ارسا ہٹو وہاں سے ۔ حدید دوبارہ چلایا تھا ۔ اس کی آنکھ سے ایک آنسو پھسلا تھا ۔ حدید اس کی طرف بھاگا تھا ۔ٹریگر دبایا گیا ۔ گن سے نکلی گولی اس کی طرف بڑھی تھی ۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں تھیں ۔
تمہیں پتا ہے حدید اگر ابو کے بعد میرا کوئی آئیڈیل ہے نا تو وہ ہمدانی سر ہیں ۔ اس کے کانوں میں اپنی آواز گونجی ۔
مجھے آپ پر پورا یقین ہے کہ میرے واپس آنے تک آپ سب کچھ ہینڈل کر لیں گی ارسا ۔ سلیمان ہمدانی نے کہا تھا۔،
ڈونٹ وری سر ۔ آپ کو کوئی شکایت نہیں ملے گی ۔۔ اس کا ذہن اس کا ساتھ چھوڑ رہا تھا ۔ اچانک کوئی اس کے آگے آیا تھا ۔ اسے دھکا لگا وہ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھی تھی ۔ پسٹل ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گری ۔ گن سے نکلی گولی حدید کا بازو چیرتے ہوئے نکلی تھی ۔ درد کے مارے اس نے اپنے ہونٹ بھینچے تھے۔ فائرنگ رک گئی تھی ۔ نقاب پوش اب واپس جارہے تھے ۔ کچھ پولیس کانسٹیبل ان کا پیچھا کرنے کے لیئے دوڑے تھے ۔ کچھ سلیمان ہمدانی کی لاش کو لے جارہے تھے ۔ حدید نے اپنے ہاتھ سے اپنے زخمی بازو کو پکڑا ۔ بازو سے نکلتا خون سڑک پر گررہا تھا ۔وہ پیچھے مڑا ۔ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھی وہ ساکت سی سڑک پر گرتے اس کے خون کو دیکھ رہی تھی ۔ اپنے درد کو برداشت کرنے کی وجہ اس کی رنگت سرخ ہورہی تھی ۔ وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھا ۔
ارسا۔ اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔
سر ؟ ارسا نے سسلیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔ آنکھوں میں نمی جھلک رہی تھی ۔
اللہ ان کی شہادت قبول کرے ۔ حدید نے سر جھکا کر کہا ۔آنسو گالوں پر پھسل رہے تھے ، نقاب گیلا ہو رہا تھا ۔ اس نے اپنا سر اپنے گھٹنوں پر ٹکا دیا ۔ حدید نے گہری سانس لی ۔ وہ چاہے جتنی بھی مضبوط یا اسٹرونگ تھی لیکن وہ ایک انسان تھی ۔ جس کے سینے میں موجود دل دھڑکتا تھا ۔ اپنی زندگی میں اس نے پہلی دفہ اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کو مرتے دیکھا تھا ۔ اسے سنبھلنے میں وقت لگنا تھا۔
ارسا۔ اس نے کچھ کہنے کے لیئے لب کھولے ۔
اگر میں اس سنائپر کو مارسکتی تو ہمدانی سر زندہ ہوتے نا حدید ۔ لیکن میں اسے نہیں مارسکی ۔ ایک قاتل ہونے سے بچنے کے لیئے میں نے ہمدانی سر کو کھو دیا حدید ۔ اس نے سر اٹھا کر آنسو گرتی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔
ارسا اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے ۔ ان کی موت اسی وقت اسی جگہ اور اسی طرح لکھی تھی ۔ ہم موت کو روک نہیں سکتے ۔ حدید نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔ اس کے چہرے کی نیلی پڑتی رنگت بتا رہی تھی کہ اس کی برداشت ختم ہو رہی ہے ۔
ارسا دیکھو ہمیں اب جانا ہوگا ۔ یہ جگہ سیف نہیں ہے میڈیا کسی وقت بھی آسکتی ہے ۔ ارسا نے اپنے آنسو صاف کیئے ۔
میڈیا کو کبھی پتا نہیں چلنا چاہئیے کہ ہمدانی سر کا قتل ہوا ہے ۔ وہ ایئر پورٹ سے آرہے تھے اس سڑک پر ان کی گاڑی درخت سے ٹکرا گئی ۔ دو گارڈز اور ہمدانی سر جاں بہک ہوگئے ۔ حدید نے ا ثبات میں سر ہلایا۔ وہ آنکھیں صاف کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
آہ۔۔اپنے بازو پر گرفت مضبوط کرکے کھڑے ہوتے ہوئے درد کے مارے اس کی آواز نکلی تھی ۔ اپنے کوٹ کو جھاڑتے ہوئے ارسا نے چونک کر حدید کو دیکھا ۔ اس کی نظر حدید کے خون آلود بازو پر پڑی ۔
