جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کی دھڑکنیں تیز۔۔۔ اور سانسوں کی رفتار سست پڑ رہی تھی۔ دم آنے اور جانے کے ساتھ وہ مر مر کر جی رہی تھی۔ اس کے اندر کا اضطراب اس کے جسم کو ہولے ہولے لرزا رہا تھا۔ کسی انہونی کے خوف سے وہ آپریشن تھیٹر کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ وہ خاموش مگر بیقرار نجانے کب سے یونہی بیٹھی تھی کہ دفعتا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر برآمد ہوا، بےاختیار ہی اس کی نگاہ اس جانب اٹھی۔ضیغم نے ایک نظر اسے دیکھا اور سرعت سے ڈاکٹر کی طرف بڑھ گیا۔ وہ خاموشی کی چادر تانے ہمہ تن گوش تھی باوجود اس کے، ڈاکٹر اور ضیغم کے درمیان ہونے والی گفتگو وہ سن نہیں پا رہی تھی، وہ دھیمی آواز میں گفتگو کر رہے تھے۔ لیکن کچھ باتیں سننے کے لیے کانوں کی ضرورت نہیں ہوتی احساس کی ڈور سے بندھے تعلق الہام کی صورت حال دل بیان کر دیتے ہیں۔
ضیغم نہایت آہستگی سے اس کی جانب مڑا اور۔۔۔وہ ضیغم کی آنکھوں میں وہ تحریر پڑھ چکی تھی جسے سننے کے لیے وہ اب تک خود کو تیار نہیں کر پائی تھی۔۔۔
**********”*””***”*********
ملگجی تاریکی میں ہو کا عالم اور گھڑی کی ٹک ٹک۔۔۔ ایک ایک سیکنڈ گنتی دھڑکنوں کی رفتار بھی گویا رک رک کر چل رہی تھی۔ جونہی گھڑی نے بارہ کا ہندسہ عبور کیا۔۔۔ تیز آتشیں روشنی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔۔۔ دور تک پھیلے کشادہ ہال میں ہاؤ ہو کا شور بلند ہوا اور اسی ہاہاکار کے بیچ نورین نے سہ منزلہ کریم کیک پر نشتر پھیر ڈالا۔۔۔ سفید جگمگاتی امبریلا فراک جو قدموں تک آکر آگے سے ذرا سی اٹھی ہوئی تھی۔۔ ساتھ سیاہ ٹائٹس جن کے سرے پر بھی نازک نگینے جگمگارہے تھے۔۔ اس کی غلافی آنکھوں کو بیوٹیشن کے ہنر نے اوج کمال بخش دیا تھا اس کا متناسب سراپا محفل کی جان تھا۔۔ کیوں نہ ہوتا آج کی محفل اس کے ہی نام تھی۔۔۔
کیک کٹنے کے بعد دھیمے سروں نے ماحول کو خوابناک سا بنادیا۔ تقریبا سب ہی لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔۔ مگر نورین کی نظریں کسی کی متلاشی تھیں۔۔ آنے والے کو دیر ہو چکی تھی۔ اب تو کیک بھی کٹ چکا تھا مگر نورین کی چشم انتظار کو قرار نہ ملا۔۔ اس نے بیزار ہو کر ایک بار پھر ہندسوں پر نگاہ جمائی۔۔ اور جھنجلا کر ایک بار پھر نظر اس طرف اٹھ گئی جہاں داخلی راستہ تھا۔۔
اس برتھ ڈے پارٹی کا سارا انتظام گھر کے لاؤنج میں ہی کیا گیا تھا مہمانوں میں قریبی دوست احباب ہی تھےاور ان میں بھی زیادہ تر نورین کی ہی گیدرنگ تھی۔۔
“تیرا خیال بھی تیری طرح مکمل ہے
وہی شباب وہی دلکشی وہی انداز”۔۔۔
نورین نے آواز کے تعاقب میں مڑ کر دیکھا اور بے اختیار منہ پر ہاتھ رکھنے پر مجبور ہوگئی۔۔ اس کے انداز میں استعجاب تھا۔۔ اوہ مائی گڈنیس۔۔۔۔؟ اشعر یہ تم ہو۔۔۔؟ اور وہ ہاتھ ماتھے تک لے جاتا پکے شاعرانہ انداز میں داد وصول کر رہا تھا۔۔۔واٹ آ سر پرائز؟ اس کی حیرت تھی کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتی تھی۔۔ آسٹریلیا سے کب آۓ؟ تم نے بتایا ہی نہیں؟ اور وہ مسلسل مسکرا رہا تھا۔۔ اگر بتا دیتا تو بھوتوں کی طرح پھیلتا ہوا تمھارا منہ کیسے دیکھتا۔۔۔اور ہنس دیا۔۔ نورین نے اس کے بازو پر ہلکی سی دھپ جمائی۔۔ مائی گاڈ اشعر تم بالکل نہیں بدلے۔۔۔ ویسے تمھاری اردو تو کمال کی ہوگئی ہے۔۔۔ لگتا ہے ٹینزی نے رٹواۓ ہیں؟ پھر جیسے یکدم خیال آیا۔۔ ارے تم اسے ساتھ نہیں لاۓ؟ نظر نہیں آرہی؟ اس کی سیٹ کنفرم نہیں ہو پائی۔۔ اس کا پی ایچ ڈی کا لاسٹ سیمسٹر چل رہا ہے۔۔ مجھے کمپنی نے ٹرانسفر کیا ہے۔۔ ادھر اسلام آباد میں۔۔۔ کچھ دن بعد جوائن کرنا ہے۔۔۔ سوچا چل کر تمھارا ری ایکشن دیکھوں۔۔ تم کیاکروگی؟ مسکراہٹ اس کے چہرے سے چھوٹی نہیں تھی۔۔۔ ادھر یہ سلسلہ چل رہا تھا اور ادھر وہ اسپیشل مہمان۔۔۔۔ جس کے لیے اس نے دن بھر انتظار کی اذیت کاٹی تھی۔۔۔ لان سے اندر داخل ہوتا اچک اچک کر لوگوں کی بھیڑ میں اسے تلاش کر رہا تھا۔۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں سفری سامان تھا، چنانچہ آگے بڑھنے مین سخت دقت محسوس کر رہا تھا۔۔ بالآخر اس کے ضبط کا یارا نہ رہا اور اسے اپنی زبان کو تکلیف دینا پڑی۔۔۔ آ آ آ آ آ آ۔۔۔۔ وہ اتنی زور سے چیخا کہ سارے ہال کو سانپ سونگھ گیا۔۔
لمحے بھر کو کوئی سمجھ ہی نہ سکا ہوا کیا ہے؟ نورین کو جب ہوش آیا تو اک جم غفیر تھا اور زعیم۔۔۔۔۔۔!
حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وہ لپک جھپک اس تک پہنچی اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرتی وہ نورین کی گھورتی آنکھیں تاڑ چکا تھا۔ چنانچہ اسے موقع دیئے بغیر اسٹیشن سے چھوٹی ٹرین کی طرح شروع ہوگیا۔۔۔ کیا یار آپی! یہ خوب رہی؟ میں اتنی دووور(لمبا کھینچ کر) سے آپ کے لیے۔۔ صرف اور صرف آپ کے لیے آیا۔۔۔اور یہاں کوئی پروٹوکول ہی نہیں؟ پروٹوکول ایک طرف۔۔۔۔ کوئی لفٹ تک نہیں۔۔۔؟ اور کچھ نہیں بندہ حال احوال پوچھ لیتا ہے۔۔ چائے پانی پوچھ لیتا ہے۔۔ آخرکو اتنے عرصے بعد۔۔۔۔۔ اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔۔ کیونکہ نورین نے اس کے منہ کو سختی سے دبوچ لیا تھا۔۔۔ اور اسے آنکھیں دکھاتے ہوۓ مزید ڈرامہ کری ایٹ کرنے سے روکنے کی اپنی سی کوشش کی۔۔ لیکن وہ زعیم تھا جسے وہاں موجود سب ہی لوگ جانتے تھے۔۔۔ توبہ ہے زعیم۔۔۔تم تو بس۔۔ اس کی ٹرین رکی تو بمشکل گیپ نکالا۔ کہاں رہ گئے تھے؟ صبح سے سب انتظار کر رہے ہیں تمھارا۔۔؟ بس رینگ رہی تھی۔۔۔، بس اسی لیے۔۔۔ اس نے جملہ مکمل بھی نہ کیا تھا کہ نورین کا موبائل چیخ پڑا۔ کال اہم تھی۔ اس نے سب کو نظرانداز کرکے موبائل کان سے لگایا۔ اب تک سب کچھ معمول پر آ چکا تھا۔ دوسری طرف کیا کہا گیا وہ ٹھیک سے سن نہ سکی۔۔ شور سے ہٹ کر قدرے پرسکون گوشے میں آکر اس نے کال سنی اور۔۔ اس کا پورا وجود سن ہوکر رہ گیا۔۔ فوری طور پر اسے سمجھ ہی نہیں آیا، جو کچھ اس نے سنا ہے اسے دوسروں تک کیسے پہنچاۓ؟ اس نے کوئی بھی بات کیے بغیر کال کاٹ دی۔ کال دوبارہ نہیں آئی۔ کہنے والے نے جو کہنا تھا وہ کہہ چکا تھا۔ وہ دھیرے سے مڑی اور ایک نظر خوش باش بےفکر چہروں پر ڈالی۔ زعیم جو نورین کی طرف ہی دیکھ رہا تھا، فکرمندی سے آگے بڑھا۔ کیا ہوا آپی؟ کس کی کال تھی؟ اس نے حلق میں اتر آنے والی کوئی چیز بمشکل نیچے اتاری۔۔ آغا جان کی ڈیتھ ہو گئی۔۔۔ اس کے منہ سے آواز سرسراہٹ کی مانند نکلی۔ یکا یک اسے پانی کی شدت سے طلب محسوس ہوئی تھی۔
* * * * * * * * * * * * * * * *
وہ اس کے بازو سے جھولتی چلی جا رہی تھی۔ سیاہ رات کے جگمگاتے تارے ان کے سروں پہ الٹے پڑے تھے۔ سیاہ تار کول کی سڑک پر ان کے ڈگمگاتے قدم تھکان زدہ گھوڑےکی ٹاپوں سے مشابہ تھے۔ اس وقت سڑک کا یہ حصہ سنسان تھا روشنیاں پیچھے کہیں دور رہ گئی تھیں۔ مگر ان دونوں کو کسی بات کا ہوش نہیں تھا۔ وہ اپنی بدمست چال اور ایک دوسرے کی چھچھلتی سنگت انجواۓ کر رہے تھے۔ یہ اس بد مستی کا ہی شاخسانہ تھا کہ دن کی روشنی میں بھی جہاں لوگ تنہا سفر سے کتراتےتھے، وہ بڑی بے خوفی سے چلے جا رہے تھے۔ آئی لو یو ایب۔۔! اس کے ساتھی نےچلتے چلتے سر جھلا دیا، گویا اس نے بھی تجدید کی۔ نو۔۔ وہ ضدی ہوئی۔ تم بھی مجھے بولو۔ اس نے خمارآلود آواز میں مطالبہ کیا۔ او نینسی سی سی۔۔ اس کے منہ سے سیٹی جیسی آواز نکلی۔۔ بولا ہے۔۔ بابا۔ کتنی بار بولے۔ سات مہینے سے یہ ہی تو بولا رہا ہوں۔ ابھی شام کو بھی بولا چار بار ادھر بیچ پر بھی بولا۔ اب بس۔۔ یار۔۔! نشے کی وجہ سے اس کے لفظ بھی ڈگمگا رہے تھے۔ نو۔۔! تم ابھی بولو۔۔! بولو۔۔۔ وہ ضد پر اتر آئی۔۔ ایب نے بیزاری سے اس کی طرف دیکھا ماتھے سے ٹھنڈے پسینے یوں صاف کیے جیسے قسمت کی انمٹ لکیریں پونچھ رہا ہو۔۔۔۔۔!
