”رجو۔۔۔!۔۔۔؟”
“شنو۔۔۔!۔۔۔؟”
” سکینہ بی۔۔۔۔کہاں ہو سب لوگ ۔۔۔؟“ شاہانہ بیگم اپنے تیکھے لہجے میں ملازموں کو پکارتی ہوئی ڈاٸیننگ ہال کی طرف آرہی تھیں ، وہ اس وقت بلیک سلیولیس ساڑھی جس کے بارڈر پر سفید نگوں کا دیدہ زیب کام تھا پہنے ‘ کسی کانفرنس میں جان کے لیے مکمل تیار تھیں۔۔
”کیا مصیبت آگٸی ہے۔؟ جو یوں صبح صبح ہی پورے گھر کو سر پر اٹھا رکھا ہے۔۔؟” لاؤنج میں اخبار کا مطالعہ کرتے حیدر علی شاہ نے ان کی تیکھی آواز سن کر اک اچٹتی نگاہ اُن پر ڈال کر ناگواری سے پوچھا۔
”آپ تو چپ ہی رہیں۔۔“ شاہانہ بیگم نے برا سا منہ بنایا۔
”جاہل عورت۔۔“ وہ بڑبڑاۓ۔
”جی بیگم صاحبہ۔۔“ تب ہی وہ تینوں بھی ان کی آواز سن کر سب کام چھوڑ کر آگے پیچھے دوڑی آٸیں۔
”سکینہ بی آج شام کو رمل اور رومانہ آ رہی ہیں۔ان کے لیے نیچے والے دونوں روم صاف کروا دینا اور کھانے میں بھی کچھ اہتمام کر لینا رمل اور رومانہ کیا کھاتی ہیں یہ تو تم لوگوں کو پتا ہی ہوگا۔۔۔۔؟“ انہوں نے شنو ، رجو اور سکینہ بی کو آرڈر دیا ، جبکہ شاہانہ بیگم کی بات سن کر حیدر علی شاہ کا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا۔۔ کیونکہ وہ دونوں ان کو اک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔۔
”جج جی پتا ہے بیگم صاحبہ۔۔۔۔“ شنو نظریں جھکاۓ بولی۔۔۔
”یہ تمہاری بہن کو اپنے گھر سکون نہیں آتا۔۔۔؟ جو روز روز منہ اٹھا کر یہاں ٹپک پڑتی ہے۔۔۔۔؟“ وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولے۔۔
”سکینہ بی۔۔۔! آپ سب کام اپنی نگرانی میں کرواٸیں۔۔اور رجو تم ناشتہ لگاٶ۔۔مجھے آج جلدی جانا ہے ۔۔“ انہوں نے حیدر علی شاہ کی بات کو نظر انداز کر کے سکینہ بی کو ہدایت دی ، وہ اس گھر کی پرانی اور قبل اعتماد ملازمہ تھیں،اب وہ خود تو کام نہیں کرتی تھیں لیکن سب ملازموں کے سر پر کھڑے ہو کر اپنی نگرانی میں سارا کام کرواتی تھیں،
”جی ٹھیک ہے میں کروا دوں گی ، آپ بے فکر رہیں۔۔۔۔“ انہوں نے بھی تابعداری سے کہا اور پھر وہ تینوں وہاں سے چلی گٸیں۔
”ہاں تو کیا کہہ رہے تھے آپ۔۔؟ اب بولیں۔۔۔۔“ اب وہ ان کی طرف متوجہ ہوٸیں۔
”میں نے جو کہا ہے اس میں غلط ہی کیا ہے؟تم بتاؤ۔” وہ چہرے سے تھوڑا سا اخبار ہٹا کر بولے اور پھر سے مطالعے میں مصروف ہوگٸے،
”آپ کو اور آپ کے بیٹے کو میری بہن اور بھانجی سے خدا واسطے کا بیر ہے ، لیکن اک بات کان کھول کر سن لیں یہ میرا گھر ہے اور میرے گھر میں جب بھی ‘ جس کا بھی دل کرے گا وہ آئے گا ، اگر کوٸی روک سکتا ہے تو روک کر دکھاۓ۔۔“ وہ بھی غصے سے تیوری چڑھا کر بولیں۔۔