حدید ۔ وہ فق رنگت کے ساتھ آگے بڑھی ۔
تمہارا بہت خون بہ چکا ہے ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا ہوگا ۔ حدید نے اس کی بات پر نفی میں سر ہلایا ۔
ڈاکٹر کے پاس جانا ٹھیک نہیں ہے ۔ کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہوجائے ۔ اس نے گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ۔
لیکن تمہارا زخم ؟ ارسا نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا ۔
حیا سنبھال لے گی اسے ۔ حدید نے اپنی چھوٹی بہن کے بارے میں کہا ۔
ٹھیک ہے ۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔ گارڈز سلیمان ہمدانی کی لاش لے کر چلے گئے تھے ۔
سنو میری لیو دے دینا اس ہفتے کی ۔ میں کورٹ نہیں آؤں گی ۔ اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا ۔ حدید نے بے بسی سے اسے دیکھا تھا ۔ وہ ابھی بھی خود کو مضبوط ثابت کرنے میں لگی تھی ۔ آسمان پر تیزی سے چھاتے اندھیرے نے ترس بھری نگاہوں سے انہیں دیکھا تھا ۔ وہ ایئرپورٹ خوشی خوشی کسی کو لینے گئے تھے ۔ لیکن اپنے خون کے آنسو روتے دلوں کے ساتھ لوٹ رہے تھے۔ اور یہ تو قدرت کا قانون ہے کہ ایک دن سب نے اپنے رب کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ یہ دنیا تو فانی ہے ۔ (( ناس بتیحی وبتروح ) لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں )
اک قصہ اڑتے پتوں کا
جو سبز رتوں میں خاک ہوئے۔
اک نوحہ شہد کے چھتوں کا
جو فصل گل میں راکھ ہوئے۔
کچھ باتیں ایسی رشتوں کی
جو بیچ نگر میں ٹوٹ گئے۔
کچھ یادیں ایسے ہاتھوں کی
جو بیچ بھنور میں چھوٹ گئے۔
تم دشت طلب میں ٹہر گئے
ہم قریہ جان کے پار گئے۔۔۔
———— ———
اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے ،
ایک دن آئے گا ہم بھی داستاں ہوجائیں گے
عدالت نے وکیل کو گواہ پیش کرنے کا حکم دیا تھا ۔جو کہ وہ پیش نہیں کرسکے ۔ اسی لیئے عدالت اپنا فیصلہ سنانے جارہی ہے ۔ گواہوں کے بیانات اور تمام پیش کردہ ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے یہ عدالت ملزم زالان حیدر کو بے گناہ قرار دیتی ہے ۔ اس نے بلند آواز کے ساتھ کہا تھا ۔ آج پورے ایک ہفتے کے بعد وہ کورٹ آئی تھی ۔ سفید رنگت والا چہرہ بے تاثر تھا ۔ نقاب سے جھانکتے آنکھیں سرخ ہورہی تھیں ۔
عدالت برخواست ہوتی ہے ۔ کٹہرے میں کھڑے زالان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو اب باہر جارہی تھی ۔کمرہ عدالت میں بیٹھا ہادی کرسی سے اٹھ کر لنگڑاتا ہوا زالان کے پاس آیا ۔
بہت بہت مبارک ہو سڑے ہوئے ککڑ ۔ ہادی نے اسے ہنستے ہوئے گلے لگایا تھا ۔ وہ مسکرایا ۔ اور دونوں باتیں کرتے کمرہ عدالت سے باہر نکل گئے۔
————— ——
تم آرزو کے دیئے جلا کے
خدا سے اچھی امید رکھنا
خزاں کے موسم کی رخصتی پر
بہارے گل کی نوید رکھنا
وہ تیرا رب ہے وہ تیرا اپنا
اسی کو اپنا حبیب رکھنا
اسی سے کرنا تو دل کی باتیں
تو آنکھ میں اک نمی سی رکھنا
وہ تیرا رب ہے وہ تیرا اپنا
اسی سے راز و نیاز رکھنا
اسی سے غم کی کہانی کہنا
غموں کا دل میں جہان رکھنا
رحیم ہے وہ،
کریم ہے وہ،
تو رب کو اپنے عزیز رکھنا
ہے سانس سے بھی قریب تر وہ ،
اسی کو اپنے قریب رکھنا —
ایک ہاتھ سے اسکارف سیٹ کرتی ہوئی وہ کورٹ روم سے نکل کر آفس کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ اپنے آفس کے دروازے سے ٹیک لگائے ایک ٹانگ ترچھی کر کے دروازے پر پاؤں ٹکا کر کالے کوٹ پینٹ میں ملبوس ایک ہاتھ سے موبائل چلاتے اس نے نظر اٹھا کر سامنے سے آتی ارسا کو دیکھا ۔
