(Last Updated On: )
عجوہ کی مہندی پر جو خواجہ سرا آئے تھے رونق لگانے ان میں فائزہ بیگم کو پنکی دکھائی دی اور وہ کبھی بھی اس چہرے کو بھول نہیں سکتیں تھیں جس نے آخری بار ان کا بچہ گود لیا تھا اور اپنے ساتھ لے گئے تھے انہوں نے پوری تقریب میں بہت بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی پر موقع نہ مل سکا ۔ شادی کے کچھ دن بعد وہ اس خواجہ سرا کا پتہ پوچھتے پوچھتے اس کے گھر تک پہنچ گئیں اور چھوٹتے ہی سب سے پہلے اپنے بچے کے بارے میں پوچھا ۔
ارے واہ بیگم صاحبہ آپکی ممتا جاگی بھی تو برسوں بعد ہننن جاؤ یہاں تمہارا کوئی بچہ نہیں یہاں ہم سب خواجہ سرا ہیں پنکی نے جلے دل سے کہا۔
خدا کا واسطہ لجھے میرے بچے سے ملوا دو میں مجبور تھی اپنے شوہر کے ڈر اور دنیا کی باتوں کے خوف سے میں نے اپنی ممتا کا گلا گھونٹ دیا تھا پر خدا گوا ہے زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے ماں ہوں نہ کبھی چین نہیں ملا اس دن آپ کو شادی کی تقریب میں دیکھا تو اپنے بچے کے ملنے کی امید دوبارہ جاگ گئی خدارا اک نظر دکھا دو مجھے میرا بچہ کہتے ہوئے فائزہ بیگم کی آواز رندھ گئی
اے بہن تیرے بچے کا مستقبل سنورانے کے لئے میں نے اسے محفوظ ہاتھوں میں دے دیا تھا اب میں بھی نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے پنکی نے دو ٹوک لہجے میں کہہ کہ منہ پھیر لیا۔
ایسے مت کہو تم کو یہ تو پتہ ہوگا کہ کس کو دیا تھا میرا بچہ تم نے پلیز رحم کرو اک ماں پر فائزہ بیگم نے سسکتے ہوئے کہا ۔
میں یہ تو نہیں جانتی کہ وہ کہاں لے کے گئی بچے کو پر کوشش کروں گی ڈھونڈنے کی اب تو وہ جوان ہو چکا ہوگا اور ہاں اک بات یاد آئی وہ میرے پاس جب تھا تب ہی حافظِ قرآن بن چکا تھا پنکی نے آنکھوں میں آنسو لئے بتایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر لوٹی تو اشہاب اسے خون خوار نظروں سے گھور رہا تھا ۔آ گئی اپنے کسی خاص سے مل کر اشہاب نے تِیر
چلایا ۔جس کا عجوہ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔جس پر اشہاب اور آگ بگھولا ہو گیا اور اس کی کلائی مڑوڑ دی ۔
آہ آؤووووچ چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے عجوہ نے درد سے کراہتے ہوئے کہا ۔اک تو شادی شدہ ہوتے باہر افئیر چلا رہی ہو اوپر سے اکڑ بھی دکھا رہی ہو اگر تمیں کوئی اور پسند تھا تو انکار کر دیتی مجھے کیوں آگ میں جھونکا تم نے؟؟؟ اشہاب غرّایا۔
بسسس بہت سن چکی آپ کے الزام خبردار جو اب اک لفظ بھی بولے تو عجوہ نے پہلی بار چلّا کر بات کی شرم نہیں آئی آپ کو اپنی ہی بیوی پر اتنا گندا الزام لگاتے ۔
ہاں میری غلطی ہے کہ میں نے آ پ کو بتایا نہیں کہ میں کس سے ملنے جاتی ہوں پر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ مجھے بد کردار کہیں دِل کیا آپ نے تو میرا مان بھی توڑ دیا جو آپ پر تھا ۔
سننا چاہتے ہیں تو سنیں جس سے میں ملنے جاتی وہ میرا منہ بھولا بھائی ہے اس نے میری عزت بچائی تھی اک درندے سے جب میں اک دن پارک میں گئی تھی اکیلی اداس تھی میں اس لئے مجھے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا سردیوں کی شام تھی جب اک غنڈہ آیا اور مجھے پریشان کرنے لگا تب اس مسیحا نے میری عزت بچائی اور جس سے بنا کچھ سوچے سمجھے میرا افئیر بنا رہے ہیں وہ کوئی لڑکا نہیں اک خواجہ سرا ہے بولتے بولتے عجوہ رو پڑی اور اشہاب شرمندگی سے نظر اٹھانے کے قابل نہ رہا۔۔۔۔
اشہاب اپنے کئے پر سچ میں بہت شرمندہ اسے خود پہ رہ رہ کہ غصہ آرہا تھا کہ اس نے کیسے اپنی نیک سیرت بیوی پر ایسا شک کیا
