی اور سیدھا اس کے پاس آئی اور کہا ۔۔۔
“عیان بھائی ۔۔وہ چھپکلی میری پینٹھ پر ۔۔ مجھے اپنے کمرے میں جانا ہے ۔۔ اس نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔
“شٹ اپ ، شٹ اپ ، کیا بکواس کررہی ہو ۔۔۔اٹھو ، چھپکلی تم کو کیا کھاۓ گی تم چاہو تو اسے کھاسکتی ہو ۔۔ عیان نے شدید غصے سے کہا ۔۔
“وہ عیان ۔۔۔ ابھی انشاء اگے سے وہی لفظ لگاتی عیان نے اس روکا ۔
“بس صرف عیان کہنا اب ، اب اس کے اگے کوئی لفظ میرے نام سے جوڑا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ، عیان کہنے کی عادت ڈالو سمجھی ۔۔۔
انشاء نے منہ بسورا اور نظر جھکالی ۔۔۔ اسے اپنی بےوقوفی پر رونا انے لگا تھا ۔۔۔
،” اور اپنا حلیہ دیکھو ایک نظر ، اس طرح کی بےوقوفی کی امید نہیں تھی تم سے مجھے ۔۔ اور لگتا ہے تم نے تو سارے بیوقوفی کے ریکارڈ توڑنے ہیں آج ایک رات میں ۔۔۔
عیان نے اسے شیشے کے سامنے کھڑا کیا جو بغیر دوپٹے کے تھی بلاؤز کی ادھی زپ کھلی ادھی بند اس کے جسم کے ہر نشیب وفراز کو نمایان کررہی تھی ۔۔۔ اسی وقت عیان نے اس پر دوپٹا ڈالا اور کہا
“جاؤ چینج کرو اس لباس کو ، اب کسی بات پر چیخنا مت ، یہ بھی شکر ہے میرے کمرے کی والز ساؤنڈ پروف ہیں ورنہ تم نے تو پورے گھر کو جمع کرنا تھا یہاں ابھی اس وقت۔۔۔
عیان نے غصے سے ڈانٹتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“ایمان بہت بچپنا ہے اس میں تم ہی کچھ سمجھاؤ انشاء کو ۔۔۔ عیان نے کہا تھا ایمان سے ، ایمان اور انشاء کی شادی کے بعد ۔۔۔
“مجھے اس کے اسی بچپنے والے انداز سے پیار ہے اور مجھے وہ ایسی ہی پسند ہے بھائی ، کسی کو بدل کے پیار کرو تو وہ پیار نہیں سودا ہوتا ہے بھائی اور پیار میں سودا نہیں ہوتا ۔۔۔۔
“تم دونوں ہی پاغل ہو ، کسی ایک کو بھی سمجھانا مشکل ہے ۔۔۔ عیان نے چڑ کر کہا تھا ایمان سے ۔۔۔
یادوں سے انکھوں میں مرچیں سی بھرنے لگیں ۔۔۔ عیان کو کچھ لمحے لگے خود کو سنبھالنے میں ۔۔۔
” اب بت بن کے کیا کھڑی ہو جاؤ یہاں سے ۔ ۔ اسے ہنوز کھڑا دیکھ کر غصے سے عیان نے کہا تھا ۔۔۔
” وہ پہلے چھپکلی دیکھ لیں واشروم میں پھر ۔۔۔ وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ۔۔
” اف خدایا تم کبھی سدھر نہیں سکتی ۔۔
اس کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے ۔۔۔ اتنا کہے کر وہ واش روم کی طرف بڑھا اور اندر دیکھ کر واپس ایا ۔۔۔
” دیکھ آیا ہوں اور کوئی چھپکلی نہیں ، اب جاؤ کپڑے بدلو ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