ہائے ۔ اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا کر کہا تھا ۔ جبکہ وہ بنا اس کی طرف دیکھے تیز تیز چلتی اپنے آفس میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کردیا۔ حدید نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
پورے ایک ہفتے بعد محترمہ کورٹ آئی ہیں پھر بھی مجھے ہی نخرے دکھا رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے اپنا معصوم بازو زخمی کروایا اور ایک یہ میڈم ہیں کہ طبعیت کا پوچھا بھی نہیں ۔ سہی ہے بھئی۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور اس کی آفس کا دروازہ کھولا ۔ جہاں وہ آنکھیں موندے شیشے کی ٹیبل کے پار راکنگ چیئر پر جھول رہی تھی ۔ اس نے زور سے دروازہ بند کیا ۔ لیکن ارسا نے کوئی رسپانس نہیں دیا ۔ حدید نے زور سے کرسی کھینچی ۔ تب بھی اس نے کوئی حرکت نہیں کی ۔ وہ جمپ لگا کر کرسی پر بیٹھا ۔ لیکن جواب ندارد ۔ اس نے پاس پڑی فائنل زور سے ٹیبل پر پھینکی ۔ لیکن اسے مایوسی ہوئی ۔ سامنے پڑی کرسی کو زور سے قریب کر کے پوری طاقت سے اس پر ٹانگیں ماریں لیکن مقابل بھی ڈھیٹ تھا ۔
ارسا۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔
انسانوں کی طرح پہلے ہی بلا لیتے تو جواب مل جاتا ۔ اپنی اس عزت افزائی کو کھلے دل سے معاف کرتے ہوئے وہ مسکرایا ۔
کیسی ہو ؟ اس نے پوچھا ۔
ٹھیک نہیں ہوں حدید ۔ اس نے گہری سانس لی ۔
یوں لگتا ہے جیسے میری کہانی ختم ہوگئی ہے ۔ اب بس یہ چند سانسیں گزارنی ہیں ۔ زندگی خالی خالی لگنے لگی ہے ۔ آنکھیں ہنوز بند تھیں ۔ حدید نے گہری سانس لی ۔
میں جس ظالم ملکہ کو جانتا ہوں وہ کبھی ہمت نہیں ہارتی ۔ وہ تو ایک مضبوط اور اسٹرونگ گرل ہے ۔ جس نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تھا کہ حدید اگر وہ ہماری جانیں لیں گے تو ہم اپنی جانیں دیں گے لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ اس نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
ارسا بی اسٹرونگ ! دیکھو ہمدانی سر اپنے بعد تمہیں اس ٹیم کا لیڈر مقرر کر کے گئے تھے نا ۔ تو اب ہماری ٹیم کو تم نے سنبھالنا ہے ۔ ہمدانی سر کی سالوں کی محنت اور قربانی رائیگاں نہیں جائے گی ۔ تم ایسا نہیں ہونے دو گی ۔ ٹھیک ہے ۔ ارسا نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔
ہمت ہی نہیں ہوتی ۔ جو سیٹ ہمدانی سر کا حق ہے جس کے لیئے سالوں انہوں نے محنت کی میں اس پر کیسے بیٹھ جاوں ؟ اس نے سیدھا ہوتے ہوئے کہا ۔
ارسا اس طرح مت سوچو ۔ دیکھو ۔ ہمدانی سر کو مارنے والے ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اگر تم نے ہمت ہار دی تو وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ حدید نے دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا
یہ سب اتنا آسان نہیں ہے جتنا لگتا ہے ۔ اگر میں نا کر پائی تو خود پر یقین کرنا تو بالکل آسان نہیں ہے ۔
کچھ بھی آسان نہیں ہوتا ارسا ۔ ہر چیز کو آسان بنانا پڑتا ہے اپنے لیئے راہیں خود ہموار کرنی پڑتی ہیں ۔ اور خود پر یقین کرنا تو بہت آسان ہے ۔ اس کے لیئے چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروعات کرنی ہوتی ہے ۔ جیسے آپ یہ پیپر حل کرلیں گے یا آپ یہ چیز ٹھیک سے کرسکتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے ہمدانی سر نے تم میں ٹیلنٹ دیکھا تھا تبھی تو انہوں نے تمہیں چنا تھا نا ۔۔ارسا نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔
