بنگلہ افسانہ: سیدمصطفیٰ سراج
ترجمہ نگار: عظیم انصاری
رات دس بجے لوڈ شیڈنگ کا ہونا میرے محلے کے لیے معمول بن گیا ہے۔اسی لیے رات کو کھانے کے بعد چٹا ئی اور تکیہ لیکر میں چھت پر سو نے کے لیے چلا جاتا ہوں۔ آرام کی نیند آتی ہے۔
آج رات کو چھت پر سونے کی جب میں تیاری کر رہا تھا تو مجھے ایک جھٹکا سا لگا ۔ چھت کے کو نے پر ایک کا لا سا یہ دکھا ئی دے رہا تھا ۔پورا محلہ گھپ اندھیرے میں تھا ۔ اس طرح کی سنسان اور اندھیری رات میں کسی کالے سائے کا وہا ں ٹھہر ے رہنا کم تعجب کی بات نہیں !حالانکہ مالک مکان میں ہوں اور آئین کے مطابق چھت بھی میری تھی۔
اس لیے چور کا ہی امکان ہو سکتا تھا لیکن آج کل چور تو پہلے کی طرح نہیں ہیں۔ اُن کے پاس توچھری، بم اور پستول ہوتا ہے۔شور وغل کرنے سے ہی خطرہ۔ اس لیے ڈرتے ڈرتے میں نے کہا ’’کون‘‘ ؟
’’میں‘‘، چور نے دبی آواز میں کہا اور پھراسے چھینکیں آنے لگیں۔اس نے دوبارا اپنی ناک صاف کی۔
اس سے مجھ کو تھوڑی ہمت ہوئی۔ میں نے کہا ’’کون‘‘؟
’’وہی تو سمجھ میں نہیں آرہا ہے سر‘‘۔
’’اس کا مطلب ؟‘‘
’’مجھے اپنا نام وام کچھ بھی یاد نہیں آرہا ہے۔‘‘
اور کچھ ہمت جٹا کر میںنے دھمکا یا ، ’’چالاکی دکھا رہے ہو۔دوسرے کی چھت پہ آ کر۔‘‘
’’ارے میرا یقین کیجئے۔‘‘
’’چپ رہو‘‘ چو ر کی حالت دیکھ کر میری ہمت مزید بڑھی۔میںنے کہا ’’ضرور تم پائپ کی سہا رے چھت پر چڑھے ہو تاکہ چوری کر سکو۔ ٹھہرو میں شور وغل کر کے لوگوں کو بلاتا ہوں۔‘‘
’’سر!سر! ‘‘وہ پھٹی ہوئی آواز میں تقریباً رو پڑا ۔ ’’یقین کیجئے میں چوری کرنے کے لیے نہیں آیا ۔ میںچور بھی نہں ہوں اور نہ ہی چور کا موسیرا بھائی ۔ میں ایک پریشانی میں پھنس گیاہوں۔ ‘‘
رونے کی آواز سن کر میں نے کہا ، ’’ سچ بول رہے ہو۔ تم چور نہیں ہو ؟ ‘‘
’’نہیں سر !‘‘
’’تب تم چھت پر کیوں چڑھے ؟ کیا سوچ کر اُٹھے؟‘‘
’’وہی تو نہیں سمجھ پا رہا ہوں ۔‘‘
’’واہ رے بھولے ۔نام یاد نہں آرہا ہے۔ دوسرے کی چھت پر چلے آئے یہ بھی یاد نہیں ۔ ‘‘اس کو میں نے انگلی دکھاتے ہوئے دھمکا یا ۔’’ ایک منٹ کا وقت دے رہا ہوں ۔ اصلی بات اگر تم نے نہیں
بتائی تو اتنے زور سے چلاو ٔں گا کہ پورا محلہ لا ٹھی ڈنڈا لے کر حاضر ہو جا ئے گا پھر سمجھنا کہ کس طرح کی پٹائی ہو گی تمہاری۔‘‘
وہ آدمی اب کی بار بری طرح سے گھبراگیا۔ بھوں بھوں کر کے روتے ہوئے بولا ،’’ ارے بابا ! تب تو مجھے پھر مرنا پڑے گا۔‘‘
[ایک جھٹکا سا لگا۔ میں نے پوچھا ، ’’پھر مرنا پڑے گا مطلب ؟کتنے بار مرے ہو؟ بولو نا۔‘‘
’’نہیں ۔ زیادہ نہیں صرف ایک بار مرا ہوں۔‘‘ اس نے پھر آچھی آچھی کر کے اپنی ناک جھاڑی ۔ ’’ارے بابا ! وہ ایک بار جو تکلیف پائی ہے۔ پھر سے مرنا ہوا تو……… ‘‘
