اسکی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکیسےقایل کرےاسےتبھی وہ بولا-
سنوپوجا میاںبیوی ایک دوسرے کےلیےہوتےہیں انکےدرمیان میں کیسی تیسراکونہیں آناچاہیے
مگربابوجی—
اچھی بیویاںاپنےشوہروںکی تابعدارہوتی ہیں ہم دونوں عاقل وبالغ ہیںمذہب،قانوں اورشریعت نےہمیں ایک ساتھ زندگی کرنے کی اجازت دی ہیں تمام وسوسےدل سے نکال پھینکو وہ مسکراتاہوکہہ رہاتھا–
لیکن وقت۔۔۔۔اسنے رسٹ واچ پر نگاہ ڈال کر کہا
ہاں وقت توواقعی قیمتی ہے اسکالہجہ ذومعنی تھآ اورکم بھی اسنےاپنامکمکل استحاق استمعال کرتےہوےاسکی پیشانی پراپنے لب رکھے اور اسےدل کےبےحدقریب کرلیااسکے جسم کی خشبو قربت کی تپش اسکے حواس سلب کررہی تھی وہ پتھرنہ تھی ماحول وحالات جس پراثراندازنہ ہوتے–
ایک نازک سی لڑکی تھی موم سی نرم-
جزبےاوراحساس رکھنےوالی-
اوراعیان کےجزبوںکی تپش نےآخراسےپگھلادیاتھا-
جایزوارث تھاوہ اسکا-
اس کےاحساسات و جزبات کا-
من کا تن کا-
پھر؟
تعرض کی وجہ بھی توکوی ٹھوس نہ تھی بلکہ تعرض کی گنجایش نکلتی ہی کہاںتھی
اس نے اپناپیاسا تن من اس مہربان بادل کے حوالےکردیاتھا
*******۔۔۔۔۔*******۔۔۔۔۔۔****
شام کے پانچ بج رہے تھے جب وہ گھر میںداخل ہوی نظریں جھکی ہوی تھیں
پوجا اتنی دیرکہاںتھی تو؟بابوجی نے کڑے تیوروں سے اسے دیکھاتھا
وہ۔۔۔۔۔کالج میں ایگزیم ہونے والے ہیں نوٹس بنارہی تھی بمشکل کہہ کراپنےکمرےچلی آی تھی اسے نہیں معلوم کہ بابوجی اسکی بات سے مطمن ہوے کہ نہیں مگراتنی خبرتھی کہ اگرمزیدکچھ دیرکھڑی رہتی توگرجاتی اس لیے وہاں سے ہٹ گی اور کمرے میںآکرجیسے مظبوط پناہ ملی تھی بابوجی کو شایداسکی بات پریقین آگیاتھا جب ہی اسکے پیچھے مزیدکچھ پوچھنے نہیں آے تھےاسنے سکھ کا گہراسانس لیامگرجانے کیوں احساس جرم ہونے لگاتھا
اسنےکوی گناہ نہیںکیاتھا-
مگرجانےکیوںآنکھیںبھیگ رہی تھی-
بابوجی میں نے آپ کےاعتبارکوٹھیس پہنچای مجھے معاف کردیجےگا-لیکن اس میں میراقصورزیادہ نہیں اگر آپ ڈکٹیٹرکی بجاےباپ بن کراپنی شفقت نچھاورکرتھے توشایدآج اتنا بڑاقدم نہ اٹھاتی بے جا پابندیاں ذی روح کوباغی پن پر اکساتی ہیں میں ایساکرنا نہیں چاہتی تھی مجھے معاف کر دیجےگا وہ ساری رات تیکہ بھگوتی رہی تھی-
اس وقت وہ اعیان کے سامنے بیٹھی اشک بہا رہی تھی
لوٹ آوںگامیرایقین رکھو-اعیان اسکی جانب دیکھتے بہت دھیمے لہجے میں بولا لیکن اسکے اشکوں کی روانی میں کوی کمی نہ ہوی تھی
اعتبار نہیں ہے کیا میرا؟مگروہ جواب میں کچھ نہ بولی چپ رہی
اسکے جھکے سر کو دیکھا پھر بولا
ہم رشتے کی ایک مظبوط ڈورہے پگلی کیا یہ بات ٹھوس دلیل نہیں-
مگر اسکے اشک پھر بھی نہ تھمے
اگر تم یونہی روتی رہی توبابوجی سےتمہیں ساتھ لے جانے کی اجازت لینا پڑے گی وہ مسکراتے ہوے بولاتو وہ یکدم سراٹھاکر خوفزدہ انداز میں اسے دیکھنے لگی
خداکےواسطے ایسا کچھ مت کیجےگابابوجی ہمیںجان سے ماردیںگے
