(Tennesse Williams کا کھیل The Glass Menagerie حذف اور اضافہ کے ساتھ)
افراد:
۔ صابرہ ماں
۔ نسرین بیٹی
۔ ظفر بیٹا
۔ انور ظفر کا دوست
۔ میڈم ٹائپ اینڈ شارٹ ہینڈ انسٹیٹیوٹ کی پرنسپل
٭٭
(صابرہ کا گھر۔۔۔ صابرہ، نسرین اور ظفر)
صابرہ: کبھی کبھی تو وہ ایسے میں آ جاتے ہیں، جب کسی کو ان کے آنے کا وہم گمان بھی نہیں ہوتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نواب نگر میں وہ ایک جمعہ کا دن تھا۔ نماز کے بعد کوئی چار بجے۔۔۔ اے لو میں تو بھول ہی گئی تھی، ذرا دیکھو جا کے۔۔۔۔ چائے کا پانی ہوا کہ نہیں۔
نسرین: امی جان میں۔۔
صابرہ: نہیں بیٹھی رہو
(صابرہ جاتی ہے)
ظفر: مجھے پتہ ہے، چائے لے کر آئیں گی تو پھر وہی قصہ سنائیں گی، ہزاروں بار کا سنا ہوا۔
نسرین: تو کیا ہو ا۔۔۔۔ انھیں سنانے دو
ظفر: بوریت۔۔ بوریت
نسرین: کچھ دیر کے لئے گئے دنوں میں کھو جاتی ہیں، اور کھوئی ہوئی خوشیوں کو تلاش کرتی ہیں۔ ہم کم سے کم اتنی مدد تو کر سکتے ہیں کہ ان کی باتیں سن لیں۔۔ جتنی بار بھی وہ سنائیں۔
ظفر: بے شمار دوسری کہانیوں کی طرح ایک معمولی سی کہانی
نسرین: معمولی کہانیاں ہی سچی کہانیاں ہوتی ہیں۔
(صابرہ واپس آتی ہے)
صابرہ: لو بھئی چائے بنا کے میں لے آئی۔ پیالیوں میں تم نکالو۔
نسرین: بھیا آپ
ظفر: امی اسے سمجھائیے، یہ کام لڑکیوں کے ہیں
صابرہ: ہاں تو میں کیا کہہ رہی تھی۔ نواب نگر میں جمعہ کے دن، کوئی چار بجے۔۔۔ تمھاری امی کے لئے ایک ساتھ سترہ پیام آئے تھے۔
ظفر: دس اور سات سترہ
(پس منظر میں ملی جلی آوازیں، محفل کا صوتی تاثر شروع ہوتا ہے)
صابرہ: ہوں، ایک کے بعد ایک، بغیر کسی اطلاع کے۔۔۔ اصل میں ہر ایک نے اپنی جگہ یہ سمجھا کہ بس ہمیں جا رہے ہیں۔ تو صاحب سترہ گھروں کی عورتیں، سترہ گھروں کے مرد، سترہ گھروں کے اتنے بہت سے چھوٹے بڑے بچے ! گھر کا یہ حال کہ زنانہ بھی اور مردانہ بھی کھچا کھچ بھرا ہوا۔ پڑوس میں سے قالین اور گاؤ تکئے منگانے پڑے۔
(محفل کا صوتی تاثر ختم)
ظفر: تو امی، آپ کی امی نے ان سب سے ایک ساتھ کیسے بات چیت کی ہو گی۔
صابرہ: میری امی ! وہ آج کل کی عورتوں کی طرح نہیں تھیں۔ انھیں بات کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ میں نے جو کچھ سگھڑ پن سیکھا ہے، انھیں سے سیکھا ہے۔
ظفر: نسرین مجھے چینی اور دو
نسرین: اچھا
صابرہ: وہ جانتی تھیں کہ کوئی بیٹی کا پیام لے کر آئے
(دور بجتی ہوئی شہنائی)
تو اس کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئیے۔ ویسے تو میں بھی۔۔۔ اب تم بچوں سے کیا کہوں۔۔ کہ صورت شکل اور سلیقہ مندی میں آس پاس کی کسی لڑکی سے پیچھے نہیں تھی۔ مگر اس زمانے میں صرف صورت شکل اور سگھڑاپا نہیں دیکھا جاتا تھا۔ ہڈی بوٹی بھی دیکھی جاتی تھی۔
(شہنائی بند)
ظفر: (ہنستا ہے) ہڈی بوٹی شوربہ نمک مرچ مسالا
صابرہ: ارے تم کیا جانو شریف خاندان سے ہونا ہی سب سے بڑی بات تھی ہمارے زمانے میں۔ اور شریف خاندان کی لڑکیوں کے لئے شریف خاندانوں ہی سے پیام آتے تھے۔ ایسے ویسوں کی تو ہمت ہی نہیں پڑتی تھی۔۔۔۔ بیٹی میرے لئے ایک پیالی اور۔
ظفر: سترہ شریف خاندان تو آپ ہی کے گھر چلے آئے تھے۔ باقی نواب نگر تو اُس دن شریفوں سے خالی ہو گیا ہو گا۔ (ہنستا ہے)
نسرین: امی انہیں ہنسنے دیجئے، میں سن رہی ہوں۔
صابرہ ؛ اللہ تمھارا بھلا کرے، پانچ تو ان میں سے ایسے تھے جن کا گھرکا زمیندارہ تھا۔ ایک رضا خاں تھے، جن کی بعد میں ایک انگریز سے مقدمہ بازی چلی۔۔ تم نے سنا ہو گا۔
ظفر: جی ہاں سنا ہے۔ بلکہ آپ ہی سے سنا ہے، کہ وہ انگریز رضا خاں سے مقدمہ ہار گیا۔ اس کی نوکری بھی جاتی رہی اور جیسا خالی ہاتھ ولایت سے آیا تھا۔۔ ویسا ہی ننگا بھوکا اسے واپس جانا پڑا۔
(ٹرین کی سیٹی اور چلنے کی آواز ابھر کر بند ہو جاتی ہے)
صابرہ: ٹھیک، بالکل ٹھیک۔۔۔ اور دوسرے وہ تھے۔۔۔ ان کا نام ہمیشہ ہی میں بھول جاتی ہوں۔۔۔۔ ہاں یاد آیا، دولہا جان۔۔۔ وہ کبھی اپنی مونچھ نیچی نہیں ہونے دیتے تھے۔ اسی میں یہ ہوا کہ برابر کے قصبے میں ایک اور بدمعاش تھا، اُس سے اِن کی ٹھن گئی۔ پھر دونوں طرف سے بندوقیں چلیں۔
چند فائر)
ایک گولی اُدھر سے ایسی آئی کہ مونچھوں کے ساتھ ان کا جبڑا بھی اڑا کے لے گئی۔
ظفر: پھر وہ لوگ پکڑے گئے۔
صابرہ: ہاں پکڑے گئے۔ مقدمہ چلا۔ ایک ایک پیشی کا حال مجھے زبانی یاد ہے۔ مگر ان سے بھی بڑھ چڑھ کر ایک صاحب اور تھے۔۔ اکبر علی۔۔۔ دور دور تک ان کی پیراکی کی دھوم تھی۔ مگر ایک دن
موجوں کا صوتی تاثر)
ندی میں پیرتے پیرتے جنگل کی طرف زیادہ دور نکل گئے۔ وہاں رہتا تھا ایک مگر مچھ۔
دور سے ’’ ہُو ‘‘ کی طویل آواز)
تو بس اس دن کے بعد وہ کسی کو نظر نہیں آئے۔ اور تمھیں کیا بتاؤں، بچوں کے سامنے بات کرتے ہوئے اچھا بھی تو نہیں لگتا۔۔۔ مرنے کے بعد جب ان کے کاغذات دیکھے گئے تو ان کاغذات میں لوگوں کو ایک تصویر بھی ملی۔ اب تم خود ہی سوچ لو وہ تصویر کس کی تھی۔ مگر آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میری تصویر ان کے ہاتھ کیسے لگ گئی تھی۔
ظفر: ایک نام اور بھی تو لیا کرتی ہیں آپ، وہ جو افریقہ چلا گیا تھا
صابرہ: چلا گیا تھا۔۔۔ بڑوں کے لئے اس طرح نہیں کہتے ہیں۔
ظفر: چلے گئے تھے
صابرہ: اور اتنا ڈھیر سونا لائے تھے وہاں کی کانوں سے۔ مگر جی ہمیں کسی سے کیا مطلب۔۔۔ ہماری امی اور ابو نے ہمارے لئے تمھارے ابو کو پسند کیا۔
نسرین: امی ذرا ادھر کو ہو جائیے۔۔۔ میز صاف کر دوں
صابرہ: نہیں بیٹی تم جاؤ اور کتاب دیکھ کر ٹائپ کرو۔ یا شارٹ ہینڈ کی پریکٹس کر لو کچھ دیر۔۔ گھر کا زیادہ کام نہ کیا کرو۔ تمھارے چہرے پر ہر وقت تازگی رہنی چاہئیے۔ کیا معلوم کس وقت کون آ جائے۔
نسرین: (دھیمے لہجے میں) کون آئے گا۔ کوئی بھی نہیں۔ آپ فضول انتظار کرتی ہیں۔