***** ****** ***** ****
اس نے ماتھے سے ٹھنڈے پسینے یوں صاف کیے جیسے قسمت کی انمٹ لکیریں صاف کررہا ہو۔۔ اور نظر اچکا کر اپنی تازہ تازہ گرل فرینڈ کو دیکھا، ماربل بالز سی نیلی آنکھیں اور ان میں ڈولتے سرخ ڈورے۔۔۔ کسی بھی ذی ہوش کو مدہوش کرنے کو کافی تھیں۔ روپہلی سنہری کرنوں سی زلفوں سے ہوا کھیل رہی تھی سفید رنگت کھلی ہوئی چاندنی کو مات دیتی تھی۔ مگر ایب کی نگاہیں تو کچھ اور ہی منظر دیکھ رہی تھیں۔۔ یکایک وہ سنسان سڑک اور اس نشیلی رات کا فسوں۔۔۔ سب کچھ وقت کی رفتار میں کہیں تحلیل ہوگیا۔۔ اور کچھ باقی رہ گیا تو۔۔ صرف دو غزالی آنکھیں۔۔۔اور چاندی سا اک بدن۔۔۔!
آپ ہی آپ اس کے لبوں کو اک دلکش مسکراہٹ نے چھو لیا۔ وہ دھیرے سے قدم بہ قدم چلتا اس کے پاس آیا۔۔ اس کی آنکھوں کے چمکتےجذبات کی لو نینسی کے چہرے پر منعکس ہونے لگی۔ وہ اک ہیجان انگیز حیرانگی سے ایب کو تکنے لگی۔۔ پچھلے سات ماہ میں ایسی جگمگاہٹ اس کے چہرے پر نہ چمکی تھی۔۔ اور آج اک الوہی سی قوت نے اس کے پورے وجود کا احاطہ کر لیا تھا۔ ایب نے نینسی کو اپنے آپ میں بھینچ لیا گویا اپنی ذات کا حصہ بنا ڈالنا چاہتا ہو۔۔ آئی لو یو۔۔۔ لو یو سو مچ۔۔۔۔ ایب کے لفظ سرگوشی میں ڈھل گئے۔۔۔۔! محبت کے ایسے مظاہرے پر وہ پگھل پگھل گئی۔۔ سارے خوف سارے خدشات اور تشنگی مٹ گئی۔۔ اوہ۔۔ ڈارلنگ۔۔ آئی کانٹ بلیو۔۔۔۔اس کا جملہ منہ میں ہی رہ گیا۔۔۔اور اسکا پریمی کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا۔۔ نینسی کچھ نہ سمجھ سکی کہ اچانک اسے کیا ہوا ہے۔۔ وہ ساکت کھڑا اسے دیکھ رہا تھا غالبا پہچاننے کی کوشش کررہا ہو۔ اس کی آنکھوں میں قطعی اجنبیت تھی۔۔ واٹس رانگ ود یو۔۔ وہ جھنجلا کر رہ گئی۔۔ ایب نے بمشکل حواس بحال کیے اور نینسی کا دھیان بٹانے کے لیے دوبارہ اسے بانہوں میں سمیٹ لیا۔۔ نتھنگ ڈئیر۔۔ اسے فورا ہی اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔۔ نینسی الجھ کر اس کے قریب آ تو گئی لیکن اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی تھی۔ اور یہ بات اس کے لفظ ہی نہیں لمس بھی کہہ رہا تھا۔جذبات سے عاری قربت۔۔
محبت کھڑی تماشہ دیکھتی تھی۔
ہوس ناچ رہی تھی۔
* ******* ******** *****
اک کہرام سا اٹھا تھا اس کے روح و دل میں۔۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کہاں تھی، کہاں ہے؟ بس وہ اتنا جانتی تھی اس کی دنیا اندھیر اور جینے کا مقصد فوت ہو چکا تھا۔۔۔ اس کے آغا جان جا چکے تھے۔۔۔ اب وہ تھی اور زندگی کا بیکراں سمندر۔۔۔۔!