جو عورت اپنے ماں باپ بہن بھائی سب کو چھوڑ کر آتی ہے اسے محبت توجہ مان دینے کی بجائے اس پر شک کر کے اکثر میرے جیسے شکی مزاج لوگ اپنا گھر اپنے ہاتھوں اجاڑ لیتے ہیں اگر میں نے شروع دن سے اس بارے میں عجوہ سے بات کی ہوتی تو کبھی ہمارے بیچ یہ دوریاں نہ آتیں میں عجوہ سے سچے دل سے معافی مانگوں گا اور آج کے بعد کبھی بھی اپنی بیوی پر شک نہیں کروں گا اس نے دل میں پکا ارادہ کیا اور کچن کی طرف چل دیا جہاں عجوہ رات کا کھانا بنانے میں مصروف تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسی زخمی شخص کی تیمارداری کی نیت سے ہسپتال آیا تو دیکھا کہ اسے ہوش آگیا ہے اور اک خاتون اس کے ساتھ بیٹھی اسے سیب کاٹ کر کھلا رہی ہیں وہ ان کے پاس گیا اور رسمی سلام دعاء کے بعد حال چال پوچھنے لگا تبھی اس عورت نے پوچھا بیٹا آپ کون؟؟؟
جی میں۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتا پاس کھڑی نرس نے بتایا جی یہ وہی ہیں جنہوں نے آپ کے ہبی کی جان بچائی اور بروقت انہیں ہسپتال پہنچا دیا ورنہ اگر تھوڑی سی بھی دیر ہو جاتی تو مسئلہ ہو سکتا تھا نرس اپنی بات پوری کر کے اگلے مریض کی ڈرپ چیک کرنے چل دی ۔
اوہ بیٹا صدا خوش رہو فائزہ بیگم نے اس کے سر پے ہاتھ پھیر ڈھیر ساری دعائیں دے ڈالیں
اور سمیر رحمان نے بھی اس کا کندھا تھپ تھپا کر کہا خوش رہو بیٹا جس پر چاند ایسے مسکرایا جیسے فلک پر چودہویں کا چاند جگمگایا ہو تھوڑی دیر سمیر رحمان کے پاس بیٹھنے کے بعد چاند نےاٹھ کر واپسی کے لئے جیسے ہی اجازت طلب کی تو اس کے گلے کا اللّہ والا لاکٹ باہر آگیا جو سامنے سے سمیر رحمان کے ایکسیڈنٹ کی خبر سن کے آتی عجوہ نے دیکھ لیا۔
جتنی دیر میں عجوہ اس تک پہنچتی اسے دوسری طرف سے آتی نرس نے دوائیوں کے بارے میں بتانے کے لئے بلا لیا اتنی دیر میں چاند واپس چلا گیا اور جب عجوہ لوٹی تو وہ جا چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رات کے کھانے کے لئے تیزی سے ہاتھ چلا رہی تھی جب کسی نے پیچھے سے آ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا عجوہ نے گھبرا کر پیچھے دیکھا تو اشہاب اسے محبت سے دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا عجوہ نے اسکی آنکھوں کی۔
چمک دیکھ کر فورًا رخ موڑ لیا کیونکہ وہ اس سے صرف ناراض نہیں تھی بلکہ اس کا دل بھی توڑا تھا اشہاب نے اس پر شک کر کے ۔
کیا اس قابل بھی نہیں کہ آپ مڑ کہ اک نظر مجھے دیکھ لیں اس کے کان میں سرگوشی ہوئی پر وہ ایسے کھڑی رہی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو ۔
میں اپنے کئے پر نا صرف شرمندہ ہوں بلکہ خود بھی ٹوٹ سا گیا ہوں کیونکہ میں نے اپنی نیک سیرت بیوی پر شک کیا ۔
کیا میں معافی کے قابل نہیں؟؟؟ اشہاب کی آواز بھرا گئی وہ سچ میں اپنے کئے پر شرمندہ تھا اور ہاتھ جوڑے کھڑا تھا ۔
تبھی مڑ کر عجوہ نے اس کے آنسو پونچھے میرا دل ٹوٹا ضرور ہے پر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میرا مجازی خدا میرے سامنے ہاتھ جوڑے اور میں پتھر بن کے کھڑی رہوں
آپ اگر مجھے اعتبار اور مان دیتے تو کبھی یہ غلط فہمی ہوتی ہی نہیں میں وعدہ کرتی ہوں آج کے بعد زندگی کے ہر معاملے میں پہلے آپ کو اعتماد میں لوں گی پھر کوئی قدم اٹھاؤں گی عجوہ نے اشہاب کے آنسو پونچھ کر کہا ۔