صابرہ: لو بھلا کیوں نہیں آئے گا۔ کوئی نہ کوئی ضرور آئے گا۔ تم دل مت جلایا کرو میرا۔۔۔ کوئی بھی نہیں آئے گا، یہ تم نے کیسے کہہ دیا۔ دیکھ لینا اتنے آئیں گے، اتنے آئیں گے، کہ یہ گھر کھچا کھچ ان سے بھر جائے گا۔ کبھی کبھی تو وہ ایسے میں آ جاتے ہیں، جب کسی کو ان کے آنے کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
(موسیقی)
(ٹائپ سکھانے کا ادارہ۔۔ ہلکا سا شور۔۔ بہت سے ٹائپ رائٹروں کی کھٹا کھٹ)
صابرہ: میڈم، میں نسرین انوار کی ماں ہوں
میڈم: نسرین انوار۔۔ کون نسرین انوار۔۔۔ جہاں تک میں سمجھتی ہوں، ہمارے انسٹیٹیوٹ میں اس نام کی کوئی طالبہ نہیں۔
صابرہ: ہے کیسے نہیں میڈم۔۔۔ وہ تو جنوری سے برابر ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سیکھنے یہاں آتی ہے۔۔ میں گھر پر بھی اس سے پریکٹس کراتی ہوں۔ میں نے ایک پرانا ٹائپ رائٹر نیلام میں سے خرید کر اسے دیا ہے۔
میڈم: (سوچتے ہوئے) نسرین انوار۔۔۔۔ نسرین۔۔۔۔ اور آپ اس شرمیلی سی لڑکی کی بات تو نہیں کر رہیں۔۔ جو جنوری کے مہینے میں دو چار روز تو آتی رہی، پھر اس نے یہاں آنا چھوڑ دیا۔
صابرہ: جی نہیں، وہ کوئی اور نسرین ہو گی۔ میری بیٹی نسرین، وہ دو مہینے سے بلا ناغہ کلاس میں آ رہی ہے۔
میڈم: ویل۔۔۔ اچھا تو۔۔ اٹینڈنس رجسٹر۔۔۔ آں۔۔
(اوراق الٹنے کی آواز)
یہ دیکھئے یہ لکھا ہے اس کا نام۔۔۔۔ نسرین انوار
صابرہ: جی، جی ہاں۔۔ یہی، یہی
میڈم: اور یہ دیکھئے ایک دو تین چار پانچ چھ۔۔۔ چھ دن کی اس کی حاضری لگی ہوئی ہے۔ اس کے بعد آج تک Absent
صابرہ: جی ہاں، یہ تو ہے۔۔۔ پر۔۔۔ پر میری سمجھ میں نہیں آتا۔۔ شاید میڈم۔۔ شاید کوئی دوسرا رجسٹر۔۔
میڈم: نہیں حاضری کا یہی ایک رجسٹر ہے۔
صابرہ: وہ تو روزانہ آتی ہے۔
میڈم: اس طرح کے کئی اور کیس بھی ہمارے نوٹس میں آئے ہیں۔ لیکن یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ کچھ لڑکیاں ٹائپ سیکھنے کے مقابلے میں دوستوں کے ساتھ تفریح کرنے کو زیادہ پسند کرتی ہیں خاتون۔
صابرہ: (ناراض) نہیں۔۔۔ میری بیٹی ایسی نہیں ہے۔۔۔ (تھکی ہوئی آواز) وہ، وہ تو روزانہ ٹائپ سیکھنے آتی ہے۔ (آواز میں مایوسی) آج نہیں آئی تو میں یہ بتانے آئی تھی کہ اس کی طبیعت خراب ہے۔ دو روز کی چھٹی !
میڈم: ہوں، وہ لڑکی۔۔۔ اب مجھے ٹھیک ٹھیک یاد۔۔۔ یس وہ صرف چند روز آئی تھی۔۔۔ (سوچتے ہوئے) ٹائپ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ لرزتے تھے۔۔۔ سب سے زیادہ mistakes۔ مجھے اب سب کچھ یاد آ گیا۔ ایک ہفتے کے بعد جب پہلی بار ٹیسٹ لیا گیا تو وہ بری طرح نروس ہو گئی۔ میرے سر میں درد ہے۔ اس نے کہا۔ میں گھر جاؤں گی۔۔ سو وہ گھر چلی گئی۔۔۔ پھر نہیں آئی۔۔ ایک دن بھی نہیں آئی۔۔۔ بالکل نہیں آئی۔
صابرہ: دھیمی آواز) پانی ایک گلاس
(موسیقی)
٭٭
(صابرہ کا گھر۔ صابرہ اور نسرین)
صابرہ: (آتے ہوئے) دھوکہ، دھو کہ، فریب فریب
نسرین: اوہ امی آپ کہاں گئی تھیں۔۔۔ آپ کہاں سے آ رہی ہیں۔
صابرہ: میں کہیں نہیں گئی تھی۔۔۔ میں کہیں سے نہیں آ رہی۔۔ اصل میں کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ رہی تھی جہاں زمین پھٹے اور میں سما جاؤں۔
نسرین: امی
صابرہ: پتہ ہے تمھاری عمر کتنی ہو گئی
نسرین: جی، وہ میں کیا بتاؤں، آپ اچھی طرح جانتی ہیں۔
صابرہ: میں سمجھتی تھی کہ بچپن کو تم پیچھے چھوڑ آئی ہو۔ مگر میرا خیال غلط نکلا
نسرین: امی آپ مجھے عجیب سی نظروں سے کیوں دیکھ رہی ہیں۔
صابرہ: اس گھرانے کا جانے کیا ہو گا۔ یہ کیسے دن آ رہے ہیں۔ کسی کو کل کا خیال نہیں
نسرین: بات کیا ہوئی آخر۔۔۔ جی۔۔ کیا ہوا
صابرہ: کسی کام سے بڑے بازار گئی تھی تو میں نے سوچا کہ ہیپی ٹائپ انسٹیٹیوٹ ہوتی چلوں، انھیں یہ بھی بتا دوں کہ نسرین کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور یہ بھی دیکھ آؤں گی کہ تمھارے ٹیسٹ کیسے جا رہے ہیں۔
نسرین: اوہ
صابرہ: اپنا سا منہ لے کر چلی آئی۔ میں نے تمھارے لئے کیا سوچا تھا اور تم نے کیا کیا۔۔۔ کہاں جایا کرتی تھیں۔۔۔ (ڈانٹ) جواب دو
نسرین: کہیں نہیں
صابرہ: کہیں نہیں کیسے۔۔۔ بولو کہاں جاتی تھیں
نسرین: نجمہ کے گھر
صابرہ: کیوں
نسرین: صاف صاف جواب دیتی ہے) میرا دل ٹائپ میں نہیں لگتا۔ مجھ سے ٹائپ نہیں کی جاتی۔
صابرہ: صبح کے آٹھ بجے سے شام کے پانچ بجے تک تم نجمہ کے گھر رہتی تھیں۔
نسرین: کبھی کبھی ہم دونوں چڑیا گھر بھی چلے جاتے تھے۔ وہ نجمہ کے گھر کے قریب ہی ہے۔
صابرہ: اور میں خوش تھی کہ چلو پڑھائی میں نہ سہی ٹائپ میں تو تمھارا دل لگ گیا۔
(بھرائی ہوئی آواز میں) تم مجھے کیوں فریب دیتی رہیں، بتاؤ۔۔۔ فریب کیوں دیا
نسرین: امی، آپ کی مرضی کا کوئی کام نہ ہو تو آپ کے چہرے پر اداسی چھا جاتی ہے، اور آپ کا اداس چہرہ ایسا ہوتا ہے کہ میں اسے دیکھ نہیں سکتی ایک پل بھی
صابرہ: (نرم پڑ جاتی ہے) تو بیٹی اب یہ بتاؤ کہ ہو گا کیا۔ کیا ہم یوں ہی حالات کے رحم و کرم پر پڑے رہیں گے۔ کیا ہم حالات کی موجوں میں بہتے ہوئے ہاتھ پاؤں بھی نہیں مار سکتے۔
نسرین: امی
صابرہ: یہ جو اتنے بہت سے شیشے کے کھلونے تم نے الماری میں سجا رکھے ہیں، کیا عمر بھر تم انھیں سے کھیلتی رہو گی۔
نسرین: امی جان
صابرہ: یہ پرانے گراموفون رکارڈ، جنھیں تمھارا باپ ہمارے ساتھ چھوڑ گیا ہے۔۔ انھیں کو بار بار سنتی رہو گی۔۔ ہمیشہ۔۔۔ اب تم اتنی بھی بچی نہیں کہ اپنے برے بھلے کو نہ پہچانو۔۔ یہ زمانہ عقل مند بننے کا نہیں، چالاک بننے کا ہے یہ زمانہ۔
نسرین: جی
صابرہ: ہم جو چاہتے ہیں، اسے کسی طرح حاصل کریں۔ سوچنے کی بات بس یہی ہے۔ کیا تم نے شہر میں ایسی لڑکیاں نہیں دیکھیں، جنھوں نے کوئی ہنر نہیں سیکھا اور شوہر کے انتظار میں بوڑھی ہو گئیں۔ اور جب ان کے ماں باپ دونوں دنیا سے اٹھ جاتے ہیں تو یا تو وہ بھاوجوں کی محتاج ہوتی ہیں، یا بہنوئیوں کے ٹکڑوں پر پڑی رہتی ہیں۔۔۔ کیا آنے والے دنوں میں تمھارے ساتھ بھی یہی ہونا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کوئی اچھی بات نہ ہو گی نسرین۔ میری بات سن رہی و
نسرین: جی
