(Last Updated On: )
شام میں وہ گھر ایا تو بابا سر تھامے لاؤنج میں بیٹھے تھے ۔۔۔
“کیا ہوا بابا ۔۔
اس سے پہلے بابا کچھ کہتے زینب بی ہانپتی سیڑھیوں سے اتری اور کہا ۔ ۔
“عیان بیٹے انشاء نے دروازہ لاک کردیا ہے اور کہتی ہے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاۓ گی کیونکہ وہ ٹھیک ہے ۔۔
یہ بات سن کر عیان کو بےانتہا غصہ ایا ۔۔۔ اور وہ غصے سے سیڑھیان چڑھ گیا اور ایمان کے کمرے کے باہر کھڑا ہوا ۔۔۔
“انشاء پانچ منٹ میں باہر نکلو ورنہ چھٹے منٹ میں جو میں کروں گا وہ یاد کرونگی ہمیشہ ۔۔۔ مجھے غصہ نہ دلاؤ ۔۔۔
عیان نے سرد دوٹوک لہجے میں کہا ۔۔۔
عیان کے غصے کرنے کی دیر تھی , اس کی وارننگ پر , لمحے میں انشاء نے دروازہ کھولا اور کہا ۔۔
“مجھے نہیں جانا گھر سے باہر کہیں بھی ۔۔۔
وہ نظریں جھکاۓ کھڑی تھی ۔۔۔ اس کا چہرہ اس کے رونے کی گواہی دے رہا تھا ۔۔۔
“بھائی نہیں ہوتا برداش مجھ سے اس کی انکھ میں آنسو پلیز اسے کچھ نہ کہا کریں اپ ۔۔۔
اس کے کانوں میں اپنے پیارے بھائی کی آواز گونجی ۔۔۔
دل میں ٹیس سی اٹھی عیان کے۔۔۔
“پانچ منٹ میں کپڑے چینج کرو چلنا ہے ۔۔۔ اب دروازہ لاک کرنے کی غلطی مت کرنا ۔۔۔
عیان کے روڈ انداز پر وہ اسے دیکھتی رہی وہ نظر چراتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا ۔۔۔
اور واقعی پانچ منٹ کے بعد وہ سیڑھیوں سے اتر رہی تھی ۔۔۔
“اوہ ہاتھی میری ساتھی شوخ رنگ پہنا کرو بہت جچتے ہیں تم پر ۔۔
عیان جو کبھی توجہ نہ دیتا تھا ان دونوں کی باتوں پر اج پتا چلا وہ لاشعوری طور پر دونوں کی باتیں سنتا بھی تھا اور اس کے بھائی کی باتیں اس کے ذہن پر دستک بھی دینے لگیں تھیں ۔۔۔
اس بےرنگ لباس میں وہ ایمان کی انشاء بلکل بھی نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔
“کیوں ہوا یہ سب ۔۔۔ ایک تمہارے جانے سے سب ختم ہوگیا ایمان ۔۔۔ تمہاری کمی کوئی دور نہیں کرسکتا ۔۔ اس گھر کی , ہم سب کی جان تھے تم ۔۔۔
دل کے درد کو دباتا اس نے کہا تو بس اتنا کہ ۔۔۔
“چلیں زینب بی ۔۔۔
“ہان بیٹا ۔۔۔ وہ چاہ کر بھی انشاء کو مخاطب نہ کرسکا ۔۔۔
انشاء اور زینب سے کہے کر وہ بابا کے پاس ایا ۔۔۔
“ٹھیک ہے بابا چلتے ہیں جلدی آئیں گے گھر ۔۔۔
ان سے جھک کر پیار لیتا وہ بولا اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بابا نے کہا ۔۔۔
“انشاء کو کچھ چیزوں کی ضرورت ہوگی اسے شاپنگ بھی کرا دینا ۔۔۔
“جی بابا جان ۔۔۔ عیان نے سعادت مندی سے کہا ۔۔۔
ان کو لے کر باہر ایا ۔۔۔
@@@@@
“تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں اگے اجاؤ ۔۔۔ عیان نے انشاء سے کہا ۔۔۔
