پاکیزہ اکیلی ہو گئی تھی۔ بالکل اکیلی۔ کوئی بھی اسکا نہیں تھا اب۔ نہ تو مُراد جو اسکی زندگی تھا اور نہ ہی اسکی بہن جیسی دوست حالے۔ سب کچھ اتنا اچانک ہو رہا تھا کہ پاکیزہ کو اپنی زندگی میں اندھیرے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اگلے ہی دن پاکیزہ ہینڈ فری لگا کر ریڈیو سُن رہی تھی اور ریڈیو سُنتے سُنتے اس نے ایک حدیث سُنی جسے سُن کے مانو جیسے اُسے اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں آ گیا ہو۔ وہ حدیثِ قدسی کچھ یوں تھی کہ:
اے ابنِ آدم!
اِک تیری چاہت ہے اور اِک میری چاہت ہے
مگر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے
پس اگر تو نے سپُرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے
جو میری چاہت ہے
تو میں بخش دوں گا وہ بھی
جو تیری چاہت ہے
اگر تو نے مخالفت کی اسکی
جو میری چاہت ہے
تو میں تھکا دوں گا تجھے اس میں
جو تیری چاہت ہے
پھر ہوگا وہی
جو میری چاہت ہے
اُس وقت رات کا آخری پہر تھا۔ تیز بارش ہو ہورہی تھی اور ہر طرف طرف مٹی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ پاکیزہ نے ٹھنڈے پانی سے وُضو کیا اور تہجد کی نماز پڑھنے لگی۔ نماز پڑھنے کے بعد اُس نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔ وہ بولنا چاہ رہی تھی۔ بہت کچھ بولنا چاہ رہی تھی لیکن اُس کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے۔ وہ سِسکنے لگی اور پھر کئی دیر روتی رہی یہاں تک کہ اسکی آنکھیں سوجھ گئیں۔ آخر اس نے خاموشی توڑی اور بولی کہ:
“یا اللہ مجھے بخش دے۔ بخش دے میری ہر ایک غلطی کو۔ میں نے اپنی ساری زندگی تجھ سے دور رہ کر گزاری ہے لیکن اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ میرے مولا تُو تو ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے نا تو مجھے اس پیار کے صدقے معاف فرما دے۔ میں نے تجھے چھوڑ کے دنیا کی چاہت کو اپنا لیا تھا لیکن سب نے مجھے ٹھکرا دیا۔ اے میرے پروردگار! اگر تو بھی ٹھوکر مار دے گا تو میں کس در پہ جاؤں گی؟ میں ایک نامحرم کو اپنا سب کچھ مان بیٹھی تھی۔ اُس نامحرم کی محبت نکال دے میرے دل سے۔ اگر اسے مجھ سے دور کرنا ہی تھا تو اسکی محبت ڈالی کیوں میرے دل میں؟ میرے مولا سیدھا راستہ دکھا”
پاکیزہ ساری رات بِلَک بِلَک کر روئی تھی اور روتے روتے ہی سو گئی تھی۔
ابھی تو شاید اسکی مشکلات شروع ہی ہوئی تھیں۔ وہ بالکل بدل گئی تھی۔ ہر چھوٹی بات پہ رونے لگتی تھی۔ کسی کے اونچا بولنے سے ڈر سی جایا کرتی تھی۔ سب سے دور رہنے لگی تھی۔ زیادہ تر تنہائی میں رہتی اور رات کے اندھیروں کو پسند کرنے لگی تھی۔ ہر نماز کے بعد رو کےدُعا کرتی اور ہر رات تہجد کے بعد سجدے میں روتی اور گڑگڑاتی تھی۔ کئی گھنٹے سجدے میں روتی رہتی اور ایک ہی دُعا کی “یا اللہ! بخش دے مجھے اور مُراد کی محبت نکال دے میرے دل سے”