صابرہ: آج کل کے لڑکے ایسی لڑکیوں سے شادی کرنا پسند کرتے ہیں، جو خود بھی کچھ نہ کچھ کمانے کے لائق ہوں۔
نسرین: میرے کمانے اور نہ کمانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا امی
صابرہ: کیوں
نسرین: اس لئے کہ۔۔۔۔ میں لنگڑی ہوں۔
صابرہ: (غصہ میں) بد تمیز۔۔ میں نے کتنی بار کہا ہے کہ یہ لفظ ہرگز ہرگز زبان پر نہیں آنا چاہیئے۔ (لہجہ بدل کر) تم وہ نہیں وہ جو کہ کہہ رہی ہو۔۔ اسے لنگڑا پن کون کہے گا۔۔ تمھاری ایک ٹانگ میں معمولی سا فرق ہے۔۔ وہ بھی اتنا کم کہ کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔۔۔ اور دیکھو جن لڑکیوں میں اس طرح کی کوئی کمی ہوتی ہے، وہ کسی اور طرح اسے پورا کر لیتی ہیں۔ وہ اپنی صورت شکل کا خاص خیال رکھتی ہیں۔۔۔ تمھارے باپ میں بھی اگر کوئی خوبی تھی تو بس یہی کہ وہ دلوں میں اتر جاتے تھے۔
(میوزک)
انور: ظفر
ظفر: یار بس اک دو منٹ
انور: اتنی محنت نہ کیا کرو پیارے
ظفر: بس دو سطریں اس فائل پر
انور: میں کینٹین میں انتظار۔۔۔
ظفر: ٹھہرو، ساتھ ہی چلیں گے۔۔۔ آں۔۔ submitted for approval
بس۔۔۔ آؤ چلیں
(چلتے ہوئے)
انور: ظفر ہم دوسروں ہی سے approval مانگتے رہیں گے، کبھی خود بھی approve کرنے کے لائق ہوں گے یا نہیں۔
ظفر: اگر تقدیر کے ہاتھ کا کھلونا بنے رہے تو۔۔۔ نہیں
(کینٹین میں داخل ہوتے ہیں۔ لوگوں کے قہقہے اور باتوں کی بھنبھناہٹ)
ظفر: وہ میز خالی ہے
(مختصر وقفہ۔ کرسیاں سرکانے کی آواز)
انور: تقدیر کے ہاتھوں کا کھلونا
ظفر: اور کیا۔۔۔۔ بیرا چائے
انور: میں نے لیکچر انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لیا ہے۔ شام کی کلاسیں، وہ بات کرنے کا فن سکھاتے ہیں۔ تقریر کو کیسے دل چسپ بنایا جائے۔
ظفر: لیڈری کرو گے
انور: نہیں
ظفر: کوئی ایگزیکٹیو جاب
انور: اس کا تقریر سے کیا تعلق
ظفر: بڑا گہرا تعلق ہے۔۔۔ بڑی پوسٹ پر پہنچو تو کام کی کم اور باتوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
(دونوں ہنستے ہیں)
انور: ویسے میں ریڈیو انجینئرنگ کا کورس بھی کر رہا ہوں۔ اصل بات تو یہ ہے مائی ڈئیر کہ میں زندگی میں ترقی کرنا چاہتا ہوں۔ اور ابھی میری عمر بھی ایسی ہے کہ اگر صحیح Linesپر کام کروں گو۔۔۔
ظفر: ابھی تو ہم اس حالت میں ہیں کہ دیکھو بیرا بھی لفٹ نہیں دے رہا۔
کتنی دیر ہو گئی ہے، چائے نہیں لایا۔
انور ؛ تم بھی میرے ساتھ چلا کرو۔
ظفر: کہاں
انور: لکچر انسٹیٹیوٹ
ظفر: نو پلیز
انور: کیوں
ظفر: کیوں۔۔۔ بتا ہی دوں تمھیں۔۔
انور: اوہ یس
ظفر: میرے اندر ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بہہ رہا ہے۔
انور: what do you mean
ظفر: میں بڑے بڑے طوفانوں کے خواب دیکھتا ہوں۔ آسمان سے باتیں کرتی ہوئی لہروں کے درمیان ہچکولے کھاتا ہوا میرا جہاز !
یہ ہے میری ambition میری سب سے بڑی آرزو !
انور: بحری جہاز کے کپتان
ظفر: آج یہاں، کل وہاں۔۔۔ موجوں سے کھیلتے ہوئے۔ ہیلو میں کیپٹن ظفر بول رہا ہوں۔ اس وقت ہمارا جہاز ۲۳ ڈگری عرض البلد اور ۲۵ ڈگری طول البلد کے درمیان ہے۔ سمندر میں چار نمبر کا طوفان ہے اور ہم اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہیلو، ہیلو۔۔ ارے وائر لیس کا رابطہ بھی ٹوٹ گیا۔
(دونوں ہنستے ہیں)
(صابرہ اور ظفر میں جھگڑا)
ظفر: میں، میرا اس گھر میں کیا ہے امی۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں
صابرہ: (تحکم) آواز نیچی کرو۔
ظفر: اس گھر میں کوئی چیز ایس نہیں، جسے میں اپنا کہہ سکوں۔۔۔ کوئی چیز
صابرہ: میرے سامنے زور سے مت بولو۔
ظفر ؛ کل آپ نے میری کتابیں چھین لیں
صابرہ: وہ ناول اچھا نہیں تھا۔ میں نے لائبریری کو واپس بھجوا دیا۔ کسی بیمار ذہن کا لکھا ہوا ناول۔۔۔ میں ایسی کتابیں اپنے گھر میں لانے کی اجازت نہیں دوں گی۔ نہیں، نہیں، نہیں !
ظفر: گھر گھر گھر۔۔۔ اس گھر کا کرایہ کون دیتا ہے۔
صابرہ: اوہ۔۔ فوہ۔۔ تمھاری یہ ہمت۔۔۔۔ میں یہ کہتی ہوں کہ۔۔۔
ظفر: (بات کاٹ کر) میں اب کچھ نہیں سنوں گا۔
صابرہ: کیسے نہیں سنو گے۔
ظفر: (جاتے ہوئے) میں اس گھر ہی سے جا رہا ہوں
صابرہ: خبر دار۔۔۔ واپس آؤ
ظفر: نہیں نہیں۔۔۔ کیونکہ میں۔۔۔
صابرہ: (قطع کلام) واپس آؤ۔۔۔ نہیں تو میں تم سے بولنا چھوڑ دوں گی۔
ظفر: چھوڑ دیجئے
نسرین: بھائی جان !
صابرہ: تمھیں میری بات سننی ہو گی۔۔ اور خبر دار جو اب کوئی الٹی بات کی یا میرے ساتھ زبان چلائی۔ اب تک میں نے بہت برداشت کیا ہے۔
ظفر: (واپس آتے ہوئے) امی جان میں بھی بہت برداشت کر چکا۔ آپ مجھے بالکل بھی اہمیت نہیں دیتیں۔۔ آپ سوچتی ہی نہیں کہ میں دنیا میں کیا کرنا چاہتا ہوں اور مجھے کیا کرنا پڑ رہا ہے۔
صابرہ: جو کچھ کر رہے ہو اُس پر تمھیں شرم آنی چاہئیے۔ یہ جو تم روزانہ رات کو اتنی دیر سے گھر آتے ہو، تو میں یہ نہیں مان سکتی کہ تم فلم دیکھنے جاتے ہو۔ یہ صرف بہانہ ہے۔ کوئی روز بلا ناغہ فلم نہیں دیکھ سکتا۔ میں سب سمجھتی ہوں۔ کوئی فلم بھی رات کے دو بجے تک نہیں چلتی۔ واپس آتے ہو تو پاگلوں کی طرح اپنے آپ سے باتیں کرتے ہو۔ (لہجہ نرم ہو جاتا ہے) دو بجے آتے ہو اور پانچ بجے کام پر جانے کے لئے تمھیں اٹھنا پڑتا ہے۔ ذرا آئینے میں اپنی صورت دیکھو۔ کیا حال ہو رہا ہے۔
ظفر: میں یہ نوکری چھوڑ دوں گا۔
صابرہ: کیسے چھوڑو گے۔ کیا مجھے اور اپنی بہن کو فاقے کراؤ گے۔
ظفر: مجھے فیکٹری میں کلرکی پسند نہیں۔ کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں ساٹھ سال کی عمر تک اس فیکٹری ہی میں سر پٹکتا رہوں۔
صابرہ: پھر چل دئیے۔ کہاں جا رہے ہو۔
ظفر: پکچر دیکھنے
صابرہ: میں نہیں مانتی
ظفر: اچھا تو پھر سمجھ لیجئے کہ میں چرس پینے جا رہا ہوں۔ ہاں چرس کے اڈے پر۔۔۔ جہاں شہر کے تمام بدنام لوگ جمع ہوتے ہیں۔ میں بھی انھیں میں سے ایک ہوں۔ بس کرائے کا قاتل ہوں۔ روپے لے کر قتل کرتا ہوں۔ جی ہاں میں وائلن کے بکس میں ٹامی گن لئے گھومتا ہوں۔ سب مجھے قاتل کہتے ہیں۔ خونی ظفر !