“جاؤ انشاء اگے بیٹھو ۔۔۔ زینب بی نے کہا اس سے ۔۔۔
“زینب بی اپ بیٹھ جائیں میں یہیں ٹھیک ہوں ۔۔۔ انشاء نے آہستہ سے کہا ۔۔۔
“انشاء تم اجاؤ ۔۔۔ عیان کے حکم پر وہ اگے اکر بیٹھ گئی ۔۔۔
کچھ دیر میں وہ لوگ ڈاکٹر کے پاس پہنچ گۓ ۔۔۔
ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ دیں اور ساتھ میں کھانے پینے ورزش اور خود کو مصروف رکھنے وغیرہ جیسی کئی ہدایت کیں ۔۔
واقعی وہ خوراک کی کمی کا شکار لگی ان کو ۔۔۔ کچھ میڈیسن بھی لکھ دیں انہوں نے ۔۔۔
لیباٹری سے ٹیسٹ کروا کر باہر نکلنے کے بعد انشاء نے کہا ۔۔
“گھر چلیں بہت تھک گئیں ہوں ۔۔۔
“جانتا ہوں تمہارے بہانے , لو جوس پیو پھر مال چلنا ہے ۔۔۔
زینب بی کو اچھا لگ رہا تھا جس طرح کل سے اس نے خود کو چینج کیا ہوا تھا ۔۔۔ وہ اپنا درد چھپا کر جس طرح اب سب کی دلجوئی میں لگا ہے یہ ضروری تھا اس گھر کے لیۓ ورنہ غم نے ڈیرے جما لیۓ تھے اس گھر میں ۔۔۔
اب ان کو تسلی تھی عیان سب سنبھال لے گا اور ابھی بھی جس طرح دھونس سے اس نے اپنی بات کہی تھی جس سے صاف ظاہر تھا وہ انشاء کی مانے گا نہیں بلکہ اپنی منواۓ گا ۔۔۔
عیان کے اس انداز پر وہ خاموش ہوگئی ۔۔۔ اس کی خاموشی کو رضامندی سمجھ کر اس نے گاڑی شاپنگ مال کے روڈ کی طرف موڑی ۔۔۔
@@@@@@
شاپنگ مال میں اکر ہر طرف اتنی رش اور گہما گھمی دیکھ کر وہ بوکھلا ہی گئی ۔۔۔ اس سے چلا نہیں جارہا تھا ۔۔۔
“کیا ہوا انشاء ۔۔۔ عیان نے فکرمندی سے کہا اس کے چہرے کے تاثرات تکلیف دہ تھے ۔۔۔
“پلیز مجھے گھر جانا ہے میرا دل گھبرا رہا ہے اس رش سے ۔۔۔ انشاء نے روہانسی ہوکر کہا ۔ زینب بی کو بھی وہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔
“چلو فوڈ کورٹ چلتے ہیں کچھ کھالو ۔ ۔ اگر شاپنگ کیۓ بغیر جائیں گے تو باباجان کو تکلیف ہوگی ۔
عیان نے فکرمندی سے کہا ۔
“مجھے گھر جانا ہے بس ۔۔۔ انشاء نے ضدی لہجے میں کہا ۔
“عیان بیٹا مجھے لگتا ہے ہمیں چلنا چاہیۓ ۔۔۔ زینب بی نے مداخلت کی آخرکار ۔۔۔
“چلو یہ ڈرامے بند کرو جانتا ہوں تمہاری طبیت کو کچھ نہیں ہوا سب ڈرامے ہیں ۔
عیان نے اس کے گھورنے کی پرواہ کیۓ بغیر کہا ۔۔۔ وہ اندازہ کرچکا تھا وہ بہانے ہی کررہی تھی وہ اپنی ازلی ہٹ دھرمی کررہی تھی تو سامنے بھی عیان تھا جو اس لڑکی کو ٹیکل کرنا خوب جانتا تھا ۔۔
وہ خاموشی سے اٹھی اور شاپنگ کرنے لگی زینب بی اسے مشورے دے رہی تھی ۔۔۔ وہ سارے بےرنگ لباس لے رہی تھی ۔۔۔ عیان نے چند شوخ رنگ لیۓ اپنی پسند سے پیمنٹ کرکے باہر اگۓ ۔۔۔
انشاء نے کھانے سے انکار کیا تو وہ آئسکریم لے ایا ۔۔ جسے مجبورً وہ کھانے لگی ۔۔