ضیاءالدین صاحب نے آگے بڑھ کر اس کے شانے پر اپنا مشفق ہاتھ رکھا۔۔ صبر میرے بچے صبر۔۔۔! اک جانکاہ سرد آہ اس کے سینے سے برآمد ہوئی اور وہ ان کے سینے سے لگ کر سسک پڑی۔ جذبات کا اک جوالہ اٹھا تھا جو اندر اندر بہتا رہا۔۔۔
****** ******* *******
قصر شہیر سوگواریت میں ڈوب گیا تھا۔ گھر کا لان مردوں سےبھرا ہوا تھا۔ ضیاءالدین صاحب کے حلقہ احباب اور عزیزو اقارب کے علاوہ ہر وہ شخص جو سمیع الدین فیروز انصاری سے زندگی میں ایک بار بھی ملا تھا اس نابغہ روزگار شخصیت کے نقصان پر دل سے اداس تھا۔
گھر کے لاؤنج میں قرآن پڑھنے کی بھنبھناہٹ گونج رہی تھی۔ سطوت بیگم نم آنکھوں کے ساتھ پرسہ وصول کر رہی تھیں۔ تدفین میں شریک ہونے کی وہ اپنی سی کوشش کر رہی تھیں مگر فلائٹ اویلیبل نہ ہو سکی۔ دوسری طرف ایک خیال اور بھی ہتھوڑے کی طرح ان کے اعصاب کو جکڑے ہوۓ تھا۔ عشال کا کیا ہوگا؟
***** ***** ***** ***
گو ٹو ہیل۔۔۔! نینسی نے اسے اتنی زور سے خود سے دور کیا تھا کہ وہ لڑکھڑا کر رہ گیا تھا۔
نینسی۔۔۔! ایب غصے سےکہہ کر رہ گیا۔ وہ پرواہ کیے بغیرچلائی آئی ہیٹ یو nave۔۔۔ تم ہمیشہ ایسے ہی کرتا۔۔۔ آئی نو۔۔! یو کانٹ لو ودھ می۔۔ پھر تم میرے ساتھ کیا کرتا۔۔۔؟ جاؤ اسی بچ کے پاس، جو تمارا ادر۔۔۔ دل کے مقام پر اس کا سینہ بجایا۔۔ تمارا مائنڈ میں ہے۔۔۔،
ایب نے تھکی ہوئی ایک نظر اس پر ڈالی۔ وہ شروع ہو چکی تھی حسب معمول، اب چاہے وہ جتنا بھی اسے یقین دلاتا۔۔ اس نے تسلیم نہیں کرنا تھا۔
اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔ اس کی زندگی میں آنے والی ہر لڑکی اس کے معاملے میں ان سکیور کیوں رہتی تھی؟ یہ بات وہ اب تک سمجھ نہیں سکا تھا۔۔ آج سات سال بعد بھی۔۔۔ دھند میں لپٹی ایک رات میں کھڑا تھا۔۔۔ سڑک کنارے، بالکل اسی طرح جیسے اس وقت کھڑا تھا۔ تہی داماں۔۔۔، تہی دست۔۔۔!
نینسی اپنی کہہ رہی تھی مگر وہ اسے نہیں سن رہا تھا۔۔۔ اے! آئی ٹاک ٹو یو۔۔ نینسی بول بول کر تھکی تو اسے جگانا چاہا۔۔ مگر اس کی ضرودت نہیں پڑی، اسے ہوش اس وقت آیا جب کوئی سخت چیز اسکی پشت سے ٹکرائی۔
ابھی وہ سنبھلا نہیں تھا کہ نینسی کی چیخ بلند ہوتے ہوتے گھٹ گئی۔۔ بس رومیو۔۔۔ بہت ہو چکا رومانس۔ اب ذرا کام کی بات کرو۔ ایب کو ساکت ہوجانا پڑا۔۔۔ کیونکہ وہ دو سیاہ فام تھے جن میں سے ایک نے مشاقی سے نینسی کو دبوچ رکھا تھا اور دوسرے کے اسلحے کی زد پر وہ خود تھا۔۔۔ وہ چاہ کر بھی حرکت نہ کرسکا۔۔۔ اپنی جیبیں خالی کرو۔۔ اسلحہ بردار نے سخت لہجے میں دونوں کو حکم صادر کیا۔۔۔ ایب نے غصیلے انداز میں والٹ نکال کر اپنے کندھے سے اونچا کردیا۔ ہمارے پاس یہ ہی ہے، اس کے سیاہ ہاتھ نے فورا سے والٹ جھپٹ لیا۔ اور ہاتھ مار کر ایب کا جسم ٹٹولنےلگا اس کامقصد صرف تلاشی تھا۔ اور دوسرے سیاہ فام کی گرفت میں مچلتی نینسی پر نگاہ جماۓ رکھی۔ میں نے کہا ناں۔۔۔؟ ہمارے پاس بس یہی ہے؟ تم خواہ مخواہ وقت برباد کر رہے ہو میری گرل فرینڈ کو چھوڑ دو۔۔۔; ایب کے لہجے میں سختی تھی۔ سیاہ فام نے اپنے گندے دانت نکالےاور بے شرمی سے بولا۔ ابھی بھی تمھارے پاس بہت کچھ ہے رومیو۔۔۔! اور نینسی کو بیہودہ اشارہ کیا۔۔ اور دونوں واہیات ہنسی ہنس دیے۔۔ یہاں ایب کی قوت برداشت ختم تھی۔ اس نے پلٹ کر کہنی سیاہ فام کے دانتوں پر جماڈالی۔۔ نتائج کی پرواہ کیے بغیر۔۔۔ مخالف حملے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔ اوندھے منہ گر پڑا۔ ایب نے اسی پر بس نہیں کیا، ایک زوردار ٹھوکر اس کے منہ پر دے مارنا چاہی مگر اس نے وہیں ایب کی ٹانگ دبوچ کر الٹی طرف گھما ڈالی۔ ایب کے منہ سے درد تیز آواز کی صورت نکلا۔۔۔،اب اسکی ٹھوکریں تھیں اور ایب کا جسم۔۔۔ وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔۔ نینسی چیخنا چاہتی تھی مگر اس کا منہ سیاہ پنجوں میں جکڑا تھا۔۔۔ اس کا دوست گالیوں کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھی کے جوش میں اضافہ کررہا تھا۔ جیسے ایب کی یہی اوقات تھی۔۔ ایب کی اچھی طرح درگت بنا دینے کے بعد، جب ذرا غصے کا گراف نیچے آیا تو۔۔ سیدھا ہوگیا، پھولی سانس کے ساتھ گن ایب پر تانی۔۔۔ زخمی حالت میں سڑک پر پڑا ایب دفاع کی پوزیشن میں نہیں تھا۔۔ نینسی بری طرح تڑپی۔۔۔، اس نے انگلی ٹریگر پر جمائی۔۔۔
نینسی کی آنکھیں خوفزدہ انداز میں پھیلیں اور چہرے کی سفیدی میں اضافہ ہوگیا۔۔
**** ***** ***** *****
وہ عشاء کی نماز کےبعد ان کے کمرے میں آئی تھی۔ ضیاءالدین صاحب کو چاۓ دینے اور اپنا آخری جواب بھی۔۔۔!
السلام و علیکم ماموں جان۔۔، اس نے آہستگی سے انھیں سلام کیاتھا۔۔ ماموں جان چاۓ۔ اور کپ آگے بڑھایا۔۔، ضیاءالدین صاحب نے چاۓ کا کپ لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔۔، کچھ دیر میرے پاس بیٹھ سکتی ہو؟ انھوں نے سوال کیا تھا مگر ان کا لہجہ معمولی سے تحکم کے زیر اثر تھا۔
وہ قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ چال میں واضح سوگواریت تھی۔
“دیکھو بیٹا لمحہء موجود ہی زندگی ہے۔ اور اصل حقیقت بھی۔” ضیاءالدین صاحب نے بات کا آغاز نرم مگر ٹھوس لہجے میں کیا۔۔ “موت کی حقیقت سےتم اچھی طرح واقف ہو۔۔ میں اس پر کوئی تقریر نہیں کرنا چاہتا۔۔!” وہ خاموش رہی۔۔ “میرا خیال ہے کہ تم اتنی تو سمجھدار ہو کہ میری بات کوسمجھ سکو، میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں؟” “ماموں جان میں یہاں۔۔۔”، “ہمیں اب پاکستان جانا چاہیۓ۔۔۔۔ تم پیکنگ کرلو۔ میں ٹکٹ بک کروارہا ہوں۔۔۔” اور ہاتھ میں پکڑا نظر کا چشمہ آنکھوں پر چڑھا لیا۔۔۔ اس نے بہت کچھ کہنا چاہاتھا مگر ضیاءالدین صاحب اسے مزید موقع نہیں دینا چاہتے تھے۔۔۔، یہ وہ اچھی طرح محسوس کر چکی تھی، لیکن خاموش رہنے کی لیےتو وہ بھی نہیں آئی تھی۔۔۔ “میں ٹھیک ہوں اب ماموں جان۔۔، آپ بے فکر ہوکر پاکستان جاسکتے ہیں۔۔” آنکھوں کی نمی اندر اتارتے ہوۓ وہ دھیمے مگر اٹل لہجے میں کہتی ہوئی اٹھ گئی۔۔۔!
ضیاءالدین صاحب نے اسے کمرے سے جاتے ہوۓ بغور سنا تھا اور دیکھا بھی۔۔۔ خیر۔۔۔ مایوسی تو انھیں بھی چھو کر نہیں گزری تھی۔ اس کےلفظوں کا ان پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوا تھا۔ اپنی زندگی میں وہ اس سے بڑے صدمے جھیل چکے تھے۔۔۔۔
*****
آغا جان کو گزرے آج پورے چالیس روز ہو چکے تھے۔ پرسہ دینے والوں کی آمدورفت بھی نسبتا گھٹ چکی تھی۔ یعنی آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آرہی تھی۔۔۔، لیکن کچھ نہیں بدل رہا تھا تو وہ تھا۔۔۔ عشال کا وجود۔ کسی گھڑیال کی طرح اس کی زندگی اس ایک لمحے میں ساکت ہو گئی تھی۔۔۔ جب آغا سمیع الدین کے سینے سے آخری سانس خارج ہوئی تھی۔۔۔ ضیاءالدین انصاری کے لیے اس کا اس طرح ساکت جامد ہو جانا قابل قبول نہیں تھا۔۔۔۔
اور اس کی زندگی کا اچانک ٹھہر جانا۔آج کی بات تو نہیں تھی۔۔۔۔۔!
