(Last Updated On: )
اک جذبہ چاہت کا
من میں میرے جاگا ہے
چھوڑ کر دل کی دھڑکن حالی
جب دل لے کے وہ بھاگا ہے۔ ۔
میں بیٹھا تھا سوچوں میں گم
زور پہ اس دن بارش تھی
سارے موسم کھل اٹھے تھے
دور کہیں اک سازش تھی
تب جو تم سے پیار ہوا تھا
کیا فرمانا وہ عجب تھا
جب یہ پوچھا نام بتا دو
دل دیا ہے جاں بھی دیں گے
گر یہ احساں تم جتا دو۔ ۔ ۔ ۔
میں نے پوچھا کیسے جانا
اس کا کہنا دل نے مانا
خلق پر تیرے مر مٹے ہم
اب نہ کرنا کوئ بہانہ۔ ۔ ۔
سوال ہوا اب منزل کا
جواب ملا بہت قریب
رہتے ہیں ہم سانسوں میں
موبائل کی میسج ٹون بجی تو کتابوں میں سر دیئے بیٹھی ڈی۔جے
چونکی۔ ۔ ۔ ۔ کل ہی وہ ہاسٹل واپس آ گئ تھی۔۔وہ اور آنیہ کل کے ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھیں۔۔۔ڈی۔جے نے فون اٹھا کر دیکھا سامنے اے۔کے کا نام جھگمگا رہا تھا۔۔۔اک مسکراہٹ بےاختیار اس کے ہونٹوں پر رقص کرنے لگی۔۔
آنیہ نے سر اٹھا کر مسکراتے ہونٹوں اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ اسے میسج پڑھتے دیکھا۔۔۔
خیر ہے کیوں مسکایا جا رہا ہے۔۔۔پین کان کے پیچھے لگاتی آنیہ نے اسے چھیڑا۔۔۔
اے۔کے نے نظم بھیجی ہے۔۔۔وہ ہلکا سا شرمائ۔۔آنیہ کی ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔
کیا ہے۔۔۔ڈی۔جے چڑ گئ۔۔۔
یار شرما کیسے رہی ہو تم ۔۔۔۔
دفعہ ہو۔۔۔۔انیہ کو دھکیلتی وہ موبائل لے کر بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔
ویسے یار رشک آتا ہے تجھ پر اتنا مخبت کرنے والا اوپر سے ڈیشنگ بندہ واہ یار۔۔۔آنیہ نے کھلے دل سے تعریف کی۔۔ڈی۔جے مسکرا دی۔۔واقعی اس نے اپنے آپ کو بہت خوش قسمت تصور کیا۔۔۔
چل تو پڑھ میں بزی ہوں ابھی۔۔۔موبائل کان سے لگاتی ڈی۔جے نے آنکھ دبا کر کہا۔۔آنیہ دوبارہ کتابوں میں گھس گئ۔۔
ڈی۔جے مسکراتی ہوئ فون پر بات کرنے میں مصروف تھی۔۔
________________________________________________________
ریش ڈرائیو کرتی سومو دانین کو لے کر ہسپتال پہنچی۔۔ڈاکٹر سومو کی دوست کی بہن تھی تو ان کو آسانی سے اپائمنٹ مل گئ۔۔۔
سر پر چوٹ کیسے لگی آپ کے۔۔۔ڈاکٹر اس کا معائنہ کرنے کے بعد اب سر پر پٹی کر رہی تھی۔۔۔
واش روم میں گِر گئ تھی۔۔۔دانین نے جھوٹ بولا۔۔آنکھیں جھکی ہوئ تھیں۔۔۔
تو آپ کو اختیاظ کرنی چاہیئے مس کاظمی۔۔پاؤں بھی زخمی کیا ہوا ہے ہاتھ بھی جلایا ہوا ہے۔۔۔ڈاکٹر اچھی خاصی بھرکی تھی اس پر بھلا ایسی بےپرواہی کون کرتا ہے۔۔۔
تھوڑی بےپرواہ سی ہوں تو لگ گئ۔۔آئندہ خیال رکھوں گی۔۔۔نظریں ابھی تک جھکی ہوئ تھیں جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔۔
پٹی کر دی ہے میں نے آپ کی۔۔کچھ دوائیاں لکھ رہی ہوں لے لینا آپ۔۔پریسکریپشن ڈاکٹر نے سومو کی طرف بڑھایا۔۔جسے سومو نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔۔۔۔
خدیجہ آپی اور تو کوئ مسئلہ نہیں ہے ناں۔۔۔سومو پریشان تھی۔کتنے کیسز ایسے دیکھے تھے اس نے جب چوٹیں بِگڑ کر ناسور بن جاتی ہیں۔۔۔۔۔