@@@@@@
“باباجان کو دکھاؤ گی نہیں شاپنگ ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔ انشاء حیران ہوئی اس کے انداز پر ۔۔
“اس میں اتنی حیرت کی کیا بات ہے پہلے بھی تو تم ساری شاپنگ بابا کو دکھا نہ لو تم کو کب سکوں اتا تھا ۔۔۔
عیان نے یاد دہانی کروائی ورنہ جان بوجھ کر ان کو دکھاۓ بغیر ہی وہ اوپر جارہی تھی ۔۔
مرتی نہ کیا کرتی ۔۔۔ وہ دکھانے بیٹھی ۔۔۔ وہی ہوا جو عیان نے سوچا تھا ۔۔ بابا جان ناراض ہوۓ ۔۔
“یہ کیا اٹھا لائی ہو ایسے بےرنگ لباس , اٹھاؤ دور کرو یہ سب ۔۔۔
زینب بی نے بھی اسے کافی کہا تھا وہان پر وہ اپنی ضد کی پکی تھی ۔۔۔
“باباجان اب یہی رنگ مجھے پسند ہیں ۔۔ سب میں نے اپنی مرضی سے لیۓ ہیں ۔۔۔
“یہ تمہاری پسند نہیں انشاء , میں جانتا ہوں ۔ حیدر صاحب نے کرب سے کہا ۔
“وقت کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے , اور میں بھی بدلنے لگی ہوں اور میری پسند بھی ۔۔۔
“میرا تمہارے لیۓ پیار نہیں بدلا انشاء , کل بھی میری بیٹی تھی اج بھی ہو , اور اس حال میں تمہیں دیکھنا میری برداش سے باہر ہے ۔۔۔
ان کی انکھیں نم ہوئیں , کیا سے کیا ہوگئی تھی ان سب کی لاپرواہی نے اسے کیا سے کیا بنادیا تھا ۔ اج شام سے یہی سوچ حیدر صاحب کو اندر ہی اندر ماررہی تھی ۔۔۔ شکر تھا سہی وقت پر عیان نے ان کو احساس دلادیا ورنہ وہ تو اس لڑکی کو بھول بیٹھے تھے ۔۔۔
وہ بس ان کو دیکھے جارہی تھی کچھ کہنے کو نہ تھا اس کے پاس ۔۔۔
اسی وقت کچھ شاپرز عیان نے بابا کے سامنے کیۓ اور کہا ۔۔۔
“یہ کچھ اپ کی طرف سے میں نے انشاء کے لیۓ لیۓ ہیں دیکھ لیں باباجان ۔۔۔
بہت سے خوبصورت رنگ کے کپڑے تھے جن کو دیکھ کر باباجان خوش ہوۓ اور انشاء سے کہا ۔۔۔
“ان بدرنگ سادے کپڑوں کو زینب بی کو دو ۔۔۔
اور زینب بی سے کہا ۔۔۔
“یہ کپڑے انشاء کے سر کا صدقہ کرکے غریبوں میں بانٹ دو , میری بیٹی یہ کپڑے نہیں پہنے گی ۔۔۔
“پر بابا جان ۔۔ انشاء کو کچھ نہ کہنے دیا اور اس کی بات کاٹ کر کہا ۔۔۔
“بس میں نے کہے دیا ۔۔۔ اور وہ خاموش ہوگئی زینب بی نے کپڑے اٹھا لیۓ ۔۔۔
پھر سب نے مل کر کھانا کھایا ۔۔۔ انشاء جانے لگی کھانے کے بعد پر عیان نے کہا ۔۔۔
“سب کے لیۓ قہوہ بناؤ , پھر جانا آرام کے لیۓ اپنے روم میں ۔۔۔
اس کا تھکن سے برا حال تھا پر عیان کی فرمائش پر اسے رکنا پڑا ۔۔۔ پھر بڑے ضبط سے وہ کچن کی طرف جانے لگی تو پیچھے سے اس نے دوبارہ کہا ۔۔۔
“اپنے لیۓ دودھ کا گلاس لانا دوائی لینی ہے تمہیں ۔۔۔
وہ ایک دم مڑی دانت پیس کر کہا ۔۔۔
“میں خود لے لوں گی اپ کو فکر کی ضرورت نہیں عیان بھائی ۔۔
