“اٹھو گھر اگیا ہے۔۔”شایان خانزادہ کی گاڑی اس چھے منزلہ پر شکوہ عمارت کہ آگے ایک جھٹکے سے رکی تھی۔شایان نے نظروں کا رخ پھیر کر اپنے برابر والی سیٹ پر سوۓ ہوۓ وجود کو دیکھ ایک گہری سانس بھر کر نیند سے بیدار کرنے کی خاطر کندھا ہلا کر کہا۔پر وہ سو کہاں رہی تھی وہ تو گویا بیہوش ہوئی پڑی تھی۔۔
گاڑی میں اس قدر غیر آرام دہ جگہ پر اس کی اتنی پکی نیند پر شایان عش عش کر اٹھا تھا۔۔
“سمبل تم اٹھ رہی ہو یا میں جاؤں اپر۔۔”شایان نے ضبط سے ایک بار پھر اس کا کندھا ہلایا۔جو سارے راستہ سوتی ہوئی آئی تھی۔۔
“سمبل آپ اٹھ رہی ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔”شایان نے ونڈو سے سر ٹکا کر سوتی ہوئی سمبل کو دیکھ جھنجھلا کر پوچھا۔۔
آپ نہیں اٹھ رہیں؟؟؟اس کہ بیہوش وجود سے سوال کیا گیا تھا۔۔
“اوکے فائن!!اب مجھ سےکوئی شکایت نہیں کیجئے گا۔۔”شایان بڑبڑا کر گاڑی سے باہر قدم رکھتا گھوم کر اس کی جانب آیا تھا۔اور ایک جھٹکہ سے گاڑی کا دروازہ کھول دیا تھا۔۔
“آہ ہ ۔۔”سمبل جو شاید قبر کہ مردوں سے شرط لگا کر سو رہی تھی سوتے میں جس دروازے کو اپنا تكيا سمجھا ہوا تھا۔اسے کسی کو چھینتا محسوس کر ہڑبڑا کر باہر کو کھڑے شایان پر گری تھی۔۔
شایان نے متاثر ہوتی نظروں سے اس کہ ہوآئیاں اڑے چہرے کو دیکھا تھا۔مطلب نیند میں کوئی اتنا بھی بیہوش ہو سکتا ہے۔۔
سمبل نے پھیلی ہوئی آنکھوں سے پہلے ارد گرد کا منظر دیکھا۔جو اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔اور پھر نظر اپر اٹھائی تو نظریں سیدھی اس کی گھورتی ہوئی نظروں سے جا ملی تھیں۔اپنی پوزیشن کا خیال آیا تو ایکدم پیچھے کو ہوئی۔ورنہ وہ آدھی گاڑی میں اور آدھی اس کہ اپر تھی۔۔
“مس سمبل آپ کی صبح ہوگئی ہے۔صبح بخیر۔۔”شایان نے اندھیرے میں ڈوبی عما رتوں کی ایک دکا جلتی لائٹس پر نظر ڈورا کر طنزیہ کہا۔سمبل نے جی بھر کر خود کو کوسا تھا کیا ضرورت تھی اتنا مدہوش ہو کر سونے کی وہ بھی اس کی گاڑی میں۔۔۔
“میرے خیال سے آپ رات کا ناشتہ گھر میں کرنا پسند کریں گی۔تو اگر آپ کی نیند پوری ہوگئی۔اور آپ کی اس شہانہ طبیعت کو گرا نا گزرے تو کیا ہم اپر چلیں۔۔”شایان تو آج سہی سے اسے شرمندہ کرنے کہ موڈ میں تھا۔۔۔
“جی چلیں۔۔”بڑی ہلکی سی آواز برآمد ہوئی تھی۔۔
یس پلیز!!شایان نے اسے آگے چلنے کا اشارہ کیااور خود بھی اس کہ ساتھ قدم اٹھاتا اب دوسری منزل پر بننے اپنے فلیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔
انہیں کراچی پہنچتے پہنچتے صبح سے رات ہوگئی تھی۔شایان سارے راستے ڈرائیو کرتا ہوا آیا تھا۔کراچی سے کچھ ڈور ایک ہوٹل پر کچھ دیر ٹہر کر وہ دونوں رات کا کھانا کھا چکے تھے۔اب تو بس آرام شدید تھکن کے باعث آرام کی طلب تھی۔۔شایان کی کمر تو گویا تختہ ہوگئی تھی۔۔
“اففف۔۔”شایان خانزادہ تھکا تھکا سا ایک دم سوفے پر گرا تھا۔ماتھے پر بال بکھرے ہوۓ تھے۔جبکہ چہرہ پر تھکن واضح تھی۔۔