نہیں یہ ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔ڈاکٹر خدیجہ نے مسکرا کر جواب دیا۔۔
ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں ڈاکٹر۔۔خداخافظ کہتیں وہ دونوں دروازے تک پہنچیں۔ ۔ جب ڈاکٹر کی آواز سنائ دی۔۔۔
سومو۔۔۔
جی خدیجہ آپی۔۔۔سومو پلٹی۔۔۔
جب تک ان کے زخم ٹھیک نہیں ہو جاتے ان کو گھر کا کوئ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ڈاکٹر نے ہدایات دیں۔۔۔
شیور۔۔۔سومو نے کہا اور دانین کو لے کر ہسپتال سے نکل آئ۔۔۔۔
________________________________________________________
رات ہونے کو تھی اور دانین اور سومو کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔۔۔
کہاں ہوتی ہیں آپ بھابھی اور تم سائرہ روک نہیں سکتی تھی سومو کو۔۔۔۔اساور غصے میں اِدھراُدھر چکر کاٹتا پھر رہا تھا۔۔۔
میں کمرے میں تھی چاچو اور سومو کا پتہ ہے آپ کو کتنی ضدی ہے کسی کی نہیں سنتی۔۔۔سائرہ نے اپنی صفائ پیش کی۔۔اساور کے سامنے اس کی بھی بولتی بند ہو جاتی تھی۔۔۔۔
اور بھابھی آپ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی بات منہ میں ہی رہ گئ۔ ۔ نظر دروازے پر پڑی۔۔جہاں سے سومو لنگڑا کر چلتی دانین کو سہارا دے کر لا رہی تھی۔۔ان کے ساتھ اک درمیانی عمر کی عورت بھی تھی جو اماں بی کی بیٹی تھی۔۔ ۔ ۔۔۔
سومو کیا طریقہ ہے یہ بیٹا ہم یہاں پریشان ہو رہے ہیں اور آپ نے بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔۔۔اک نظر دانین پر ڈال کر وہ سومو کی طرف مڑا۔۔۔۔۔
دانین آپی کو ہسپتال لے کر گئ تھی۔۔۔اس نے چچی کی جگہ آپی کہا جو وہ پہلے کہا کرتی تھی۔۔پھر اساور سے شادی کے بعد چچی کہنے لگی تھی۔۔۔
کیوں اس ماہرانی کو کیا ہوا ہے۔۔۔سائرہ نے سر تا پیر اس کا جائزہ لیا۔۔وہ سہم گئ۔۔۔
کل آپ کو بھی لے چلوں گی آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس سائرہ آپی۔۔دکھ نہیں رہا کتنی چوٹیں آئ ہیں۔۔۔سومو نے دوبدو جواب دیا ۔ ۔۔اس کی بات پر اساور نے دانین کو دیکھا۔۔جس کے سر پر پٹی بندھی ہوئ تھی۔۔پاؤں کا زخم لنگڑا کر چلنے کی وجہ تھی۔۔۔جلے ہوۓ ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئ تھی۔۔۔اس کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔دانین نے جھکی پلکیں اٹھا کر بھری آنکھوں کے ساتھ پرشکوہ انداذ میں اسے دیکھا۔۔
اساور نے نظریں پھیر لیں ۔۔۔۔
پھر بھی بیٹا تمہیں بتانا چاہیئے تھا ۔۔۔اساور تھوڑا نرم پڑا۔۔۔
اساور چچا بتاتی تو تب جب آپ نے ان کے گھر سے باہر جانے پر پابندی نہ لگائ ہوتی۔۔۔سومو کے لہجے سے ناراضگی عیاں تھی۔۔وہ جب بہت ذیادہ ناراض ہوتی اسے چچا کہتی تھی۔۔۔
یہ کون ہے۔۔۔رخشندہ بھابھی نے پیچھے کھڑی درمیانی عمر کی عورت کی طرف اشارہ کیا۔۔
یہ اماں بی کی بیٹی ہیں۔۔گئ تو میں اماں بی کو لینے تھی مگر ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔تو ان کو لے آئ۔۔۔سومو نے کہا۔۔۔
کیوں۔۔۔سائرہ نے اپنے اذلی بدتمیز انداذ میں سوال کیا۔۔۔
