روحان نے اپنے کہے کے مطابق رات کو آفس سے واپسی پہ لڑکے اور اس کے خاندان کی ساری رپورٹ ان کے سامنے پیش کی تھی جو بالکل اوکے تھی ایسی کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں تھی جس کو وجہ بنا کے انکار کیا جا سکے
“تمہارا بہت شکریہ بیٹا” حسین صاحب نے ممنوع نگاہوں سے اسے دیکھا تھا
“ارے انکل بیٹا بھی کہہ رہے ہیں اور شکریہ کہہ کے شرمندہ بھی کر رہے ہیں میں ہمیشہ حاضر ہوں آئندہ بھی کوئی کام ہوا تو بلاجھجھک کہیے گا مجھے کر کے خوشی محسوس ہو گی” روحان نے خوش اخلاقی سے کہا تو حسین صاحب نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا
“چلیں انکل میں چلتا ہوں اب اوپر فریش بھی ہونا ہے” روحان کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا
“بیٹھو بیٹا کھانا کھا کے جانا” حسین صاحب نے اسے روکا تو اس نے اک نظر برآمدے میں بچھے دسترخوان پہ کھانا لگاتی مریم کو اک نظر دیکھا تھا
“نہیں انکل ابھی تو پہلے فریش ہوں گا تا کہ آفس کی تھکن اتر سکے آپ کے ساتھ کھانا پھر کھبی کھاؤں گا” اس نے مسکراتے ہوئے معذرت کی اور اوپر چلا گیا تھا
مریم کے کھانا لگانے کے بعد وہ سب دسترخوان پہ آ گئی تھیں کھانا کھاتے ہوئے حسین صاحب نے اک نظر زینیہ اور منیہا پہ ڈالی تھی جو چہرے پہ حد درجہ سنجیدگی سجائے کھانا کھانے میں مصروف تھیں حسین صاحب نے کھانے کے بعد ان سے بات کرنے کا سوچا تھا
کھانے کے بعد وہ سب برتن اور کچن سمیٹنے کے بعد اپنے روم میں چلی گئی تھیں انہیں روم میں آئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ان کے پیچھے حسین صاحب بھی چلے آئے تھے مریم کے بیڈ پہ بیٹھتے انہوں نے زینیہ اور منیہا کو اپنے پاس بلایا تھا وہ دونوں آ کر ان کے دائیں اور بائیں بیٹھ گئی تھیں
“میرے بچے ناراض ہیں مجھ سے؟” انہوں نے ان دونوں کو اپنے بازوؤں کے حلقے میں لیتے محبت سے پوچھا تھا
“آپ نے اتنی بری طرح ڈانٹا تھا سب کے سامنے” منیہا کی آنکھوں میں اک دفعہ پھر آنسو آ گئے تھے
“تو کیا اب میں سوری کروں؟” انہوں نے اس کے گرد ہاتھ کو اوپر اٹھاتے اس کے آنسو پونچھتے پوچھا تو ان دونوں نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا تھا
“نہیں ہم ایسا بھی نہیں کہہ رہے مگر آپ کے ڈانٹنے سے بہت دکھ ہوا تھا میں کونسا پہلی دفعہ سوئی تھی نماز پڑھ کے” منیہا کی بجائے زینیہ سوں سوں کرتے بولی تھی اس کی بات پہ حسین صاحب کے ساتھ ساتھ باقی پانچوں نے بھی اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی
“تو میرا بچہ نماز پڑھ کے سو جانا اچھی بات تو نہیں ہے جاگنگ کر کے آ کے بندہ فریش ہو کے اپنے کام کاج کرتا ہے نہ کہ دوبارہ سو جاتا ہے” حسین صاحب نے پیار سے اسے سمجھایا تھا
“تو ابا اُس ٹائم کوئی کام نہیں ہوتا ناشتہ آپ اور مریم بنا تو لیتے ہیں” وہ ہولے سے منمنائی تھی
“یہاں میں اور مریم ہیں لیکن ہمیشہ تو تمہارے ساتھ نہیں رہیں گے نا تمہاری شادی بھی تو کرنی ہے ہمیں اور اگر تمہاری یہ عادت وہاں جا کے بھی ویسی ہی رہی تو سب نے یہی کہنا ہے نا باپ نے کچھ نہیں سکھایا اپنی بیٹیوں کو” اس کے بال سہلاتے انہوں نے اپنا نقطہ نظر اسے سمجھانا چاہا تھا ان کے اتنے پیار سے سمجھانے پہ وہ شرمندہ ہو گئی تھی