وہ سمجھ رہی تھی کہ اس کے ساتھ سب غلط ہو رہا ہے اور وہ اب زندگی کی خواہش مند ہی نہیں تھی۔ بلکہ اس کی ساری خواہشات مر چکی تھیں۔ اس کی روح زخموں سے داغ دار ہو گئی تھی اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والے داغ تھے جنہیں وہ رو کر دھونے اور ختم کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ ایسی موت مر چکی تھی جس کا جنازہ بھی نہیں ہوتا۔ ہاں وہ خواہشات کی موت مر چکی تھی۔ مُراد کی محبت تھی کہ اس کے دل سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور اسے یوں لگتا تھا کہ یہ محبت پہلے سے بھی زیادا بڑھتی جا رہی ہے۔ اسے یہ بات زیادہ عزیت دیتی تھی کہ مُراد نے دوبارا رابطہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور اپنی زندگی مزے سے گزار رہا تھا۔ اسکو کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ ہر وقت یہی سوچتی رہتی کہ مُراد کو محبت تھی بھی؟ اور اگر تھی تو کہاں گئی اب وہ محبت۔ کیسے کہہ دیا اس نے مجھے اتنا سب کچھ۔
“وہ کہتے ہیں نہ کہ محبت کسی سے ہو جائے تو محبوب کی ہر بات ماننی چاہئے نہیں تو محبوب روٹھ جاتے ہیں۔ میں نے ہر بات مانی تھی تو یہ سب کیوں؟ کیا یہ ہر بات ماننے کی سزا تھی یا مُراد نے مجھے اس سے محبت کرنے کی سزا دی؟” پاکیزہ اپنی ڈائری پہ یہ سب لکھ رہی تھی اور اپنے آنسؤوں کو ضبط کئے بیٹھی تھی۔ آنسؤں سے اس کی آنکھیں دھندلا گئی تھیں۔ آخر اسکی ضبط اور صبر کا بان توڑ کر بہہ پڑے اور اسکی ڈائری کا صفح آنسؤوں سے بھر گیا۔ یہاں تک کہ ڈائری پہ لکھے ہوئے الفاظ بھی دھندلے ہو گئے۔
پاکیزہ کے اس طرح خاموش اور تنہا رہنے کی وجہ سے سب گھر والے پریشان تھے کیونکہ وہ سب پاکیزہ کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ سب اس سے بار بار پوچھتے لیکن کوئی خاص جواب نہ ملتا۔ آخر پاکیزہ کی امی اس کے پاس آئیں اور اس سے کہنے لگیں کہ
“کیا ہو گیا ہے پاکیزہ؟ تم ایسے کیوں رہنے لگی ہو؟ یہ سب اس انسان کے لئیے ہے نا جو شاید تمہیں بھول چکا ہے۔ جس نے کبھی اپنے گھر والوں کو بھی تمہارے بارے میں نہیں بتایا۔ تم بھول کیوں نہیں جاتی مُراد کو؟ وہ انسان اب تک تم میں زندہ کیوں ہے بیٹا جس میں تم کب کی مر چکی ہوئی ہو؟ اسے تو تمہارا رونا بھی نظر نہیں آتا لیکن اپنے گھر والوں کی تو فکر کرو۔ علی بار بار تمہیں ہنسانے آتا ہے اور ذیشان بار بار آکر یہ دیکھتا ہے کہ کہیں تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہ ہو۔ عبداللہ بار بار مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپی کو کیا ہو گیا ہے۔ اور تمہارے بابا! ان کو کیا کہوں میں؟ اُن کو یہ کہہ کر بات تو ٹال دی کہ تم بیمار ہو لیکن انہیں میں کب تک تک ان کو یہ کہتی رہوں گی؟ اس طرح رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔”
پاکیزہ خاموشی سے یہ سب سنتی رہی اور امی کی بات ختم ہونے کے بود کچھ دیر گہری سوچ میں رہی اور بولی “کون مُراد؟ کس مُراد کی بات کر رہی ہیں ماما؟ میں نہیں جانتی کسی مُراد کو”
یہ کہنے کے بعد پاکیزہ یوں محسوس کر رہی تھی جیسے اس کا دل پھٹ جائے گا یا زمین پھٹے گی اور وہ اس میں غرق ہو جائے گی لیکن اس کے چہرے پہ ایک پُر اصرار سکون تھا۔ اب وہ ادکارہ بھی بن چکی تھی۔ ایک ایسی اداکارہ جو اپنے چہرے پہ من چاہے تاثرات قائم کر سکتی تھی۔
