صبحی ان سے رخصت ہو کر اپنے کھنڈر میں آیا۔ گھوڑے نو خرید پر سوار ہو کر ایلچ پور چلا۔ راہ میں اندارے زینہ دار پختہ دیکھے، بہت خوب اور مستحکم بنے۔ مگر بعضے قابل پانی پینے کے تھے، بعضے خراب پڑے۔ سبب اس کا یہ کہ مسافر نالائق جو اس راہ سے نکلتے، انھیں کنووں میں زینے سے اتر کر گوشہ سمجھ بول و براز کرتے تھے۔ اس واسطے بعضوں کا پانی بدبو کرتا، کثیف اور خراب پڑا تھا۔ اس راہ میں اکثر کوہستان تھا۔ سننے میں آیا کہ بسبب رہزنوں کے گزر مسافروں کا اس راہ میں دشوار تھا۔ مگر اب انگریزوں کی شکایت سے نظام الملک نے حفاظت راہ کے لیے جا بجا سوار مقرر کیے ہیں۔ کنوؤں پر اکثر چوکی پہرے بٹھلائے ہیں تاکہ مسافر با امن و امان راہ سے گزریں، انداروں میں بول و براز نہ کریں۔ انگریزوں کی عقل کو سراہا چاہیے کہ انھوں نے اپنی عملداری میں اور غیروں کے ملک سے راہزن اور ڈکیت نکلوا دیے۔ تمام راہ زمین قابل زراعت نظر آئی۔ مگر ظلمِ عاملون سے خراب پڑی تھی، رعیت برباد ہو کر اجڑ گئی۔ کہیں بھی خوب آبادی نہ تھی، بلکہ گانوں کے گانوں اجڑے پڑے تھے۔ مواضع آبادان مسکنِ دام ودد ہوئے۔ اگر کوئی تردد اس زمین کا کرے، منفعت قرار واقعی ہوئے۔ عامل کو تہ اندیش ناعاقبت بیں، رعیت کا اسباب لوٹ لیتے ہیں۔ اسی کو منفعت سمجھتے ہیں۔ غافل اس بات سے کہ در حقیقت ملک اجاڑتے ہیں، نقصان سرکار کا کرتے ہیں۔ اگر ملک آباد اور تردد زمین کا ہوتا اس سے چار چند روپیہ آتا۔
یہ حالات دیکھتے چلتے چلتے بڑوڑ میں آیا۔ اورنگ آباد سے پانچ کوس تھا۔ دوسرے دن دس کوس چلا، ویاڑی میں آ پہنچا۔ وہاں سے دس کوس کے بعد جعفر آباد میں آ کر ٹھہرا۔ یہ موضع بہ نسبت اور گانو کے آباد پایا۔ ایک پرانا قلعہ اور تالاب اس میں بنا تھا۔ بسبب عرصہ کھچنے بارش مینہ کے پانی کم رہا تھا۔ جعفر آباد سے دس کوس آگے بڑھا، چکلے میں آیا۔ وہاں سے سات کوس چل کر امر پور پہنچا۔ وہاں سے لکھن بارہ جو سات کوس تھا آیا۔ پھر نو کوس راہ چلا، بڑگانو میں داخل ہوا۔ وہاں سے سات کوس کی منزل طے کر کے اکولا میں رات کاٹی۔ اکولا سے قبضہ دہنڈا میں آیا، نو کوس کا فاصلہ تھا۔ وہاں سے دس کوس بعد کپس تلی میں آیا۔ کپس تلی سے گیارہ کوس بڑھا، ایلچ پہنچا۔ یہ راستہ مانند سڑک ملک انگریزی کے برابر اور صاف نہ تھا۔ میں نے بسبب نشیب و فراز راہ کے اور گڑھوں اور پہاڑ کے رنج بہت پایا۔
ایلچ پور قریب پہاڑ کے واقع ہوا ہے۔ معتدل یہاں کی آب و ہوا ہے۔ زمانۂ سابق میں اغلب کہ خوب آباد ہوگا، اس لیے کہ اب تلک بھی کچھ آباد و معمور تھا۔ عمارت اور مکان قدیمی گر گئے مگر آبادی سابق سے خبر دیتے۔ یہاں فوج نظام الملک تعینات رہتی ہے، قواعد انگریزی سیکھتی ہے۔ انگریز قواعد سکھانے کے لیے نوکر ہوئے ہیں۔ یہاں کا لشکر درماہہ ماہ بماہ سرکار سے پاتا ہے۔ قریب پہاڑ کے ایک میدان خوب صاف ہے۔ اس میں چشمہ پانی کا شیریں اور شفاف ہے۔ پہاڑ پر ہر قسم کے جانور شکاری موجود تھے جیسے ہرن، نیل گائے، پاڑھے۔ اگر کسی کا اس راہ سے گزر ہو اور شوق شکار کا اس کو بیشتر ہو، چاہیے کہ اس پہاڑ پر جاوے، جانوروں کا شکار کرے۔ اس واسطے کہ وہ جگہ نفیس اور نادر ہے، محل تماشائے قدرت قادر ہے۔ غریب آدمی اس جنگل اور پہاڑ سے بانس اور لکڑیاں وغیرہ کاٹ کر بیلوں پر لاد لاتے ہیں، شہر میں لا کر بیچ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے اوقات گزاری اپنی کرتے ہیں۔ میں نے دو تین دن ایلچ پور میں مقام کیا۔ سیر و شکار میں مشغول رہا اور بسبب تکلیف راہ کے ایک آدمی صاحب خان نامی نوکر رکھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...