اور وہ شرمندگی کے مارے سر نہیں اٹھا پارہی تھی اور واشروم کی طرف بڑھی سختی سے دوپٹا خود پر لپیٹے ہوۓ ۔۔۔
@@@@@@
کچھ دیر کے بعد سادے شلوار سوٹ پہنے باہر نکلی اور اب کے اس نے دوپٹا اچھی طرح خود پر لپیٹا ہوا تھا ۔۔ انشاء کو رہ رہ کر اس سے شرم محسوس ہورہی تھی ۔۔۔
عیان اس پر سخت نگاھ ڈالتا واشروم کی طرف بڑھا کچھ دیر بعد وہ چینج کرکے فریش ہوتا شیشے کے سامنے کھڑا ہوا ۔۔۔
وہ صوفے پر سمٹی لیٹی تھی سونے کے لیۓ ۔۔۔ ایک نظر شیشے میں اسے دیکھ کر عیان نے سخت لہجے میں کہا ۔
“شرافت سے بیڈ پر سوجاؤ اور مجھے اس قسم کے ڈرامے سخت ناپسند ہیں ۔۔۔
“وہ ۔۔۔ انشاء نے کچھ کہنا چاہا پر اس کی زبان کی لڑکھڑاہٹ واضع تھی پر عیان نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔
“میں نے اس بات کی صفائی نہیں مانگی ، میں نے حکم دیا ہے جاؤ بیڈ پر سوجاؤ لیفٹ سائیڈ پر مجھے رائیٹ سائیڈ پر سونے کی عادت ہے ۔۔۔ وہ اس پر اپنی بات واضع کرتا خود پر اسپرے کرتا ہوا بیڈ پر ایا ۔۔۔
“اٹھو اب کیا دعوت نامہ دینا پڑے گا ۔۔۔ اب کے عیان نے ناصرف سخت بلکہ طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔
“جی ۔۔۔ وہ خاموشی سے لیفٹ سائیڈ اکر لیٹ گئی سمٹ کر ۔۔۔
کتنے لمحے خاموشی کے نظر ہوۓ عیان نے اٹھ کر اس پر اپنا کمبل ڈالا اور لائیٹ آف کی وہ ڈرگئی ۔۔ اسی وقت عیان نے زیرو بلب کھولا تاکہ کچھ روشنی ہو اس کے دل کو کچھ سکوں ایا ۔ ۔
کچھ دیر بعد عیان نے محسوس کیا وہ سسک رہی تھی ۔۔۔ عیان چاہ کر بھی اسے روکنے کی ہمت نہ کرسکا کیونکہ وہ جانتا وہ ایمان کے لیۓ رو رہی ہوگی ۔
پھر کس وقت نیند کی دیوی دونوں پر مہربان ہوئی پتا ہی نہ چلا ۔
@@@@@
اگلی صبح ہمیشہ کی طرح عیان اپنے وقت پر اٹھا اور فجر کی نماز پڑھ کے واک پر چلاگیا ٹریک سوٹ پہن کر ۔۔ ایک گھنٹہ واک کے بعد کمرے میں ایا ۔۔۔ انشاء بھی اٹھ چکی تھی ۔۔۔
وہ اسے دیکھ کر کمرے سے باہر جانے لگی ۔۔۔
“رکو ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“جی ۔۔۔ وہ ٹھٹھک کر رکی اور کہا ۔۔۔
“ایک بات میری ذہن میں بٹھالو بابا کو اس ایک ہفتے میں کوئی تکلیف کوئی پریشانی نہیں دینا چاہتا ، بہتر ہوگا میرا ساتھ دو ، اچھا یہی ہوگا جب وہ سعودی جائیں خوش اور مطئمن ہوکر جائیں کوئی دکھ کوئی پریشانی نا ہو ان کے ساتھ ۔۔۔ آئی سمجھ میری بات ۔۔۔
“جی سمجھ گئی ۔۔۔ یہ کہے کر وہ باہر جانے لگی ۔۔۔
“رکو کیا سمجھی ہو تم ۔۔۔ عیان نے پوچھا ۔۔۔
“کہ کہ ۔۔۔ اس کی زبان لڑکھڑائی ۔۔۔