“اگر ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے۔ اپنا وقت برباد مت کرو اور زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو کیونکہ ابھی تو تمہاری پوری زندگی باقی ہے” پاکیزہ کی امی پریشانی کے عالم میں بول رہی تھیں۔
“جی ماما آپ فکر نہ کریں۔ اب آپ مجھے ایسے بالکل نہیں دیکھیں گی۔” پاکیزہ مسکراتے ہوئے بول رہی تھی۔ اسے دیکھ کے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی پھول ابھی کھلنے کے مرحلے میں تھا لیکن وہ بد قسمت پھول کھلے بغیر ہی مرجھا گیا ہو۔
یہ الفاظ کہنے کے بعد پاکیزہ کا دل بہت بے سکونی میں تھا اور ساری رات پاکیزے اپنے کہے ہوئے الفاظ سوچتی رہی۔ اگلے دن دوپہر کے دو بج گئے لیکن پاکیزہ ابھی تک سو رہی تھی۔ ویسے تو وہ دیر تک سوئی رہتی تھی۔ لیکن کچھ دن سے خلافِ معمول پاکیزہ جلدی ہی جاگ جاتی تھی۔ اس کی امی نے سوچا کہ کافی دن سے پاکیزہ جلدی جاگ جاتی ہے تو آج اسے نیند پوری کرنے دیتی ہوں اسی لئیے انہوں نے پاکیزہ کو نہیں جگایا۔ شام کے چار بج گئے لیکن پاکیزہ اب تک سو رہی تھی تو اس کی امی پریشان یو گئیں اور اس کو اٹھانے کے لئیے گئیں۔
“پاکیزہ! اُٹھ جاؤ بچے چار بج گئے ہیں” پاکیزہ کی امی اسے ہِلا کر اُٹھا رہی تھی لیکن پاکیزہ بے سود پڑی رہی۔
“پاکیزہ! پاکیزہ! کیا ہو گیا تمہیں؟ اُٹھ بھی جاؤ اب” پاکیزہ کی امی کی دھڑکن تیز ہو گئی اور پریشانی کے عالم میں ان کی آواز اونچی ہونے لگی۔
“ذیشان! علی! دیکھو پاکیزہ کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ اٹھ نہیں رہی” اب امی کی آواز اور بلند ہو گئی اور وہ روتے ہوئے پاکیزہ کے بھائیوں کو آوازیں دینے لگیں۔ گھر میں ہر طرف کہرام برپا ہو گیا اور پاکیزہ کو گاڑی کے ذریعے ہسپتال لے جایا گیا۔ ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹروں نے پاکیزہ کا چیک اَپ کیا۔
“ڈونٹ وَری مسز دانش۔ پاکیزہ بس بے ہوش ہو گئی تھی۔ شاید یہ کسی ڈپریشن میں ہے اور گلوکوز کی کمی کی وجہ سے بھی ایسا ہوا۔ میں نے ڈرِپ لگا دی ہے اور کچھ میڈیسنز لکھ دی ہیں۔ کوشش کیجئے گا کہ پاکیزہ ٹینشن نہ لے۔ ہوش آنے کے بعد آپ اسے گھر واپس لے جا سکتے ہیں”
“تھینک یو ڈاکٹر” پاکیزہ کی امی دبی ہوئی پریشان آواز میں بولی تھیں۔
رات کو سات بجے پاکیزہ کو ہوش آ گیا اور اس کے گھر والے اسے گھر لے گئے۔ پاکیزہ کی امی اور ابو دونوں ہی بہت زیادہ پریشان تھے اور بھائیوں کا تو رو رو کے بُرا حال تھا کیں کہ وہ اپنی بہن سے بہت پیار کرتے تھے۔
اگلے دن تک پاکیزہ کی طبیعت میں بہت سُدھار آچکا تھا۔
“اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں اس مُراد کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کیا حالت بنا دی ہے اس نے میری بیٹی کی۔ اس کی یادیں کب جان چھوڑیں گی تمہاری؟” پاکیزہ کی امی غصّے سے بولیں۔
پاکیزہ لیٹی ہوئی تھی اور مسکراتے ہوئے جواباً بولی “اب اس کا کیا قصور ہے اس میں ماما؟ وہ کہاں سے آگیا؟ کبھی کبھی انسان بیمار ہو ہی جاتا ہے”
“تم نے سُنا نہیں ڈاکٹر نے کیا کہا تھا؟ تم ڈپریشن کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی”
“اچھا نا اب آپ تو ناراض مت ہوں۔ میں اور ڈپریشن؟ نہ نہ دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں” پاکیزہ نے بولتے ہوئے قہقہہ لگایا تھا اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ آنسو چھپانے کے لئے اُس نے دوسرے طرف کروٹ لے لی۔