اچھا ہے نہ مرکرہم امرپریموں میں نام آجاےگا وہ ہنساتھا تبھی فورا”اسنے اسکے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا
اللہ نہ کرے بلکل غیرارادی حرکت تھی یہ اعیان پہلے چونکاپھر مسکرایا وہ خجل سی ہوگی
ہاتھ واپس کھینچنا چاہتی تھی لیکن اسنے فورا”گرفت میں لے لیےتھے اور سجیلہ کی ڈھڑکنیں یکدم منتشرہونے لگی تھیں اعیان کی نظریں اسکے چہرے پرتھی ہوٹل کے اس کبین میں وہ دونوں تنہاتھے جانے سےقبل انکی آخری ملاقات تھی پھر فاصلے ہی فصلے تھے میلوں کے دنون کے یا پھر سالوں کے اعیان نے اسکے ہاتھوں کی پشت کو دھیرے سے اپنے لبوں سے چھوا اسکے روم روم میں جیسے خوشبو پھلینے لگی
اعیان مجھے ڈرلگتاہے وہ خوفزدہ سے لہجے میں بولی
کس سے؟وہ چونک کر دیکھنے لگا
دنیا سے سماج سے وقت سے حالات سے دوری سےاور اپنی تقدیر سے میں نے بہت بڑاقدم اٹھالیا ہے اعیان پلیزمجھے کبھی پچھتاوےکااحساس مت دلانا میں کہیں کی نہیں رہوںگی واپسی کی کوی راہ نہیں میرے پاس مجھے دنیاکی نظروں میں سرخرو کرنا اسکی آنکھیں پھر اشک بہانے لگیں
اعیان نے بے قرارہوکر اسکے تمام اشک اپنی پوروں سے چن لیے
تمہیں اعتبار دلانے کو ہی اتنا بڑاقدم اٹھایاتھا اور یہ کوی جزباتی لمحوں کا جزباتی فصیلہ نہیں عمربھرکے لیے کیا ہے شادی سے مظبوط بندھن کوی اور نہیں
کیا فایدہ ایسے تعلق کا جسکو ہم دنیا کے سامنے ظاہرنہیں کرسکتے وہ اسکی بات کاٹ کر تیزی سے بولی
یہ کوی جرم نہیں اور نہ ہم نے گناہ کیا شادی کی قانوں شریعت گواہ ہیں اور رہی بات تعلق کو ظاہر کرنے کی تو بہت جلد کریں گے خاندانی بندہ ہوں زبان پراعتبار کر سکتی تو کر لو والدین کو ساتھ لے کر آوںگااور اپنی دلہن کو لے کر جاوںگا وہ اک نگاہ دیکھ کر سر جھکا گی
لیکن یہ سب کچھ جلدی کیجے گا میں انتظار نہیں کر پاوںگی -وہ جانے کیسے سچ کہہ گی اک ماہ سے بھی کم رفاقت تھی انکی لیکن یوں لگتا جیسے صدیوں کا ساتھ ہو–
جدای دل پر بہت بھاری ہوگی لیکن جاناں یہ چند روز ہے فقط وعدہ کرو پھر آنسو نہیں بہاوگی وہ اسکے اشک پونجھ کر مظبوط لہجے میں بولا تو اسنے اثبات میں سر ہلادیا
چلو اب مسکراکر مجھے الوداع کہو–وہ مسکرایا
الوداع اللہ حافظ۔۔۔
اوں ہوں۔۔اچھی بیویاں شوہروں کو اس طرح رخصت نہیں کرتی کوی زاد سفر وہ بات ادھوری چھوڑ کراسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور گلے سے لگایا وہ شرم سے دوہری ہوگی —
پھر وہ چلا گیااور اسکی زندگی ہجر کی اک طویل سیاہ رات میں بدل گی۔۔۔
بواجی یاترا سے واپس آگی تھی اور اسے دیکھ کرجانے کیوں پوچھ بیٹھی
کیابات ہے پوجا تو کچھ دبلی اور کمزرو نہیں ہوگی؟ انکی نظریں یقینا”جہاندیدہ تھیں
نہیں بوا جی-بس ذرا امتحانوں کی ٹینش ہے وہ نظریں جھکا کر بولی تھی
خیال رکھاکرو اپنا وہ کہہ کر اپنے کام میں مصروف ہوگیں اور اسنے سکھ کا سانس لیا