“سنو!!وہ دیکھو سامنے کچن ہے۔وہاں کافی کا سارا سامان پڑا ہے جلدی سے دو کپ بنالو۔۔”شایان نے ایکدم آنکھیں کھول کر ذرا گردن کو خم دے کر اپنی چادر اتار کر طے کرتی سمبل کو دیکھ حکم جاری کیا۔۔اور واپس سے سیدھے ہو کر آنکھیں موند لیں۔۔۔
اس کہ حکم پر سمبل نے آنکھیں گھومائی دل میں تو آیا بول دے کہ خود بنا لو۔پر جب اس کی تھکن کا احساس ہوا تھا۔نا چاہتے ہوۓ بھی قدم کچن کی جانب بڑھاۓ۔۔۔
جبکہ وہ مسلسل اپنی دکھتی ہوئی برو اور سر کو دبا رہا تھا۔ایک ترچھی سی آنکھ کھول کر دیکھا۔تو سمبل کچن کی جانب بڑھ رہی تھی۔تھکن کہ باعث تنے ہوۓ اعصاب کو پر سکون کرنے کی غرض سے لمبی سرد سانس خارج کرتا فریش ہونے کی غرض سے اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔۔
یہ دو کمروں کا ایک چھوٹا سا لگژری آپارٹمنٹ تھا۔جو شایان اکثر ہی اپنے دوست کہ ساتھ شئیر کرتا تھا مگر اب سمبل کی وجہ سے اس کہ دوست کو اپنا ٹھکانہ بدلنا پڑا تھا۔چھوٹا سا ٹی وی لاونج تھا جس میں سامنے دیوار پر بتیس انچز ایل_ائی_ڈی نسب تھی۔سوفوں کہ ساتھ پڑا چھوٹا سا ٹبیل اور ارد گرد میں رکھے فلاور واز سب ہی قیمتی اور خوبصورت تھا۔سمبل کافی پھینٹتی کچن سے وہاں کا جائزہ لے چکی تھی۔۔
_____________________
“یار ماہی میں بہت تھکا ہوا ہوں ابھی پہلے ہی اتنا لمبا سفر کر کہ آیا ہوں۔اور اب تم شروع ہوگئی ہو۔۔”اپنے نم بال میں تولیہ چلا کر بیزاری سے کہا۔۔
“کچھ نہیں کر رہی وہ ۔میرے لئے کافی بنا رہی ہے۔۔۔”تولیہ ایک طرف بیڈ پر پھینک کر وہیں نیم دراز ہوگیا۔آدھا جسم بیڈ پر تھا اور پاؤں بیڈ سے نیچے لٹک رہے تھے۔۔
“اب بس نا۔صبح ملتے ہیں یونیورسٹی میں۔۔”شایان نے آنکھیں بند کر کہ ایک دو مزید باتیں کر کہ ابھی موبائل کان سے ہٹآیا ہی تھا۔کہ کوئی کھٹکے کی آواز پر کمرے میں داخل ہوا۔شایان نے تھوڑا اونچا ہو کر نظر اٹھا کر دیکھا۔جہاں سمبل ایک چھوٹی سی ٹرے میں دو کافی کہ مگ رکھے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔۔
کس کی اجازت سے کمرے میں آئی ہو۔۔”شایان نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔۔
“جی۔۔”سمبل نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔
“تمہارے اندر اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں یہ کونسا طریقہ ہے بغیر اجازت کسی کہ بھی کمرے میں داخل ہونے کا۔۔”شایان نے بیڈ پر بیٹھ کر ناگواری سے سر جھٹکا۔جس پر سمبل کی تیوری چڑ گئی۔۔
“کسی کا نہیں!! یہ میرا اپنا ہی گھر ہے۔۔”
سمبل جتاتے لہجے میں کہ کر کپ لئے اسکی جانب جھکی۔۔
“کافی ٹھنڈی ہو رہی ہے۔۔”شایان کو خود کو ہونز گھورتا پاکر توجہ دلوائی۔۔
ہمم۔۔شایان نے اس کہ تیور دیکھ سر جھٹک کر ایک ہنکار بھرتے مگ اٹھایا۔
سمبل اپنا مگ اٹھا کر وہیں قریب رکھے سوفے پر بیٹھ گئی۔جبکہ شایان ہاتھ میں کافی کا مگ پکڑے کچھ سوچتا ہوا زمین تک رہا تھا۔دوسری جانب سمبل کی پوری توجہ اس کہ الجھے الجھے تاثرات پر تھی۔۔۔