“کاش ایسا ہی ہو۔ تم پہلے والی پاکیزہ بن جاؤ نا۔ اب شرارت کرنے پہ تمہیں کبھی نہیں ڈانٹوں گی” پاکیزہ کی امی بھی اب رونے لگی تھیں۔
“ماما اب مجھے اموشنل نہ کریں اور فکر نہ کریں میں پہلے جیسی ہی ہوں۔ اب مجھے سونے دیں۔ باقی باتیں بعد میں کروں گی”
پاکیزہ کی امی کمرے سے چلی گئیں اور پاکیزہ روتی رہی۔
پاکیزہ میں کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ وہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ تہجد بھی ادا کرتی اور تہجد کے وقت کئی دیر تک سجدے میں ہی رہتی۔ بعض اوقات تو نوبت یہاں تک آ جاتی کہ وہ سجدے میں ہی سو جایا کرتی تھی۔ وہ سجدے میں روتی رہتی اور اللہ سے ایک ہی دُعا کرتی کہ اے اللہ میرے دل سے مُراد کی محبت نکال دے۔ یہ وہی پاکیزہ تھی جو مُراد کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنے کی دعائیں کیا کرتی تھی اور اب وہی مُراد کو اپنے دل و دماغ سے دور کر دینا چاہتی تھی۔ مُراد پاکیزہ کی روح کا حصّہ تھا جسے خود سے الگ کرنا اسے مشکل ہی نہیں نہ ممکن لگ رہا تھا۔ اس نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا کہ مُراد بالکل بدل جائے گا۔ اتنا کہ اسے پاکیزہ بھی بھول جائے گی۔ مُراد نے ایک بار بھی پاکیزہ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ پاکیزہ اب پردہ کرنے لگی تھی۔ یہ وہی پاکیزہ تھی جو کہا کرتی تھی کہ میرہ دم گھٹتا ہے اسی لئے میں نقاب نہیں کر سکتی۔
پاکیزہ اور مُراد کو دور ہوئے سال ہو چکا تھا۔ وہ اور حالے الگ الگ یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے اور حالے نے بھی پاکیزہ سے کبھی بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ لیکن پاکیزہ کو تو سب یاد تھے۔ وہ آج تک کسی کو نہیں بھولی تھی اور نہ ہی آج تک اس نے کوئی سہیلی بنائی تھی۔ وہ زیادہ تر سب سے دور رہنے کی ہی کوشش کیا کرتی تھی۔ پاکیزہ کو حالے کی بہت یاد آئی تو اس نے حالے کو میسج کیا۔
“ہیلو”
“کیسی ہو؟”
حالے نے میسج کا اگلے دن جواب دیا۔
“میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟”
پاکیزہ نے میسج دیکھتے ہی فوراً جواب دیا۔
“شکر اللہ کا میں بھی ٹھیک ہو۔ کہاں ہوتی ہو آج کل؟”
“بس یونیورسٹی اور پڑھائی میں مصروف ہوتی ہوں”
“کبھی میری یاد نہیں آئی حالے؟”
“نہیں میں مصروف بہت ہوتی ہوں بس اسی لئے”
“مصروف تو سب ہی ہوتے ہیں لیکن اپنوں کے لئے تو وقت نکالا جاتا ہے نا” پاکیزہ دل میں سوچ رہی تھی کہ اپنا تو میرا کوئی نہیں تو پھر میں حالے سے کیسی اُمید رکھ سکتی ہوں۔
“نہیں پاکیزہ تھوڑا سا بھی وقت نہیں ہوتا کہ کسی سے بات کر لوں”
“اب تو تماری بہت سی نئی سہیلیاں ہوں گی”
“ہاں ہیں تو اور سب بہت اچھی ہیں”
“ہاں سب اچھے ہی ہوتے ہیں حالے۔ بس وقت اور حالات سب کو بُرا بنا دیتے ہیں” پاکیزہ سوچ میں پڑ گئی تھی کہ اس نے ایسا کیا بُرا کر دیا تھا جو سب اس سے اتنا دور ہو گئے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ اتنی ہی بُری تھی جو اسے اتنی بڑی سزا ملی۔