”ہمیں کیا پڑی کہ ہم ان کو روکیں، ان کو خود ہی شرم آنی چاٸیے روز روز منہ اٹھا کر آتے ہوۓ۔۔۔“حیدر علی شاہ نے پرسکون لہجے میں کہا اور اخبار لپیٹ کر ساٸیڈ پر رکھ کر ڈاٸیننگ ٹیبل کی طرف چل دٸیے،کیونکہ ناشتہ لگ چکا تھا۔
”آپ انتہاٸی۔۔۔۔۔۔۔“
”گڈ مارنگ پاپا۔۔۔اینڈ مسسز شاہ۔۔۔“ دارین اور زین جو ڈاٸیننگ ہال کی طرف آ رہے تھے وہ حیدر علی شاہ کی آخری بات سن کر ہنس دیٸے ، اور پھر مسسز شاہ کے بولنے سے پہلے ہی انہوں نے جھٹ سے یک زبان ہو کر گڈ مارنگ کہا۔۔
”گڈ مارنگ ٹو بیٹا ۔۔۔“ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ اور جوس کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔جبکہ مسسز شاہ پیچ و تاب کھا کر خاموشی سے بریڈ پر جیم لگانے لگ گٸیں۔۔۔ اک دم سے ڈاٸیننگ ہال میں مکمل خاموشی چھاگٸی تھی۔
”اک بریکنگ نیوز ہے آپ لوگوں کے لیے ۔۔۔” انہوں نے طنزیہ انداز میں شاہانہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے اُن کو کہا۔
”وہ کیا پاپا۔۔۔۔؟“ زین کو تجسس ہوا۔
”تم لوگوں کی آنٹی صاحبہ تشریف لا رہی ہیں۔۔“ انہوں نے ان دونوں کو بھی اطلاع دی ۔ اُن دونوں ماں بیٹی کا ذکر سن کر دارین کا موڈ بھی خراب ہو گیا تھا،لیکن اسنے کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔
”تو یہ کون سا نٸی بات ہے پاپا۔۔۔“ اس نے تلخ لہجے میں لاپرواہی سے کہا اور ناشتے میں مصروف ہوگیا جبکہ مسسز شاہ اس کے جواب پر کلس کر رہ گٸیں ، لیکن بولی کچھ نہیں۔۔
”ہمممم یہی بات میں نے بھی بولی ہے۔“اب کے انہوں نے بھی سنجیدگی سے کہا،
”زین تم رومانہ اور رمل کو لینے آٸر پورٹ چلے جانا۔۔ جب وہ آٸیں گی میں تمہیں کال کر دوں گی۔۔۔“ شاہانہ بیگم نے ان دونوں کی باتیں نظر انداز کر کے خاموشی سے ناشتہ کرتے زین کو مخاطب کر کے کہا،
”جی ٹھیک ہے ماما ۔۔۔ “ اس نے فرمانبردای سے جواب دیا ۔۔
”اوکے ۔۔ ! اب میں چلتی ہوں مجھے لیٹ ہو رہا ہے۔۔۔“ وہ اپنی بات ختم کر کے وہاں سے اٹھ گٸیں۔ آج وہ کافی خوش تھیں، دارین نے تاسف سے ماں کی طرف دیکھا جو رومانہ بیگم اور اس کی بیٹی رمل کے آنے پر اتنی زیادہ خوش ہو رہی تھیں، جیسے کہ وہ پہلی بار آ رہی ہوں ،۔۔جبکہ جو لوگ ان کے گھر میں موجود تھے۔ان کا حال تک پوچھنےکی انہوں نے کبھی زحمت نہیں کی تھی۔