“بس دیکھ لی تمہاری عقل ، جاؤ پہلے یہ بدرنگ کپڑے بدلو اور اچھے کپڑے پہنو ، اگے کیا کرنا ہے یہ مجھے بتانا نہ پڑے ۔۔۔ جاؤ بدلو یہ لباس ۔۔۔ عیان نے حکم دیا ۔۔۔
اس کے چند جوڑے رکھے تھے عیان کی الماری میں زینب بی نے ۔۔۔ اتنا اچانک جو یہ سب ہوا تھا زیادہ تیاری کا موقع نہ ملا کسی کو ۔۔۔ پر مسز وحید کل دو تین بوتیک سے ڈریس لائیں تھیں اس کے لیۓ ۔۔۔
کچھ سوچ کر اس نے ان میں سے ایک نکالا اور پہن لایا ، ہلکہ پھلکہ میک اپ اس کے سوگوار حسن کو حسین تر بنا رہا تھا ۔۔۔ ایک لمحے کے لیۓ عیان کی نظر پڑی پر اس بلیک اور بلیو کامبینیشن کے ڈریس میں وہ خوبصورت لگی اسے ۔۔۔ انشاء کا حسن کسی تعریف کا محتاج نہ تھا جو دیکھتا لمحے کے لیۓ مبہوت ہوجاتا ۔۔۔ عیان کا بھی کچھ ایسا حال ہوا ۔۔۔ خود کو سنبھال کر اس نے ایک سیٹ اس کی طرف بڑھایا اور کہا ۔۔۔
” یہ میری طرف سے تمہاری منہ دکھائی ۔۔۔ اسے پہن لو ۔۔۔ پھر ساتھ نیچے چلنا ہے ۔۔
یہ منہ دکھائی کا تحفہ بھی عمر کی مرہوں منت تھا ورنہ اسے کہاں اتنی سمجھ تھی ۔۔۔
اتنا کہے کر وہ واشروم کی طرف چلاگیا ۔۔۔ انشاء وہ سیٹ پہننے لگی ۔۔۔
@@@@@@@
حیدر شاہ دونوں کو ساتھ اترتا دیکھ کر خوش ہوۓ ۔۔۔ کتنے مکمل لگ رہے تھے دونوں ایک ساتھ ۔۔۔
دونوں ایک شخص کی خوشی کے لیۓ سب کررہے تھے کیونکہ وہی ایک شخص دونوں کی جان تھا ۔۔۔
دونوں ساتھ جھک کر باباجان سے پیار لیا ۔۔
“سدا خوش رہو دونوں ایک ساتھ ، اللہ دونوں کی جوڑی سلامت رکھے ۔۔۔ حیدرشاہ نے کہا ۔۔۔
ایسے ہی کچھ لفظ زینب بی نے ادا کیۓ دونوں کے لیۓ ۔۔۔
“چلیں بابا ناشتہ کرتے ہیں ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“فریحہ بھابھی (مسز وحید) نے کہا وہ ناشتہ لائیں گی ، وہ لوگ نکل چکے ہیں گھر سے پہنچنے والےہوں گے پھر ساتھ میں کریں گے ناشتہ ۔۔۔
حیدر شاہ نے بتایا ۔۔۔
“بابا ان کو منع کرنا تھا الریڈی بہت کرچکے ہیں وہ ہمارے لیۓ ۔۔ بظاہر سرسری لہجے میں عیان نے کہا حقیقت میں اسے کوفت ہوئی یہ سوچ کر اب چینا کو برداش کرنا پڑے گا ۔۔۔
انشاء کو بھی یہی سیم فیلنگ آئی چینا کی وجہ سے کیونکہ وہ کافی حدتک منہ پھٹ تھی ۔۔۔
کچھ دیر میں وہ لوگ آگۓ ۔۔۔۔
“ارے وحید ، چینا بیٹی کو لاۓ نہیں ۔۔۔ حیدرشاہ نے کہا ۔
“جانتے ہو اج کل کے بچے لیٹ اٹھتے ہیں ، بس مینا اٹھی ہوئی تھی تو اسے ساتھ لاۓ ہیں ۔۔۔
مینا خوشی سے گلے ملی انشاء سے ۔۔۔
“بھابھی اپ بہت پیاری لگ رہیں اس ڈریس میں ۔۔ وہ مسکرائی۔۔۔
انشاء مسکرائی اس کی تعریف پر ۔۔۔