_________
پاکیزہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی اس کے ساتھ بہت غلط کر رہی ہے اور اللہ نے آج تک اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اسے لگنے لگا تھا کہ اسے اب ایسے ہی ساری زندگی تنہائی میں گزارنی ہوگی اور نہ تو کوئی کبھی اس کا اپنا تھا اور نہ ہی کوئی اپنا بنے گا۔ اس نے سب کے ساتھ زندگی بہت مخلص ہو کر گزاری تھی لیکن اس کے ساتھ تو کبھی کسی نے مخلصی نہیں دکھائی تھی۔ سب نے ہی تو ہمیشہ اسے استعمال کیا تھا اور وہ بڑی خوشی خوشی استعمال ہونے کے لئیے تیار ہو جاتی تھی اور جب تک وہ حقیقت سے آشنا ہوتی تب تک تو وہ ایک بےکار استعمال شُدہ کاغز کی طرہ کسی سوچوں کے ویرانے میں پھینک دی گئی ہوتی تھی اور وہ اس ویرانے میں یہی سوچ سوچ کے وقت گزار دیتی کے اس کی شاید کوئی غلطی تھی یا پھر شاید وہ اس قابل ہی نہیں تھی لیکن غلطی ہمیشہ اس کی نہیں ہوتی تھی۔ اس کی یہ سوچ غلط تھی کہ وہ اس قابل نہیں کیوں کہ کئی لوگ اس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ اسے اپنانا چاہتے تھے۔ اسے اپنی مخلصی دکھانا چاہتے تھے۔ اسے یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ کتنی خاص ہے لیکن اس کے لئے کوئی بھی معنی نہیں رکھتا تھا۔ پاکیزہ کے لئیے تو صرف وہی لوگ معنی رکھتے تھے جو اس کے اپنے ہوتے تھے اور حقیقت ہمیشہ کچھ اور ہوتی تھی۔ حقیقت میں وہ اس کے اپنے نہیں بلکہ اس کی ویرانی کے سب سے بڑے حامی اور اس کی خوشیوں کے سب سے بڑے دشمن ہوتے تھے۔
اس رات حالے سے بات کرنے کے بعد پاکیزہ اپنی ڈائری لکھنے میز کے آگے پڑی کرسی پہ بیٹھ گئی۔ کمرے میں اتنی خاموشی تھی کہ ہوا کی سرسراہٹ اسے واضح سنائی دے رہی تھی۔ میز میں بنے دراز سے اس نے اپنی ڈائری اور قلم باہر نکالا۔ ڈائری اس نے میز پہ رکھ دی اور میز پہ کہنی رکھ کر سر کو ہاتھ کے سہارے ٹکا لیا۔ کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا اور صرف میز پہ پڑی لیمپ کی ہلکی سی روشنی تھی جس سے میز پر پڑی ہر چیز صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میز کے آگے بنی کھڑکی کھلی ہوئی تھی جس سے ہلکی ہلکی ہوا اندر آرہی تھی اور ہوا کی وجہ سے پاکیزہ کے کھلے بال اس ک چہرے پر آ رہے تھے۔ کھڑکی سے آسمان میں پورا چاند نظر آ رہا تھا۔ پہلے تو کئی دیر پاکیزہ چاند کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتی رہی۔ وہ ہوا کی وجہ سے چہرے پہ اُڑ کر آنے والے بالوں کو پیچھے بھی نہیں کر رہی تھی اور بالکل ساکن بیٹھی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا مانو جیسے کوئی بے جان چیز ہو۔ پاکیزہ کھلی آنکھو سے چاند کو دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں بند نہ کرنے کی وجہ سے پانی آ گیا۔
پھر وہ ڈائری کھول کے ورق پلٹنے لگی اور سب اچھے لمحات پڑھنے لگی۔ ہر صفحے سے تھوڑا تھوڑا پڑھ رہی تھی۔
“آج آخر آپ نے مجھے پروپوز کر دیا اور یہ میری خوشی کا حسین طرین لمحہ ہے۔ اب آپکو جواب کیسے دوں گی میں”
“آپ ہنستے تو کبھی کبھی ہیں لیکن ہنستے ہوئے بہت پیارے لگتے ہیں۔ کہیں میری نظر ہی نہ لگ جائے آپکو”
“جب مُراد مجھے سمجھاتے ہیں کچھ تو مجھے اچھا لگتا ہے”