’’ کیا معاملہ ہے، ذرا کھل کر کہو تو بابو ؟ ‘‘ اس کا رونا دھونا دیکھ کر اور ا س کی مشتبہ گفتگو سن کر میں نے ذرا جھڑکتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ نہیں سمجھے سر۔‘‘
’’ بالکل نہیں ۔‘‘
’’ آج شام کو شاید میں گاڑی کے نیچے آگیا ۔کچھ مبہم سا خیال آرہا ہے۔‘‘
’’ کیا بول رہے ہو ! اس کے بعد !‘‘
’’ اسکے بعد اور کیا ، مر گیامیں۔‘‘
ایسا لگا جیسے میں آسمان سے زمین پر آگرا ۔ ’’مر گئے ؟ اگر مر ہی گئے تو میرے ساتھ یہاں آکر باتیںکیسے کر رہے ہو؟‘‘
’’ یہی تو سمجھ میں نہیں آرہا ہے سر۔ یہاں تک کہ میں کون …. ‘‘
ــ’’ ویٹ ویٹ، تم یہ بولنا چاہتے ہو کہ تم بھو ،بھو،بھو…..‘‘
اس آدمی نے دبی ہوئی آواز میں کہا ’’ ایسا مت کہئے سر، مت کہئے ،ڈر لگتا ہے۔اُن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس کے علا وہ آپ جانتے ہیں ناکہ کانے کو کانا ، اور لنگڑے کو لنگڑا نہیں کہتے!‘‘
اب تک میرا جسم سنبھل چکاتھا ۔ میں نے آہستگی سے کہا ۔’’ تم ٹھیک بول رہے ہو ، لیکن ابھی تو تم انہیں میں سے ایک ہو ۔ پھر تم کو اُن سے ڈر لگتا ہے یہ تو بڑی عجیب سی بات لگتی ہے بابو۔‘‘
’’ میں تو ابھی ابھی اُن میں شامل ہواہوں اور آپ تو جانتے ہیں کہ نئے کے ساتھ کیاسلوک ہوتا ہے۔ ‘‘
میرا شک صحیح نکلا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو سوچ رہا تھا ،وہی ہوا۔ اب دماغ کو ٹھنڈا رکھنا تھا۔ چاروں طرف تا ریکی کا بسیرا ۔ ہوشیاری سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا’’دیکھو بھائی ،
ایک کام کرو تم کہیں اپنی مستقل پناہ گاہ تلاش کرلو۔‘‘
’’آپ کا چھت خراب نہیں ہے سر، بہت پرسکون جگہ ہے۔‘‘
’’تمھارا دماغ خراب ہوا ہے؟ اس کے بجائے تمہارے لیے چینی بابو کا کوٹھا ٹھیک رہے گا۔ وہ دیکھ رہے ہونا؟‘‘
’’ارے بابا ۔ ہسپتال کے مردہ گھر سے پہلے وہیں توگیا تھا۔ وہاں ایک بڑے بابو کی پناہ گاہ ہے۔ جس طرح توانا قد وقامت ، اسی طرح بلندوبالا آواز بھی ہے۔ پستول اُٹھا کر چلانے لگا ، پکڑو،پکڑو۔‘‘
’’سمجھ گیابھئی۔وہ چینی بابو کے باپ تھے جو کبھی پولس محکمہ میں داروغہ تھے۔‘‘
’’ایسا ہی لگ رہا تھا اُنھیں دیکھ کر۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی فطرت نہیں بدلتی ۔ پستول بھی…….‘‘
’’ تمھاری فطرت بھی نہیں گئی۔تم بتا ئو تو سہی تم کیا تھے؟‘‘
’’ارے بابا ، وہی تو خیال نہیں آرہا ہے۔ ‘‘
’’واہ ، ٹیکسی کے نیچے دب گئے یہ یاد ہے، چینی با بو کے کوٹھے پر جانا یاد ہے،اورجو اصل بات ہے وہی یاد نہیں ہے۔‘‘