رومانہ بیگم ، شاہانہ کی کزن ، بیسٹ فرینڈ اور کلاس فیلو تھیں ،ان دونوں کا بچپن اور جوانی اک ساتھ ہی گزرا تھا، شادی کے بعد رومانہ بیگم کراچی چلی گٸی تھیں، لیکن پھر اک بیٹی کے بعد ہی ان کی اپنے ہزبینڈ سے علیحدگی ہوگٸی اور وہ اپنی اکلوتی بیٹی رمل کے ساتھ کراچی میں ہی رہنے لگ گٸیں۔۔۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ دونوں اپنے گھر میں کم اور شاہانہ بیگم کے ہاں زیادہ رہتی تھیں، ان دونوں نے وہاں بیوٹی سیلون اور بوتیک بناٸی ہوٸی تھی۔۔جو شاہانہ بیگم کے پیسوں سے ہی چل رہی تھی۔وہ دونوں کچھ دن پہلے ہی یہاں سے ہو کر گٸی تھیں،لیکن اب پھر آ رہی تھیں۔۔۔ ہر بار وہ دونوں کسی نہ کسی مقصد سے آتی تھیں اس بار وہ کیوں اور کتنے دنوں کے لیے آ رہی تھیں یہ کوٸی نہیں جانتا تھا، دارین کو وہ دونوں ہی نہیں پسند تھیں اُسے کوفت ہوتی تھی اُن سے ، لیکن شاہانہ بیگم کو ان کے آنے سے بہت خوش ہوتی تھی، رومانہ بیگم ‘ شاہانہ سے بھی زیادہ ماڈرن اور فنکشنز کی دلداہ تھیں ‘ جبکہ ان کی اکلوتی بیٹی رمل اکرم بھی ان سے کچھ کم نہیں تھی، شاہانہ بیگم دل و جان سے اسے چاہتی تھیں اور اب اُسے بہو بھی بنانا چاہتی تھیں لیکن دارین کو وہ ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی تھی وہ جب بھی ” شاہ ولا ” آتی تھی۔ اس کی نگاہوں کا مرکز دارین حیدر کی ذات ہی ہوتی تھی۔۔۔ لیکن وہ اُسے گھاس تک نہیں ڈالتا تھا۔۔اس سے بات کرنا تو دور کی بات تھی۔۔۔!
**…**…**
صبح سے شام ہوگٸی تھی۔۔۔!
لیکن وہ اپنے کمرے میں ویسے ہی فرش پر گھٹنوں میں سر دیٸے بیڈ سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی، رو رو کر اس کی آنکھیں سوج چکی تھیں۔۔۔،لیکن پھر بھی آنسو تھے کہ بہے جا رہے تھے ،تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، اس کا ذہن بھی بلکل مفلوج ہو گیا تھا، اُسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے ، کیا نہ ۔۔؟ اس کی ظہر اور عصر کی نماز بھی قضا ہوگٸی تھی ،لیکن وہ ایسے ہی سوچوں میں گم بیٹھی تھی تب ہی اس کے اندر سے آواز آٸی، ”چھوڑو ان بےحس لوگوں کے پیچھے رونا یہ تیری کوٸی بات نہ سنیں گے اور نہ ہی مانیں گے ،تو بس اللہ سے مانگ وہ سب کی سنتا ہے اور سب کو نوازتا ہے۔۔۔“ وہ اک جھٹکے سے سیدھی ہوٸی، آج وہ اپنے رب کو تو بھول ہی گٸی تھی۔۔۔،اس نے جلدی سے اپنے ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کیٸے اور فرش سے اٹھنے لگی،تب ہی اس کے کمرے کا دروازہ اک جھٹکے سے کھلا، راٸمہ تیز ی سے اندر آٸی۔۔
”بیا آپی۔۔۔۔۔۔“ راٸمہ نے بیتابی سے اسے پکارا۔۔۔ لیکن وہ کچھ نہیں بولی اور اک زخمی نظر اس پر ڈال کر سر جھکا گٸی۔۔
”کیا ہوا ہے آپی۔۔؟”
” آج آپ کمرے سے باہر ہی نہیں آٸیں۔۔؟“ راٸمہ نے اس کے بکھرے حلیے کو دیکھ کر سوال کیا۔وہ پھر بھی کچھ نہیں بولی۔