کیوں کہ دانین آپی کو چوٹ آئ ہے ڈاکٹر نے آرام کا کہا ہے۔۔تو یہ اب سے کوئ کام نہیں کریں گی گھر کا جو کام ہو فقیراں بی کو بتا دینا۔۔۔۔۔۔سومو نے کہا تو سائرہ اور رخشندہ کا مارے غصے کے برا خال ہو رہا تھا۔۔۔۔
اتنی بڑی ہو گئ ہو کہ اپنی ماں سے پوچھے بغیر فیصلے لو۔۔۔رخشندہ بھابھی نے آگے بڑھ کر ایک زوردار تھپڑ سومو کو رسید کیا۔۔۔
کیا کر رہی ہیں بھابھی بچی ہے۔۔۔اساور نے سومو کو کھینچ کر ان کے آگے سے ہٹایا۔ورنہ دوسرا تھپڑ بھی تیار تھا۔۔۔
بچی ہے تو بچی بنے میری ماں نہ بنے۔اس گھر کے فیصلےمیں لیتی تھی اور میں ہی لوں گی۔۔۔رخشندہ بھابھی کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔۔۔۔سائرہ مسکرائ۔۔
ٹھیک ہے آپ چلائیں حکم جس پر چلانا ہے میں چلی جاتی ہوں۔۔۔سومو نے دانین کا ہاتھ پکڑا اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔
رکو رکو سومو بیٹا فقیراں بی یہیں رہیں گی آپ کہیں مت جاؤ۔۔اساور نے سومو کا ہاتھ پکڑا۔۔۔رخشندہ اور سائرہ تو خیران تھیں سومو اتنی خودسر کب سے ہوگئ تھی۔۔۔
آپ سب سن لیں دانین پر مزید ظلم نہیں ہونے دوں گی میں۔۔۔سومو تقریباً چیخی ہی تھی۔۔
کتنی چلتر لڑکی ہو تم میرا بیٹا تمہارا بھائ کھا گیا اور اب میری بیٹی کو تم نے میرے ہی خلاف کر دیا۔۔۔رخشندہ بھیگم پھپھری ہوئ دانین کی طرف بڑھیں۔۔۔
ماما پلیز ۔۔۔سومو دانین کے آگے کھڑی ہو گئ۔۔رخشندہ وہی رک گئ۔۔۔نہیں مارا سعدی نے امان بھیا کو اگر مارا ہوا ہے پھر بھی دانین کو سزا دینے کی کیا تُک بنتی ہے۔۔۔سومو غرائ۔۔دانین تو رخشندہ سے سہم کر سومو کے پیچھے چھپ گئ تھی۔۔۔۔
سومو۔اب آپ بدتمیزی کر رہی ہیں۔۔ اساور کو اس کے لہجے سے ذیادہ سعدی کو بےگناہ کہنا برا لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔
او پلیز بدتمیزی کی بات مت کریں آپ۔وہ کیا ہوتی ہے دانین کا جلا ہاتھ اور پھٹا سر بتا رہا ہے۔۔۔سومو نے سارا لخاظ آج بلاۓ طاق رکھ دیا تھا۔۔اساور کی نظریں جھک گئیں۔۔۔۔۔۔
فقیراں بی دانین آتی کو روم میں لے جائیں۔۔سومو نے فقیراں بی کو کہا جو دانین کا ہاتھ پکڑ کر لنگڑاتی ہوئ دانین کو لیئے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔
چچا آپ سے یہ امید نہیں تھی مجھے۔۔۔اساور سے شکوہ کرتی وہ اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔
تم نے دیکھا اساور کیسے سومو میرے بیٹے کے قاتلوں کی سائیڈ لے رہی ہے۔۔میرا امان تو مر گیا نا ۔میرا منتوں مانگا بیٹا۔میرا جگر کا ٹکڑا۔۔۔رخشندہ بھیگم کی آہ و پکار شروع ہو چکی تھی۔۔سائرہ اور اساور کے لیئے پھر ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔۔۔
یہاں ہر طرف ہے عجب سماں
سب ہی خود پسند سبھی خودنما
دل بےسکوں کو نہ مل سکا
کوئ چارہ گر بڑی دیر تک
مجھے زندگی ہے عزیز تر
اسی واسطے میرے ہمسفر
مجھے قطرہ قطرہ پِلا زہر
جو کرے اثر بڑی دیر تک