“آئی ایم سوری ابا”سر جھکائے شرمندگی سے کہا گیا تھا
“نہیں سوری کی ضرورت نہیں میرے بیٹے کو میری بات سمجھ آ گئی میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے” انہوں نے زینیہ کا سر تھپتھپایا تھا
“میں تو ایسا کچھ نہیں کیا تھا نا مگر پھر بھیطآپ نے مجھے سب کے سامنے ڈانٹ دیا” ابھی وہ منیہا کو مخاطب کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اس سے پہلے ہی منیہا کی نروٹھی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی اور وہ مسکرائے تھے
“تم لوگوں کی چیخیں سن کے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے تم لوگوں تک پہنچنے تک نجانے کتنے برے خیال میرے دماغ میں آئے تھے اور وہاں پہنچ کے پتہ لگا تم لوگ اک نقلی سانپ سے ڈر گئیں بس اسی لیے سب کے سامنے تمہارے سامنے ہائیپر ہو گیا” انہوں نے بےبسی سے کہا تھا جیسے وہ چاہ کر بھی اس لمحے کو بھول نہیں رہے تھے
“مگر پھر بھی غلطی اس تابش کی ہے اسی کا کام تھا وہ اس نے میرے پاؤں پہ سانپ پھینکا تھا” تابش کے ذکر پہ منیہا نے ایسے دانت کچکچائے تھے جیسے وہ اس کے دانتوں کے بیچ ہو
“پہلے تم نے کچھ کیا ہو گا جس کے بدلے میں اس نے یہ سب کیا” حسین صاحب دونوں کو اچھی طرح جانتے تھے اور باتوں ہی باتوں میں انہیں مریم کے منہ سے تابش کو جان بوجھ کے گرانے والے قصے کو بھی سن چکے تھے
“نہیں ابا وہ میں،،،،” ان کے اتنے درست اندازے پہ وہ بوکھلا گئی تھی
“میں سب جانتا ہوں تم نے بھی اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا بیٹا میں مانتا ہوں تم نے بس شرارت کی تھی لیکن لڑکے اکثر ایسی شرارتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تم ڈر کے رہو بس احتیاط کیا کرو کہ کہیں غلط انسان کے ساتھ شرارت نہ کر بیٹھو” انہوں نے اپنی بات ختم ہونے پہ منیہا کو دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا
“اب تو نہیں ناراض میرے بچے مجھ سے؟” انہوں نے اک اک نظر دونوں پہ ڈالتے پوچھا تو دونوں نفی میں سر ہلاتیں ان کے کندھے سے سر ٹکا گئی تھیں جواباً حسین صاحب نے بھی دونوں کے سر چومے تھے ان کے اس عمل کی دیر تھی باقی سب بھی ان کے ساتھ آ کے لگی تھیں
“اگر ایسا ہی رہا تو اک دن میری سانس بند ہو جائے گی” حسین صاحب کا اشارہ ان کے چپکنے کی طرف تھا
“اللّٰہ نہ کرے” وہ سب دہل کے بولی تو حسین صاحب ہنس دیے تھے
“اچھا چلو اب پیچھے ہٹو اور اپنے اپنے بیڈ پہ لیٹتے سونے کی کرو” انہوں نے سب کو پیچھے کرتے حکم دیا اور خود بھی کھڑے ہو گئے تھے
“مگر ابا ابھی تو دس ہی بجے ہیں” روش نے منہ بسورتے کہا تھا
“کوئی بحث نہیں لیٹو اپنی اپنی جگہ پہ” حسین صاحب نے سب کو آنکھیں دکھائیں تو وہ سب ناچاہتے ہوئے بھی اپنے اپنے بیڈ پہ چلی گئی تھیں ان کے لیٹتے حسین صاحب نے اک محبت بھری نگاہ ان سب پہ ڈالی اور لائیٹ آف کر کے باہر نکل گئے تھے