*******
صبح کی سرخی افق کے گوشے رنگین کر رہی تھی، جب وہ دوپٹہ ڈھیلا کرتی لان میں چلی آئی اس وقت ہلکی خنک ہوا چل رہی تھی۔ موسم آج قدرے ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ اس نے مٹھیاں بند کرکے انگلیوں کا سرد پن محسوس کیا۔۔ اور ہاتھوں کو سینے پر لپیٹ کر گرمائش پہنچانے کی کوشش کرتی ہوئی کیاریوں کی طرف بڑھ گئی۔۔
پودوں کی نازک شاخیں اک سرمستی کے عالم میں جھوم رہی تھیں۔ عشال بہ نظرغائر ایک ایک پودے کا جائزہ لینے لگی۔۔ جو پیاسے تھے ان کے گملوں میں پانی انڈیلا۔۔ پانی کی دھار فوارے کی مانند انھیں بھگونے لگی۔۔ ساتھ ساتھ وہ ان کے پتوں اور شاخوں پر اٹکی دھول مٹی بھی پونچھتی جارہی تھی۔۔ اسے معلوم تھا پودوں سے عشق ضیاءالدین صاحب سے اس میں منتقل ہوا تھا۔۔۔ کسی یاد نے ذہہن و دل پر چٹکی لی تھی۔۔۔سس۔۔ سسی۔۔۔۔ وہ بلاوجہ سسکاری بھر کر رہ گئی تھی۔
اس نے پانی دینے والا فوارہ ایک طرف رکھا اور دو چار گملے کھینچ لیے اور گڈائی شروع کردی۔ یہ اس کا معمول تھا۔ پودوں کو پانی کے ساتھ سانس کی بھی ضرورت تھی آخر۔۔۔۔ یہ وقت گویا اس کا اپنی ذات سے ملاقات کا ہوتا تھا۔۔ ضیغم یونیورسٹی چلا جاتا تھا۔ اور آغا جان نماز سے فراغت کے بعد کچھ وقت کے لیے غنودگی میں چلے جاتے تھے۔ اور وہ نماز کے بعد کا یہ وقت صرف اور صرف پودوں کے ساتھ گزارتی تھی۔۔۔
وہ اپنے آپ میں مگن مصروف سی تھی۔۔۔ جب۔۔۔
“عشال۔۔۔!”
مانوس سی چاپ
مانوس سی آواز۔۔۔۔،اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔ اور اس کی دھڑکن لمحہ بھر کو ساکن ہوئی تھی۔۔۔، وہم سمجھ کر ایکدم سے سر اٹھایا،اور مٹی پودے ہوا موسم اسے سب بھول گیا تھا۔۔۔
ضیاءالدین انصاری اس کی نگاہوں میں تھے۔۔۔
“ماموں جان۔۔۔۔؟”
ابتدائی شاک کے بعد وہ ان کے سینے سے جا لگی تھی۔۔۔آنکھیں بلاوجہ بھیگ گئی تھیں۔۔ اس کی زندگی میں اکثر واقعات بلاوجہ ہو جاتے تھے۔۔۔ خاص طور پر آج کل۔۔
کتنے دنوں سے ان کی یاد آرہی تھی۔۔ یونہی۔۔ بلاوجہ۔۔
“آپ۔۔۔؟ آپ۔۔۔ ماموں جان۔۔۔۔؟” فرط جذبات میں اس کی زبان ہی ساتھ چھوڑ گئی تھی۔۔۔ اور صرف زبان ہی نہیں، عقل بھی۔۔۔، وہ سوچنا ہی بھول گئی تھی کہ ان کے سرپرائز بھی بغیر وجہ کے نہیں ہوتے۔۔
“کیسا لگا سرپرائز؟”
انھوں نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔۔۔
“بہت زبردست۔۔۔!”
آنکھوں کے ساتھ اس کی ہنسی بھی بھیگی ہوئی تھی۔۔۔۔
“میرے پاس تمھارے لیے ایک اور سرپرائز بھی ہے۔۔۔۔؟”
انھوں نے چلتے چلتے رک کر کہا تھا۔۔۔۔
“وہ کیا؟”
وہ متجسس ہوئی تھی۔۔۔
“ایسے نہیں۔۔ وہ آغاجان کے لیے بھی سرپرائز ہے۔۔۔۔۔”
اور وہ عجیب مخمصے میں پڑ گئی تھی۔۔۔ آخر سر پرائز کیا ہو سکتا ہے؟
*********
نینسی نے سنہرے بالوں کو پونیٹیل میں قید کیا اور جمائی روکتی ہوئی فرج تک آئی۔ اس نے کروشیہ کی ایش وائٹ بیگی شرٹ کے نیچے سیاہ بغیر آستینوں کی بنیان کے ساتھ گرے رنگ کی شارٹ پینٹ پہن رکھی تھی۔۔۔ بھوک نے ستایا تو کچن کا رخ کرنا پڑا۔۔ ٹن سے گوشت کا ایک پارچہ نکالا۔۔۔۔ تھوڑا سا گارلک پیسٹ۔۔ سویا ساس اور ٹماٹو پیسٹ کے ساتھ ذرا سی وائن بھی شامل کردی اور دھیمی آنچ پر پکنے رکھ دیا۔۔ وہ کوکنگ ایسی ہی کرتی تھی۔ اور اتنی دیر کافی بنانے کی تیاری کرنے لگی۔۔۔!
