“پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی”وہ موبائل فون میں میسج ٹائپ کرتی زاروقطار روتے ہوئے اگلے بندے سے ریکوئسٹ کررہی تھی۔۔۔
“میری بلا سے تم جہنم میں جاؤ آئیندہ مجھے میسج کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر تم نے مجھے پھر سے میسج کیا تو تمھارے لئے اچھا نہیں ہوگا” اسنے غصے سے آگے سے ریپلائی کرتے ہوئے سنایا تھا۔
“پلیز میری حالت پہ رحم کرو مجھے یوں چھوڑ کر مت جاؤ تم جو بھی کہو گے میں سب مانونگی بس مجھے اپنی زندگی میں شامل کرلو “وہ روتے بلکتے ٹائپ کررہی تھی۔
“میں تم جیسی لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرنا بھی پسند نہیں کرتا ارے تم جیسی لڑکیاں نجانے کتنوں سے باتیں کرتی ہیں اور لڑکوں کو پھنساتی ہیں” اسنے تمخسر سے ہنستے ہوئے میسج بھیجا تھا۔۔۔
“کیا!!! میں نے تمھیں پھنسایا؟ بلکہ تم میرے پیچھے آئے تھے اب اگر مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے تو تم مجھے چھوڑ کر جارہے ہو ہم چار سال سے ساتھ تھے کیا وہ سب مزاق تھا تمھارے لئے؟؟” وہ شدد رہ گئی تھی۔۔۔
“ہاں میرا ٹائم پاس تھی تم ” وہ مسکرا کر بولا تھا۔۔۔
“تم میرے ساتھ اچھا نہیں کررہے ہو میں تمھے کبھی معاف نہیں کرونگی مجھے چھوڑ کر جارہے ہو بڑا پچتاؤ گے میری بددعا ہے اللہ تمھییں سب کچھ دیگا لیکن سچی محبت کبھی نہیں ملے گی اور تم پوری زند۔۔۔۔”اسنے تڑپ کر اسے بددعا دیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
“بس بس بی بی میں یہ باتیں تم جیسی بہت سی لڑکیوں کے منہ سے سن چکا ہوں اور ابھی تک خوش ہوں مجھے کچھ نہیں ہوا اور میں بلوک کررہا ہوں تمہں آئندہ کہیں سے بھی مجھسے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش نا کرنا” اسنے غصے سے اگلے انسان کی حالت کو سمجھے بغیر اسے سیدھا بلوک کیا تھا۔۔۔
“خسکم جہاں پاک” ہنستے ہوئے مبائل کو بیڈ پر اچھالا اور واشروم کی طرف چلاگیا۔۔۔
اسکا یہں کام تھا کام کہیے یا شوق لیکن اسکو دلوں کے ساتھ کھیل کر مزا آتا تھا ااسنے ہزاروں لڑکیوں کے دل توڑے تھے۔۔۔
پہلے انکے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتا اور جب وہ اسکو امپورٹنس دیتیں تو دل بھرنے پر چھوڑ دیتا۔۔۔
***
پیار میرے نوں تو وے مزاق سمجھ کے بیٹھا…
میں سب سمجھ دی آں تو جوک سمجھ کے بیٹھا…
اگلے جنم وچ اللہ ایسا کھیل رچا کے بیجھ۔۔۔
مینوں تو بنا کے بیجھ تینوں میں بنا کے بیجھ۔۔۔
وے فر تینو پتا لگنا۔۔۔
وہ بلوک ہونے پر بری طرح رورہی تھی اسکا دل پھٹنے کو آرہا تھا کیسے اک انسان اتنا ظالم بن جاتا ہے کسی دوسرے کو استعمال کر کے زندہ لاش بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔
اسکا دل کیا کہ وہ خود کو ختم کرلے اسکا خود پر کنٹرول ختم ہوگیا تھا وہ نہیں جانتی تھی وہ کیا کررہی ہے اسنے روتے ہوئے سائیڈ ٹیبل سے پھل کاٹنے والا چھری اٹھایا تھا۔