_______________________
حسین صاحب نے مزید دیر کیے بنا اللّٰہ کا نام لے کر بوا سے ان کا نمبر لے کر انہیں ہاں کہہ دی تھی اور وہ نیکسٹ سنڈے کو باقاعدہ منگنی کرنے آ رہے تھے اور شادی ان دونوں کا جو پیپر رہ گیا تھا اسے کلئیر کرنے کے بعد تھی
رشتہ طے ہوتے ہی نویرہ نے یہ خبر سارہ کو دی تھی اور یہ خبر سنتے ہی اس کی بھی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی ارسلان کو بھی سن کے خوشی ہوئی تھی اور اب وہ دونوں ان کے گھر مبارکباد دینے جا رہے تھے ہفتے کو آف ہونے کی وجہ سے وہ دونوں گھر ہی تھے
“یہ تم دونوں کہاں جا رہے ہو؟” سارہ اور ارسلان کو اکھٹے گیٹ کی طرف بڑھتے دیکھ کر پیچھے سے اماں نے آواز لگائی تھی
“ارے آپ کو تو بتانا یاد ہی نہیں مائرہ آپی کا رشتہ پکا ہو گیا ہے میں اور ارسلان وہی جا رہے تھے مبارکباد دینے بلکہ ایسا کریں آپ بھی آ جائیں ہمارے ساتھ” سارہ نے انہوں خوشی خوشی بتاتے اپنے ساتھ چلنے کی آفر کی تھی
“ویسے یہ حسین بھائی صاحب بڑی سے پہلے چھوٹی کا رشتہ کیوں کر رہے ہیں کہی کوئی،،، ”
“پلیز اماں یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں یہ سب تو نصیب کی باتیں ہوتی ہیں اس میں اعتراض اٹھانے والی تو کوئی بات نہیں ہے” ارسلان بےساختہ انہیں ٹوک گیا تھا
“ہاں ہاں تم لوگ ان کی طرف داریاں نہیں کرو گے تو کون کرے گا جانے کیا گھول کے پلا دیا ہے میرے بچوں کو مجھ سے زیادہ تو ان کے سگے لگتے ہیں” وہ حسبِ عادت شروع ہو گئی تھیں
“کچھ نہیں گھول کے پلایا انہوں نے ہمیں یہ ان کا خلوص اور اپنا پن ہے جو ہمیں ان کی طرف مائل کرتا ہے” سارہ نے اکتا کے کہا تھا جانے اس کی اماں کو ان سے کیا بیر تھا وہ اکثر ایسی ایسی باتیں کہہ جاتی تھیں انہیں کہ سارہ کا شرمندگی سے ڈوب مرنے کا دل کرتا مگر پھر بھی اس کے اک دفعہ بلانے پہ وہ پھر ان کے گھر آ جاتی تھیں
“اک تو مجھے اپنی اولاد کی سمجھ نہیں آتی ماں سے زیادہ مخلص وہ بہنیں اور ان کا باپ ہی لگتا ہے انہیں” انہوں نے ارسلان اور سارہ کو گھوری سے نوازا تھا
“چلیں بھائی اماں کا تو یہ چلتا رہے گا ہم چلتے ہیں” سارہ نے کسی سوچ میں گم ارسلان کو کہا جو اس کے بلانے پہ چونک کے اس طرف متوجہ ہوا تھا
“اک منٹ تم تو جا رہی ہو یہ میرے بچے کو کسی خوشی میں ساتھ گھسیٹ رہی ہو کیا چاہتی ہو ان میں سے کوئی میرے بچے پہ اپنی اداؤں کے جادو چلا کے اسے پھانس لے” اماں کی باتوں پہ ان دونوں کے دماغ جنجنا اٹھے تھے
“بس کریں اماں خدا کا خوف کریں آپ کے گھر بھی بیٹی ہے جن کی اپنی بیٹیاں ہوں وہ یوں کسی کی بیٹی پہ انگلی اٹھاتے اچھے نہیں لگتے بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں چلو سارہ” ارسلان بمشکل اپنے غصے پہ قابو پاتا بولا تھا اور ان کی مزید کوئی سنے سارہ کو لیے تیزی سے گیٹ پار کر گیا تھا پیچھے اماں بڑبڑاتی رہ گئی تھیں
ارسلان کو اپنی ماں کی ان باتوں نے سوچ میں ڈال دیا تھا وہ تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھے تھا مگر اپنی اماں کی باتیں سن کے اسے لگا تھا جو وہ سوچ رہا ہے اس پہ عمل درآمد کروانا بہت ہی مشکل کام ہے شاید نویرہ کے کردار پہ بھی انگلی اٹھ جائے اسے جو کرنا تھا سوچ سمجھ کے کرنا تھا