ایب کی آنکھ کھلی تو اس کا پہلوخالی تھا۔۔۔ کروٹ بدل کر وقت دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے۔ اس نے نینسی کو آواز نہیں دی نہ اس کےبارے میں جاننے کی کوشش کی۔۔ اسے اندازہ تھا وہ کہاں ہو سکتی ہے؟
ایب سینے پر ہاتھ رکھ کر اٹھ بیٹھا گذشتہ شب کی دی ہوئی چوٹیں ابھی تازہ تھیں۔۔ ایب نے داہنے ہاتھ میں تکلیف کے باعث بائیں ہاتھ سے شرٹ کے بٹن کھولے اور اس سرخ پھول دار شرٹ سے جان چھڑائی۔ اس نے یہ کل شام سے پہن رکھی تھی اور اب اس کا دل اوب سا گیا تھا۔۔ اس کا دل کسی ایک چیز پر آسانی سے نہیں ٹھہرتا تھا۔۔۔ اور جس چیز سے بیزار ہوجاۓ پھر اس کی جگہ ایب کی زندگی میں نہیں ٹریش بن میں ہوتی تھی۔۔۔
اس نے وارڈروب سے نئی صاف شرٹ لی اور شاور لینےکی غرض سے باتھ روم میں گھس گیا۔۔۔
ایب کا یہ فلیٹ پرتھ (Perth)(south west coast Australia) میں تھا۔ جس کی گلاس وال سے شہر کاخوبصورت نظارہ بآسانی کیا جاسکتا تھا۔ مگر ان نظاروں کا وہ اب عادی ہوچکا تھا۔۔۔ اس کے بس میں نہیں تھا اتنے لگژی فلیٹ کو آسانی سے چھوڑنا۔۔۔ ورنہ بہت پہلے اسے بھی اپنی ازلی متلون مزاجی کی نذر کرچکا ہوتا۔ کچھ چیزیں زنگی کا لازم بن جاتی ہیں، چاہے وہ اپنی حیثیت کھو چکی ہوں۔۔۔
*********
سیاہ فام کی انگلی حرکت کیا ہی چاہتی تھی۔۔۔ ایب کی کہانی اس رات اختتام کو تھی۔۔۔۔،
نینسی نے خوف سے آنکھیں میچ لیں پسینے کی ننھی بوندوں سے اس کا ماتھا چمکنے لگا تھا۔۔۔ کہ دور سے زندگی کی چنگھاڑ سنائی دی۔۔۔۔
پیٹرولنگ پولیس کی گاڑی سائرن بجاتی تیز رفتاری سے آرہی تھی۔۔ سیاہ فام بس ایک لمحے کو رکا۔۔۔ ایک آخری جھنجھلاہٹ بھری ٹھوکر ایب کے پہلو میں رسید کی۔۔۔ اور جاتے جاتے اس پر تھوک گیا۔۔۔۔۔
نینسی دوڑ کر ایب تک آئی اور اس کے چہرے سے سمندری ریت صاف کرنے لگی۔۔۔ پولیس کار سے دو پولیس والے اتر کر ان تک آۓ اور نینسی سے مخاطب ہوۓ۔۔ آر یو آل رائٹ؟۔۔۔ نینسی نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ دوسرا پولیس والا واقع کی اطلاع دینے کے ساتھ ایمبولینس کو کال کررہا تھا۔۔۔
*********
ایب فریش ہوکر سیدھا اسٹوڈیو میں چلا آیا جہاں چھوٹے سے ستون پر ادھورا اسکلپچر رکھا تھا۔۔ اور سامنے ہی اسٹول بھی۔۔ ایب نے اسٹول سنبھالا اور ہاتھ میں پکڑے سینڈوچ کو دانتوں سے کترنے لگا۔۔۔ سامنے پڑا ادھورا کام اس کے ذہن کے گوشوں میں گردش کر رہا تھا۔۔۔۔ یہ پروجیکٹ اس نے کل شام سے پہلے مکمل کرنا تھا۔۔۔ اور آج شام اسے ایک اہم تقریب بھی اٹینڈ کرنی تھی۔۔ تین سال پہلے اس نے gallary 307، art school سے فائن آرٹ کی ڈگری کامیابی سے لی تھی اور بطور کمرشل آرٹسٹ کیرئیر کا آغاز بھی وہیں سے کیا تھا۔۔۔ آہستہ آہستہ اس کا کام پھیل رہا تھا تعلیم کے دوران ہی کامیابی نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔ اور آج شام اس کے کیریئر پر کامیابی کی مہر ثبت ہونے والی تھی۔۔۔،
وہ ٹول ہاتھ میں لیے کچی مٹی تراش رہا تھا جب نینسی کلچ کی سنہری چین کندھے پر حمائل کرتی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ اوکے ڈارلنگ۔۔۔۔، میٹ یو سون۔۔۔ وہ عجلت میں لگتی تھی۔۔۔ لہذا ہاتھ جھلاتی تیزی سے ہی مڑگئی تھی۔۔۔ ایب نے اسے باۓ بھی نہیں کہا تھا کہ وہ جاتے جاتے پلٹی۔۔۔ اسکلپچر کے پاس آئی۔۔۔ اور ستائشی نگاہ ڈال کر بولی۔۔۔۔ واؤ! امیزنگ۔۔۔ تمارے ہاتھ میں جادو ہے ایب۔۔۔۔! پورے ویسٹ میں تم جیسا بھی کوئی نہیں اس بار پھر تم ایگزیبیشن لوٹنے والے ہو۔۔۔۔ ایب نے کوئی تبصرہ نہیں کیا سرسری انداز میں تھینکس کہہ کر رہ گیا۔۔۔ نینسی کی تسلی نہیں ہوئی۔۔۔ یو آر سو روڈ،۔۔۔ ایب نے ہلکی سی نظر اس پر ڈالی۔