“اب میں تم سے نہیں پوچھوں گا مجھے کیا کرنا چاہیۓ کیا نہیں , تم کو جو کہا جاۓ وہی کرو ۔۔ عیان کے دوٹوک انداز پر وہ پاؤں پٹختی ہوئی کچن کی طرف گئی ۔۔
پیچھے سے بابا نے کہا عیان سے ۔
“عیان اس طرح بات مت کرو اسے تکلیف ہوگی ۔۔۔ ان کے لہجے میں فکر تھی انشاء کے لیۓ ۔۔
“بابا وہ یہی زبان سمجھتی ہے , میں بھی اپ کی طرح ڈھیل دینے لگا تو یہ لڑکی اپنا حال کیا کرلے گی اپ سوچ بھی نہیں سکتے اپ مجھے اسے ڈیل کرنے دیں , ورنہ اسے زندگی کی طرف لانا مشکل ہوجاۓ گا ۔۔۔
“تم ٹھیک کہے رہے ہو ۔۔۔ انہوں نے پرسوچ انداز میں کہا ۔۔
@@@@@
عیان نے سمجھداری سے سب کو سنبھال لیا اب پھر سے گھر گھر لگنے لگا تھا ۔۔۔ پہلے کی طرح بریک فاسٹ اور ڈنر ساتھ میں کھانے لگے تھے ۔۔۔ وہ صبح جاتے ہوۓ زینب بی سے اس کی دوائی لانے کو کہتا اور اپنی موجودگی میں کھلاتا اور رات کا ڈوز بھی اپنے سامنے ہی کھلاتا وہ کڑھتی رہتی پر عیان سے کچھ کہنے کی اس میں اتنی ہمت نہ تھی ۔۔۔
رپوٹس میں صرف خون کی شدید کمی بتائی باقی سب رپوٹس کلیئر تھیں ۔۔ اس کی دوائی ڈاکٹر نے لکھ دی تھی ساتھ میں فروٹس کےلیۓ خاص تلقین کی تھی ۔۔
باباجان کی طبیت بھی عیان خود دکھانے لے گیا ۔۔۔ ان کی میڈیسن ڈاکٹر نے چینج کی تھیں ۔۔ اب گھر اور آفس دونوں کو ٹائم دینے لگا تھا وہ ۔۔۔ عمر اس کا بھرپور ساتھ دے رہا تھا ۔۔۔ واقعی اس نے ہمیشہ بہترین دوست ہونے کا حق ادا کیا تھا ۔۔ عیان اس معاملے میں خود کو خوش نصیب سمجھتا تھا ۔۔۔
@@@@
عیان کے کہنے پر وہ انشاء سے بات کرنے آئے تھے اس کے کمرے میں ۔۔ وہ ہلکی سی نوک کر کے کمرے میں آ گئے۔۔۔
وہ ایمان کی تصویر کو لے کر رورہی تھی اور کچھ بول بھی رہی تھی ۔ یہ بات ان کو عیان پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ رات کو اکیلی باتین کرتی رہتی ہے بلکہ اکثر وہ محسوس کرچکا تھا یہ سب ۔۔۔ پر اس کا پوچھنا یا کچھ کہنا مناسب نہ تھا ۔۔۔
یہ حالات دیکھ کر ہی عیان نے فیصلا کیا تھا اسے یونی میں ایڈمیشن لینی چاہیۓ تاکہ کچھ مصروف ہوسکے ۔۔ یہی بات کرنے وہ اس وقت آئے تھے اس کے پاس ۔۔
” بابا جان اس وقت آپ ۔۔۔ انشاء نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کر کے کہا ۔۔ تصویر کو سائیڈ پر رکھا اور ان کے پاس آئی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر روم کے صوفے پر بٹھایا اور خود ان کے پاس آکر بیٹھی بابا جان نے کچھ کہا تو نہیں پر اسے بغور دیکھتے رہے اور رو رو کر اپنی آنکھیں سجا چکی تھی ۔۔۔ اور ان کے اس طرح کے دیکھنے پر گڑبڑ آکر انشاء نے کہا ۔۔
” کیا بات ہے بابا جان کوئی کام تھا مجھے بلا لیتے ۔۔ آپ تو اتنی سیڑھیاں چڑھ کر نہ اتے ۔۔۔