ان کے گھر پہنچتے دونوں نے بمشکل اپنے اپنے چہروں پہ مسکراہٹ لائی تھی وہ سب انہیں برآمدے میں بیٹھی مل گئی تھیں سوائے روش کے جو سکول تھی سارہ تو جاتے ہی مائرہ سے لپٹ گئی تھی
“بہت بہت مبارک ہو آپو” اس کا گال چومتے سارہ نے اسے مبارکباد دی تھی اس کی لہجے سے چھلکتی خوشی اور گرمجوشی پہ وہ سب مسکرائی تھیں
“خیر مبارک میری جان اور بہت شکریہ” مائرہ نے بھی اسے محبت سے جواب دیا تھا
“بہت مبارک ہو مائرہ آپی میری دعا ہے اللّٰہ آپ کے نصیب بہت اچھے کرے اور آپ کو ہمیشہ خوش رکھے” ارسلان نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے بلکل بڑے بھائیوں والے انداز میں کہا تھا
“بہت شکریہ ارسی” مائرہ نے اسے کے نفاست سے سیٹ بال چھیڑتے اس کا شکریہ ادا کیا تھا وہ بچپن سے ہی ان سب بہنوں کے لیے بہت پروٹیکٹو تھا ابھی وہ سکول بوائے ہی تھا اور مریم کالج جاتی تھی جب اک لڑکا ہاتھ دھو کے اس کے پیچھے پڑ گیا تھا اور اک دن مریم کا پیچھا کرتے اور اس پہ جملے کستے ارسلان نے اسے دیکھ لیا تھا اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اینٹ اٹھا کے اس کے سر میں دے ماری تھی اور اس کا سر پھٹ گیا تھا
بہت مشکلوں حسین صاحب اور ارسلان کے گھر والوں نے اسے جیل جانے سے بچایا تھا تب سے وہ ان سب کی زندگیوں کا اک اہم حصہ بن گیا تھا اور اس کی اماں کا ان بہنوں سے خدا واسطے کا بیر بن گیا تھا
“اچھا اب میں چلتا ہوں” مریم جو اسے دیکھتے اسی واقعہ کا سوچ رہی تھی چونک کے حال میں آئی تھی
“یہ کیا ابھی آئے ہو بیٹھو تو سہی” مریم نے کہا تھا
“ارے نہیں آپی حسین چچا ہوتے تو میں شاید بیٹھ بھی جاتا اب میں آپ کے ساتھ بیٹھ کے کیا باتیں کروں آپ لوگ کریں انجوائے اللّٰہ حافظ” مریم کی بات کا جواب دیتے وہ وہاں سے چلا گیا تھا نویرہ نے چمکتی آنکھوں سے اس کی پشت دیکھی تھی اور یہ چمک مریم کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں رہی تھی
“اک مزے کی بات بتاؤں ہمارے ہونے والے بہنوئی ہماری بنو کے ہی بیج میٹ ہیں اور موصوف ان پہ دل ہار بیٹھ تھے اور بہت چلاکی سے لو میرج کو ارینج میں بدلہ ہے” ارسلان کے جاتے نویرہ نے روزداری سے سارہ کو بتایا تھا کیونکہ مائرہ ان سب کو ساری بات بتا چکی تھی
“کیا واقعی ہی؟” سارہ نے آنکھیں پھاڑ کے مائرہ کو دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا اور پھر نویرہ نے سارہ کے کان میں ساری بات ڈالی تھی
“ارے واہ بھئی داد دینی پڑے گی اپنے مائرہ آپی کے آفندی صاحب تو بڑے تیز نکلے” سارہ کے لہجے میں ستائش تھی
“یہ میرے آفندی صاحب سے کیا مراد ہے تمہاری؟” مائرہ نے جھینپ کے اسے جھانپڑ رسید کی تھی
“ارے بھئی آپی آپ کے ہونے والے مجازی خدا ہیں تو آپ کے ہی ہوئے نا ایویں ہی میرا کندھا سینک دیا” سارہ نے اپنا کندھا سہلاتے اسے وضاحت دی تھی
“اچھا چلو مائرہ کو چھیڑنا کافی ہوا اوپر نگہت آنٹی کے پاس چلتے ہیں انہوں نے کہنا اچھا رشتہ کیا ہے انہوں نے اک دفعہ بھی اوپر جھانک کے نہیں دیکھا” فاتینا کی بات پہ سب متفق ہوتیں اٹھی تھیں
“نویرہ ٹھہرو مجھے تم سے بات کرنی ہے، تم سب جاؤ ہم آتے ہیں” مریم کو نویرہ کو روکا اور باقی سب کو اوپر جانے کا کہا تو وہ سب سر ہلاتیں اوپر چلی گئی تھیں