اور میں بھی وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی بھی آپ پر شک کر کے اس پیارے اور پاک رشتے کا مان نہیں توڑوں گا اشہاب نے مسکرا کر کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجوہ جب تک واپس آئی تب تک وہ جا چکا تھا اور اک خواجہ سرا فائزہ چچی کے پاس کھڑا تھا او بہن میں نے بہت کوشش کی تیرے بچے کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مشکل سے اتنا پتہ چلا ہے کہ وہ فلاں فلاں پتے پر رہتا ہے اور بچوں کو ناظرہ کرواتا ہے اور باجی رخصانہ کا کچھ سال پہلے انتقال ہو چکا تھا پاس آتی عجوہ نے ساری بات سن لی تھی اور اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ چاند کی ہی بات کر رہے ہیں مطلب چاند میرا بھائی ہے ؟؟؟ سوچ کر عجوہ کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے میں نے ڈھونڈ لیا اپنے بھائی کو عجوہ کی آواز اتنی اونچی تھی کہ با آسانی سمیر رحمان کے کانوں تک پہنچ گئی۔
کس کو ڈھونڈ لیا آپ نے عجوہ بیٹا سمیر رحمان نے حیران ہو کر پوچھا اور فائزہ بیگم ڈر گئیں ۔
اسی معصوم کو جسے آپ نے اپنے جیتے جی لاوارث بنا دیا تھا میرا بھائی میرا نیلی آنکھوں والا بھائی میں اتنی بار ملی اس سے پر میری عقل نے اتنا بھی کام نہیں کیا کہ سمجھ جاتی وہ میرا بھائی ہے سمیر رحمان کے ساتھ ساتھ اس بار فائزہ بیگم بھی الجھ گئیں کہ آخر عجوہ کیا کہہ رہی ہے ۔
بیٹا جو بھی کہنا سیدھا کہو بات کو گول مول مت کرو فائزہ بیگم نے جھنجھلا کر کہا
اور آنسو بہاتی عجوہ نے چاند سے پہلی ملاقات سے لیکر اب تک کی ساری کہانی سنائی تو فائزہ بیگم کے ساتھ ساتھ اس بار سمیر رحمان بھی تڑپ گئے
میں ہمیشہ اندر ہی اندر گھٹتا رہا بے چین رہا اپنے بچے کو نکال کر چین مجھے بھی کبھی نصیب نہیں ہوا اور آج اتنا قریب تھا وہ پر میں بد نصیب باپ اسے گلے بھی نہیں لگا پایا
ہاں میرے جیسے ظالم باپ کی یہی سزا ہونی چاہیے میرے بچے نے اپنا فرض نبھا دیا اولاد ہونے کا میری جان بچا لی اور میں باپ ہو کے اپنا فرض نہ نبھا سکا
خدارا مجھے میرے چاند کے پاس لے چلو عجوہ فائزہ بیگم نے تڑپ کر کہا ۔
دل تو نہیں چاہتا آپ جیسے ظالم ماں باپ پر رحم کرنے کو پر ابھی بھی مجھ میں کچھ انسانیت باقی ہے چلیں کہتی عجوہ آگے بڑھ گئی اور فائزہ بیگم بھی جانے لگیں تو سمیر رحمان نے روک لیا مجھ بد نصیب کو بھی لے چلو انہوں نے سسک کر کہا تو فائزہ بیگم نے بنا کچھ بولے انہیں وہیل چئیر پر بٹھایا اور ساتھ لے چل پڑیں ۔
وہ لوگ کب سے دروازے کے باہر کھڑے دروازہ بجا رہے تھے پر اندر سے کوئی جواب نہ ملنے پر انہوں دروازے توڑنے کا فیصلہ کیا جیسے ہی دروازہ ٹوٹا سب بھاگتے ہوئے اندر آئے اور سمیر رحمان بھی اک ہاتھ سے اپنی وہیل چئیر چلاتے اندر آئے جیسے ہی سب صحن میں آئے تو دیکھا چاند سجدے میں تھا سب نے 5 منٹ اس کے اٹھنے کا انتظار کیا کہ شاید اب اٹھے اب اٹھے پر جب 5 منٹ بعد بھی وہ نہ ہلا تو عجوہ نے آگے بڑھ کے اسے ہلایا تو وہ لڑھک کے سیدھا ہوا عجوہ نے فورًا اس کی نبض دیکھی جو بند ہو چکی تھی چہرے پر اک نور تھا اک معصوم سی مسکان تھی
تڑپا ہوں میں
ترسا ہوں میں
بچہ ہوں میں
معصوم سا ہوں میں
ترسا ہوں میں ماں کی گود کو
تڑپا ہوں میں باپ کے پیار کو
ترسا ہوں میں ماں کی خوشبو کو
تڑپا ہوں میں باپ کی انگلی پکڑ کے چلنے کو
ترسا ہوں میں آنسوؤں میں ماں کی ممتا کو
تڑپا ہوں میں باپ کے سینے لگ کے رونے کو
ترسا ہوں میں ماں کے ہاتھ کے کھا نے کو
تڑپا ہوں میں باپ کے لاڈ اٹھانے کو
ترسا ہوں میں ماں کے ماتھا چومنے کو
تڑپا ہوں میں صدا ہی باپ کی شفقت کو
ترسا ہوں میں ماں کی دعاؤں کو
تڑپا ہوں میں آج تک باپ کی اک نظر کو۔۔۔۔۔
یہ چاند کے بچپن کی وہ ڈائری تھی جسے اس کے ٹیبل سے اٹھا کر سمیر رحمان پڑھتے ہوئے خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے تھے اور یہ ندامت کے آنسو تو اب انہیں ساری زندگی بہانے تھے
ختم شد