Original Story : A Night Out
By: Tololwa Marti Mollel (Tanzania)
کافی دیر تک میکا تذبذب کی حالت میں بیٹھا رہا ، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی فطری خود اعتمادی کھو چکا ہو، رگوں میں جوش مارتا الکوحل بھی اس معاملے میںاس کی کوئی مدد کرنے سے قاصر تھا۔ پھر اچانک اسے اپنی یہ بے اطمینانی بڑی احمقانہ محسوس ہوئی۔ اس نے کافی زور دار آواز میںکھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا اور اس سے مخاطب ہوا۔ ’’کیا نام ہے تمھارا؟‘
’’ ماما تمیانی( تُمیانی کی ماں)‘‘ اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہااور بچے کو زمین پر بچھی چٹائی پر سلانے میں مصروف ہو گئی۔اچانک بچہ زور زور سے کھانسنے لگا۔کھانسیوں کی وجہ سے اس کا پورا جسم بری طرح جھٹکے لے رہا تھا۔میکا نے جھک کر بچے کو چھوا۔اس کے ابرو نم تھے اور جسم بخار میں تپ رہا تھا۔
’’ اس کا علاج ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا،اسے خوشی ہوئی کہ چلو بات کرنے کے لیے کوئی موضوع تو ہاتھ آیا۔
’’ ڈسپنسری میں ایک اسپرین کی گولی تک نہیں ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
ماں کی تھپکیوں سے بچہ تمیانی دھیرے دھیرے چپ ہو گیا اور آخر کار سو گیا۔اس کی سانسیں کافی تیز چل رہی تھیں۔ماما تمانی نے اسے چادر اڑھادی اور پھر مچھر وں کو بھگانے والی ایک کوائل جلا دی۔ دھوئیں کا مرغولہ اٹھ کر چٹائی کے آس پاس پھیلنے لگا۔بچہ کسمسا یا ۔ دھویں کی وجہ سے اسے چھینک آگئی۔ ماں اس کے پاس بیٹھ گئی اور ہلکی ہلکی تھپکیوں سے اسے پھر سلا دیا۔
’’ خدا تمھیں صحت دے میرے لعل۔ ‘‘ وہ بدبدائی’’خدا تہیں صحت اور طاقت دے، اپنی ماں کے ننھے فوجی۔‘‘
’’فوجی کیوں…؟‘‘میکا نے پوچھا۔
’’کیوں کہ فوجی بھوکے نہیں مرتے اورنہ ہی بیمار پڑتے ہیں۔‘‘ اس نے اتنے معصومانہ انداز میں جواب دیا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی بچی ہو۔
’’ ہاں ، وہ بھوکے نہیں مرتے…۔ ‘‘میکا نے کہا’’…قتل ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہماری اس بے بسی کی زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے۔‘‘وہ تیز لہجے میں بولی ’’بھوک اور بیماریوں میں تڑپ کرروز تِل تِل مرنے سے بہتر ہے کہ ایک تیز رفتارگولی سینے کے پار ہوجائے۔‘‘
’’اوہ ! شاید تمھیں پتا نہیں… فوجی بھی بھوکے مرتے ہیں… جب کھانے کو کچھ نہیں ہوتا…۔‘‘ میکا نے کہنا چاہا،لیکن وہ گہرے خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھی، شاید اس نے اس کی بات سنی ہی نہ تھی۔پھر وہ خود کلامی کے انداز میں بولی، جیسے وہ اس کمرے میں اکیلی ہو ’ ’ تمیانی کا باپ ایک فوجی تھا…۔‘‘
’’تھا… ؟‘‘ میکا نے چونک کر پوچھا۔
’’…بے حد طاقتور تھا وہ…کوئی اس کے مقابلے کا نہیں تھا۔ اس کی موجودگی میں زندگی کتنی سہل تھی۔وہ میرے لیے، میری ماں کے لیے، ہم سب کے لیے، ایک باپ کی طرح مہربان تھا۔آج اس کے بغیر زندگی کتنی دشوار ہو گئی ہے۔ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزوںکو حاصل کرنے کے لیے جد وجہد کرنی پڑتی ہے…ہر چیز…ہر چیز کی قیمت ہمیں اپنے خون پسینے سے چکانی پڑتی ہے… اگر تمیانی کا باپ آج موجود ہوتا…۔‘‘ایسا لگا جیسے اگلے ہی پل وہ رو پڑے گی،لیکن پھر وہ سنبھل گئی۔
’’ کیوں؟…کیا اب وہ زندہ نہیں ہے؟ ‘‘میکا نے پوچھا…بس یونہی… اس کے لہجے میں تجسس نہیں تھا، اس کی آواز کافی تیزاور سپاٹ تھی جس پر اس عورت کے درد و الم کا کوئی خاص اثر نہ تھا۔
’’ میں اس موضوع پربات نہیںکرنا چاہتی…مجھ سے کچھ مت پوچھو…پلیز۔‘‘ اس نے التجا کی اور پھرروپڑی ’’وہ لڑنے کے لیے یوگانڈا گیا تھا…پتا نہیں…ہو سکتا ہے وہ زندہ ہو… ہوسکتا ہے وہ مر چکا ہو۔‘‘ اس نے روتے روتے کہا۔