جبکہ خود کو روکے جانے پہ اک لمحے کو نویرہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی وہ سمجھ رہی تھی مریم نے اسے کیوں روکا تھا ابھی ہی تو اس کے دل نے ارسلان کو لے کر الگ لے پہ دھڑکنا شروع کیا تھا اور اس بات کا پتہ مریم کو جھٹ لگ چکا تھا
“یہ تمہارے اور ارسلان کے بیچ کیا چل رہا ہے؟” ان کے جاتے مریم نے بغیر کسی لگی لپٹی کے ڈائریکٹ پوچھا تھا
“کیا چلنا ہے کچھ بھی نہیں بس اچھے دوست ہیں ہم” نویرہ نے نظریں جھکائے ہی جواب دیا تھا کہ کہیں وہ اس کی آنکھوں کا بھید نہ جان لے
“نویرہ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ تم جانتی ہو ہم اپنے باپ کا مان ہیں کچھ بھی ایسا مت کرنا یا کسی ایسی سمت اپنے قدم مت بڑھانا جو ہمارے باپ کا سر جھکانے کا باعث بنے میرا کام بس تمہیں سمجھانا تھا آگے تم خود سمجھدار ہو” مریم ارسلان کی والدہ کا رویہ اور سوچ اپنے متعلق اچھی طرح جانتی تھی اس لیے اس نے پہلے قدم پہ ہی اپنی بہن کو خبردار کرنا ضروری سمجھا تھا
مریم اپنی بات مکمل کر کے اوپر جا چکی تھی جبکہ نویرہ ابھی تک وہی کھڑی تھی وہ مریم کا اشارہ اچھی طرح سمجھ رہی تھی مگر دل کو کیسے سمجھاتی دو چار سیکنڈ وہی کھڑے رہنے کے بعد وہ بھی تھکے تھکے قدموں سے سیڑھیوں کی طرف بڑھی تھی
________________________
اک ہفتہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا تھا آج سنڈے تھا اور آج مائرہ کے سسرال والوں نے اسے انگوٹھی پہنانے آنا تھا اسی سلسلے میں وہ سب کام میں جُتی ہوئی تھیں مریم سنڈے کو انہیں ویسے ہی نہیں بخشتی تھی آج تو پھر مائرہ کے سسرال والوں نے آنا تھا
“مریم میں تھک گئی ہوں میری بس” آج مائرہ کی جگہ روش کو کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے رکھا گیا تھا اور اسے سب سے آسان کام پورے گھر کی ڈسٹنگ کرنے کو کہا تھا ابھی اس نے بس رومز ہی صاف کیے تھے اور باہر برآمدے میں آ کر کرسی پہ ڈھیر ہو گئی تھی جہاں ہر طرف گند پھیلا ہوا تھا
“اے چشماٹو ابھی تو سب سے آسان کام دیا ہے اور ابھی سے تمہاری بس ہو گئی ہے” حسبِ عادت منیہا نے اس کی چٹیا کھینچتے کہا تھا
“مریم اس منیہا کی بچی کو سمجھا لو اک تو یہ مجھے چشماٹو نہ کہا کرے اور دوسرا میری چوٹی نہ کھینچا کرے یہ جیلس ہوتی ہے میرے بالوں سے اس کے بال اتنے لمبے گھنے جو نہیں ہیں” روش نے اپنی چوٹی پہ ہاتھ پھیرتے منیہا کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا تھا
ان سب بہنوں کی نسبت اس کے بال پتلے تھے اور ان کی لمبائی بھی کم تھی اور ان کی کئیر کے لیے جانے کیا کیا کرتی تھی مگر بالوں پہ فرق ہی نہیں پڑتا تھا
“ہاں تمہارے بال ہی رہ گئے ہیں جس سے میں جیلس ہونا ہے دنیا میں اور کچھ تو ہے نہیں جس سے میں جیلس ہوں” منیہا تنک کے بولی تھی
“چپ مجھے تم لوگوں کی آواز نہ آئے اب چپ چاپ کر کے اپنے اپنے کام کرو” مریم نے غصے سے کہا تو دونوں اٹھ گئی تھیں روش کمروں کے دروازے اور کھڑکیوں کی طرف بڑھی اور منیہا کچن کی طرف جہاں ہر شے کیبنٹ سے نکلی پڑی اس کا منہ چڑا رہی تھی