________________________________________________________
سومو کیا تھا یہ سب۔۔سائرہ دھڑام سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئ۔۔۔۔
سومو نے جلدی سے تکیہ کے نیچے کچھ چھپایا۔۔سائرہ کے اس طرح آنے سے وہ سٹپٹا گئ تھی جیسے کوئ چوری پکڑی گئ ہو۔۔مگر سائرہ کا دیہان اس طرف نہ گیا۔۔۔
کیا کر دیا ہے اب میں نے آپیا۔۔سائرہ کے چہرے کے تاثرات جانچتی وہ الماری کھول کر کھڑی ہو گئ جیسے چہرے پر چھائ سرخی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔۔۔۔
امان چلا گیا اب تم بھی چھوڑ جانے کی بات کر رہی ہو تو ماما ڈر گئ ہیں تم سے۔۔سائرہ کا لہجہ تیز تھا۔
ماما کو کہنا مجھ سے مت ڈریں میں تو بول کر دل کی بھراس نکال لیتی ہوں۔ڈرو دانین سے وہ چپ رہ کر سہہ جاتی ہے یاد رکھو اپیا مظلوم کے چپ کا حساب اللہ لے لیتا ہے وہ ناانصافیوں کو بحشتا نہیں ہے۔سومو کا لہجہ نرم مگر مظبوط تھا جو سیدھا دل پر اثر کرتا مگر سامنے سائرہ کاظمی تھی جذبات کو جوتی کی نوک تلے مسل دینے والی۔۔۔
تم کیوں اتنی طرف داری کرتی ہو اس کی۔۔۔سائرہ کے غصے کا میٹر بڑھ رہا تھا۔۔۔
اپیا رحم کریں اس پر یار اور یقین جانیں رحم کرنے والوں پر ہی رحم کیا جاتا ہے ۔۔۔سائرہ کے لہجے میں بےبسی اور اکتاہٹ ایک ساتھ در آئ۔وہ اس وقت اکیلے رہنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
اس کے بھائ نے رحم کیا تھا ہمارے بھائ کو مار ڈالا اس بھائ کو جو چلنے لگا تو میں نے اس کے پاؤں کے نیچے اپنی ہتھیلیاں رکھی کہ اسے چوٹ نہ لگے وہ بھائ جس کو میں نے خود سے ذیادہ چاہا۔۔۔سائرہ پھٹ پڑی تھی آنسو تواتر سے اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔۔۔
کچھ اپنوں کے دکھ انسان کو اتنا کھاتے ہیں اندر سے کہ وہ بےرحم اور سفاک ہو جاتا ہے۔۔۔۔
اپیا یار پر سعدی نہیں مار سکتا اسے الزام ہے اس پر۔ ۔۔وہ دونوں تو بیسٹ بڈیز تھے۔۔۔سائرہ کے کندھے پر تسلی کے لیئے ہاتھ رکھا جسے سائرہ نے جھٹکا۔ ۔۔
نہیں تھا وہ دوست آستین سا سانپ نکلا وہ تو۔۔۔سائرہ سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔
اچھا اپیا آپ جائیں ماما کے پاس مجھے آرام کرنا ہے تھک گئ ہوں۔۔۔سومو نے بات ختم کی۔۔وہ مزید یہ سب نہیں سننا چاہتی تھی جو اس کا دل مانتا نہ تھا۔۔۔
سومو میں بتا رہی ہوں آئندہ تمہاری وجہ سے ماما کو تکلیف نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔سائرہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے وارن کیا۔۔۔
اک میں ہی ہوں ساری مصیبت کی جڑ خود جو شادی شدہ ہونے کے باوجود یہاں بیٹھی ہمارے سینوں پر مونگ ڈال رہی ہیں ماما کو چابیاں لگا کر وہ سب ماما کو پریشان نہیں کرتا واہ رے واہ ہم ڈالیں تو سیاپا آپ ڈالیں تو کچھ نہیں اچھا ہے اچھا ہے۔۔۔وہ فقط دل میں ہی سوچ سکی اس وقت وہ اتنا تھکی ہوئ تھی کہ سائرہ سے پنگا افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے اپیا۔۔۔وہ مصنوعی سا مسکرائ۔۔۔۔سائرہ بھیگی آنکھیں پونجتی کمرے سے نکل گئ۔۔۔
مجھے ہنسنے نہیں دیتا
کسی کے یاد کا موسم