میکا کچھ نہ بولا۔بچہ تمیانی اب بالکل خاموش تھا، اس کی ماں کا ہاتھ اس کے بدن پر تھا۔وہ بے خیالی میںاب بھی اسے تھپکیاں دیے جارہی تھی۔آخرکار ماما تمیانی اسے چھوڑکر سیدھی ہوئی اور اس نے کمرے میں جلتے ٹن کے ننھے سے چراغ کو بجھا دیا۔اندھیرے میں اس نے اپنے آپ کو خاموشی سے میکا کے سپرد کر دیا،اس خود سپردگی میں فرض سناشی بھی تھی اور پیشہ ورانہ مہارت بھی،لیکن بعد میں جب میکا اس سے الگ ہواتو مکمل آ سودگی حاصل ہونے کے باوجود اس کے ذہن میں فتح مندی اور خوشی کا کوئی تاثرنہیں تھا۔وہ بستر پر گومگو کی حالت میں چت لیٹا تھا۔چٹائی سے آنے والی، بچے کی اکھڑی اکھڑی سانسوں کی آواز اس کی بے اطمینانی میں اضافہ کر رہی تھی۔ پتا نہیںکب اسے نیند آگئی تھی۔اچانک اس کی آنکھ کھلی ، تھوڑی دیر کے لیے اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کہاںہے۔پھر اس نے ماما تمانی کے جسم کو اپنے پہلومیں محسوس کیااور تب اسے یاد آیا کہ وہ کہاں ہے۔اس نے بستر سے اٹھ کرایک سگریٹ سلگا لیا۔مچھر وں کوبھگانے والی کوائل پوری طرح جل کر ختم ہو چکی تھی اور اب مچھر ہر طرف غصے میں بھنبھناتے پھر رہے تھے۔وہ اندھیرے میں پریشان سا بیٹھا رہا۔ کوئی بات اس کے دل میں چبھ رہی تھی،لیکن وہ بات کیا تھی اس کا اسے خود پتا نہیں تھا۔اچانک اس کا ذہن کمرے میں چھائی گہری خاموشی کی طرف مبذول ہوا۔
اس کا گلا سوکھ رہا تھا اور سر میں دھمک سی محسوس ہو رہی تھی۔وہ اٹھا ، اپنی سگریٹ بجھا کر چٹائی کی طرف بڑھا۔بچہ بالکل خاموش تھا۔صبح کی اولین کرنوں میں اسے بچے کے جسم کا صرف ہیولاسا محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن وہ ماچس جلانے کی ہمت نہ کر سکا۔اس نے ہاتھ بڑھا کر بچے کو چھوااور اپنی نگاہیں،جورفتہ رفتہ اندھیرے سے مانوس ہو چکی تھیں، بچے کے ہیولے پر مرکوز کردیں۔بچے کا جسم ٹھنڈا اور بے جان تھا۔
ماما تمیانی کروٹ بدلتے ہوئے کچھ بڑبڑ ائی اور پھر گہری نیند میں ڈوب گئی۔میکا نے بستر پربیٹھنے سے قبل انتظار کیا کہ اس کی سانسیں پھر سے گہری ہو جائیں ۔ اس نے نہایت احتیاط سے دوسرا سگریٹ سلگایا۔ اس کا ذہن الجھا ہوا تھا۔پھر، اس نے آہستگی سے اپنے کپڑے اٹھائے جو فرش پر ایک ڈھیر کی شکل میں پڑے تھے۔کپڑے پہننے کے بعد وہ تھوڑی دیر خاموش کھڑا رہا۔نادانستہ طور پر اس کی آنکھیں بچے کے مردہ جسم پر ٹکی ہوئی تھیں۔نہیں ! اسے یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے… اس نے سوچا… ورنہ صبح کوخواہ مخواہ رونے پیٹنے اور کفن دفن کے چکروں میں پڑے گا۔یہ ایک بے مقصد بات ہوگی اور خواہ مخواہ کافی وقت برباد ہوگا…آخر یہ بچہ اس کا کون تھا؟ …اس کی ماں سے اس کا رشتہ ہی کیاتھا؟…مشینی انداز میں اس نے اپنا بٹوہ نکالا اور اس میں سے کئی نوٹ نکال کر ،گنے بغیر، بسترکے پاس پڑے اسٹول پر رکھ دیے اور چراغ کو ان کے اوپر پیپر ویٹ کے طور پر رکھ دیا۔
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا ،دروازہ زور سے چرمرا یا۔وہ رک گیا۔، اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، کان بستر کی طرف لگے تھے۔
ماما تمانی نے کروٹ بدلی ’’ کیا تم جا رہے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اتنے سویرے ؟‘‘