“ویسے مریم آپی آپ اتنی کھڑوس کیوں ہیں؟ بیچاریوں کو اتنی بری طرح سے ڈانٹا ہے کھبی کھبی تو آپ مجھے اپنی اماں سے بھی زیادہ کھڑوس لگتی ہیں” سارہ روم سے پردوں سمیت برآمد ہوتے بولی تھی وہ صبح سے ہی یہی ڈیرہ جمائے بیٹھی تھی
“میں کھڑوس بننے پہ مجبور ہوں یہ سب کام ماؤں کے ہوتے ہیں شاید اگر ہماری ماں زندہ ہوتیں تو میں بھی تم سب جیسی لاابالی ہوتی لیکن اب مجھے پتہ ہے میرے کندھوں پہ ذمہ داریاں ہیں جنہیں مجھے احسن طریقے سے نبھانا ہے تا کہ کوئی میرے باپ اور ہم بہنوں پہ کھبی انگلی نہ اٹھا سکے” مریم کی بات پہ سارہ اسے دیکھتی رہ گئی تھی اور پھر گہرا سانس بھرتے آگے بڑھ گئی تھی
ان کا پورا دن گھر کی صفائی میں گزر گیا تھا اس کے بعد پھر ان سب نے اپنے اپنے حلیے درست کیے اور ساتھ ہی منگنی کی مناسبت سے مائرہ کو بھی ہلکا پھلکا تیار کر دیا تھا
حسین صاحب نے چھوٹی سی تقریب گھر میں ہی رکھی گئی تھی کھانا گھر پہ بنانے کی بجائے کیٹرنگ سروس والوں کی مدد لی تھی حسین صاحب نے وہ نہیں چاہتے تھے ان کی طرف سے کوئی بھی کمی رہ جائے ابھی تک لڑکے والے نہیں آئے تھے بس شکیل صاحب کی فیملی اور حسین صاحب کے دو چار رشتے دار ہی گھر میں موجود تھے انہوں نے ارسلان کے والدین کو بھی بلایا تھا مگر صرف اس کے والد صاحب آئے تھے والدہ نے طبعیت خرابی کا کہہ کے آنے سے معذرت کر لی تھی
تابش منیہا کو سوری کہنا چاہتا تھا جو اس کے ہاتھ آ کر ہی نہیں دے رہی تھی ابھی بھی وہ اس کی تلاش میں نظریں دوڑا رہا تھا کہ وہ اسے کچن کی طرف جاتی دیکھائی دی تھی تابش نے اچھی طرح اطمینان کیا کہ کوئی اس کی طرف متوجہ تو نہیں سب کو اپنی باتوں میں مصروف دیکھ کے وہ کچن کی طرف بڑھا تھا
وہ کچن میں داخل ہوا تو منیہا فریج میں سر دیے کھڑی تھی تابش نے گلا صاف کرتے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا منیہا نے چونک کے نظریں گھمائیں تو تابش کو دیکھ کے اس کے چہرے کے زاویے بگڑے تھے فریج کا دروازہ بند کر کے اس نے باہر جانے کے لیے قدم آگے بڑھائے تھے
“منیہا اک منٹ میری بات سنیں پلیز” اس کا ارادہ بھانپتے تابش تیزی سے بولا تو منیہا کو ناچاہتے ہوئے بھی رکنا پڑا تھا
“ایم سوری میری وجہ سے آپ کو ڈانٹ پڑ گئی میں شرمندہ ہوں اپنی حرکت پہ” تابش کی غیر متوقع بات پہ وہ حیران رہ گئی تھی اسے تابش سے ہر بات کی امید تھی سوائے اس سوری کے اس نے آنکھیں بڑی بڑی کر کے تابش کو دیکھا تھا کہ وہ ہی ہے یا کوئی اور ہے
“کہی کوئی چوٹ ووٹ تو نہیں لگ گئی کیوں بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں آپ مسٹر تابش” منیہا نے مشکوک لہجے میں کہا تھا
“مجھے واقعی ہی شرمندگی ہو رہی ہے ہمارے اختلاف اک جگہ لیکن میں نے یہ بلکل نہیں چاہا تھا کہ آپ کو ڈانٹ پٹ جائے” تابش کی باتوں پہ منیہا نے بغور اسے دیکھا تھا کہی کوئی ڈرامہ تو نہیں کر رہا مگر اس کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی بتا رہی تھی کہ وہ سچ میں شرمندہ ہے