اور دیوانا وار اپنے ہاتھ پر پھیرنا شروع کردیا تھا چھری زیادہ تیز نا ہونے کی وجہ سے ہلکا ہلکا کٹ کرنے لگا تھا اور خون نکلنا شروع ہو چکا تھا۔
کچھ پل وہ ایسے کرتی رہی تھی پھر تھک کر چھری دور پھیکا تھا اور اپنے بالوں میں ہاتھ ڈالا اور خود کے بال کھینچنے لگی تھی وہ اس وقت ازیت کے ان لمحوں میں تھی جس کا انسان نے سوچا بھی نہیں تھا۔
اسکی پوری رات روتے تڑپتے ہوئے گزری تھی۔
دسمبر کی سرد رات تھی اسنے اپنا سر شاور کے نیچے رکھا اور بھیگنے لگی تھی اسے بس کسی بھی طرح سے سکون چاہئے تھا۔
کتنوں کو ہے مارا جیتے جی تم نے۔۔۔
خواب دکھائے پہلے پھر خواب انہیں سے چھینے۔۔۔
وقت ہی بتائگا تجھ کو جب تجھ پر ہی آئے۔۔۔
یہ درد کیسا ہے مزا اسکا تو بھی چکھے گا۔۔۔
***
“ہائے ہینڈسم بوائز کیا حال ہے “احمد نے کرسی میں بیٹھتے ان سے پوچھا۔
“کچھ نہیں تیرے بارے میں بات کر رہے تھے ہم “فہد نے جواب دیا۔
“اوف ایسی بھی کیا بات تھی میرے بارے میں جو تم لوگ کر رہے ہو “اس نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں یہ جو تو نئی نئی تتلیاں پکڑتا ہے نہ اسی کے بارے میں بات کر رہے تھے”ارحم مسکرا کر بولا۔
“ہاہاہا کل ریحا سے بریک لپ کر لیا ہے میں نے”اس نے اپنے دوستوں کو بتایا۔
“کیوں کوئی وجہ ہے کیا یا کوئی اور مل گئی ہے اب “فہد نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
“ارے یار وہی ٹپیکل لڑکیوں کی طرح شادی کرو شادی کرو رشتہ بھیجو تو پھر میں نے بریک اپ کر لیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ میں تم سے شادی نہیں کرسکتا “اس نے زور کا قہقہہ لگایا۔
“تو کتنا کمینہ ہے پہلے لڑکیوں کو شادی کا رولا لگاتا ہے پھر وہ پھنس جائے تو بعد میں دل بھرنے پر شادی سے منع کر دیتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے”ارحم نے افسوس سے کہا۔
“تو کون سی دنیا میں جی رہا ہے کیا انہیں نہیں پتا ہے فیس بک کی دنیا فیک ہوتی ہیں ہو سکتا ہے وہ بھی میرے ساتھ ٹائم پاس کرتی ہو”اس نے بے فکری سے جواب دیا۔
“کیا تو جانتا ہے وہ تیرے ساتھ ٹائم پاس کر رہی ہے تجھے اسکے دل کی بات تھوڑی نہ پتا ہے اگر وہ تیرے لیے سیریس نہیں ہوتی تو شادی کی بات ہی نہیں کرتی “ارحم نے افسوس سے کہا۔
“تو تو چپ کر کون سا میں ان کے ساتھ غلط کرتا ہوں کبھی نہیں ملا نا تصویر دیکھیں نہ کبھی مانگا اور میرے خیال سے وہ اتنی بیوقوف نہیں ہیں کہ جس انسان کو نہ دیکھا ہو نا اس کی آواز سنی ہو نا کبھی ملے ہو وہ کیسے شادی کے لیے سیریز ہو سکتی ہیں”وہ بالکل بے فکر تھا۔
“یار تجھے نہیں پتا کیا ان لڑکیوں کا یہ پیار میں بڑے سے بڑے شہزادوں کو ٹھکرا دیتی ہیں دس ہزار کمانے والا ڈرائیور کی خاطر اور تو نہ جاننے کا کہہ رہا ہے “فہد نے ہنستے ہوے کہا۔
“اچھا چھوڑ یہ باتیں ماریا کا بتاؤ اسے کب چھوڑ رہا ہے “نائر جو کب سے خاموش تھا اسنے احمد سے پوچھا۔