’’تمھیں پتا ہی ہے کہ ٹرانسپورٹ کا کتنا پرابلم ہے اور مجھے آج ہی روانہ ہونا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے آج جیسے بھی ہو نکلنا تھا۔ وہ رات تک دارالسلام پہنچ جانا چاہتا تھا۔پچھلے دو دنوں سے وہ اس چھوٹے سے گنجان قصبے میں پھنسا ہواتھا،کیوں کہ پٹرول کی قلت کی وجہ سے آمد ورفت کا نظام درہم برہم ہو چکا تھااور اس چھوٹے سے قصبے میںضرورت سے زیادہ مسافر جمع ہوگئے تھے۔پسینے میں شرابورلوگ پورے قصبے میں سواری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔بری طرح اکتا کر آخرکار اس نے پچھلی شام کو باہر نکل کر تھوڑی آوارگی اور موج مستی کا پروگرام بنایاتھا۔ اس مایوسی اور اضمحال کی حالت میں اسے شراب کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی تھی،لیکن بئیر ، جو اس کی پسندیدہ شراب تھی، قصبے میں ناپید ہوچکی تھی۔وہ سب سے پہلے جس بار میں داخل ہوا، وہاں اسے بتایا گیاکہ بئیر کا ٹرک قصبے کی طرف آتے ہوئے، پُل کے پاس حادثے کا شکار ہو کر دھات کے ایک بے کار ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔میکا اس بات پر یقین نہیںکرنا چاہ رہا تھا ،پھر بھی اسے لگا کہ شاید یہ بات سچ ہی ہو۔بیئر کی طلب اتنی شدید تھی کہ وہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کو تیارتھا،لیکن بس اسٹاپ کے آس پاس کے علاقے میں بیئر کی ایک بوندبھی نہ تھی۔
دو پتلی،دھول بھری گلیاں قصبے کے درمیان سے گزرتی تھیں جن کے گرد جھونپڑیوں کے بے ترتیب جھنڈ تھے۔اپنی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد اسے ’پومبے‘ نامی مقامی شراب سے کام چلانا پڑا، جس کی وہاں بہتات تھی۔مقامی شراب اسے پسند نہ تھی، اس کے باوجود وہ دھیرے دھیرے بے دلی کے ساتھ گھونٹ بھرتا رہا۔رفتہ رفتہ نشہ چڑھنے لگااور کچھ دیر کے بعد وہی شراب اسے اچھی لگنے لگی۔ وہ مستی میں آکر ساتھ والی ٹیبل پربیٹھے مقامی شرابیوں کے ایک ٹولے میں شامل ہو گیا،لیکن جیسے ہی شام ڈھلی، وہ پھراپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگا۔اس کے ساتھی شرابی اپنے اپنے گھروں کو یا دوسرے شراب خانوں کو جا چکے تھے۔وہ بھی اٹھا اور رات کی تاریکی میںلڑکھڑ اتا ہوا، وہاںسے چل پڑا۔اسے یاد نہیں تھاکہ وہ کیسے ماما تمیانی کے گھر پہنچا ، یا اس نے ایسا کیوں سوچا کہ وہ اپنے اس کمرے کے بستر پر اکیلے رات نہیں گزار سکے گا، جو اس نے لاج میں کرائے پر لے رکھا تھا۔’’کیا بے وقوفی کی بات ہے؟ ‘‘اس نے سوچا…’’ کمرے کا کرایہ ادا کر نے کے بعد رات کہیں اور گزارنا… رقم کی بربادی کے سوا، اور کیا تھا !…۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما تمیانی بول رہی تھی ’’تب بھی… کیا تم تھوڑا انتظار نہیں کر سکتے کہ میں اٹھ کر تمھارے لیے چائے بنا دوں؟‘‘وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اٹھے اور اسے اپنے بچے کی موت کا پتا چلے۔اس سے قبل ہی وہ یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔’’ نہیں ، نہیں!‘‘وہ جلدی سے بولا’’میرا سامان لاج میں پڑا ہے،مجھے تیار ہونا ہے۔ کھانا میں کہیں اورکھا لوں گا۔‘‘
’’ جیسے تمھیں آسانی ہو۔‘‘ وہ کروٹ بدلتے ہوئے بولی۔ پھر اس نے نہایت مدھم ،تقریباً نہ سنے جانے لائق آواز میں اس کے لیے ایک آرام دہ اور محفوظ سفر کی تمنا کی۔
اس نے اس کا شکریہ ادا کیا، اورپھر دھیرے سے، احساسِ جرم کے بوجھ تلے دبی آواز میں بولا’’ تمھاری رقم…میں نے تمھاری رقم رکھ دی ہے…تمھاری رقم … اس اسٹول پر۔ ‘‘ لیکن وہ شاید پھر سے گہری نیند میں ڈوب چکی تھی یا پھر اب اس سے اکتا چکی تھی…اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
میکانے دروازہ کھولا اور تیز ، مضطرب قدموں سے چلتا ہوا باہر نکل گیا۔ جھونپڑیوں کے چھپروں پر پڑنے والی سورج کی اولین کرنیں اور چولھوں سے اٹھنے والے دھوئیں کے مرغولے ایک نئے دن کی شروعات کا اعلان کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...