“آج حالے کی برتھ ڈے تھی اور ہم نے بہت انجوائے کیا۔ اسے میرا سرپرائس بہت پسند آیا”
ڈائری پڑھتے پڑھتے اس نے ایک خالی صفح کھولا اور قلم پکڑ کر لکھنے لگی۔
آپ کیوں چلے گئے مُراد؟ آپ نے مجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا۔ آپ سے میری ساری اُمیدیں وابستہ تھیں لیکن آپ نے تو میری ساری اُمیدیں توڑ دیں۔آپ نے پیچھے مُڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ آپکی پاکیزہ زندہ بھی ہے یا مر گئی۔ میں تو آج بھی آپکی ہوں لیکن آپ تو اب میرے نہیں ہیں۔ آپ تو مجھ سے دور چلے گئے نہ۔ میری کوئی عادت بُری لگی تھی تو بتا دیتے۔ کوئی بات بُری لگی تھی تو بتا دیتے۔ سب بدل لیتی میں۔ کہتے تو خود کو بھی بدل لیتی لیکن آپ نے تو کوئی شکوہ کئے بغیر ڈانٹ دیا۔ کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا؟ آخر کیوں؟ جواب کیوں نہیں دیتے آپ؟ اوہ ہاں آپ کے پاس تو کوئی جواب ہی نہیں ہوگا۔ بس دل بھر گیا ہو گا اسی لئے چھوڑ دیا اور میری اوقات یاد دلا دی کہ میں کسی کے پیار کے قابل ہی نہیں۔ آپ فکر نہ کریں کیوں کہ اب میں اپنی اوقات یاد رکھوں گی۔ اب میں کسی سے پیار کرنے کی کوشش تو کیا جُراْت بھی نہیں کروں گی کیوں کہ آپ نے مجھے اب اس قابل چھوڑا ہی کہاں ہے؟ آپ نے تو میری ساری تمناؤں اور ساری اُمنگوں کا قتل کر دیا جن کو میں کب سے دفنا چکی ہوں۔ میری زندگی تو ان کورے کاغذوں کی طرح ہو گئی ہے جن پہ سیاہی بکھیرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ جن کو لوگ اپنے جذبات بتانے کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن وہ اپنی داستان کسی کو نہیں سُنا سکتے.
پاکیزہ نے ڈائری بند کی اور اسی ٹیبل پہ پڑی ڈائری پہ سر رکھ کے سوچنے لگی اور پھر اسی طرح سو گئی۔
وہ یونیورسٹی میں بھی اکیلی ہی رہا کرتی تھی اور سب سے دور ہی رہا کرتی تھی اسی لئیے کوئی بھی اس سے بات نہیں کیا کرتا تھا۔ اس کی کلاس میں بس ایک ہی لڑکا تھا جود بھی بڑی مزاحیہ حِسّ رکھتا تھا اور پاکیزہ کو بھی ہمیشہ ہنسانے کی کوشش کرتا رہتا تھا لیکن پاکیزہ نے کبھی کسی کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ نقاب کی وجہ سے پاکیزہ کا چہرہ ڈھکا ہوتا تھا اسی لئیے اسے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا اور اس کے نام سے بھی کم ہی لوگ واقف تھے۔
پاکیزہ لوگوں سے سب تعلق توڑ کر اللہ سے تعلق جوڑنے میں لگی رہتی تھی۔ اسےسجدوں میں سُرور آنے لگا تھا۔ نماز پڑھنا اچھا لگنے لگا تھا۔ اب کچھ بھی اس کے ہاتھ میں باقی نہیں رہا تھا لیکن پھر بھی اسے اللہ پہ پورا یقین تھا۔ کامل یقین! اس نے کبھی دُعا جیسی چیزوں پہ یقین نہیں کیا تھا اور مُراد کے ملنے کے بعد تو جیسے وہ اللہ کو بھول ہی گئی تھی لیکن اب اسے دُعا پہ سب سے زیادہ یقین تھا جبکہ ابھی تک اسکی دُعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ اس کی ایک ہی دُعا تھی کہ “یا اللہ مُراد کو میرے دل سے نکال دے۔ مُراد کی محبت کو میرے دل سے نکال دے۔”