میں دوہری زندگی گزارتا ہوں، دن کو میں فیکٹری میں کام کرنے والا شریف کلرک ہوتا ہوں، اور رات کو غنڈوں کا سرغنہ۔ میں جوا خانے میں جاتا ہوں اور دھوکے سے لوگوں کو لوٹتا ہوں۔ میرے چشمے کا ایک شیشہ سفید اور ایک شیشہ کالا ہوتا ہے۔ میں مصنوعی مونچھیں لگا تا ہوں۔ وہاں لوگ مجھے ٹارزن کہتے ہیں۔۔۔ امی جان اگر میں اپنی تمام حرکتیں آپ کو بتا دوں تو آپ کی راتوں کی نیند اُڑ جائے گی۔۔۔ اب مجھے نہ روکئے۔
صابرہ: میں تمھیں نہیں جانے دوں گی۔
ظفر: میرا کوٹ چھوڑئیے
صابرہ: نہیں چھوڑوں گی
ظفر: تو لیجئے میں بغیر کوٹ کے بھی جا سکتا ہوں، میں کوٹ ہی اتارے دیتا ہوں
نسرین: بھیا
(میوزک)
٭٭
(رات کے سناٹے کا صوتی تاثر۔۔ تیز ہوا چل رہی ہے) (سپاہی کی سیٹی)
ظفر: (نشے میں) میرا جہاز وِسل دے رہا ہے۔۔ ہاہاہا۔۔ ابھی لنگر نہ اٹھاؤ، تمھارا کیپٹن ساحل کی کنواریوں سے رومان لڑا رہا ہے۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔
(سپاہی کی سیٹی)
آخری وارننگ۔۔۔۔ جہاز اب کسی کا انتظار نہیں کر سکتا۔۔ سیڑھی ہٹائی جاتی ہے۔۔ ہاہاہا۔۔ ان لوگوں کی کھوپڑی میں دماغ ہی نہیں۔۔ ارے بے وقوفو ! جب تک کیپٹن اپنے کیبن میں نہ پہنچ جائے۔۔ کیا جہاز حرکت میں آ سکتا ہے۔۔ کیپٹن کے بغیر جہاز چلاؤ گے تو تمھیں کوئی منزل نہیں ملے گی۔۔ کوئی منزل نہیں ملے گی۔۔۔ ہاہاہا
کانسٹبل: (سیٹی بجاتا ہوا قریب آتا ہے) ہالٹ
ظفر: یس ہالٹ
کانسٹبل: کون ہو تم
ظفر: کیپٹن آف اے شپ
کانسٹبل: تھانے چلو، تم نے نشہ کیا ہے۔
ظفر: تھانہ کتنی دور ہے کانسٹبل
کانسٹبل: وہ سامنے جہاں لال بتی نظر آ رہی ہے۔
ظفر: وہاں تو ہم صرف موٹر لانچ میں بیٹھ کر جا سکتے ہیں، یہ سامنے جو گیٹ ہے، وہاں تک ہم ٹہلتے ہوئے بھی جا سکتے ہیں۔
کانسٹبل: وہ گیٹ
ظفر: یس
کانسٹبل: تم وہاں رہتے ہو
ظفر: یس
کانسٹبل: اس گھر میں تو وہ بڑی بی۔۔۔ شریف خاتون
ظفر: that woman is my mother
کانسٹبل؛ اُن کی وجہ سے تمھیں چھوڑے دیتا ہوں۔۔۔ سیدھے گھر جاؤ، آئندہ میں تمھیں اس حالت میں نہ دیکھوں۔
ظفر: تھینک یو۔۔ ہم جب اپنے جہاز میں زمین کے چاروں طرف چکر لگائیں گے میجی لین کی طرح تو تمھیں عرشے پر جگہ دیں گے۔۔ ہاہاہا
(مختصر وقفہ، ہوا کی سائیں سائیں)
ظفر: (گیٹ کو ٹھوکریں مارتا ہے) ایک ٹھوکر اور ماروں تو گیٹ کھل جائے گا اور بلڈنگ گر جائے گی۔
نسرین: بھیا، بھیا۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ
ظفر: میں گیٹ سے پوچھ رہا ہوں کہ چابی کہاں ہے۔
(گیٹ کھلتا ہے۔۔ قدموں کی آواز۔۔ دونوں کمرے میں پہنچتے ہیں)
نسرین: اب تک کہاں رہے
ظفر: پکچر
نسرین: صبح کے پانچ بج رہے ہیں، کیا اب تک پکچر چل رہی تھی۔
(ظفر کا نشہ اترنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی آواز نارمل ہو جاتی ہے)
ظفر: اسپیشل شو۔۔ مار پیٹ سے بھر پور فلم۔۔۔ سمندری قزاقوں سے مقابلہ ! پھر کارٹون فلم۔۔ پھر نگر نگر کی سیر۔۔۔ آنے والی فلم کا ٹریلر۔۔ اس کے بعد مزاحیہ فلم، جس میں موٹی عورت دبلے آدمی سے پٹتی ہے۔
نسرین: بھیا
ظفر: میں بھول گیا، ایک اسٹیج شو بھی ہوا۔ ہاتھ کی صفائی کا کھیل۔۔ ایک گلاس کا پانی خود بخود اُڑ کر دوسرے گلاس میں پہنچ گیا۔ پھر وہ پانی دیسی شراب بن گیا۔ دیسی شراب بئیر بن گئی۔۔۔ بئیر وسکی بن گئی۔۔ وہ واقعی وہسکی تھی۔۔ کیونکہ جادو کے پروفیسر نے مجھے مجمع میں سے بلا کر کہا، پیو۔۔۔ میں نے پی اور گواہی دی کہ وہسکی ہے۔ پھر اس نے رنگین کاغذ کی ٹائی بنا کر مجھے دی۔۔ یہ دیکھو یہ رہی وہ ٹائی میرے گلے میں۔ وہ کاغذ کپڑا بن گیا، پھر ہم نے اسے صندوق میں بند کر دیا۔ اور صندوق کو سمندر میں بہا دیا۔
نسرین: بس بھیا خاموش رہو۔
ظفر: (ناراض آواز) نسرین میں تو مذاق کر رہا تھا۔ تو سمجھی کہ سچ مچ۔۔
نسرین: نشہ اتر گیا تو کہہ رہے ہو۔
(کلاک پانچ بجاتا ہے)
صابرہ: (دور سے) پانچ بج گئے۔ بچو اٹھ جاؤ۔۔۔ نسرین اپنے بھیا سے کہو کہ چائے تیار ہے۔
نسرین: بھیا دن نکل آیا۔۔ امی کو پریشان نہ کرو، تم نے ان سے بات چیت بند کر رکھی ہے، اس کا مجھے بڑا دکھ ہے۔
ظفر: بولنا پہلے انھوں نے چھوڑا
نسرین: تم ذرا سی بھی خوشامد کر لو گے تو وہ معاف کر دیں گی اور بولنے لگیں گی۔
ظفر: وہ اگر بات نہیں کرتیں تو اس میں میرا کیا نقصان ہے
نسرین: بھیا۔۔۔ بھیا
صابرہ: (دور سے) نسرین میں نے جس کام کے لئے رات کہا تھا وہ کرو گی یا نہیں۔
یا میں خود بازار جاؤں۔
نسرین: بلند آواز) جا رہی ہوں۔ ڈبل روٹی کے ساتھ اور کیا کہا تھا آپ نے
صابرہ: بس ڈبل روٹی۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔ اور اپنے بھائی سے کہو کہ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔
نسرین: بھیا جاؤ امی کے پاس۔۔ انھیں مناؤ۔۔ انھیں مناؤ بھیا
ظفر: آں
صابرہ: (دور سے) بھی تم جاتی ہو یا نہیں
نسرین: جا رہی ہوں، امی جا رہی ہوں
(جاتے ہوئے قدموں کی آواز، پھر کچھ فاصلے پر نسرین کی چیخ)
صابرہ: میری بیٹی (بھاگ کر آتی ہے)
ظفر: نسرین بھاگ کر آتا ہے)
نسرین: میں ٹھیک ہوں، دہلیز پر پاؤں پھسل گیا تھا۔ چوٹ نہیں لگی۔
صابرہ: مالک مکان نے دروازوں کی ایسی سیڑھیاں بنوائی ہیں کہ جی چاہتا ہے اس پر کیس کر دوں۔
(مختصر موسیقی)
ظفر: (زیرِ لب) چائے بہت گرم ہے۔
(صابرہ کھانستی ہے)
امی مجھے معاف کر دو۔ امی مجھ سے غلطی ہوئی
صابرہ: (بھرائی ہوئی آواز) میری اولاد مجھے اپنا دشمن سمجھتی ہے۔
ظفر: نہیں یہ بات نہیں ہے امی
صابرہ: فکروں کے مارے مجھے نیند کم آتی ہے۔ اس سے میرا مزاج چڑ چڑا ہو گیا ہے۔
ظفر: مجھے اس کا احساس ہے امی
صابرہ: اتنے زمانے سے میں تنہا حالات کا مقابلہ کر رہی ہوں۔ اب تم میرا سہارا بنو۔ مجھے سہارا دو
ظفر: جی امی
صابرہ: انسان کوشش کرے تو ضرور کامیاب ہوتا ہے۔ تم بہت کچھ کر سکتے ہو، میں جانتی ہوں تم ہیرا ہو ہیرا۔ میرے دونوں بچے، لاکھوں میں ایک۔۔
مجھ سے سیک وعدہ کرو
ظفر: جی
صابرہ: وعدہ کرو کہ کبھی شراب نہیں پیو گے۔
ظفر: کبھی نہیں پیوں گا۔
صابرہ: بس مجھے یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ تم پینے نہ لگو۔۔۔ لو دلیہ کھاؤ