’’کچھ کچھ باتیں یاد آرہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا آپ کو؟ جان بوجھ کر تھوڑے ہی مرا ہوں ۔ سب کچھ گڈ مڈ سا ہو گیا ہے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔ اب کیا کرنا چاہتے ہو؟ وہی بتا ؤ۔ مجھے نیند آرہی ہے۔‘‘
’’ توآپ سو جائیے نہ سر۔ سوجایئے۔‘‘
’’اور تم؟‘‘
’’ بیٹھے بیٹھے سو چوں گاکچھ غور کرو ں گاکہ میں کون ہوں ؟اس کے بعد کچھ کیا جائے گا۔‘‘
میں نے اعتراض کر تے ہوئے کہا ،’’نہیں ۔ یہ کام کی بات نہیں ہوئی۔تم بلکہ کسی اور جگہ جا کر یہ سب سو چو ۔ ‘‘
’’کیا مجھ سے ڈر لگ رہا ہے سر؟‘‘
’’ ہاں، ڈر تولگ رہا ہے۔‘‘
’’ نہیں نہیں ، مہربانی کرکے ڈریے مت۔ اس لیے کہ میں تو خود سے ہی ڈر رہا ہوں‘‘
’’ کیوں ؟کیوں؟‘‘
’’ نہیں سمجھ میں آیا آپ کو؟ میں تو ابھی تازہ مرا ہوں ۔ ابھی ان سب کا عادی نہیںہوا ۔ دیکھ نہیں رہے ہیں سر۔ ابھی بھی جسم ساتھ ہے۔اس کوجھٹک نہیں پا رہا ہوں۔اسی غم سے تو رو رہا تھا میں اس وقت۔‘‘
ـ’’ کو شش کر و،دیکھو ۔‘‘ جما ہی لیتے ہوئے میں نے کہا۔ اس کے بعد چٹائی بچھا کر بیٹھ گیا ۔ جو خود سے ڈر رہا ہو اس سے ڈرنے کی مجھے ضرورت نہیں۔
اس آدمی نے کہا’’آپ سو جائیے، میں دیکھ رہاہوں کیا کیا جائے۔‘‘
میں فوراً لیٹ گیا لیکن ذرا بدن کو گھماکر اُس پر نظریں جما ئے رکھیں۔اس نے کچھ دیر کے بعد جمنا سٹک شروع کردی۔ ادھر ادھر بھا گنااور پھر ،چرخے کی طرح گھومتے ہوئے ایک بار رُکا۔ تھک کر
لمبی لمبی سانس لینے لگا۔ میں نے پوچھا ’’کیا کر رہے ہو بھائی؟‘‘
’’ اوجھل ہونے کی کو شش کر رہا ہوں ، لیکن کامیاب نہیںہو رہا ہوں ۔‘‘
’’ہوگے،ہوگے، کوشش جاری رکھو۔‘‘
’’ٹھیک ہے ، کوشش کرتے رہیںگے، لیکن حلق جو سوکھ گیا ہے۔بڑی پیاس لگی ہے۔پلیز ایک گلاس پانی پلائیں گے سر!‘‘
’’ہاں ،ہاں۔ضرور پلائوں گا لیکن یہ وعدہ کرو کہ اوجھل ہونے کے بعد یہ چھت چھوڑ دوگے۔‘‘
’’وعدہ کر رہے ہیں سر۔کہیں چلے جا ئیں گے۔‘‘
ـ’’ صرف بولنے سے کام نہیں چلے گا،قسم کھائو۔‘‘
’’کس کے نام کی قسم کھائوں؟ ‘‘
’’بابا مہا دیو کا نام لو۔وہ تم لوگوں کے دیوتا ہیں۔نہیں جانتے تم؟‘‘
اس نے بابا مہا دیو کا نام ورد کرنا شروع کیا اور میں پانی لانے چلا گیا۔
ایک گلاس پانی لے کر میں چھت پر آیا اور آواز لگائی کہاں ہو؟ پانی لو‘‘۔مگر کوئی جواب نہیں ملا۔پھر کئی بار آواز دیکر میری سمجھ میں آیا کہ شاید اس کی کوشش بار آور ہوئی۔اس لیے خود ہی پانی پی کر سونے
کے لیے آرام سے لیٹ گیا ۔لیکن وہ آدمی کون تھا؟
یقینی طور پرکل صبح کے اخبار میں اس آدمی کا نام پا جائوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...