“اٹس اوکے اس دن میری بھی غلطی تھی آپ اتنے برے طریقے سے پھسل کے گرے تھے زیادہ چوٹ بھی لگ سکتی تھی اس لیے میری طرف سے بھی سوری” اس کو معذرت کرتے دیکھ کر منیہا شرمندہ ہوئی تھی اس لیے لگے ہاتھوں اس نے بھی معذرت کر لی تھی اس دفعہ حیرت کا جھٹکا تابش کو لگا تھا مگر اپنی حیرت پہ قابو پاتے وہ مسکرایا تھا
“ناؤ فرینڈز؟” تابش نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بند کرتے مکہ بنا کے اس کے سامنے کرتے پوچھا تھا
“فرینڈز” منیہا نے بھی مٹھی بند کرتے ہلکے سے اس کے ہاتھ سے ہاتھ ٹکرایا اور تیزی سے پیچھے کرتی مسکرا کے بولی تھی پھر منیہا مسکراتے ہوئے باہر چلی گئی تھی اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد تابش بھی کچن سے نکل آیا تھا
روحان کی نظریں بار بار بھٹک کے مریم پہ جا رہی تھیں جو آج اپنے معمول کے حلیے سے ہٹ کے ہلکا پھلکا تیار ہوئی بہت پیاری لگ رہی تھی اور ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے تیاری پہ بھی اک نظر ڈال رہی تھی کہ کہیں کوئی کمی بیشی تو نہیں ہے اور روحان کے لیے ہمیشہ کی طرح نو لفٹ کا بورڈ لگا ہوا تھا
دوسری طرف زینیہ بھی اپنے اس دن کے رویے پہ شرمندہ تھی اس لیے رامش سے معافی مانگنا چاہتی تھی جو سامنے ہی صوفے پہ بیٹھا موبائل یوز کر رہا تھا مگر وہ سب کے سامنے اسے مخاطب بھی نہیں کر سکتی تھی
“چلو کوئی نہیں رامش بھائی کون سا کہیں بھاگنے لگے ہیں بعد میں سوری کر لوں گی” اک نظر رامش کو دیکھتے وہ بڑبڑائی اور پھر گہرا سانس بھرتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی
مغرب کے بعد لڑکے والے آ گئے تھے ان کے ساتھ لڑکا یعنی عادل آفندی خود بھی آیا تھا وہ چاہتا تھا وہ اپنی محبت کو خود اپنے نام کی انگوٹھی پہنا کے اسے اپنے نام کرے اسے دیکھنے کے بعد ان سب نے مائرہ کی ناک میں دم کیا ہوا تھا وہ اب پچھتا رہی تھی کہ اس نے انہیں اصل بات بتائی ہی کیوں
پھر تھوڑی دیر بعد مائرہ کو باہر لا کے عادل آفندی کے برابر میں بیٹھایا گیا تھا اسے اپنے پہلو میں اس کی موجودگی کی وجہ سے عادل خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہا تھا
“دیکھ لیں مسز ٹو بی میں ٹائم پاس نہیں کر رہا تھا بلکہ آپ سے سچا پیار کرتا تھا اور اللّٰہ کے فضل و کرم سے آج میں آپ کے پہلو میں پورے حق سے بیٹھا ہوں” عادل ہلکا سا اس کی طرف جھکتے سرگوشی میں بولا تھا مائرہ نے چونک کے اس کی طرف دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں ٹھاٹھے مارتا محبت اور احترام کا سمندر دیکھتے وہ جلدی سے نظریں جھکا گئی تھی اس کی اس حرکت نے عادل کے چہرے پہ مسکراہٹ کے پھول کھلا دیے تھے
پھر کچھ ہی دیر میں عادل نے مائرہ کو سرشاری سے اپنے نام کی انگوٹھی پہنائی تھی اور اسے اپنی انگلی میں انگوٹھی پہناتے دیکھ کر اس کا روم روم اللّٰہ کا شکر ادا کر رہا تھا رسم کے بعد ہر طرف مبارک سلامت کا شور اٹھا تھا
حسین صاحب نے نم آنکھوں سے مائرہ کی پیشانی چومی تھی آج سے ان کی یہ بیٹی ان کے گھر کسی اور کی امانت بن گئی تھی اپنے جگر گوشے کو خود سے جدا کرنے کا سوچ کے ہی ان کے دل کو کچھ ہوا تھا
