جندر پانی سے چلنے والی ایک چکی ہے۔ اسے پن چکی، گراٹ یا آسیا بھی کہا جاتا ہے۔ جندر پتھر کے پاٹوں سے بنی ہوئی قدیم ترین مشین ہے جیسے مختلف علاقوں میں گراٹ بھی کہتے ہیں۔ جندر یا گراٹ تیز رفتاری کے ساتھ بہنے والے ندی نالوں پر بنائی گئی چکی ہے۔ انھیں بجلی، پٹرول، ڈیزل کی ضرورت نہیں۔ جندر کو بنانے کے لیے سب سے پہلے ایک ”چرخ” تیار کیا جاتا ہے۔ چرخ کو لکڑی سے تیار کرنا پڑتا ہے اور چرخ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے لکڑی کے پنکھ لگائے جاتے ہیں جو پتھروں کو گھومنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس کے بعد لکڑی ہی سے” چھل” تیار کیا جاتا ہے جس کی مدد سے جندر کی رفتار کو آہستہ یا تیز کیا جاتا ہے۔پھر دو بڑے گول پتھر تیار کیے جاتے ہیں ان پتھروں کو ماہر کاری گر تیار کرتا ہے اور چرخ کے نیچے ایک چھل کڑی لگی ہوتی ہیں جس کے اوپر چرخ لگایا جاتا ہے۔ جندر کے بڑے دو گول پتھروں کو ”پڑھ ”کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان سوراخ کیا جاتا ہے نیچے والے پڑھ کے نیچے ایک لکڑی سے بنایا ہوا سوار ہوتا ہے جو اوپر والے پڑھ کو مضبوط کرتاہے اور چلنے میں مدد کرتا ہے۔ ان پتھروں کو بہت محنت و مشقت سے تیار کیا جاتا ہے اور یہ پتھر کافی وزن دار ہوتے ہیں۔ ایک ”ٹھکنی” ہوتی ہیں جو لکڑی کے چھوٹے سے ٹکڑے سے بنائی جاتی ہے۔ٹھکنی کی مدد سے ”ٹھٹھاڑے ”میں سے دانوں کو آہستہ آہستہ گرنے میں مدد کرتی ہے۔ٹھٹھاڑا ایک بڑی گول لکڑی کو اندر سے کھوکھلا کر کے دانے ڈالنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ جندر کے نیچے لگے ہوئے چرخ پانی کی تیز دھار سے حرکت میں آتے ہیں چھل کی مدد سے جندر کے پاٹ کا وزن کم کیا جاتا ہے جس سے جندر کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔چھل چرخ کے ساتھ ہوتا ہے۔ جندر کے پاٹوں کا اوپر والے حصہ ایک مخصوص رفتار سے چلتا ہے جو پتھروں کے بڑے بڑے پاٹوں کو چلاتا ہے۔ جندر کو چلانے کے لیے ایک پانی کی نالی بنا کر لائی جاتی ہے اور ایک بڑی گول لکڑی کو اندر سے کھوکھلا کر کے ناوا بنایا جاتا ہے جس میں پانی ڈال کر چرخ کے ایک حصے پر گرایا جاتا ہے۔ پانی کو۲۰فٹ کی اونچائی سے نیچے چرخ کے ایک طرف گرایا جاتا ہے۔ پانی جتنا زیادہ ہوتا ہے جندر اتنا ہی اچھا چلتا ہے اور اچھا آٹا پیستا ہے جب کہ پانی کم ہونے کی صورت میں اس کی رفتار بھی کم ہو جاتی ہے اور آٹا بھی اچھا نہیں پیستا۔ پتھر لکڑی سے روایتی اوکھوں میں دیودار کی لکڑی سے بنائے گئے موسلوں کے ذریعے دانوں کو پیس پیس کر آٹا بنایا جاتاہے اور آٹے کو ایک طرف کرنے اور ماتر گرانے کے لیے ایک کوچی بنائی جاتی ہے۔ ماتر جو پڑھ کے آگے لگی ہوئی آٹے کی ڈیری کو ماتر کہتے ہیں۔ کوچی کو چیڑ کے نوک دار پتوں سے بنایا جاتا ہے۔ ”کوچی” دراصل چھوٹا سا جھاڑو ہوتا ہے۔ جندر کو چلانے والا ”جندروئی” کہلاتا ہے اور جب جندر میں کوئی شخص دانے لے کر آتا ہے تو وہ بولتاکہ ”پڑائی” کتنی ہو گی؟ تو جندروئی کہتا کہ ایک من کے ساتھ ۳ کلو اور ۱۰ من کے ساتھ ۳۰ کلو پڑائی ہو گی۔ جب جندر میں کوئی خرابی آجاتی تو اچھے سے اچھے کاری گر کو بلاتے تھے کیوں کہ عام کاری گر ٹھیک نہیں کر سکتا ہے اس لیے جندر جب بھی خراب ہوتا تو وہ کسی اچھے سے کاری گر کو لاتے جو جندر کے اندر کے تمام چھوٹے موٹے کام کو جانتا ہوں تو اس کو جندر ٹھیک کر میں آسانی ہوتی ہے۔جندر میں روزمرہ کام آنے والے ہتھیار تیشہ، کلبتر(آری)، ہتھوڑی،پلاس وغیرہ ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ پانی کم ہونے کی صورت میں جندر بھی کم ہوتے جارہے ہیں کیوں کہ اب بجلی پر چلنے والی چکیاں آ گئی ہیں اور اب زمین سے کاشت کاری بھی بہت حد تک کم ہو گئی ہے۔ لوگوں نے زمین داری کرنا ختم کر دی ہے جس کی وجہ سے لوگ جندروں کا رُخ نہیں کرتے۔ پرانے زمانے میں لوگ بہت طاقت ور ہوا کرتے تھے وہ دیسی سبزیاں، پھل، دیسی دودھ اور جندر سے پیسا گیا مکئی اور گندم کا آٹا استعمال کرتے تھے۔ آج کے دور میں سب کچھ بازار سے ملتا ہے اور ان میں بہت حد تک ملاوٹ ہوتی ہے اس لیے لوگوں میں بہت زیادہ بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ لوگوں نے تمام پرانے نظام کو چھوڑ دیا ہے اس لیے لوگوں نے جندروں کی طرف توجہ دینا چھوڑ دی ہے اب آٹا بازار سے پسا ہوا مل جاتا ہے اور دیگر ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ جندر اب بہت حد تک کم ہو گے ہیں جندر ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور ہمیں چاہیے کہ اپنے ثقافت کے طور طریقے کو تازہ کریں۔ یہ ہماری پہچان ہے جندر صرف دیہاتی علاقوں میں محدود پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ پہاڑی دیہات میں جندر کو چلانے کے لیے پانی بھی آسانی سے میسر ہو جاتا ہے۔ جندر کے ناوے کے پیچھے ایک چپہ لگایا جاتا ہے جو پانی کو بند کرنے اور کھولنے میں مدد کرتا ہے۔اب ہماری نئی نسلوں کو جندروں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کیوں کہ وہ اب بازاروں سے اپنی ہزاروں ضروریات پوری کرتے ہیں ان کو کیا پتا کہ جندر کیا ہے۔ اب ایسا اس لیے ہو رہا ہے کے لوگوں نے زمین سے کاشت کاری کرنا چھوڑ دی ہے اب نئی نسلوں کو اس بارے میں پتا چلے کہ ہمارے آباؤ اجداد اسی زمین سے کاشت کاری کر کے اپنی زندگی کی ہزاروں ضروریات پوری کرتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ سے پرانے نظام ختم ہو گئے ہیں آج کی نسل کو چاہیے کہ وہ اپنے آباؤاجداد کی طرح اطوار طریقوں کو بحال کر کے اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرے۔اپنے آباؤاجداد کی طرح پرانی رسم ورواج کو بحال کریں ۔جندر ہماری ثقافت کا حصہ رہا ہے اور یہ مٹتی ہوئی تہذیب ہے اختر رضا سلیمی نے اس دم توڑتی تہذیب کے حوالے سے ”جندر” نامی ناول لکھ کر اسے زندگی دینے کی کوشش کی ہے۔ جندروں پر پہلے بہت ہجوم ہوتا تھا۔لوگ تمام رات اپنی باری کے انتظار میں گزارتے تھے۔ موجودہ مشینی عہد نے سب کچھ ختم کر دیا انسان سہل طلب ہو گیا اور جندر کی مشقت بھی کم ہو گئی ہیں۔ میری یہ کاوش اپنی ثقافت کی محبت میں کیسی ہے؟ قارئین کی آرا مجھے حوصلہ فراہم کرے گی۔ امید ہے میری غلطیوں کو نظر انداز کر کے اصلاح کی جاے گی۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...