ظفر: نہیں امی، بس چائے
صابرہ: نوکری پر جا رہے ہو۔ کیا دن بھر خالی پیٹ رہو گے۔ اتنی گرم چائے نہ پیو، ابھی جانے میں کافی دیر ہے۔ نسرین کو میں نے جان بوجھ کر بازار بھیجا ہے۔ تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔
ظفر: جی
صابرہ: نسرین
ظفر: جی نسرین
صابرہ: دیکھتے ہو اس کی کیا حالت ہے۔ ہر وقت خاموش خاموش، کھوئی کھوئی سی رہتی ہے۔ میں نے اسے سب سے چھپ کر آنسو بہاتے بھی دیکھا ہے۔
ظفر: کیوں
صابرہ: تمھارے لئے
ظفر؛ میرے لئے
صابرہ: وہ سمجھتی ہے کہ تم یہاں خوش نہیں ہو۔
ظفر: ایسا کیوں سمجھتی ہے۔
صابرہ: تمھاری حرکتوں سے۔۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔ میں بھی جانتی ہوں کہ اس چھوٹی سی ملازمت سے تم خوش نہیں ہو۔ مگر انسان کو زندگی میں قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔۔ اس دنیا میں زندہ رہنا کچھ آسان نہیں ہے بیٹا۔۔۔ میرے دل میں اتنی باتیں ہیں، اتنی باتیں ہیں کہ انھیں شمار نہیں کر سکتی۔۔۔ وہ تمھارے ابو
ظفر: امی
صابرہ: اور تم۔۔۔ جب میں دیکھتی ہوں کہ ان کی طرح تم بھی راتوں کو دیر تک گھر سے غائب رہتے ہو۔۔۔ مجھے غافل نہ سمجھو، رات تم پی کر آئے تھے۔۔۔ بولتے کیوں نہیں۔۔
ظفر: فیکٹری کو جاؤں۔۔۔ دیر ہو رہی ہے۔
صابرہ: نہیں۔۔ بیٹھے رہو
ظفر: دیر ہو جائے تو وہ غیر حاضری لگا دیتے ہیں
صابرہ: ابھی پندرہ منٹ باقی ہیں۔۔۔ میں نسرین کے لئے کچھ کہنا چاہتی ہوں
ظفر: جی کہئیے
صابرہ: اس کے لئے ہمیں کچھ سوچنا ہے۔ اور کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ اس کی عمر کافی ہو چکی ہے۔ اب وہ مجھ پر ایک بوجھ ہے۔ بھاری بوجھ
ظفر: جی
صابرہ: اس کے ہاتھ پیلے ہو جانے چاہئیں۔
ظفر: جی ہاں
صابرہ: اپنے باپ کے نقش قدم پر مت چلو۔ وہ بھی رات رات بھر غائب رہتے تھے۔ اور پھر ایک دن بالکل ہی غائب ہو گئے۔ خدا حافظ کہے بغیر۔ تمھارے پاس بھی جہازوں کی کمپنی کا خط آیا تھا۔ میں اندھی نہیں ہوں۔ مگر میں تمھارے راستے کا پتھر بھی بننا نہیں چاہتی۔ لیکن کہیں جانے سے پہلے تمھیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ گھر پر تمھاری جگہ لینے والا بھی کوئی ہے یا نہیں۔
ظفر: کیا مطلب
صابرہ: مطلب یہ کہ نسرین کی ذمہ داری لینے والا کوئی ہو۔ وہ اپنے گھر کی ہو جائے، پھر تمھیں اختیار ہے۔ جہاں جی چاہے چلے جانا۔ اس کی شادی سے پہلے تم جاؤ گے تو اچھا نہیں کرو گے۔ میرا کیا ہے، آج مری کل دوسرا دن۔ میں نسرین کے لئے کہہ رہی ہوں۔ جسے دنیا میں ایک زندگی گزارنی ہے۔ میں نے چاہا تھا کہ وہ ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سیکھ لے مگر اس نے مجھے دھوکا دیا۔۔۔ اب وہ کیا کرتی ہے۔۔۔ دن بھر شیشہ کے کھلونوں کے درمیان بیٹھے رہنا۔۔۔ اور پرانے گراموفون رکارڈ سننا۔۔۔ کہیں لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں۔
ظفر: تو میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ اب نوکری کو دیر ہو جائے گی۔
صابرہ: میں جو کہنا چاہتی تھی، ابھی تک تم سے نہیں کہہ سکی۔
ظفر: میں اب چلتا ہوں
صابرہ: (ہچکچاتے ہوئے) کیا۔۔ کیا ظفر۔۔ وہاں تمھاری فیکٹری میں۔۔۔ کوئی ایسا شریف لڑکا نہیں ہے جو۔۔
ظفر: نہیں
صابرہ: سوچو تو ضرور کوئی ہو گا۔
ظفر: امی
صابرہ: تلاش کرو ایسا لڑکا جو شریف ہو۔۔۔ شرابی نہ ہو۔۔۔۔ اور اس سے بات کر کے دیکھو
ظفر: جی
صابرہ: ہاں اپنی بہن کے لئے
(میوزک)
ظفر: اوکے تو پھر پکی بات
انور: اوہ یس۔۔۔ پکی بات
ظفر: انتظار نہ کرنا پڑے
انور: نہیں یار، میں وقت پر پہنچ جاؤں گا یہاں۔۔ پھر ساتھ چلیں گے۔
(میوزک)
٭٭
(صابرہ کا گھر۔۔۔ ظفر کے آتے ہوئے قدم۔۔ خاموشی)
ظفر: آپ نماز کے بعد کیا دعا مانگتی ہیں
صابرہ: تمھیں کیوں بتاؤں
ظفر: میں سمجھ گیا
صابرہ: کیا
ظفر: نسرین کے لئے کوئی منگیتر
صابرہ: تو
ظفر: آئے گا
صابرہ: کیا
ظفر: منگیتر
صابرہ: تم نے کسی سے بات کی
ظفر: ایک لڑکے کو کھانے پر بلایا ہے
صابرہ: اُس نے دعوت قبول کر لی
ظفر: جی
صابرہ: اچھا اچھا اچھا ٹھیک۔۔۔ کب آئے گا
ظفر: کل
صابرہ: کل ؟
ظفر: جی امی
صابرہ: لیکن ظفر
ظفر: جی امی
صابرہ: وقت بہت کم ہے
ظفر: کا ہے کے لئے
صابرہ: تیاری کے لئے۔ تمھیں چاہئیے تھا کہ جیسے ہی بات ہوئی تھی، فوراً مجھے فون کر دیتے۔ میں اسی وقت سے تیاری شروع کر دیتی۔
ظفر: کچھ زیادہ تیاری کی ضرورت نہیں
صابرہ: اوہ ظفر۔۔۔ ظفر۔۔۔ نہیں مجھے بہت تیاری کرنی ہے۔ کھانے کی میز کا میز پوش نیا ہونا چاہئیے۔ اعلیٰ قسم کا۔۔ کھڑکیوں کے تمام شیشے صاف کرنے ہیں۔ پردے بھی دھلے ہوئے نکالوں گی۔ اور کپڑے۔۔ ہم لوگوں کا لباس بھی اچھا ہونا چاہئیے۔
ظفر: امی وہ لڑکا ایسا نہیں ہے، جس کے لئے اتنی تیاریاں کی جائیں۔
صابرہ: یہ نہ بھولو کہ وہ تمھاری بہن کا منگیتر ہے
ظفر: اتنا بکھیڑا نہ پھیلائیے۔۔۔ نہیں تو میں اس سے کہہ دوں گا کہ پھر کبھی۔۔
صابرہ: تم ایسا ہرگز نہیں کر سکے۔ دعوت دے کے انکار کر دینا۔ اس کا لوگ بہت برا مانتے ہیں۔ بس یہی تو ہے مجھے کچھ زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ گھر کی صفائی میں۔۔۔ اور کیا ہے۔۔۔ لیکن گھر ایسا صاف ستھرا سجا ہوا ہو جیسے کوئی معائنہ کرنے آ رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ گھر میں نیا صوفا ہے۔ ایک بڑا لیمپ بھی میں نے اتفاق سے خرید لیا تھا۔ اس کی روشنی میں ہر چیز چمکنے لگے گی۔۔۔ اُس لڑکے کا نام کیا ہے۔
ظفر: انور
صابرہ: تلی ہوئی مچھلی تو ضرور ہونی چاہئیے۔ میں صبح ہی صبح منگوا لوں گی یا خود جا کر لے آؤں گی۔
تمھاری فیکٹری میں کام کرتا ہے۔
ظفر: جی
صابرہ: ظفر۔۔۔ وہ پیتا تو نہیں
ظفر: یہ بات کیوں پوچھ رہی ہیں
صابرہ: تمھارے باپ پیتے تھے
ظفر: تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے
صابرہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پیتا ہے
ظفر: اصل میں مجھے پتہ نہیں
صابرہ: اچھی طرح پوچھ گچھ کر لو۔ چھان بین کر لو۔ اپنی بیٹی کے لئے میں ایسا لڑکا ہرگز نہیں چاہتی جو شرابی ہو