”کچھ بولیں بھی بیا آپی۔؟میں جب بھی آپ سے کچھ پوچھتی ہوں آپ یہی کہتی ہیں کہ کچھ نہیں ہوا،لیکن آج میں آپ کی کوٸی بات نہیں سنو گی ، آپ کو بولنا پڑے گا۔۔بتاٸیں بھی پلیز کیا ہوا ہے۔۔۔؟“ اس نے بیا کے چہرے کو اپنی طرف موڑا اور اس کی سوجی ہوٸی آنکھیں دیکھ کر دنگ رہ گٸی،
”کیا بولوں؟کیا بتاٶں میں ؟ بس یہ میری بدقسمتی ہے اور کچھ نہیں۔“ وہ بس اتنا ہی بولی۔
”ہوا کیا ہے آپی کچھ بولیں تو سہی۔“راٸمہ نے پریشانی سے پوچھا،
”ماموں پر بوجھ بن گٸی ہوں میں۔۔! اس لیے اب وہ مجھے ناٸمہ آپی کے گھر بھیج رہے ہیں۔“ وہ خلاٶں میں گھوتے ہوۓ تلخی سے نم آلودہ لہجے میں بولی۔۔
”لیکن وہاں کیوں ۔۔۔؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
”آپی کی طبیعت نہیں ٹھیک ‘ اس لیے انہوں نے مجھے بلایا ہے وہاں۔۔۔لیکن راٸمہ میں نہیں جانا چاہتی ، وہاں جانے کے لیے میرا دل نہیں مانتا۔۔۔۔“
“تو آپ انکار کر دیں۔۔۔۔! یہ آپ کاحق ھے آپی۔۔۔” راٸمہ نے اس کو سمجھانا چاہا وہ خود بھی پریشان ہو گٸی تھی، کیونکہ اسرار بھاٸی اُسے بھی کچھ خاص پسند نہیں تھے۔اور وہ ان کی حرکتیں بھی دیکھ چکی تھی۔۔
”ہنہہ انکار۔۔۔۔؟ کس سے کروں ؟ماموں سے یا پھر مامی سے۔۔؟ کون مانے گا میری بات۔۔؟ بتاٶ ۔۔؟ اگر میری مانی جاتی تو یہ نوبت ہی کیوں آتی۔“وہ استہزایہ انداز میں ہنس کر تلخی سے بولی۔۔
”پلیز اب تم بھی جاٶ یہاں سے، چھوڑ دو مجھے میرے حال پر۔خدا کے لیے۔۔۔۔“ اس نے بےبسی سے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیٸے۔ اک بار پھر سے اس کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں،
” آپی پلیز آپ روٸیں نہیں۔۔۔! سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔میں بات کرتی ہیں امی سے۔“راٸمہ اس کی اجڑی حالت دیکھ کر خود بھی دکھی ہو گئی تھی۔۔
”کیا ٹھیک ہوگا ؟ کچھ بھی نہیں۔۔ میں بہت بے بس ہو گٸی ہوں راٸمہ۔۔! میں چاہتے ہوۓ بھی کچھ نہیں کر پا رہی،میں نہیں جانا چاہتی وہاں۔تم بھی جانتی ہو اسرار بھاٸی بلکل بھی اچھے نہیں ہیں ،مجھے ڈر لگتا ہے ان کی گندی نظروں سے ۔۔ میں کیسے رہوں گی ان کے گھر اتنے دن، بتاٶ۔۔۔۔؟“ وہ ٹوٹ گٸی تھی ‘ بکھر گٸی تھی، راٸمہ نے آگے بڑھ کر اس کو اپنے ساتھ لگایا۔۔۔وہ اس کے ساتھ لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی ، جبکہ راٸمہ اس کو دلاسہ بھی نہیں دے سکی تھی، کیونکہ یہ فیصلہ اس کے باپ نے کیا تھا اور وہ جو اک بار کہہ دیتے تھے ‘ پھر پتھر پر لیکر ہوتا تھا۔۔ اس کی آنکھ سے آنسو نکل کر بیا کے بالوں میں جذب ہو گٸے تھے۔ وہ کتنی بے بس تھی۔ یہ اس کو آج پتا لگا تھا۔۔۔۔۔
وہ چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر پاٸی تھی۔۔۔!