” بات مجھے کرنی تھی تو انا بھی مجھے چاہیے۔۔۔ انہوں نے کہا ۔۔
“جی کہیں ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔
” بیٹا تم یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لو ۔۔ اس سے کچھ مصروفیات تمہاری بڑھ جائے گی ۔۔۔
” نہیں بابا جان مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔ انشاء نے سھولت سے کہا ۔۔
” اور بیٹا یہ ضروری ہے…
” نہیں بابا جان مجھے فورس نا کریں مجھ سے نہیں ہوگی پڑھائی۔۔۔
” تو بیٹا دوستوں سے ملا کرو , اپنی سہیلیوں کے گھر آیا جایا کرو ۔۔ کبھی ان کو گھر پہ بلاؤ کبھی خود جایا کرو ۔۔۔
انہوں نے کچھ سوچ کر کہا ۔۔۔
“بابا میری کوئی سہیلی نہیں کیونکہ ایمان کے ہوتے ہوۓ مجھے کبھی کسی دوست کی ضرورت نہیں پڑی اور اپ جانتے تھے وہ مجھے کالیج میں اتنی دوستیان کہاں رکھنے دیتا تھا۔۔
وہ حیران ہی ہوۓ واقعی ایسا تھا اس کی کوئی سہیلی گھر نہ آئی تھی کبھی ۔۔۔
ان کے دل میں ٹیس سی اٹھی کتنی اکیلی تھی وہ پہلے نازیہ ایا کرتی تھی اس کے لیۓ پر وہ بھی کتنے دن یہ سب کرتی آخر اس کا اپنا گھر اور اپنی مصروفیات تھیں۔۔۔
“تو تمہیں یونی جانا چاہیۓ نئی سہلیاں بناؤ شوشل بنو تاکہ پرسکوں رہو ۔۔
” بابا اب مجھے کہیں بھی سکون نہیں آئے گا ۔۔ میں نہیں رہ سکتی ایمان کے بغیر ۔۔۔ کیوں کیا اس نے میرے ساتھ ایسا مجھے کیوں اپنا اتنا عادی بنا دیا کہ اس کے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔۔۔ میرا سب کچھ لے گیا ایمان بابا جان۔۔۔ میرا سکون صرف ایمان کے پہلو میں ہے , دعا کریں میں اپنے ایمان کے پاس چلی جاؤں , اب کہیں چین نہیں آۓ گا۔۔۔
وہ ان کی گود میں سر رکھ کے روپڑی ۔۔۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ۔۔۔
” ایسی باتیں نہ کرو انشاء , مجھ بوڑھے کے جانے کی عمر ہے تم لوگ ایسی باتیں کر رہے ہو ۔۔۔
“بابا اپ کو کچھ نہ ہو اللہ سلامت رکھے اپ کو ۔۔۔ ان کی گود سے سر اٹھا کر انشاء نے کہا ۔۔۔
“تو پھر ایسی باتیں نہ کرو ۔۔۔
“نہیں کروں گی اب اپ بھی ایسی باتیں نہ کیا کریں ۔۔۔
“بس مجھے اپنا باباجان دوست سمجھو ہر بات دل کی مجھ سے کوگی سمجھی ۔۔۔
“جی باباجان ۔۔۔
باپ بیٹی دونوں نے ایک دوسرے کے آنسوں پونچھے۔۔۔
پھر کتنی دیر وہ ایمان کی باتیں کرتے رہے ۔۔۔ دونوں کے دلوں کو سکون مل رہا تھا۔۔
@@@@
دومہینے گزر گۓ پتا ہی نہیں چلا تھا ۔۔۔ ان دنوں بابا جان اسے کئی دفعہ کہے چکا تھے وہ حج پر جانا چاہتے ہیں کیونکہ ایمان کے بعد ان کو زندگی پر بھروسہ نہ تھا ۔ پر عیان ٹال دیتا کیونکہ عیان مطئمن نہ تھا ان کی صحت کی طرف سے ۔۔۔