ظفر: آپ تو ابھی سے سب کچھ طے کئے لے رہی ہیں۔ وہ بے چارا تو ابھی یہاں آیا بھی نہیں۔
صابرہ: کل تو آئے گا۔ اور مجھے اس کے چال چلن کے بارے میں کیا معلوم، کچھ بھی نہیں۔
لڑکیاں ماؤں کے گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جائیں، پھر بھی اُن لڑکیوں سے اچھی رہتی ہیں جن کے شوہر نشہ باز ہوں۔
ظفر: ابھی کیا معلوم امی۔۔۔۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر بات طے ہوتی چلی جائے۔
صابرہ: اوہ ظفر، تمھارے دماغ میں الٹے سیدھے خیال بہت آتے ہیں۔۔۔۔ تو وہاں فیکٹری میں اس کا کام کیا ہے
ظفر: وہ شپنگ کلرک ہے
صابرہ: یہ تو اچھا خاصا ذمہ داری کا کام معلوم ہوتا ہے۔ تنخواہ کتنی ہو گی، کچھ اندازہ ہے۔
ظفر: مجھ سے کچھ زیادہ ہی کماتا ہے
صابرہ: ایک شادی شدہ جوڑا اتنی رقم میں مشکل ہی سے گزر بسر کر سکتا ہے۔ پھر بھی ٹھیک ہے۔ اس کی اور باتیں بتاؤ۔۔۔ کیا نام بتایا تھا تم نے
ظفر: انور
صابرہ: اور وہ شراب نہیں پیتا
ظفر: کل اس سے پوچھ لوں گا
صابرہ: ایسی باتیں پوچھا نہیں کرتے۔ دوسرے طریقوں سے معلوم کرتے ہیں۔ دوسرے لوگوں سے تحقیقات کرتے ہیں۔ بھئی ہمارے زمانے میں تو ایسا ہی ہوتا تھا۔ اور پھر لوگوں میں یہ خوبی تھی کہ بیٹی والے معلوم کرتے تھے تو دھوکا نہیں دیتے تھے۔ ایک ایک بات صحیح صحیح بتاتے تھے۔
ظفر: تو پھر آپ کے ماں باپ کیسے دھو کا کھا گئے تھے۔
صابرہ: ارے چھوڑو اب کیسے تمھیں بتاؤں۔ اصل میں جتنے بھی جاننے والے تھے، وہ سب تمھارے باپ سے پیار کرتے تھے۔ ان کی ہنسی ایسی تھی کہ سب کا دل موہ لیتی تھی۔۔۔ یہ لڑکا جو ہے انور،۔۔ زیادہ خوبصورت تو نہیں
ظفر: نہیں۔ بس معمولی سا
صابرہ: لڑکے میں دیکھنے کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس کا چال چلن کیسا ہے۔
ظفر: ایک بات آپ کو بتا دوں امی، اسے نسرین کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ میں نے یونہی باتوں باتوں میں کہا، یار کبھی ہمارے گھر آؤ۔۔۔ اس نے کہا۔۔ اچھا۔۔۔ بس اتنی بات ہوئی۔
صابرہ: آئے گا تو خود ہی دیکھ لے گا، کہ اس گھر میں ایک لڑکی بھی ہے۔۔۔ چودھویں کا چاند
ظفر: امی آپ برا نہ مانیں تو کہوں۔۔۔ نسرین ایسی نہیں جیسی آپ کو نظر آتی ہے
صابرہ: کیا کہتے ہو
ظفر: وہ دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں، اس نے ایک علیحدہ دنیا بنا لی ہے۔ شیشے کے کھلونوں کی دنیا۔۔ اور اُس دنیا میں وہ پرانے گراموفون ریکارڈ سنتی رہتی ہے۔
صابرہ ؛ تو پھر
ظفر: امی وہ میری بہن ہے۔ آپ کی بیٹی ہے۔۔۔۔ وہ ہماری اپنی ہے۔۔۔۔ اس لئے ہمیں اس میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ۔۔ لنگڑی بھی ہے۔۔
صابرہ: ظفر ! میرے گھر میں یہ لفظ کسی کی زبان پر نہیں آ سکتا۔۔۔ خبر دار جو اُسے لنگڑی کہا۔۔۔
نہیں تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔ سمجھے
(میوزک)
(صابرہ کا گھر)
صابرہ: تم کانپ کیوں رہی ہو
نسرین: آپ نے پریشان جو کر رکھا ہے
صابرہ: میں نے کیا پریشان کیا
نسرین: یہی سب کچھ
صابرہ: لڑکی تو میری سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔ میں جب بھی تمھاری بھلائی کا کوئی کام کرتی ہوں، تم اُس کی مخالفت کرتی ہو۔۔۔ اب ذرا آئینہ دیکھو۔۔۔ مگر ٹھہرو۔۔۔ تھوڑا سا پاؤڈر اور۔۔۔
نسرین: امی آپ کیا کر رہی ہیں
صابرہ: یہ کوئی دنیا سے نرالی بات نہیں
نسرین: یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی کے لئے جال پھیلا رہے ہیں
صابرہ: (ہنستی ہے) خوبصورت لڑکیاں جال ہی تو ہوتی ہیں۔۔۔ آں، اب تم آئینہ دیکھ سکتی ہو۔۔۔
اب ذرا میں بھی تیار ہو جاؤں
(صابرہ کے جاتے ہوئے قدم)
صابرہ: (دور سے)تھوڑی دیر میں جب تم اپنی امی کو دیکھو گی تو حیران رہ جاؤ گی
(مختصر وقفہ)
(دور ہی سے) ابھی شام نہیں ہوئی ہے
(مختصر وقفہ)
(دور ہی سے) مجھے بالکل بدلا ہوا پاؤ گی تھوڑی دیر میں
نسرین: (بلند آواز) کیا کر رہی ہیں آپ
صابرہ: (دور سے) ذرا صبر کرو۔۔۔ خود ہی دیکھ لو گی۔۔ بڑے زمانے کے بعد صندوق میں سے یہ جوڑا نکالا ہے
(مختصر وقفہ)
(آتے ہوئے قدم) اب ذرا اپنی امی کو دیکھو۔۔۔ یہ میرا چوتھی کا جوڑا ہے۔۔ زندگی میں صرف چار مرتبہ اسے میں پہنا ہے۔ ایک تو چوتھی کی رات، دوسرے ایک پیاری سی سہیلی کی شادی میں۔ پھر ایک دفعہ تمھارے ابو نے اتنی ضد کی، اتنی ضد کی کہ مجھے یہ جوڑا پہننا پڑا۔ اور چوتھی بار آج !
(بادلوں کی گرج)
بارش سے پہلے ہی وہ آ جائیں گے۔ ظفر کو میں نے کچھ زیادہ پیسے دے دئیے ہیں۔ وہ اور انور ٹیکسی میں بھی آ سکتے ہیں۔ اور سنو، جس وقت وہ آئیں گے، میں باورچی خانے میں ہوں گی۔ دروازہ تم کھولو گی۔
نسرین: امی
صابرہ: بس کہہ دیا میں نے
نسرین: امی دروازہ آپ کھولئے گا۔۔۔ میں نہیں
صابرہ: نہیں تم۔۔ تم۔۔۔ میں جا رہی ہوں باورچی خانے میں
(جاتی ہے)
نسرین: امی
(دروازے کی گھنٹی بجتی ہے)
صابرہ: (دور سے) نسرین۔۔۔ میری گڑیا۔۔۔ دروازہ
(دروازے پر)
انور: دیکھا ہم بارش سے پہلے پہنچ گئے
ظفر: ہوں۔۔۔ سگریٹ
انور: تھینکس
(دروازے کی گھنٹی)
صابرہ: (دور سے) نسرین وہ ظفر اور انور ہیں۔۔۔ جاؤ دروازہ کھول دو۔۔۔ میری اچھی سی بٹیا
نسرین: (بلند آواز) امی آپ
صابرہ: (کرخت لہجہ) میں باورچی خانے میں کام کر رہی ہوں
نسرین: (بلند آواز) امی، میں نہیں آپ
صابرہ: (دور سے) تو کیا وہ یوں ہی دروازے پر انتظار کرتے رہیں گے
نسرین ؛ امی
صابرہ: کہا کیوں نہیں مانتیں
نسرین: (جھنجھلا کر) امی امی امی
صابرہ: (دور سے) تمھیں دروازہ پر جانا پڑے گا
نسرین ؛ نہیں
صابرہ: کیوں
نسرین: میری طبیعت خراب ہے
صابرہ: میری طبیعت بھی خراب ہو رہی ہے تمھاری بے وقوفی کی وجہ سے
(دروازے پر طویل گھنٹی)
صابرہ: (پیاری سی آواز میں) اچھا۔۔۔ آ رہی ہوں (نسرین سے) تمھیں ڈر کیوں لگ رہا ہے
جاؤ، جلدی کرو۔
نسرین: اوہ، اوہ، اوہ۔۔۔
صابرہ: سیدھی دروازے پر جاؤ
نسرین: اچھا اچھا اچھا
(مختصر وقفہ اور دروازہ کھولنے کی آواز)
ظفر: انور یہ میری بہن ہے نسرین
انور ؛ مجھے خبر نہیں تھی کہ تمھاری بہن بھی ہیں۔۔ آداب