وہ کافی کچھ ناشتے میں لاۓ تھے ۔۔۔ انشاء اٹھنے لگی ناشتہ لگوانے کے لیۓ پر مسز وحید نے روکا اور کہا “چپ کرکے بیٹھو ساری زندگی پڑی ہے کام کرتی رہنا ، اج خاص دن ہے تمہاری زندگی کا تو اسے انجواۓ کرو ۔۔۔
ان کے پیار سے ٹوکنے پر وہ خاموشی سے دوبارہ بیٹھ گئی ۔۔۔
زندکی میں بہت سے لمحے اتے ہیں جب نا چاہتے ہوۓ بھی سب کی خوشی کےلیۓ وہ سب کرنا پڑتا ہے جو اپ بلکل کرنا نہیں چاہتے جیسا اج انشاء اور عیان کو کرنا پڑرہا تھا جیسے سب نارمل ہو ۔۔۔ حقیقت میں کچھ نارمل نہ تھا ۔۔۔
عیان کا ناشتے کے وقت اس کے ساتھ بیٹھنا پھر ہر چیز کے لیۓ انشاء کو مخاطب کرنا ، حیدرشاہ کو اس منظر سے کتنی خوشی ہورہی تھی اس کا اندازہ تھا عیان کو ۔۔ اور یہی وہ چاہتا تھا ۔۔۔
ناشتے کے بعد سب لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف ہوۓ جب مینا کے پوچھنے پر منہ دکھائی کا ، انشاء نےدکھائی ۔۔۔ تو بابا نے خوشی سے عیان کو دیکھا اور دل میں عیان نے عمر کا شکریہ ادا کیا جسے ایسی ساری فارمیلیٹز یاد تھیں ۔۔
اسی وقت موبائل پر رنگ ہوئی ۔۔۔ عیان اٹھا اور باہر جاکر کال ریسوو کی اور کہا ۔
” دیکھ لو شیطان کو یاد کیا تھا ابھی اور شیطان کا فون اگیا ۔۔۔
اس کی بات پر عمر نے بےساختہ قہقہ لگایا ۔۔
” ویسے اتنی فرصت مل گئی کہ شیطان کو یاد کرنے کا موقعہ مل گیا ۔۔۔ کیا کررہے ہو ۔۔۔ عمر نے اسے چھیڑا ۔۔
“ناشتہ کرکے فری ہوا ہوں اور تم ۔۔۔
“میں آفیس میں ہوں ۔۔۔
“چلو اچھا ہے میرا انے کا کوئی پلان نہ تھا ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“تو تم کو انے کوں دے رہا تھا اج افیس ۔۔۔ دو دن سکوں سے گھر بیٹھو ۔۔۔
“ہممم میں سوچ رہا تھا تم کہوگے ہفتہ پورا گھر بیٹھو ۔۔ اب کے عیان نے اسے چھیڑا ۔۔۔
“اب اتنا بھی پھیلنے کی ضرورت نہیں ۔۔ اچھا یہ بتاؤ ، میں اجاؤں تمہارے مورئل سپورٹ کے لیۓ ۔۔۔
“کوئی ضرورت نہیں ، میں ٹھیک ہوں ، تم آفیس دیکھو ۔۔ عیان نے ہنستےہوۓ کہا ۔۔۔
“سوچ لو ۔۔۔ عمر نے کہا ۔۔۔
“عمر تمہارا کچھ نہیں ہونے والا ، کیوں نازیہ بھابھی کو جیلس فیل کرواتے ہو مجھے اتنی امپورٹنس دے کر ۔
“چلو کوئی بات نہیں اب تم بھی یہ کام بخوبی کرسکتے ہو انشاء بھابھی کے ہوتے ۔۔۔ عمر نے اس کی بات اس پر پلٹی ۔۔۔
“میں رکھتا ہوں کال پھر بات کرتے ہیں ۔۔۔ عیان نے بات کو پلٹ کر کہا ، عمر کو اچھا نہ لگا عیان کا اس طرح کرنا ۔۔
“اچھا سنو ضروری بات بتانا بھول گیا اصل جس بات کے لیۓ فون کیا تھا ۔۔ کچھ یاد آنے پر عمر نے جلدی سے کہا کیونکہ اسے ڈر تھا عیان کال نہ کاٹ دے ۔۔۔
“تو کہو ۔ ۔
” وہ علیزے ارہی ہے پاکستان ۔۔۔عمر ایکسائیٹڈ تھا ۔۔