پر عیان کو اندازہ نہ تھا کہ بابا جان بالا ہی بالا اپنا کام کروا لیں گے ۔۔۔ جب ان کے کاغذ بن کر اگۓ ٹکٹس تک کنفرم ہوگئی تھی ۔۔۔ انہوں نے عیان کو بتانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی انہوں نے ۔۔۔
ان کے دوست جواد کے بیٹے ٹکٹس دے کر گئے تھے ۔۔ جب تک حسن بیٹھا تھا وہ خود پر ضبط کرتا رہا ۔۔ وہ کتنی دفعہ حیرت سے بابا کو تک رہا تھا پر حیدر صاحب بھی اسے اگنور کرکے بیٹھے رہے ۔۔۔ ان کو اندازہ تھا عیان کے دل کی کیفیت کا ۔۔
کچھ دیر میں تو حسن اٹھ کے چلا گیا عیان ان کو دروازے تک چھوڑنے گیا تھا ۔۔۔ جب واپس آیا تو وہ فون پر بات کر رہے تھے ۔۔ جس طرح وہ بات کر رہے تھے عیان کو اندازہ ہوگیا وہ گاؤں بتا رہے تھے اپنے جانے کا ۔۔
ان کے فارغ ہوتے ہی عیان نے کہا ۔۔۔
“بابا جان یہ ٹھیک نہیں کررہے اپ ۔۔ اس طرح سے بغیر بتاۓ ۔۔
“تمہیں کیا لگا تم ایک ہی ہو جو میرا کام کرسکتے ہو اور میری اپنی کوئی سورسز بھی نہیں ۔۔۔
“وحید انکل کو پتا تھا ۔۔۔ عیان نے حیرت سے پوچھا ۔۔
“نہیں , وہ تم کو بتا دیتا اس لیۓ اس پر اعتماد بےکار تھا ۔ بابا جان نے فخریہ انداز میں کہا ۔۔۔
عیان شاک ہی ہوا تھا ۔۔۔ اب کچھ کہنا بےکار تھا وہ پکا کام کرچکے تھے ۔۔۔
“انشاء کو بتایا اپ نے ۔۔۔ عیان نے سنبھل کر پوچھا ۔۔
“اپنی بیٹی کو اعتماد میں لے چکا ہوں میں ۔۔۔ بابا جان نے سکوں سے کہا ۔۔۔
” ہاں بیٹی تو آپ کی سگی اولاد ہے میں تو سوتیلا بیٹا ہونا اسی لئے مجھ سے چھپایا ۔۔۔
عیان نے چڑ کر کہا ۔۔۔ جس پر بابا جان نے بےساختہ قہقہ لگایا۔۔۔ بابا جان کے چہرے کی خوشی نے عیان کو چپ کروا دیا ۔۔ جو شخص ایمان کی زندگی میں خود کو ینگ سمجھتے تھے آج واقعی وہ بوڑھے لگنے لگے تھے اسی لیے شاید اپنے فرض پورا کرنا چاہتے تھے ۔۔ حج بھی ایک فرض ہی تھا ۔۔۔
@@@@@
اگلے دن ہی گاؤں سے صلاح الدین شاہ آ گئے تھے ۔۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا ۔۔ انشاء اور زینب بی کھانے کے انتظام میں مصروف تھیں ۔۔۔
حیدرشاہ اپنے کزن کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔۔۔
کھانے کے بعد وہ پرسکون ہو کر بیٹھے تھے تو صلاح الدین شاہ نے کہا ” تو کب کی فلائٹ ہے تمہاری ۔۔
“دس دن بعد کی ہے ۔۔۔
” ماشااللہ اللہ یہ دن سب کو نصیب کرے ۔۔ حج بھی ایک طرح کا فرض ہی تو ہے ہر مسلمان صاحب حیثیت پر ۔۔۔
” اور میرا خیال ہے حیدر یار تمہیں ایک اور فرض پورا کر کے پھر جانا چاہیۓ ۔۔۔حج پر جانے پر اصل سکوں تب ملتا ہے ۔۔ جب دنیاوی سارے فرض سے انسان سبکدوش ہو کر جاۓ , اصل مزا تو تب ہے ۔۔۔