کچھ دیر کمرے میں یونہی خاموشی حائل رہی جیسے سمبل کہ عمل نے توڑا۔جو اپنا خالی مگ لیکر کھڑی ہوتی پیر میں چپل اڑس رہی تھی۔۔
شایان نے بھی اپنا خالی کپ ایک طرف کو رکھا تھا۔۔سمبل اپنا اور اس کا خالی مگ لیتی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
تھکن سے سن پڑتے اعصاب کو پر سکون کر نے کہ لئے ایک بھرپور انگڑآئی لی. کمرے کی لائٹ اف کی ساتھ ہی لیمپ ان کرنے سے کمرے میں مدھم سی روشنی پھیل گئی۔کمرے میں بڑھتی گرمی کہ پیش نظر ایئر کنڈیشن کی کولنگ بڑھایا۔اور ساتھ ہی بیڈ پر مکمل پیر پسار کر کمبل اوڑ کر آنکھیں میچ کر لیٹ گیا۔۔
______________
سمبل کمرے سے باہر آئی تو ہر سو خاموشی کا راج تھا۔احتیاط سے رات کا خیال کرتے بغیر آواز کے کافی کہ دونوں مگ دھو کر ریک میں رکھے۔اور کچن کی بتی بجھاتی اپنا سوٹ کیس اٹھا کرکمرے کی جانب بڑھی۔
شایان جو ابھی اپنے دکھتے سر کو ہی دباتا سونے کی کوشش کر رہا تھا کہ کمرے میں کسی کی موجودگی اور پھر لائٹ ان ہونے پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔
تم ابھی تک یونہی جاگ رہی ہو۔جا کر سو کیوں نہیں جاتیں۔۔شایان نے دیوار پر لگی گھڑی کو دو کا ہندسا پار کرتے دیکھ حیرانی سے پوچھا۔۔
“سونے ہی آئی ہوں۔۔”سپاٹ انداز میں جواب مختصر تھا۔۔
“یہاں؟؟جا کر برابر والے کمرے میں سو جاؤ اور اب مجھے ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔”شایان نے نیند سے بند ہوتی آنکھوں سے ہدایت کی۔جبکہ سمبل نے ڈرامائی انداز میں آنکھیں گھومآئی تھیں۔۔
“میں بیوقوف نہیں ہوں جو اس گند کہ دھیر بنے کمرے میں بستر لگا لوں۔اگر اتنا ہی شوق ہو رہا ہے۔تو آپ وہاں جا کر لیٹ جائیں۔۔” سمبل کہ لہجے میں عجیب سی چبھن تھیں۔جو اس نے باخوبی محسوس کی تھی۔شایان خاموش ہوتا اس کی کروائی دیکھ رہا تھا۔جو اپنے بیگ سے ایک آرام دہ جوڑا نکال کر تبدیل کرتی اپنے بالوں کا جوڑا بناتی واشروم سے باہر آئی تھی۔۔
ایک جتاتی نظر شایان پر ڈال کر اس کی گھورتی ہوئی نظروں کو نظر انداز کرتی کمرے کی لائٹ بجھآتی کمبل منہ تک تانتی سونے کی کوشش کرنے لگی۔جبکہ کمرے میں ہوتی ٹھنڈ سے جسم پر کپکاپی سی طاری ہوگئی تھی۔۔جبکہ شایان اسے اندھیرے میں غائب ہوتا دیکھ صرف اس کی پشت گھور رہا تھا۔جیسے بس نا چل را ہو اپنے بیڈ پر سے دھکا ہی دے ڈالے۔۔
“جاہل انپڑ لڑکی۔۔”شایان تھکن کہ باعث خاموشی اختیار کرتا بڑبڑا کر اپنی جگہ پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔سمبل نے ذرا سا کمبل منہ پر سے ہٹا کر اپنی طرف اس کی پشت دیکھی پھر چل کرتے کمرے میں کمبل میں مزید دبک کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔جبکہ دماغ مختلف سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔۔
_________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...