مگر وہ جلد ہی خود کو سنبھالتے پیچھے ہٹے تھے کیونکہ جانتے تھے ان کی نم آنکھیں دیکھ کر وہ سب بھی رونے لگ جائیں گی اور وہ خوشی کے موقع پہ ایسا بلکل نہیں چاہتے تھے
رسم کے فوراً بعد سب مہمانوں کو صحن میں لایا گیا تھا جہاں مہمانوں کے حساب سے تین چار ٹیبل لگا کے کھانے کا کا انتظام کیا گیا تھا کھانے کے سارے انتظامات روحان اور ارسلان ہی دیکھ رہے تھے کیونکہ ان دونوں نے مائرہ کو بہن کہنا تھا اور اب جتنے بھائی کے فرائض تھے وہی نبھا رہے تھے
کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر بعد سب مہمان لڑکے والوں سمیت اپنے اپنے گھر چلے گئے تھے کیٹرنگ والوں کو بھی فارغ کرنے کے بعد اب صرف شکیل صاحب کی فیملی رہ گئی تھی اور نگہت بیگم تو ویسے ہی اوپر رہتی تھیں
“اللّٰہ کا شکر ہے سب اچھے سے ہو گیا” حسین صاحب، شکیل صاحب ان کی بیگم اور نگہت بیگم برآمدے میں موجود کرسیوں پہ بیٹھے تھے تابش رامش اور روحان اوپر چلے گئے تھے جبکہ وہ سب بہنیں اپنے روم میں تھیں
“ہاں بلکل اللّٰہ کا شکر ہے” شکیل صاحب نے بھی حسین صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی تھی
“حسین مجھے تم سے اک ضروری بات کرنی ہے” تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد شکیل صاحب نے کہا تو حسین صاحب نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا تھا
“تم جانتے ہو تمہاری بیٹیاں مجھے بلکل اپنی اولاد کی طرح عزیز ہیں اور ان کے بچپن میں ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ دو تو میری ہی بہو بنیں گی پہلے مناسب وقت نہیں تھا یہ بات کرنے کا مگر اب مجھے لگتا ہے وقت آ گیا ہے تم سے اپنی بیٹیاں مانگنے گا” شکیل صاحب کی کہی باتوں پہ حسین صاحب کو حیرانی کے ساتھ خوشی اور اطمینان کا احساس ہوا تھا مگر وہ بولے کچھ نہیں تھے
“میں تم سے رامش کے لیے زینیہ اور تابش کے لیے منیہا کا ہاتھ مانگتا ہوں” شکیل صاحب کی بات پہ حسین صاحب کے چہرے پہ اک پل کو سایہ سا لہرایا تھا جو نگہت بیگم سے پوشیدہ نہیں رہ سکا تھا اور انہیں لگا تھا اب انہیں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے
حسین صاحب کو یہی تھا کہ شکیل صاحب رامش کے لیے مریم کا ہاتھ مانگیں گے مگر اک دفعہ پھر انہیں مایوسی کا سامنا ہوا تھا وہ مریم سے پہلے مائرہ کے رشتے پہ لوگوں کی ڈھکے چھپے لفظوں میں کہی باتیں سن چکے تھے اور شاید اک دفعہ پھر سننا پڑیں گی انہیں یہ سوچ کے ان کا رنگ پھیکا پڑا تھا
“بھائی صاحب اس سے پہلے کہ آپ شکیل بھائی کو جواب دیں میری عرضی بھی سن لیں ان چند دنوں میں مجھے مریم اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز ہو گئی ہے کل مہینہ پورا ہو جانا ہے ہمارے گھر کا کام بھی ختم ہو گیا ہے ہم نے یہاں سے چلے جانا ہے میں چاہتی ہوں میں جاتے ہوئے آپ کی بیٹی کو بھی ساتھ لے جاؤں روحان کی دلہن بنا کے کیونکہ اب اس کے بغیر تو میرا گزارا نہیں ہے” اس سے پہلے کے حسین صاحب شکیل صاحب کو کوئی جواب دیتے نگہت بیگم کی بات نے ان پہ حیرت بھرا سکتہ طاری کر دیا تھا اور وہ بےیقینی سے انہیں دیکھے گئے تھے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...