“اچھا ۔۔۔ آفٹر لانگ ٹائم …عیان نے کہا ۔۔۔
” وہ تو بہت ایکسائٹڈ ہے تم ایکسائیٹڈ ہو ۔۔۔ عمر نے پوچھا ۔
“اچھا وہ تو رہتی ہی ہر وقت ایکسائیٹڈ ہے ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔
” اور مسٹر عیان تم ٹھہرے مسٹر سڑو سدا کے ، مزا آۓ گا اس کے انے پر ، یونی کا ٹائم یاد آۓ گا ۔۔۔
“ہاں یہ تو ہے ، اب آفیس دیکھو ، میں بابا کے پاس جارہا ہوں اللہ حافظ ۔۔۔
اچھا اللہ حافظ ۔۔۔
@@@@@
یوں پورا دن وہ بابا کے ساتھ ہی تھے ، یہ عیان کی کوشیشوں کا نتیجہ تھا کہ بابا جان بے فکر ہوجائیں ۔۔۔ وہ انشاء کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتا تھا وہ اچھی بیوی ہونا پرٹینڈ کرے اس لیۓ بجاۓ اس کے ، عیان اچھا شوہر ہونے کی بھرپور کوشش کررہا تھا ۔۔۔
ہر روز انشاء سنج سنور کر بیٹھ جاتی ، بابا جان جتنا دیکھتے اتنا خوش ہوتے اور اپنے فیصلے کو دل ہی دل میں سراہتے ۔۔۔
رات کاکھانا ساتھ کھانا پھر قہوہ ساتھ بیٹھ کر پینا پھر باتیں کرنا ، یہ روٹین تھا ان کا ۔۔۔ عیان بہت باتیں کرتا بابا سے اور انشاء کو بھی باتوں میں گھسیٹ لیتا ، ایک بیٹا اپنے باپ کے لیۓ جتنا کرسکتا تھا وہ کررہا تھا ۔۔۔
پھر عیان کے کہنے کی نوبت نہ آئی کہ انشاء کو بیڈ پر سونے کا کہے ۔۔۔ انشاء خود ہی ہر رات بیڈ پر سوتی اور روتی رہتی اور عیان اسے کچھ کہنے کی اپنے اندر ہمت نہ جُٹا پاتا ۔۔۔
عیان کو سمجھ بھی نہیں اتا اسے کہے تو کیا کہے کیونکہ کوئی لفظ اس کا دکھ کم نہیں کرسکتا تھا ۔۔ وہ تو خود گواہ تھا ان کی محبت کا ۔۔ اک ایسی الجھن میں خود کو پھستا محسوس کرتا تھا جسے سلجھانا اس کے بس سے باہر تھا ۔۔۔ اگر ایسا کچھ کہا تو کیا سوچے گی کہ اب اسے اپنے بھائی سے جیلسی ہے وہ اپنے بھائی سے بہت محبت کرتا تھا ۔۔۔ اس وجہ سے خود کو بےبسی کی انتہا پر محسوس کررہا تھا ۔۔۔
اب اس کے سامنے ایمان کا نام نہ لیتی تھی انشاء ۔۔۔ پر ہر رات اس کی یاد میں اپنا تکیہ بگھوتی رہتی ۔۔۔ وہ چاہ کر بھی کچھ کر نا پاتا ۔۔
کیسے ایک ہفتہ گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا اور بابا جان کی فلائٹ کا دن آگیا ۔۔۔ انشاء نے رو رو کر برا حال کردیا تھا اپنا ۔۔
بابا اور عیان اسے سمجھا رہے تھے ۔۔۔ کچھ سوچ کر عیان نے اسے ایئرپوٹ لے جانا کینسل کیا ۔ وہ ضد کرنے لگی ائیرپورٹ جانے کے لئے پر اسے عیان نے سختی سے منع کردیا ۔۔۔ کہیں وہاں جاکر بابا جان کے لیے یہ واویلا نہ مچا دے پھر اے سنبھالنا مشکل ہوجاتا ۔۔۔ اسے انشاء پر بلکل بھروسا نہ تھا ۔۔۔ اس لیۓ گھر سے ہی باباجان اس سے مل کر گۓ تھے ۔۔۔
