(Last Updated On: )
اک مسافر مری خواہش میں امڈ آیا ہے
جیسے آنسو کوئی بارش میں امڈ آیا ہے
ایک پردے پہ بنا آیا ہوں چہرہ اس کا
شہر کا شہر نمائش میں امڈ آیا ہے
اس نے دیکھی ہی نہیں آنچ مرے لہجے کی
میرا لہجہ بھی تو پرسش میں امڈ آیا ہے
اپنی تنہائی کے دوزخ سے نکل کر امشب
چاند دریا کی پرستش میں امڈ آیا ہے