(Last Updated On: )
اک فنا کے گھاٹ اترا، ایک پاگل ہو گیا
یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا
جسم کے برفاب میں آنکھیں چمکتی ہیں ابھی
کون کہتا ہے اس کا حوصلہ شل ہو گیا
ذہن پر بے سمتیوں کی بارشیں اتنی ہوئیں
یہ علاقہ تو گھنے راستوں کا جنگل ہو گیا
اس کلید اسم نا معلوم سے کیسے کھلے
دل کا دروازہ کہ اندر سے مقفل ہو گیا
شعلہ زار گل سے گزرے تو سر آغاز ہی
اک شرر آنکھوں سے اترا، خون میں حل ہو گیا
شہر آئندہ کا دریا ہے گرفت ریگ میں
بس کہ جو ہونا ہے، اس کا فیصلہ کل ہو گیا
موسم خیراتِ گل آتا ہے کس کے نام پر
کون ہے جس کا لہو اس خاک میں حل ہو گیا
اس قدر خوابوں کو مسلا پائے آہن پوش نے
شوق کا آئین بالآخر معطل ہو گیا
٭٭٭