ائیرپورٹ پر عیان اور باباجان تھے ۔۔۔ عمر کو بھی منع کردیا تھا عیان نے ۔۔۔ اس وقت وہ دونوں اکیلے تھے ۔۔۔
باباجان نے اس کی پیشانی چوم کر پیار دیا اور کہا ۔۔۔
“عیان تم نے ثابت کردیا تم بہت اچھے بیٹے ہو پر سچ میں ایکٹر بھی کمال کے ہو ۔۔۔ اب تک جس طرح میرے سامنے اچھے شوہر ہونے کی ایکٹنگ کی ہے نہ وہ جاری رکھنا ایسا نہ ہو اس باپ کے جاتے ہی تم میری بیٹی کو ایک کونے میں رکھ کر بھول جاؤ ۔۔ بہت سوچ سمجھ کر تمہیں اپنی بیٹی کا ہاتھ دیا ہے عیان ، مجھے مایوس مت کرنا ۔۔۔
وہ دھک ہی رہ گیا بابا کے لفظوں پر یہ کیا کہے دیا باباجان نے ۔۔
“بابا اپ کیسے ۔۔۔ عیان کو سمجھ نہ ایا کیا کہے کر اب بابا کو تسلی دی ۔۔۔ پوچھنا تو یہ بھی چاہا رہا تھا وہ کیسے سمجھے یہ سب ۔۔۔
” میں بھی تمہارا باپ ہوں عیان ، اتنی لمبی لمبی باتیں تم کب کرتے تھے جو آج کل کرنے لگے تھے تم ، جب بھی تم کچھ چھپانا چاہتے ہو تو ہمیشہ باتوں میں الجھانا چاہتے ہو سب کو ۔۔۔ یہ عادت تمہاری بہت پرانی ہے ۔۔۔۔
وہ باپ تھے سب سمجھ رہے تھے ۔۔۔
“آئی ایم سوری باباجان ، اپ انشاء کی طرف سے بےفکر ہوجائیں میں اسے سنبھال لوں گا یقین کریں مجھ پر ۔۔۔ اس سے غافل بلکل نہیں ہوں گا پلیز بھروسہ کریں مجھ پر ۔۔۔۔
” عیان تم پر بھروسہ تھا اس لیے تو میں نے انشاء کی شادی تم سے کروائی ، اس میں بچپنا بہت ہے اسے تم نے ہی سنبھالنا ہے ۔۔۔
“جی باباجان ، بس اپ بےفکر ہوجائیں ۔۔۔ عیان نے ان کے گلے لگ کر انہیں تسلی دینا چاہی ۔۔۔
“تم دونوں کی فکر ہی لگی رہے گی وہاں جاکر ۔۔۔ تم دونوں کی فکر نے زندہ رکھا ہوا ورنہ ایمان کے جانے کے بعد ۔۔۔
“بس باباجان اور کچھ نہ کہیں، اللہ اپ کا سایہ ہم دونوں پر سلامت رکھے ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“میں واپس آؤں تو انشاء کو تمہارے رنگ میں رنگا دیکھوں ۔۔۔ بس یہی خواہش ہے میری ۔۔ حیدرشاہ نے اپنے دل کی بات عیان سے کہی ۔
“انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا باباجان ۔۔۔ میں اپنی زمیداریوں سے واقف ہوں ۔۔۔ عیان نے محبت سے لبریز لہجے میں کہا ۔۔۔
فائنل اناؤسمینٹ ہوئی۔۔۔ ایک بار پھر باپ بیٹا گلے لگے اور ایک دوسرے سے “اللہ حافظ کہا ۔۔۔
@@@@@@@
وہ گھر ایا ۔۔۔ گھر میں سناٹا سا تھا ۔۔۔” کتنی خاموشی ہوگئی ہے باباجان کے جانے سے ۔ عیان نے سوچا اور اعصاب پر تھکن سوار ہونے لگی تھی ۔۔۔