وہ اسکا مکمل ایڈریس لے کر گیا تھااسنے منع کیا تھا کوی خط وغیرہ نہ کرے کیونکہ بابوجی بوا جی کے ہاتھ نہ لگ جاے اسے گے بہت دن ہوچکے تھے وہ اسےاپنے دوست کا ایڈریس دے کر گیا تھا جس پر اسنے خطوط ارسال کیے تھےمگر جواب دینےسے خود بازکرچکی تھی ماہا بھی اسے دیکھ کر الجھ جاتی کیا ہوتم کو؟
ماہابھی اسے دیکھ کرالجھ جاتی
تمہیں ہوکیاگیاہےلڑکی؟
ہوں-ہاں-وہ چونک کرپوچھتی کہیں کچھ نہیں ہوا-احمق لڑکی یہ دریافت کررہی تم ٹھیک تو ہو؟
ہوں–وہ سرہلاکرکہتی ماہا بیٹھی متواتر ادھر ادھرکی باتیں کرتی لیکن وہ مسلسل ہوں ہاں میں جواب دیتی اور تب ماہا اکتاکر چلی جاتی
علاج کرواواپنا اپنے بابوجی کے ڈکٹیڑٹایپ رویے سےتم پکا اپنا ذہنی توازن کھورہی ہو-
تمہیں کیا خبراسکاذمےدارکون ہے کیاکچھ لےگیاساتھ وہ چپ رہتی کوی جواب نہ دیتی البتہ وہ منتظررہتی کہ ماہا کے منہ سے اسکے متعلق کسی خبرخط خیرت سے ہے اس کے آگے وہ کچھ نہ بتاتی اور نہ اس کی ہمت ہوتی کچھ پوچھنے کی بس اسنے خودکو تقدیرکے حوالے کر دیاتھا
سجیلاکےفاینل ایرکےایگزام تھے لیکن اسکی طبیعت ان دنوں بےحدخراب رہنے لگی تھی انتہای سست اورکاہل کچھ کرنےکادل نہ چاہتا جی گھبراتادل کرتاسب کچھ چھوڑچھاڑکرپڑی رہے پتا نہیںوہ اک جیسی روٹین سے اکتاگی تھی یا اعیان کے نہ آنے کے باعث اسکی ایسی کیفیت تھی اچھے دن جانے کتنےدور تھے اسنے مستقبل کی فکرچھوڑکر اپنے حال کے دنوں کو ماضی کے دلکش رنگوںسے بھر لیاتھا لیکن اسکا یہ خواب اس دن ٹوٹ گیا جس روزاسکی طبیعت اچانک بگڑگی اور کچن میں کام کرتے اچانک گر کر بے ہوش ہوگی بواجی نےگھبراکر ڈاکڑکو بلایاتھا لیکن چیک اپ کے بعد جو بات ڈاکڑ نے بتای اسکو سن کر بواجی گنگ رہگی تھیں ڈاکڑ نے اک طویل نسخہ تھمادیا تھا اور چلے گے بواجی کے تو پیروں تلے سے زمیں نکل گی تھی–
ایک گھنٹے بعد پوجا ہوش میں آی تو وہ بت سی بنی اسکے سرہنے کھڑی تھیں-
ایک گھنٹہ جانے کیسے انہوں نے صبرکیا تھا-اسے دیکھتے ہی پھٹ پڑی–
کس کا پاپ ہے یہ؟کس کے ساتھ منہ کالا کیا تو نے؟
وہ حیرت سے انہیں تکتے لگی
میں پوچھتی کس کے ساتھ منہ کالا کیا تو نے کس کا پاپ پل رہا تمہارے اندر انہوں نے دوبارہ پوچھا تو وہ احساس ندامت سےسر جھکا گی
کوی پاپ نہیں کیا میں نے اور نہ ہی یہ پاپ کی نشانی ہے-
ایک کنواری کنیا اس حال کوپہنچ جاے یہ پاپ نہیں تو اور کیا ہے پوجا تو مر کیوں نہ گی تجھے بابو جی کی عزت کا زار خیال نہ آیاجو یوں منہ کالا کرتے تجھےمعلوم نہیں وہ تیرا کیا حشر کریں گے وہ رو رہی تھیں
بواجی پلیز-آپ میری بات خاموشی اور صبر سےسن لیں وہ خود پر الزامات کی بوچھار ہوتے دیکھ کر فورا”ہمت کر کےبولی–
ارے اب کہنے کو کچھ نہیں بچا میری مان فورا” چھٹکارا پانے کی سوچ اس پاپ سے–
بواجی!پلیز آپ میرےجایز بچےکو باربار ناجایز مت کہیے بواجی حیران ہو کر اسکا منہ تکنے لگیں پوجا آہستہ سے بولی میری شادی ہو چکی ہے–
کون ہے وہ؟بواحیران ہوکرپوچھنے لگیں
اعیان عمر شیخ نام ہے انکا وہ پاکستان سےآے تھے ماہا کےکزن ہیں!