روڈ۔۔۔۔؟ نو۔۔۔ روڈ نہیں ہوں، بزی ہوں ڈارلنگ۔۔۔! اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔۔۔ کاش تم فائٹر بھی اتنے ہی اچھے ہوتے۔۔ جتنے آرٹسٹ ہو۔۔۔، نینسی نے جلے دل کا پھپھولہ پھوڑنا چاہا۔۔۔ واٹ۔۔۔؟ ایب نے معترض نگاہیں اس پر جمائیں۔۔۔ وہ ایب کو متوجہ کرنا چاہتی تھی اور اس میں کامیاب ہوگئی تھی۔۔۔ آئی مین کہ جیسے شاہکار تم ایزل پر بناتے ہو، ان ڈاکوؤں کے چہروں پر بھی بنا سکتے تو۔۔۔ آج تمھارا اپنا منہ رنگین نہ ہوتا۔۔۔۔ ساتھ ہی ایک بے ہنگم قہقہہ بھی لگایا۔۔۔ ایب زہر کے گھونٹ لےکر رہ گیا۔۔۔، رات سے وہ یہی ٹاپک لے کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔ اپنی تذلیل اسے بھلاۓ نہیں بھول رہی تھی۔۔۔ اوپر سے نینسی کے بھونڈے مذاق۔۔
مین اٹ۔۔۔! وہ ترش روئی سے بولا۔۔۔ اس وقت میں ڈرنک تھا۔۔۔ورنہ۔۔۔۔
ورنہ؟ نینسی نے جتانے والے انداز میں استفسار کیا۔۔۔
ورنہ۔۔۔۔ایب اپنی بےعزتی کبھی بھولتا نہیں۔۔۔!
ہاہاہا۔۔۔۔نینسی نے ایک بار پھر اس کے سینے پر مونگ دلی۔۔۔
تو کیا انتقام لو گے۔۔۔۔؟
نن آف یور بزنس۔۔۔۔! ایب نے رکھائی سے جواب دیا۔۔۔
اچھا ان کو چھوڑو۔۔۔ اپنی وائف کے بارے میں کیا سوچا ہے۔۔؟ وہ بھی تو جاتے جاتے تم پر تھوک گئی تھی ناں۔۔۔۔؟ اس کو معاف کردیا کیا۔۔۔ یا پھر۔۔۔ وہ کیا بولتی ہیں تمھاری مام۔۔۔ ؟ نائٹ اوے۔۔۔ میٹر اوے۔۔۔؟ (رات گئی بات گئی)۔۔۔ وہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا جو وہ کہنا چاہتی تھی۔۔۔
آئی تھنک یو آر گیٹنگ لیٹ۔۔۔ یو شڈ گو۔۔۔۔ اور توجہ کام کی طرف برقرار رکھی۔ نینسی نے ایک طنز بھری مسکراہٹ اچھالی اور تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔۔ وہ ایسی ہی تھی ذرا سی اگنورنس بھی اسے شعلہ جوالہ بنا ڈالتی تھی۔۔ ایب اس کے مزاج کا عادی ہو چکا تھا۔۔۔، نینسی کے خیال میں وہ سیپریشن کے باوجود سابقہ بیوی کے عشق میں مبتلا ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ محض وقت گذاری کر رہا ہے۔۔۔
مگر یہ اس کی غلط فہمی تھی۔۔۔، اس کی نظریں کچھ اور ہی متلاشی تھیں۔۔۔
نینسی کے جا نے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے مخصوص کمرے میں آ گیا۔ جسے وہ اسٹور روم کہتا تھا۔۔ اور اس کی کارڈ کی صرف ایب کے پاس تھی۔۔۔
ایب نے لاک میں کارڈ ڈالا اور اندر داخل ہو گیا۔۔۔ یہاں سورج کی کرنیں شیشوں پر ترچھی ہوکر پڑ رہی تھیں۔۔۔ اور وسط کمرے میں ایزل پر کینوس دھرا تھا۔۔۔ گویا یہاں بھی کچھ تھا۔۔۔ ادھورا سا۔۔۔
اور وہ۔۔۔۔اک شاہکار تھا۔۔۔اک عجوبہ تھا۔۔۔بے داغ بے مثال۔۔۔
وہ اک چہرہ تھا۔۔ مہین سے کپڑے سے ڈھکا ہوا۔۔۔
*********
یہ ایک آفس کا منظر ہے۔۔۔ شیشے کا بے داغ دروازہ وا ہوتا ہے اور ایک سوٹڈ بوٹڈ بارعب شخصیت نمودار ہوتی ہے۔۔۔ ان کا سراپا سڈول اور چال میں ویسی ہی رعونت ہے۔۔جو کسی بھی بائیس گریڈ کے افسر کا خاصہ ہوتا ہے۔۔۔ ماتحتوں کے سلام کا جواب سر کے اشارے سے دیتے ہوۓ جب اپنی پاور چئیر سنبھالی تو ایک خوبصورت انویلپ کی شکل میں بھیانک سرپرائز دھرا تھا۔۔۔!
لفافے میں موجود کاغذ کی ابتدائی چند سطور نے ہی زبیر عثمانی کی پیشانی عرق آلود کردی۔۔۔۔۔۔
*********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...