“ہاہاہا اسے تو کب کا چھوڑ دیا گھر والے رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں اب شادی کروں گا “وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔
“کیسے لڑکیوں کی زندگی برباد کر کے خود خوشی منانے کا سوچ رہا ہے “ارحم نے افسوس سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔
“واہ بیٹے تیرے گھر والے تو تیری شادی کروا رہے ہیں میرے گھر والوں کو تو کوئی فکر ہی نہیں “نائر نے معصومیت سے کہا۔
“پریشان نہ ہو تیرا وقت بھی آئے گا “فہد اور احمد ہنستے ہوئے ہم آواز میں بولے۔
“اک بات بتا احمد “ارحم نے پرسوچ انداز میں اس سے پوچھا۔
“ہاں بول کیا بات ہے”وہ ہماتن گوش ہوا۔
“اگر تیرا دل اپنی بیوی سے بھر جائے جیسے سب لڑکیوں سے بھر جاتا ہے اور تو انکو چھوڑ دیتا ہے تو کیا تو دل بھرنے پر اپنی بیوی کو بھی چھوڑ دیگا؟”ارحم نے پوچھا تھا۔
“پاگل ہے کیا بیوی کو کیوں چھوڑونگا میری بیوی ہوگی وہ دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں ہوگی اسے تو میں بہت پیار سے رکھونگا خیال کرونگا اسکو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا”وہ ہنستے ہوئے بولا۔
“اگر تیری بیوی کا شادی سے پہلے افیئر۔۔۔” ارحم مزید بولنے لگا تھا احمد کی گھوری سے وہ چپ ہوگیا۔
“خیر چھوڑو ان باتوں کو چل کوئی مووی لگاتے ہیں “نائر نے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور ان کو سی ڈیز دکھاتے ہوئے کہا۔
“چل یہ والی لگا یہ اچھی لگ رہی ہے دیکھنے میں “ارحم نے گڑبڑا کر ایک سی ڈی نکالی اور مووی لگانے لگا۔
سب مووی دیکھنے میں مصروف ہوگئے احمد نے بھی خاموشی سے اپنی نظریں ٹی وی پر گاڑدی۔
***
“ریحہ کالج نہیں جانا کیا بیٹا اٹھ جاؤ “فہمیدہ بیگم نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا۔
“مما میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں آج نہیں جاسکتی “اس نے کمبل کے اندر سے جواب دیا۔
“کیا ہوا طبیعت کو کچھ الٹا سیدھا کھا لیا ہے کیا “فہمیدہ بیگم نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔
“نہیں مما بس طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے بخار ہو رہا ہے “اس کی نحیف سی آواز نکلی تھی۔
“بیٹا مجھے بتاتیں آپ کب سے بخار ہے آپ کو”انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے پوچھا۔
“کل رات کو ہوا تھا پلیز آپ جائے مجھے سونے دیں “وہ چڑ کر بولی۔
“ٹھیک ہے سو جاؤ تم آرام کرو میں تمہارے پاپا کو کہہ دوں گی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تم کالج نہیں جا رہی”فہمیدہ بیگم اس کا بلینکیٹ ٹھیک کرتے ہوئے اٹھیں اور دروازہ بند کرتے ہوئے باہر چلی گئیں۔
” احمد تم نے میرے ساتھ بالکل بھی اچھا نہیں کیا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی”وہ پھر سے سسک اٹھی اور دل میں احمد سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی۔
اور آنسو صاف کرتے ہوئے سونے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...