ؔ “میں سمجھا نہیں تمہاری بات کا مطلب ۔۔۔ حیدر شاہ نے حیرت سے کہا ۔۔
” بیٹی کو اس طرح چھوڑ کر جا رہے ہو وہ بھی عیان کے آسرے پر کیا یہ مناسب ہے ۔۔ کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ تم اپنی بیٹی کو اس کے گھر کا کر کے جاؤ ۔۔ میں تو حیران ہوں اس بات کی طرف تمہاری توجہ ہی نہیں گئی ۔۔
“پر اتنا جلدی, ابھی انشاء کو مکمل سنبھلنے دینا چاہیۓ, ابھی تو ایمان کے غم سے نکلی نہیں میں اسے ایک اور اذیت نہیں دینا چاہتا ۔۔۔ حیدرشاہ نے دکھ سے کہا ۔۔۔
” میرے یار سمجھنے کی کرو , بیٹی کو اس طرح چھوڑ کر جا رہے ہو سوچو تمہارا حج کا قبول بھی ہوگا یا نہیں , ایک طرف خود ہی کہے رہے ہو زندگی کا بھروسہ نہیں ہے اور دوسری طرف خود اپنی ذمیداری سے منہ موڑ کے جارہے ہو ۔۔کمال کی بات ہے ۔۔۔ اس طرح اکیلے چھوڑ کے جانا مناسب نہیں عیان اس کا نامحرم ہے ۔۔۔
صلاح الدین شاہ نے ان کے دل و دماغ کو جنجھوڑ دیا تھا ۔۔۔ چند لمحے کے لیے تو وہ ساکت ہو گئے تھے کہ وہ اس بات پر کیا رائے دیں ۔۔۔ ان کی خاموشی کو نوٹ کرتے ہوئے دوبارہ صلاح الدین شاہ نے کہا ۔۔۔
” مجھے تمہارا احساس ہے حیدر یار , تمہاری بیٹی میری بیٹی کی طرح ہی ہے اسی لئے بھی اپنے ولید شاہ کا رشتہ مانگ رہا ہوں تم سے انشاء کے لیۓ , جیسے تمہارے گھر میں راج کررہی تھی ویسے ہی راج کرے گی میری حویلی میں ۔۔۔
“ولید شاہ ۔۔۔ زیرلب حیدرشاہ نے کہا ۔۔۔
وہ جانتے تھے ولید شاہ دو بچوں کا باپ ہے ۔۔۔جس کی بیوی پچھلے سال انتقال کرگئی تھی ڈلیوی کے دوران ۔۔۔
“کیا کہتے ہو یار ۔۔۔ انہوں نے کہا ۔۔۔
حیدر شاہ گم صم انداز میں ان کا چہرہ تکنے لگے۔۔۔
“اتنا کیا سوچ رہے ہو , میرے یار , ولید شاہ سے بہتر تمہیں کوئی رشتہ نہیں ملے گا ۔۔۔ صلاح الدین نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔
“میں ابھی کچھ نہیں کہے سکتا یار , بیٹی کا باپ ہوں , کچھ وقت سوچنے کا لونگا ۔۔ انشاء ابھی ایمان کے جانے کے غم سے سنبھلی نہیں , اتنی بڑی آزمائش اس پر کیسے ڈالوں ۔۔۔
حیدرشاہ نے دکھ سے کہا ۔۔۔
“اس طرح نہ سوچو یہ اس کے لیۓ بہتر فیصلہ ہوگا ۔۔۔چلو ٹھیک ہے , میں آج یہیں ہوں کل گاؤں سے سب اجائیں گے , تم ولید شاہ سے دوبارہ مل کے تسلی کرلو اپنی ۔۔۔
شاید صلاح الدین سب سوچ کر بیٹھے تھے , اور انہیں یقین تھا ان کے بیٹے کو کوئی ریجیکٹ نہیں کرسکتا ۔۔۔
اور وہ اپنی باتیں کرنے لگے ۔۔۔ ابھی کچھ دیر ہی ہوئی ملازم ایا اور کہا ۔۔۔
“صاحب , وحید صاحب آۓ ہیں ۔۔۔َ
“یہیں لے کر آؤ ان کو ۔۔۔ حیدر شاہ نے کہا ۔۔۔
“جی ٹھیک ہے صاحب ۔۔۔ ملازم اتنا کہے کر باہر چلا گیا ۔۔۔
@@@@@@