**…**…**
”واہ کیا بات ہے۔۔۔! اس ولا میں مہمانوں سے سلام دعا کرنے کا یا اُن کو کمپنی دینے کا رواج نہیں ہے کیا۔؟“ وہ لاٶنج سے گزر کر تیزی سے سڑھیوں کی طرف بڑھ رہا تھا جب رمل کی طنزیہ آواز اس کی سماعتوں سے ٹکڑاٸی ، وہ پچھلے دو دن سے آفس ورک میں بہت بزی تھا ،اس لیے اس کی ملاقات رمل اور رومانہ سے نہیں ہوٸی تھی آج وہ آفس سے جلدی اٹھ آیا تھا، کیونکہ رات کو انہوں کسی پارٹی میں جانا تھا ، تب ہی اس کا سامنا رمل سے ہوگیا جو لاٶنج میں کہیں جانے کے لیے نک سک سے تیار سیل ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔
” قطعاً نہیں۔۔” رمل کے پوچھنے پر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔وہ آگے جانے کی بجاۓ چلتا ہوا اس کے پاس آ کر دو ٹوک لہجے میں بولا۔
“لیکن کیوں دراین۔۔۔؟“ رمل اپنا سامنا لے کر رہ گٸی، لیکن بولنے سے پھر بھی باز نہیں آٸی۔وہ جب بھی آتی تھی اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی تھی۔۔اور وہ اسے دیکھتا تک نہیں تھا۔
”کیوں کا تو پتہ نہیں۔۔! ویسے یہاں مہمان کون ہے مس رمل۔۔۔؟“ وہ استہزیہ انداز میں ہنس کر عین اس کے مقابل آ کر بولا۔
”کیا مطلب میں سمجھی نہیں ؟“ وہ بھی اس کی بات سن کر اپنی جگہ سے کھڑی ہوگٸی۔۔
”مطلب مہمان ایک یا دو دن کا ہوتا ہے ، لیکن تم لوگوں نے تو ہر وقت یہاں ہی ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں،۔اس لیے تم لوگ میرے مہمانوں کی لسٹ میں نہیں آتیں۔“ اس نے پرسکون لہجے میں اس کو آٸینہ دکھایا۔۔
”دارین یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔؟“اپنے روم سے تیار شیار ہو کر نکلتی شاہانہ بیگم نے اس کی آخری بات سن کر غصے سے اُسے ٹوکا۔
”یہ بدتمیزی نہیں مسسز شاہ۔۔۔۔۔۔۔ ! میں نے حقیقت بتاٸی ہے آپ کی بھانجی صاحبہ کو ‘ ویسے اس میں غلط ہی کیا ہے۔۔؟“ وہ ان چلتا ہوا مسسز شاہ کے روبرو آگیا۔۔
”رمل میری بھانجی نہیں ، بیٹی ہے۔اُس سے کوٸی اِس لہجے میں بات کرے یہ میں قطعاً برداشت نہیں کروں گی۔۔۔۔“
”تو نہ کریں برداشت’ آئی ڈونٹ کیئر۔۔۔” وہ بھی غصے سے بولا ‘ شاہانہ بیگم کے لہجے میں رمل کے لیے پیار دیکھ کر اس کا موڈ یک دم ہی خراب ہو گیا۔۔۔
”ایسے بھی کوٸی کرتا ہے بھلا گھر آۓ مہمان سے۔۔۔“وہ غصے سے بول رہی تھیں۔۔
”میں ان جیسے روز روز منہ اٹھا کر آنے والے لوگوں کو مہمان نہیں مانتا۔اور اگر آپ کو اتنی پرواہ ہے اپنے ان مہمانوں کی تو انہیں کہیں وہ مجھ سے مت الجھیں، ورنہ ایسے ہی جواب ملیں گے ان کو مجھ سے۔۔۔۔۔” اُس نے اک اچٹتی سی نظر شاہانہ بیگم کے کندھے سے لگی رمل پر ڈال کر غصے سے کہا اور لب بھینچ کر لمبے لبمے ڈگ بھرتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔
”شانہ مام دارین ایسے کیوں ہیں۔۔۔۔؟“ رمل نے شاہانہ بیگم کے گلے میں بانہیں ڈال کر جان کر انجان بنتے ہوئے معصومیت سے پوچھا،وہ ان کو پیار سے شانہ مام کہتی تھی۔۔
”میری جان۔۔۔! وہ شروع سے ہی ایسا ہے اپنے باپ کی طرح ضدی ، غصیل اور خود سر ، تم بھی تو جانتی ہی ہو اُسے۔۔۔“انہوں نے بھی لہجے میں اپنا پن سموتے ہوۓ اس کے چہرے کو سہلا کر کہا۔۔
”ہممممم، لیکن ۔۔۔“
”اب لیکن ویکن کو چھوڑو۔۔۔! اور اپنا موڈ ٹھیک کر کے چلو ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔۔۔“ انہوں اس کو پیار سے خود سے لگا کر اس کی گال کا بوسہ لے کر کہا۔۔۔۔
”اوکے شانہ مام۔۔۔“ اس نے مسکرا کر سر جھٹکا۔اور اپنا بیگ اٹھا کر شاہانہ بیگم کے ساتھ باہر نکل گٸی، آج وہ اکیلی ان کے ساتھ پارٹی میں جا رہی تھی، رومانہ بیگم کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ اپنے روم میں آرام کر رہی تھیں،ورنہ اس وقت وہ بھی ان دونوں کے ساتھ ہی جانے کے لیے ریڈی ہوتیں۔۔۔۔!
**…**…**
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...