میں نے کل ججس کی میٹنگ رکھی ہے تمہیں اپنی سیٹ سنبھالنی ہے ۔ اس نے ارسا کو اطلاع دی ۔
لیکن حدید ۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہی تم آرہی ہو بس کنفرم ہے ۔ حدید نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔ارسا نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا ۔
دیٹس لائک ارسا ہاشم ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ایک ہفتے سے اداس فضا بھی مسکرائی تھی ۔
————- ———–
کاغذی کاروائی پوری کر کے وہ دونوں اب کارپورچ میں کھڑے تھے ۔
ایک تو میں اتنی مشکل سے ہمت کر کے صرف تمہاری وجہ سے کورٹ آیا ہوں ۔ اور تم نے ابھی بھی سڑی ہوئی شکل بنائی ہوئی ہے ۔ ہادی نے بیزاری سے اسے دیکھا ۔ جو کہ پیچھے مڑ کر کورٹ کو دیکھ رہا تھا ۔
ہادی تم یہیں رکو میں بس ابھی آیا ۔ یہ کہ کر زالان اندر کی طرف بڑھا ۔ تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے وہ کاریڈور میں چل رہا تھا ۔ ججس کی نیم پلیٹ پڑھتے ہوئے ارسا کے آفس کں باہر رکا ۔
سیشن جج ارسا ہاشم ۔ بڑے بڑے الفاظوں سے لکھا اس کا نام جگمگا رہا تھا ۔ اس نے آگے بڑھ کر دروازہ ناک کیا ۔ فائل پر جھک کر کچھ پڑھتے ہوئے اس نے سر اوپر اٹھایا ۔ ٹھوڑی پر ٹکا نقاب اوپر کیا ۔
یس ۔ اندر سے آنے والی آواز پر اس نے دروازہ کھولا اور اندر کی طرف بڑھا ۔
جی فرمائیے مسٹر ۔ ارسا نے اپنے ہاتھوں کو باہم ملاتے ہوئے کہا ۔
مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔ اس نے آفس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔
سن رہی ہوں ۔ زالان نے ادھر ادھر دیکھا ۔
کیا ہم کہیں اور بات کرسکتے ہیں ۔ ارسا نے ایک آئبرو اوپر اٹھائی ۔
ٹھیک ہے کل شام میرے گھر آجائیے گا ۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا ۔ زالان نے سر اثبات میں ہلایا اور باہر نکل گیا ۔ ارسا نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
عجیب آدمی ہے ۔ وہ بڑبڑائی ۔ اور پھر کام میں لگ گئی ۔ سورج ڈھلنے لگا تھا ۔ سردی بڑھ رہی رہی تھی ۔۔
کیا حال سنائیں دنیا کا
کیا بات بتائیں لوگوں کی۔۔۔!
دنیا کے ہزاروں موسم ہیں
لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی۔۔۔!
کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں
دنیا کو سنانے کے قابل۔۔۔!
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں
بس دل میں چھپانے کے قابل۔۔۔!
کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں
اک بار گئے تو آتے نہیں۔۔۔!
ہم لاکھ بلانا چاہے بھی
پرچھائیں بھی ان کی پاتے نہیں۔۔۔!
کچھ لوگ خیالوں کے اندر
جذبوں کی روانی ہوتے ہیں ۔۔۔!
کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح
پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں۔۔۔!
کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں
کچھ لوگ کنارہ ہوتے ہیں۔۔۔!
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو
تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں۔۔۔!
کیا حال سنائیں اپنا تمہیں
کیا بات بتائیں جیون کی ۔۔۔۔!
اک آنکھ ہماری ہنستی ہے
اک آنکھ میں رت ہے ساون کی ۔۔۔!
ہم کس کی کہانی کا حصہ
ہم کس کی دعا میں شامل ہیں۔۔۔!
ہے کون جو رستہ تکتا ہے
ہم کس کی وفا کا حاصل ہیں ۔۔۔!
————– ———-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...