نسرین: آداب
ظفر: چلی گئی، اصل میں شرماتی بہت ہے۔۔ آؤ اندر آؤ
انور: (چلتے ہوئے) آج کل کسی لڑکی شرمیلا ہونا، عجیب سی بات ہے۔۔۔ پہلے کبھی شاید تم نے ذکر نہیں کیا تھا اپنی بہن کا۔
ظفر: ہاں اصل میں کبھی ایسی بات نکلی ہی نہیں، جو گھر کی تفصیلی تک جاتی۔۔۔ بیٹھو
صابرہ: (دور سے میٹھی آواز) ظفر
ظفر: جی امی
صابرہ: کیا تمھارے ساتھ انور آئے ہیں
ظفر: جی ہاں
صابرہ: اچھا۔۔۔ آرام سے بیٹھو
انور: ہاں تو اور سناؤ
ظفر: میں جب بھی جوتے میں پاؤں ڈالتا ہوں تو ایک ہی خیال آتا ہے
انور: کیا
ظفر: کہ جوتے کا صحیح استعمال یہ ہے کہ وہ کسی مسافر کے پاؤں میں ہو
انور: (ہنستا ہے) خوب
ظفر: میں یونین آف مرچنٹ سی مین، کا ممبر ہوں۔۔۔ گھر سے بجلی کے بل کے لئے جو پیسے ملے تھے، وہ میں نے یونین کی فیس میں دے دئیے۔
انور: ارے پھر تو تمھارے گھر کی بجلی کٹ جائے گی
ظفر: میں اس وقت تک یہاں ہوں گا ہی نہیں
انور: تمھاری مدر mother
ظفر: میں اپنے باپ پر گیا ہوں۔۔۔ جیسا باپ ویسا بیٹا۔۔۔ سولہ سال سے انھوں نے اپنی کوئی خبر بھیجی، نہ ہماری خبر منگائی
انور: تمھاری امی کیا کہتی ہیں
ظفر: شی، امی آ رہی ہیں۔۔۔ انھیں خبر نہیں کہ میرے کیا ارادے ہیں
صابرہ: (آتے ہوئے) بھئی کہاں تم لوگ لڑکیوں کی طرح) اوہ یہ ہیں انور، ظفر نے تمھاری اتنی بہت سی باتیں بتائیں تو میں نے کہا بھئی اتنے اچھے دوست سے ہمیں بھی ملواؤ۔ بلکہ میں تو تمھیں دیکھنے وہیں فیکٹری میں آنے والی تھی۔ بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ۔۔۔ ظفر دروازہ کھلا رہنے دو تازہ ہوا کے لئے۔۔۔ ابھی ابھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا تھا۔۔۔ اور بھئی کھانے کا خیال نہ کرنا، میں کچھ زیادہ انتظام نہ کر سکی۔۔ وقت ہی نہیں تھا۔۔ بس جلدی میں جو کچھ ہو سکا۔۔۔ ویسے بھی اس موسم کے لئے ہلکی غذا اور ہلکا لباس مناسب ہے۔ میں نے آج ہی ٹرنک میں سے یہ ہلکے کپڑے نکال کر پہنے ہیں۔۔۔ پرانے فیشن کے ہیں مگر۔۔۔ گرمی کے لئے بہترین۔
ظفر: امی
صابرہ: جی
ظفر: کھانے میں کیا دیر ہے
صابرہ: جاؤ، اپنی بہت سے پوچھو۔ سب انتظام اسی نے کیا ہے۔۔ اس سے کہو، تمھیں اور انور کو بھوک لگ رہی ہے۔۔ (انور سے) نسرین سے ملاقات ہوئی؟
انور: جی، وہ
صابرہ: ہاں، اسی نے تو دروازہ کھولا تھا۔۔۔ اچھی صورت کی لڑکیاں گھر کے دھندوں سے دور بھاگتی ہیں، مگر میری بچی خوبصورت ہوتے ہوئے بھی گھریلو قسم کی ہے۔
انور: جی
صابرہ: میں کبھی اس کی طرح سگھڑ نہ بن سکی۔۔۔ مجھے تو کبھی کھانا پکانا بھی نہیں آیا سوائے تلی ہوئی مچھلی کے۔۔ میرے میکے میں تو اتنے ملازم تھے۔۔ اب وہ سب خواب و خیال ہو گیا۔۔ میرے لئے تو زمینداروں اور جاگیرداروں کے رشتے آتے تھے۔۔۔ جہاں دولت ہی دولت تھی۔ سونا ہی سونا۔۔ اور ملازم ہی ملازم۔۔ مگر میں بیاہ کر نہ کسی زمیندار کے گھر گئی نہ کسی جاگیردار کے۔ میرا جیون ساتھی ایک ایسا آدمی بنا جو ٹیلی فون کے محکمے میں ملازم تھا، وہ تصویر دیکھو دیوار پر۔۔۔ ایک ٹیلی فون کا ملازم، جسے فاصلوں سے محبت تھی۔ اب وہ سفر پر سفر کئے جا رہا ہے اور مجھے معلوم بھی نہیں کہ کہاں ہے۔
ظفر: (آتے ہوئے) امی
صابرہ: کیا خبر لائے۔ کھانا تیار ہے
ظفر: میز پر لگا دیا گیا
صابرہ: آؤ انور
(قدموں کی آوازیں)
صابرہ: نسرین کہاں ہیں۔
ظفر: کہتی ہے طبیعت ٹھیک نہیں ہے، میں نہیں کھاؤں گی
صابرہ: اے واہ۔۔۔ کیسے نہیں کھائیں گی۔۔۔ نسرین او نسرین
نسرین: (دور سے) جی امی
صابرہ: چلو کھانے کی میز پر۔۔۔ تم نہیں آؤ گی تو ہم میں سے کوئی بھی کھانے کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ انور یہ کرسی تمھاری ہے۔ (پکارتی ہے) نسرین۔ بیٹی۔۔ سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں، مہمان کا خیال کرو۔
(بادل کی گرج)
میری اچھی بیٹی۔۔۔ آ گئیں نا۔۔۔ شاباش۔۔۔ اپنی کرسی سنبھالو
نسرین: آہ
ظفر: (گھبرا کر) نسرین
صابرہ: میری بچی۔۔۔ ہائے ابھی گر جاتیں۔۔۔ واقعی تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔ ظفر انھیں سہارا دو۔۔۔ جاؤ بیٹی اُس کمرے میں آرام کرو، وہاں صوفا جو پڑا ہے۔۔ اُس پر۔
(ظفر اور نسرین جاتے ہیں)
اے یہ کیا، بارش شروع ہو گئی۔۔۔ اور کتنا پیارا موسم ہو گیا۔۔ (ظفر سے) پہنچا دیا انھیں۔
ظفر: جی
صابرہ: تو پھر میرے خیال میں کھانا شروع کیا جائے۔
(کچھ دیر تک موسیقی پھر بارش اور ہوا کا تاثر)
ظفر: اوہ بجلی چلی گئی۔
انور: جنگِ عظیم کے دوران جب برلن میں پہلی بار روشنی گئی تو ہٹلر کہاں تھا۔۔۔ کوئی بتا سکتا ہے
صابرہ: (ہنستی ہے) ہم ہارے، تم جیتے۔۔۔ تمھیں بتاؤ
انور: جنگِ عظیم کے دوران جب برلن میں پہلی بار روشنی گئی تو ہٹلر۔۔۔۔ اندھیرے میں تھا۔
(سب ہنستے ہیں)
صابرہ ؛ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہو۔۔۔ میں موم بتیاں جلاتی ہوں۔۔ ماچس ہے تم دونوں میں سے کسی کے پاس۔
انور: جی یہ رہی
(مختصر وقفہ)
انور: (ہنس کر) تو اب شام کا باقی حصہ ہم انیسویں صدی میں گزاریں گے، جب مسٹر ایڈیسن نے مزدا لیمپ ایجاد نہیں کیا تھا۔
(سب کی ہنسی)
صابرہ: خیر کھانا تو ہم نے کھا ہی لیا۔ اُن کی بڑی مہربانی کہ انھوں نے ہمیں اندھیرے میں دھکیلنے سے پہلے کھانا کھا لینے دیا۔۔۔ ظفر اب تم میز پر سے برتن اٹھانے میں میری مدد کرو۔
انور: میں بھی
صابرہ: نہیں، تم نہیں۔۔۔ ظفر اٹھاؤ برتن اور چلو میرے ساتھ باورچی خانے میں۔ اور انور تم روشنی اُس کمرے میں پہنچا دو۔۔ نسرین ڈر رہی ہوں گی۔
برتنوں اور قدموں کی آوازیں)
انور: نسرین، تم یہاں ہو
نسرین: (آہستہ) جی
انور: اب طبیعت کیسی ہے
نسرین: ٹھیک ہے
انور: چیونگم
نسرین؛ نہیں
انور: جانتی ہو، پہلا چیونگم کس نے بنایا تھا
نسرین: معلوم نہیں
انور: مجھے بھی معلوم نہیں (ہنستا ہے)
تمھیں ہنسی نہیں آتی
نسرین: جی
انور: ظفر کہہ رہے تھے تم بہت شرماتی ہو
نسرین: معلوم نہیں
انور: معلوم ہوتا ہے، تمھیں کچھ بھی معلوم نہیں
نسرین: انور صاحب، آپ اب بھی گاتے ہیں
انور: میں اور گانا ؟