دل ا ویراں کی بیتابی
سلگتی شام کا منظر
سہانی صبح کی بکھری ہوئی
کرنوں کا اجلاپان
جلاتا ہے۔ مجھے ہر پل
کسی کے درد کا موسم
مجھے ہنسنے نہیں دیتا
جہاں میں پھیلتا نفرت کا یہ
پسرا سا سنناٹا
کس کی آنکھ کا دریا
میرے اطراف میں ٹھہرا ہوا
وحشت کا سونا پنن
مجھے ہنسنے نہیں دیتا
بکھرتا ٹوٹتا منظر
مجھے ہنسنے نہیں دیتا
۔تکیہ کے نیچے چھپایا البم نکالا۔۔۔ایک اداس سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئ۔۔۔۔
________________________________________________________
تمنْایں
جذبوں سے بھری
دل کے قبرستان میں دفن
سسکتی سلگتی
منتظر کامرانی کی
زندگی کی تلاش میں
رخص کرتی
حالآت سے جوجھتی
مسکرآ تی اپنی بےبسی پر
خاموشی سے امّید کا
دامن تھامے
بھینٹ چڑھ جاتی ہیں وقت
اور حالات کے تقاضوں پر
مگر پھر بھی زندہ رہتی ہیں
دل کے کسی گوشے میں
منتظر منتظر سی
دانین بیڈ پر لیٹی آرام کر رہی تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔وہ اساور تھا جو آج بہت خاموشی سے بغیر اس کی طرف دیکھے لیپ ٹاپ لے کر بیڈ پر اس کے برابر ترچھا سا بیٹھ گیا۔۔۔
وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔وہ کمرے میں داخل ہوتا تو طنز بڑھی نظروں سے اسے دیکھتا باتوں کے نشتر اس کی روح میں مارتا تھا۔۔بیڈ سے اٹھا کر کارپٹ پر پٹخ دیتا تھا۔۔مگر آج وہ چپ تھا۔۔شاید اس کی طبیعت کا حیال کر رہا تھا یا واقعی شرمندہ تھا وہ۔۔۔
دانین دھیرے سے بیڈ سے اٹھنے لگی۔ ۔
کہاں جا رہی ہو۔۔۔لیپ ٹاپ پر نظریں ٹِکاۓ عام سے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
نیچے آپ بےعزت کر کے اتاریں خود ہی اتر جاتی ہوں۔۔۔لحاف ٹانگوں سے ہٹایا کمزوری کی وجہ سے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔
لیٹ جاؤ اِدھر ہی سردی ہے بہت طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے تمہاری۔۔لہجہ وہی عام سا تھا نہ شرمندگی تھی لہجے میں نہ غصہ تھا نہ محبت تھی بس عام سا لہجہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔دانین دوبارہ سے لحاف ٹھیک کرتے لیٹ گئ جیسے منتظر ہو بس اس کے چند الفاظ کی۔۔لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔کروٹ کے بل لیٹے اس کی نظریں اساور پر تھیں جس کی نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر جمی ہوئ تھیں اور انگلیا تیزی سے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چل رہیں تھیں۔۔۔
اس کی نظروں کی تپش وہ اپنے چہرے پر محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔۔۔لیپ ٹاپ پر چلتی انگلیاں رکیں رخ پھیر کر دانین کو دیکھا جو بہت لگن اور دلچسبی سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو خفظ کر رہی تھی۔۔۔اساور کے دیکھنے پر وہ سٹپٹائ اور نظریں جھکا لیں۔۔اساور نے کچھ پل اسے دیکھا اور پھر سے لیپ ٹاپ پر نظریں مرکوز کر دیں۔۔۔۔۔۔۔
________________________________________________________
ہم جو تم سے ملے ہیں اتفاق تھوڑی ھے