وہ کمرے میں آیا اور باتھ لے کر ، واشروم سے باہر نکلا ۔۔۔ اب فریش خود کو محسوس کررہا تھا اور کچھ دیر بیڈ پر لیٹ گیا ۔ کافی دیر گزر گئی اور انشاء اب تک روم میں نہیں آئی تھی وہ حیران سا اٹھا ۔۔ رات کے بارہ بج گۓ تھے ۔۔۔
مجبورً اسے اٹھنا پڑا کیونکہ نیچے تو وہ تھی نہیں ۔۔۔
کچھ خیال انے پر وہ سیدھا ایمان کے کمرے کی طرف ایا ابھی وہ دروازے کے کھولتا اندر سے اتی آواز پر اسے رکنا پڑا ۔۔
“ایمان تم مجھے اپنے پاس بلا کیوں نہیں لیتے ، میں تھکنے لگی ہوں ، نا میری کوئی دوست ہے نہ کبھی تم نے مجھے بنادی ، میں بہت اکیلی ہوں ، کسی کام میں مجھے سکوں نہیں ملتا ۔۔۔ دیکھو باباجان نے مجھے کیسی ازمائش میں ڈال دیا ہے ۔۔۔
اس سے زیادہ اس کی برداش نہیں تھی وہ دروازہ کھول کر اندر اگیا انشاء ایک دم چونکی گھبراگئی اور ایمان کی تصویر جلدی سے تکیۓ کے نیچے رکھ دی ۔
“چلو بیڈروم میں ۔۔۔ عیان نے حکمیہ لہجے میں کہا وہ ضبط کی انتہا پر تھا ۔۔
“باباجان چلے گۓ ہیں ، میں یہیں رہوں گی اب ۔۔ انشاء نے نظریں چراتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“میں نے تم سے پوچھا نہیں ، چلو اپنے روم میں ۔۔۔ اس کے غصے کا ذرہ اثر نہ ہوا اس پر ۔۔۔
“مجھے نہیں رہنا وہان اپ کے ساتھ ۔۔
انشاء نے ضدی لہجے میں کہا ۔۔۔
“لگتا ہے تمہیں عزت سے بات سمجھ نہیں اتی ۔۔۔
عیان نے غصے سے اس کا ہاتھ تھاما اور کھینچتا ہوا اپنے روم میں لے گیا ۔۔
روم میں آ کر اس کا ہاتھ چھوڑا صوفے پر پٹخا اور کہا ۔۔۔
” اپنا اور میرا تماشہ مت بناؤ نوکروں سے بھرا پڑا گھر ہے ۔۔۔ تمہیں تو کسی بات کی پرواہ نہیں پر مجھے اپنی عزت کی پرواہ بہت ہے ۔۔۔ نکاح ہوا ہے کوئی مذاق نہیں ، جو تم یہ سب کر رہی ہو ۔۔۔ تم میری بیوی ہو اور اس حثیت سے میرے کمرے میں میرے ساتھ رہو گی ۔۔۔
وہ شاک ہوکر عیان کو دیکھ رہی تھی جو اتنا شدید غصے میں تھا ۔۔۔ اب تک جو اس سے نرمی برت رہا تھا اسے دیکھ کر ہی وہ اتنی من مانی کرنے لگی تھی ۔۔ پر اج اس کے اس طرح غصہ کرنے پر وہ سہم گئی ۔۔
” اور ہاں ایک اور بات ذہن نشین کر لو کمرے کے اندر ہمارا جو بھی تعلق ہو پر کمرے کے باہر تم اچھی بیوی کی طرح بہیوو کروگی ۔۔ کچھ سمجھ ایا ۔
“جی ۔۔۔ اتنا کہے کر انشاء چپ ہوئی پھر منہ کھولا بولی کچھ نہیں ۔۔۔ پھر اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لیۓ ۔۔ عیان کو اندازہ ہوا کہ وہ کچھ بولنا چاہتی ہے ۔۔۔
“کیا ہوا کچھ کہنا ہے ۔ عیان نے پوچھا ۔۔۔ وہ سنبھل کر بیٹھیں صوفے پر اور کہا ۔۔
“آپ پلیز دوسری شادی کرلیں ۔۔ آخرکار انشاء نے ہمت کرکے اپنے دل کی بات کہی ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...