ہاہاے ایک مسلمان غیرذات پات غیرمذہب غیرقوم پھر پردیس کا تجھے کوی اپنے مذہب اپنی جاتی کا نہ ملا کمبخت تیرے بابوجی کٹرہندوہیں انہیں پتاچلا تو تجھے زندہ گاڑدیں گےہاے پوجا تجھے بگھوان کبھی معاف نہیں کرےگا اس سے اچھا تھا تو پیداہوتے مرجاتی
محبت رسموں رواجوں ذات پات عقاید کو نہیں مانتی محبت کوی سوادا نہیں جوسوچ سمجھ کر کی جاے یہ ایک بے اختیاری جزبہ ہے کبھی بھی کسی بھی دل میں پھوٹ سکتا ہے اور دوسری بات آپ مجھے پوجا مت کہیں میں اسلام کے دایرہ کار داخل ہو چکی ہوں اور میرے شو ہر نے میرا نام سجیلا رکھا سجیلا اعیان شیخ وہ اس اعتماد سے اپنےدفاع میں بولی کہ بواجی کنگ سی اسےتکتی رہ گیں—
مجھے کوی پروا نہیں میں نے دل کی مانی نہ میں نے کچھ غلط کیا مجھے خدا کی تلاش تھی میں نے خداکو پالیا اب عبادت میں واقعی مجھے سکوں ملتاہے
مجھے اس خدانے ایک اچھے ساتھی سے نوازہے–
مگر پوجاسوچ کیاہوگا اب تیرے بابوجی -اسنے تیزی سےانکی بات کاٹی
بواجی آپ نےکہاتھا کہ آپ کے دل میں خداکو پانے کی لگن تھی جستجوتھی مگر آپ طورکی راکھ ہوگیں کیا آپکو خوشی نہیں میں نے خداکو پالیا اور اپنے اندر کی تسکین میں کامیاب رہی اپنا مقصد پالیا وہ اک جزب سے انکے قدموں پر جھک گی بواجی نے آنسو پونجھ کر اسے اٹھایااوراپنے سامنے بٹھادیا–
پوجا بگھوان جانے کیا ہونےوالا میرادل رہا تیرے بابوجی کبھی تجھے ایک مسلمان کے حوالے نہیں کریں گے زندہ گاڑ دیں گے میں انکےظلم کی جیتی جاگتی مثال ہوں آج تک ایک چھوٹے گناہ کی پاداش میں آج تک اس دہلیز پر بیٹھی ہوں عمر گزرگی اب بھی مجھ پرایسےنظررکھتے جیسے میں سولہ سال کی بچی ہوں تو نے تو انکی نظر میںعظیم گناہ کیا ہے تیری معافی کی امید نہیں
بواجی کیا آپ؟وہ حیران ہوں پہاڑکا رکھ ہونا اسے سمجھ آگیا طورکا خاک ہونا جان گی وہ اک مسلمان کی محبت میں گم ہوگی تھیں انکی گودمیں سررکھ کر رونے لگی–
بات اگر اسکی اپنی ذات کی تھی تو وہ تمام صبر تکلیفیں برداشت کر لیتی مگر اب وہ تنہا نہ تھی اسے اپنی زندگی سےزیادہ اس کے وجودکا اک حصہ تھا اور اس میں پوشیدہ تھا-
وہ بہت پریشان تھی کیا کرے تبھی ماہا چلی آی خاصی سنجیدہ لگ رہی تھی اسکے چہرے سےوہ کچھ اخذ نہ کر سکی حالانکہ اس سےجب بھی ملنے آتی بہت خوش ہوتی تھی
خیرت؟ اسنے اپنے اندر کے تمام کرب چھپا کر اسکو پوچھا ماہا نے نظر اٹھاکردیکھاپھرنفی میں سرہلانے لگی اسکے چہرے پرکوی تاثر نہ تھا مگر آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں وہ اسکی جانب بغور تکنے لگی
کوی توبات ضرورہے بتا نہ چاہوں مجھے تو الگ بات ہیں ماہا نے سراٹھا کر اسے دیکھااور سرجھکا کر بے ربط لہجے میں بولی
میراکزن آیا تھا آپی کی شادی میں پاکستان سے شادی میں شرکت کرنے کا تو بہانہ تھا وہ مجھے دیکھنے آیا تھا خاص طور پر وہ رک گی
پھر؟اسکی دھڑکنیں جیسے تھمنے لگیں
میں اسےپسندآی کہ نہیں یہ بات نہیں جانتی مگر بات پکی ہوگی ہماری اورشادی کی تیاریاں شروع دونوں طرف سے وہاں سے فون آیا کہ وہ۔۔۔کیا وہ اسکا تجسس کمال پر تھا ماہا نے اسے دیکھا اور بولی وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا اسنے یہ بات خود کہی
اسکے اندر جیسے اطمینان کی لہردوڑگی اسنےگہراسانس خارج کیا کتناخودغرض ہوجاتابعض اوقات انسان کیاتم پسندکرتی؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...