مل کر تم کو چھوڑ دیں مزاق تھوڑی ھے
اگر ہوتی تم سے دوستی اک حد تک تو چھوڑ دیتے
پر ہماری تم سے دوستی کا حساب تھوڑی ھے
اب تم ڈھونڈو گے میری اس غزل کا جواب
یہ میرے دل کی آواز ھے کتاب تھوڑی ھے
مری لارنس کالج میں رات اتری تھی سب سٹوڈنٹس کمروں میں دبکے ہوۓ تھے۔کچھ سردی ہڈیوں میں اتر رہی تھی کچھ وارڈن جہاں داد کا خوف بھاری تھا ۔۔رات کے کھانے کے بعد کوئ سٹوڈنٹس کمروں سے باہر نہیں ملنا چاہیئے ورنہ شامت پکی ہوتی تھی اس کی۔۔۔۔
ایسے میں کوئ بھی لڑکا ہمت نہ کر سکتا تھا کالج سے کیا کمرے سے بھی نکلنے کی۔۔۔۔
لیکن وہ کیا ہے ڈھیٹوں کو کیا لینا دینا اس سب سے۔۔۔اور وہ دو ڈھیٹ تھے امان کاظمی اور سعدی رانا۔ جو ابھی تک جاگ رہے تھے جب باقی سب سٹوڈنٹس وارڈن کے خوف سے سو گۓ تھے۔۔۔
اے سعدی میرا بھائ نہیں ہے چل نا۔۔۔امان نے مصنوعی منت بھرا لہجہ اختیار کیا۔۔۔
نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گا جہاں داد صاحب کچا کھا جائیں گے۔۔۔سعدی نے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ڈر گیا ان سے تو مطلب سعدی رانا ڈر گیا افف خدایا یہ دن دیکھنے سے پہلے سعدی رانا کو اٹھا کیوں نہیں لیا تو نے۔۔۔امان نے اوپر کی طرف دیکھتے ہوۓ ایکٹنگ سٹارٹ کر دی تھی۔۔مصنوعی آہیں جاری تھیں۔۔۔۔
تیری تو مجھے کیوں اٹھا لیتا تجھے اٹھا لے سو شیطان مرے ہوں گے تو تم پیدا ہوا ہو گا۔۔۔سعدی نے جمپ لگا کر اسے سنگل بیڈ پر پھینکا اور اس کی گردن دبوچ لی۔۔۔۔
او میرے باپ اوپر سے تو ہٹ۔۔۔امان نے دہائ دی۔۔۔
چل بخشا تجھے کیا یاد کرے گا تو۔۔۔۔سعدی نے احسان جتاتے ہوۓ اسے پرے دھکیلا۔۔۔
سعدی کسی کو نہیں پتہ چلے گا میرا یار چل ناں۔۔۔امان پھر سے منتوں ترلوں پر آ گیا۔۔۔
تیری عاشقی معشوقی مرواۓ گی کسی دن ہم دونوں کو آئ سوئیر۔۔۔۔سعدی ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر اپنے سنگل بیذ پر آڑا ترچھا لیٹ گیا۔۔۔۔۔۔
جب عشق کیا تو ڈرنا کیا۔۔۔امان نے فلمی انداذ میں ڈائیلاگ مارا۔۔
افف یار میں بتا رہا ہوں تیری عاشقی تیرا سر کھاۓ گی ایک دن۔۔۔۔سعدی نے اسے تنبیہ کیا۔۔۔
دیکھیں گے ابھی تو چل وہ ویٹ کر رہی ہو گی پلیز میرا دوست میرا یار میرا بھائ۔۔۔۔امان نے اسے لاڈ سے پچکارا۔۔۔
چل ہٹ پڑے ڈرامے باز اماں نہ بن میری چلتا ہوں ساتھ اٹھ ۔۔۔سعدی نے اس کی منت بھری شکل دیکھ کر کہا۔۔۔
یاہو یہ ہوئ نا بات میرا بچہ۔۔۔امان خوشی سے اچھلتے ہوۓ اک کی طرف بڑھا۔۔۔
میرے باپ وہیں رک مجھ سے دور یہ عشق موذی مرض ہے پھیل بھی سکتا ہے۔۔۔سعدی نے ہاتھ اونچے کر کے اسے اپنی طرف بڑھنے سے روکا۔۔۔۔
اوکے ابھی چل۔۔۔دونوں اَپر کی ہڈی سر پر چڑھاۓ سردی سے بچاؤ کے تمام انتظامات کرتے پچھلے دروازے سے گارڈ کو چکما دے کر کالج سے نکل چکے تھے۔۔۔۔۔۔
________________________________________________________
آئ کم اِن سر۔۔۔اک لڑکی کی آواز گونجی تو اس نے روم ڈور کی طرف دیکھا۔۔۔