ابھی تک اس کا دل مُراد کی محبت سے لبریز تھا اور اسے مُراد کے علاوہ کچھ دکھائی اور سُنائی نہیں دیتا تھا جبکہ مُراد نے تو اتنا کچھ کیا تھا لیکن اسکا یہ سب کرنا پاکیزہ کے لئیے بہت بے معنی تھا۔ معنی رکھتا تھا تو مُراد کے لئیے پاکیزہ کا پیار۔ پاکیزہ اکثر بیٹھے بیٹھے اپنی ڈائری پر اشعار بھی لکھا کرتی تھی۔ اس نے پہلے کبھی شعر نہیں لکھے تھے اور نہ ہی اسے شاعری کا اتنا شوق تھا لیکن اب وہ سوچتے سوچتے کئی شعر لکھ لیتی تھی اور کبھی کبھی تو اسے خود کے لکھے ہوئے اشعار پہ بھی بہت حیرت ہوتی تھی کہ وہ اتنی بدل کیسے گئی۔ تہجد پڑھنے کے بعد وہ ڈائری لکھنے بیٹھ گئی اور کچھ اشعار لکھنے لگی جو کچھ یوں تھے۔
پیار پیار لبدا پھر یا
کِتوں نہ پیار کمایا میں
اَکھاں کھول کے چلدا سی پر
دل بند کر بیٹھاں سی میں
واپس خالی ہَتھ جدوں آیا
سب کُج گوا بیٹھا سی میں
اَکھاں وِچ تے ہنجو سی بس
تے لبدا فردا سی خدا نوں میں
سجدے وچ جدوں ڈگیا فیر
اپنا آپ کمایا میں
وہ سجدے میں خود کو اللہ کے بہت قریب محسوس کرتی تھی۔ اسے ایسے لگتا تھا جیسے اس کے اور خدا کے راستے میں حائل جتنے بھی پردے تھے وہ سب ہٹ چکے ہوں اور ایسا محسوس کرتی تھی جیسے اس نے اپنا سر ماں کی گود میں رکھ لیا ہو اور کوئی اسکا سر سہلا رہا ہو۔ اسے اپنا حقیقی محسن مل گیا تھا۔ اُسے یہ سمجھ آگیا تھا کہ جو اللہ ہم سے ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ کبھی ہمیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔ جب کوئی ہمارے ساتھ نہیں ہوتا تو وہی واحد ذات ہے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ موجود ہوتی ہے۔
ایک رات پاکیزہ اپنے بیڈ پہ پیچھے کی طرف سر ٹکائے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ سوچوں میں گُم تھی۔ کمرے کی سب کھڑکیاں کھلی تھیں اور تیز آندھی کی وجہ سے کھڑکی کے دروازے زور زور سے ہل رہے تھے۔ کمرے میں کھڑکیوں کا شور پھیلا ہوا تھا اور کھڑکی سے آتی ہوئی چاند کی ہلکی سی روشنی تھی۔ پاکیزہ اس شور سے لا پروہ ہو کر سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کچھ دیر بعد تیز بارش ہونے لگی اور مٹی کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی۔ پاکیزہ کو بارش بہت پسند تھی اور بارش کے ہوتے ہی وہ ایسے خوش ہو جاتی تھی جیسے بہار کے موسم میں کوئی گلاب کا پھول کِھل گیا ہو لیکن آج اسے یہ بارش خوش نہیں کر پا رہی تھی۔ بلکہ اس بارش کی وجہ سے وہ آسودہ ہو گئی تھی جیسے آسودگی کی زنجیروں نے اُسے زور سے جکڑ لیا ہو۔ ٹھنڈی تیز ہوا کی وجہ سے بارش کی بوچھاڑ کھڑکی سے اپنا راستہ ڈھونڈتے ہوئے اندر داخل ہو رہی تھی جس کی بندیں پاکیزہ کے چہرے پر آ ر گر رہی تھیں۔ اچانک سے اسے موبائل کی گھنٹی سنائی دی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو موبائل اُس کی سائیڈ ٹیبل پر اُلٹا پڑا تھا۔ اُس نے موبائل پکڑا اور دیکھا تو کوئی انجانا نمبر تھا۔ پہلے تو وہ سوچتی رہی کہ اتنی رات کو کس کا فون ہوگا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کال بند ہو گئی۔ اس نے پھر موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ کچھ منٹ بعد پھر گھنٹی بجنے لگی۔ اُس نے دیکھا تو اسی نمبر سے کال آرہی تھی۔ اس بار اس نے کچھ سوچے بغیر کال ریسیو کر لی۔
“ہیلو!”