یس کم اِن۔۔۔وہ دوبارہ سے کسی فائل پر جھک چکا تھا۔۔
سر آپ نے حیا انٹرپرائزر والوں کے ساتھ میٹنگ فکس کی تھی۔۔۔وہاں کی سی۔ای او حیا سدوانی آپ سے ملنے آ چکی ہیں۔۔۔۔لڑکی جو کی اس کی سیکٹری تھی پروفیشنل انداذ میں بولی۔۔۔
اوکے کہاں ہے وہ۔۔۔اس نے فائل بند کرتےمحتصر سوال کیا۔۔۔
میٹنگ روم میں ھیں آپ کا ویٹ کر رہی ہیں۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔سیکٹری چلی گئ تو وہ بھی اٹھا اور میٹنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔۔
حیا انٹرپرائزر سے اس کی پہلی ڈیل تھی۔۔اسے لگا تھا شاید وہ کوئ عمر رسیدہ خاتون ہو گی ۔۔مگر اس کا انداذہ غلط ثابت ہوا۔۔۔
وہ ساڑھے پانچ فٹ کی اونچی لمبی ددھیا رنگت اور کالے چمکدار بالوں والی ایک جوان لڑکی تھی۔۔۔
بلیو پینٹ کے ساتھ بلیو شرٹ پہنے ،کانوں میں ڈائیمنڈ ائیررنگ ڈالے ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھی بےشک وہ اپسرا معلوم ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک نظر حیا پر ڈالی اور سر براہی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔جس کے ساتھ حیا بیٹھی تھی۔۔۔
ہاۓ آئ ایم حیا سدوانی۔۔لڑکی پروقار انداذ سے کھڑی پراعتماد لہجے میں بولی۔ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔۔۔
آئ ایم اے۔کے۔۔اس کے بڑھے ہاتھ کو تھاما۔۔حیا نے دلچسبی سے اسے دیکھا۔۔۔بلیک تھری پیس سوٹ میں بالوں کو جیل سے جماۓ گھنی مونچھوں سے ڈھکے ہونٹوں کے ساتھ وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
مس حیا آپ ہاتھ چھوڑیں گی میرا۔۔۔اس کا اس طرح خود کو تکنا اور ہاتھ نہ چھوڑنا عجیب لگا تھا اسے۔۔
او سوری۔۔۔حیا سدوانی نے اک کا ہاتھ چھوڑا۔۔۔
آپ کی کمپنی کا بہت نام سنا ہے بہت کم عرصے میں آپ نے کمپنی کو ترقی دی۔۔۔اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ بھی سربراہی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
جی صیح سنا ہے آپ نے۔میرے باپا سدوانی صاحب کی طبیعت خرابی کی وجہ سے کمپنی loss میں تھی اب میری سٹڈیز کمپلیٹ ہیں اور ترقی دوں گی اپنی کمپنی کو ۔۔۔۔حیا سدوانی پرغرور سی مسکرائ۔۔۔
اچھا لگا مجھے آپ ہمارے ساتھ ڈیل کرنے میں انٹرسٹڈ ہیں۔۔۔۔اے۔کے کا لہجہ حالصتاً کاروباری تھا۔۔وہ لڑکی کا کردار اس کی بھٹکتی نظروں کے جان جاتا تھا۔۔
آف کورس اے۔کے آئ مین مسٹر اے۔کے۔۔۔حیا کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو اسے چونکا رہا تھا۔۔۔
اوکے پھر آپ اپنے پرپوزل لے کر آئیے گا میٹنگ ٹائم میری سیکٹری بتا دے گی آپ کو۔ مجھے ابھی ضروری کام ہے تو میں چلتا ہوں۔۔۔گھڑی دیکھتے ہوۓ وہ اٹھا۔۔۔پروفیشنل مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ وہ میٹنگ روم سے نکل گیا۔۔۔
اے۔کے۔ ۔ حیا زیرِلب نام دہراتے ہوۓ مسکرائ۔۔
موبائل اور بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے۔۔۔۔۔
________________________________________________________