پاکیزہ تشویش ناک انداز میں بولی تھی۔
“السلام علیکم” آگے سے بہت ہی نرم لہجے میں اور دھیمی آواز میں کوئی بولا تھا۔
جب پاکیزہ نے آواز سُنی تو اس کی سانسیں رُک سی گئیں اور دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی کہ اس کی دھک دھک اس کی سماعت تک آرام سے پہنچ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ جواب دے، حیران ہو یا ایسے ہی چپ کر کے سنتی رہے۔
“ہیلو” دوسری طرف سے پھر کوئی دھیمی آواز میں بولا تھا۔
“وعلیکم السلام” پاکیزہ نے دبی ہوئی آواز میں اور تیزی سے سانس لیتے ہوئے بولا تھا۔
“پہچانا مجھے؟” دوسری طرف سے پھر سے ایک دفع سوال آیا تھا۔
“جی۔۔ پہچا۔۔ ہاں جی پہچان لیا” پاکیزہ رُک رُک کر گھبراتے ہوئے بول رہی تھی۔
“مجھے تو لگا تھا بھول گئی ہوگی”
پاکیزہ کچھ دیر خاموش رہی اور ایک گہری درد بھری سانس لیتے ہوئے بولی “آپکو میں کیسے بھول سکتی ہوں مُراد”
پاکیزہ بہت ڈَری ہوئی سی بول رہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی آواز کہیں اندر ہی سوالوں کے سمندر میں قید ہو کر رہ گئی ہے اور کچھ بھی بولنا اسے بہت مشکل لگ رہا تھا۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے۔
“تم رو رہی ہو پاکیزہ؟” مُراد نے پریشان آواز میں پوچھا۔
“نہیں۔ میں نہیں رو رہی۔ روؤں گی بھی کیوں۔ مجھے کونسا کوئی غم یا دُکھ ہے جو روؤں گی میں” پاکیزہ نے اپنی لرزتی ہوئی آواز پہ قابو پا کر بولا۔
“تم مجھ سے اب بھی پیار کرتی ہو نا پاکیزہ؟”
“یہ کیسا عجیب سا سوال ہے؟ اب کیا دیکھنے کے لئیے کال کی ہے آپ نے؟”
“مجھے تمہاری بہت یاد آ رہی تھی۔ اسی لئیے کال کر لی”
“یاد؟ اس بات پہ میں ہنسوں؟ یا روؤں؟ کیا کروں؟”
“ایسے کیوں کہہ رہی ہو پاکیزہ؟”
“آپکو نہیں پتا؟ آپ ایسے کیوں بات کر رہے ہیں جیسے انجان ہوں اس سب سے۔ آپ نے تو پورے سال میں ایک بار میسج تک نہیں کیا تو کس یاد کی بات کر رہے ہیں مُراد آپ؟”
“تو تم نے بھی تو مجھے کوئی میسج نہیں کیا اور دیکھو اب بھی میں نے ہی کال کی پاکیزہ تو اس سب میں کیا غلطی ہے میری؟”
“آپ اب بھی اپنی غلطی پوچھ رہے ہیں مُراد؟ آپ کو کچھ یاد نہیں کیا؟”
“میں اپنی ہر غلطی کی معافی مانگ چکا ہوں پاکیزہ”
“پاکیزہ! کچھ بولتی کیوں نہیں ہو اب؟”
“کال کَٹ کریں۔ مجھے صبح یونیورسٹی جانا ہے اور کافی رات ہو گئی ہے اب”
“ٹھیک ہے لیکن مجھے میری باتوں کے جواب چاہئیے”
یہ سُن کر پاکیزہ نے کال کاٹ دی. وہ سیدھا لیٹ کر چھت کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ اس کے کان کی طرف ڈِھلَک گیا اور یوں قطار در قطار آنسوؤں نے اپنا راستہ آنکھوں سے باہر کی طرف بنانا شروع کر دیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...