نسرین: جی، مجھے یاد ہے آپ کی آواز بہت اچھی ہوا کرتی تھی
انور: تم نے کب سنا
نسرین: کئی بار۔۔۔۔ آپ نے مجھے پہچانا نہیں
انور: (سوچتے ہوئے) جس وقت تم نے دروازہ کھولا، تو مجھے ایک دم محسوس ہوا کہ تمھیں پہلے بھی دیکھا ہے۔ پھر میں دل ہی دل میں سوچتا رہا۔۔۔ ایسا یاد پڑتا ہے کہ میں تمھارا کچھ اور نام لیا کرتا تھا۔
نسرین: نیلا گلاب تو نہیں
انور: (پر جوش لہجہ) ہاں نیلا گلاب۔۔۔ اسکول کے دنوں میں تمھارا یہ نام میں نے رکھا تھا
نسرین: ایک دفعہ کئی دن تک میں اسکول نہیں گئی۔۔۔ جب گئی تو آپ نے پوچھا
انور: آپ نہیں تم
نسرین: تم نے پوچھا، کیا بات تھا۔۔۔ میں نے کہا طبیعت خراب تھی۔۔۔ تم نے سنا، نیلا گلاب۔۔۔ بس پھر تم مجھے نیلا گلاب کہنے لگے۔
انور: ہم باتیں کیا کرتے تھے
نسرین: ہاں ہم باتیں کیا کرتے تھے
انور: تم کلاس میں اکثر دیر سے آتی تھیں
نسرین: ہاں اور جب میں کلاس میں داخل ہوتی تھی، تو سب اپنی اپنی سیٹوں پر ہوتے تھے، مجھے سب کے سامنے سے گزر کر جانا ہوتا تھا۔۔ میری سیٹ آخری قطار میں تھی۔ سب مجھے گزرتے ہوئے دیکھتے تھے تو بڑی شرم آتی تھی۔
انور: ان دنوں بھی تم بہت شرماتی تھیں۔۔۔ کسی سے دوستی نہیں کرتی تھیں
نسرین: ایک منٹ۔۔۔ میز کی Drawerمیں۔۔۔ ابھی
(drawer کھولنے کی آواز)
یہ ہے وہ میگزین۔۔۔ اس میں تمھاری تصویر۔۔
انور: اوہ یہ تو اس وقت کی تصویر ہے جب میں کورس میں لیڈ دے رہا تھا
نسرین: بہت خوبصورت گانا
انور: ہوں
نسرین: سچ مچ بہت خوبصورت
انور: نہیں
نسرین: ہاں
انور: اچھا
نسرین: اُسی دن میں تم سے آٹو گراف لینا چاہتی تھی
انور: تو پھر
نسرین: تم اپنے دوستوں میں گھرے ہوئے تھے۔ میری ہمت نہیں ہوئی
انور: تمھیں چاہئیے تھا کہ۔۔۔
نسرین: میں نے سوچا معلوم نہیں تم کیا خیال کرو گے۔
انور: میں کیا خیال کرتا
نسرین: اوہ
انور: ہاں مجھے لڑکیاں بہت گھیرے رہتی تھیں
نسرین: تم بہت پسند کئے جاتے تھے
انور: ہوں
نسرین: ہر کوئی تمھیں چاہتا تھا
انور: تم بھی ؟
نسرین: میں۔۔۔ میں۔۔۔ سلمیٰ کیسی ہے
انور: اوہ۔۔۔ وہ پگلی
نسرین: پگلی کیوں کہتے ہو
انور: وہ پگلی ہی تو تھی
نسرین: کبھی ملتی ہے
انور: نہیں۔۔۔ اسکول چھوڑنے کے بعد تم کیا کرتی رہیں
نسرین: کچھ بھی نہیں
انور: چھ سال
نسرین: تھوڑے دنوں میں نے ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سیکھی
انور: سیکھ لی
نسرین: پوری طرح نہیں۔۔۔۔ بہت جلد میرا دل گھبرا گیا
انور: اب کیا کر رہی ہو
نسرین: کچھ نہیں۔۔۔۔ تمھیں شیشے کے کھلونے دکھاؤں۔۔۔ میرا زیادہ وقت انھیں میں گزرتا ہے۔
نازک نازک سے شیشے کے کھلونے۔۔۔ کبوتر، ہرن، فاختہ، زرافہ، ہنس، بارہ سنگھا
(دور سے صابرہ کی لڑکیوں جیسی ہنسی)
انور: یہ شاید تیندوا ہے اور یہ شاید شیشہ کا بھیڑیا۔۔ ہاتھی، شیر، مگر مچھ
نسرین: شیشے کے ننھے منے جانور۔۔۔ پیارے پیارے
انور: اس الماری کو تو تم نے شیشے کا چڑیا گھر بنا رکھا ہے
نسرین: آں، یہ دیکھو۔۔۔ یہ منا سا ہرن۔۔۔ سنبھال کے، یہ کھلونے بڑے نازک ہیں۔ ذرا سی ٹھیس میں چور چور ہو جاتے ہیں۔ کوئی زور سے سانس بھی لے تو ٹوٹ جاتے ہیں۔
انور: یہ بات ہے تو میں انھیں ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا
نسرین: نہیں، دیکھو یہ ہرن۔۔۔ نرمی سے ہاتھ میں لو۔۔۔ موم بتی کے سامنے لاؤ۔۔۔ یہ روشنی سے پیار کرتا ہے۔ دیکھو روشنی میں کیسا چمکنے لگا۔
انور: ہاں چمکتا تو ہے۔۔۔۔ اس بے چارے ہرن کو تو جنگل میں ہونا چاہئیے تھا۔ (ہنستا ہے)
نسرین: ایسا سیدھا سادا ہے کہ کبھی نہیں کہتا، مجھے جنگل کو جانے دو۔۔۔ چپ چاپ الماری میں بیٹھا رہتا ہے۔۔۔ گھوڑوں کے پاس۔۔ ان میں کبھی لڑائی نہیں ہوتی۔
انور: اب شاید بارش تھم گئی۔۔۔ یہ کھڑکی کھول کر دیکھتا ہوں۔
(دور سے میوزک کی آواز)
اور یہ میوزک کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔
نسرین: اس طرف کلب ہے۔ وہاں سے
انور: اس میوزک کے ساتھ اگر تھوڑا سا۔۔۔ کیا خیال ہے۔ ڈانس کی دھن ہے۔۔ نسرین پلیز۔۔۔
نسرین: میں ڈانس نہیں کر سکتی
انور: کر سکتی ہو۔۔ پلیز اٹھو
نسرین: میری ٹانگ انور
انور: کوشش کرو
نسرین: میرا پاؤں تم سے ٹکرائے گا
انور: میں شیشے کا بنا ہوا نہیں ہوں
نسرین: کیسے، کس طرح
انور: بس میرے ساتھ ساتھ۔۔۔ اک ذرا بازو پھیلا لو
نسرین: یوں
انور: اور ذرا اونچے۔۔۔ بس ٹھیک۔۔ زور سے نہ پکڑو میرا بازو۔۔۔ بس آہستہ سے ہاتھ رکھ لو
نسرین: مجھ سے ڈانس نہیں ہو گا
انور: میں شرط لگاتا ہوں
نسرین: اوہ
انور: ہاں اس طرح۔۔۔ yes
نسرین: ہا
انور: come on
نسرین: ہا
انور: ہوں
نسرین: آہستہ
انور: اب تمھارے قدم ٹھیک اٹھ رہے ہیں
نسرین: ہا
انور: ہوں
نسرین: انور
انور: نسرین
(الماری سے ٹکرانے کی آواز۔ شیشے کے کھلونے ٹوٹنے کی آواز)
انور: ارے، میں الماری سے ٹکرا گیا۔۔۔ اور شیشے کے کھلونے
نسرین: شیشے کی چیزیں یوں ہی آسانی سے ٹوٹ جاتی ہیں۔۔ میں پہلے ہی جانتی تھی کہ انھیں ایک دن ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جانا ہے۔
(مختصر خاموشی)
(فاصلے پر صابرہ کی ہنسی۔۔ ہنستی ہوئی قریب آتی ہے)
صابرہ: اچھا بھئی۔۔۔ بچو۔۔۔ آہا بارش کے بعد ہوا کیسی اچھی ہو گئی ہے۔ میں اتنی دیر سے تمھارے لئے پھلوں کی ڈش تیار کر رہی تھی۔۔ انور
انور: (آتے ہوئے) جی
صابرہ: لیمو کا وہ کیا گیت تھا۔۔۔ گئے سال بھی اس گلی کی ہواؤں میں لیمو کی خوشبو ملی تھی
انور: میں نے یہ گیت کبھی نہیں سنا
صابرہ: (پکارتی ہے) نسرین آؤ
نسرین: (آتے ہوئے) جی امی
صابرہ: یہ کئی طرح کے پھلوں کی چاٹ ہے۔ بڑی محبت سے تیار کی ہے۔۔ لو کھاؤ
انور: آپ کو تکلیف ہوئی
صابرہ: تکلیف۔۔ تکلیف کیوں۔۔ چاٹ بناتے ہوئے تو بڑا اچھا لگتا ہے۔ میں نے ظفر سے کہا، تمھیں گھر لانے میں اس نے اتنے دن کیوں لگائے۔ اب اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔۔ جب چاہو آ سکتے ہو۔۔ آہ کتنی اچھی ہوا چل رہی ہے۔۔ تازہ خوشبو دار ہوا۔۔۔ اور چاند بھی نکل آیا ہے۔۔۔ اچھا میں چلوں، باورچی خانے میں تھوڑا کام اور ہے۔
انور: نہیں آپ نہ جائیے۔۔ اب مجھے جانا ہے۔
صابرہ: جا رہے ہو۔۔۔ ابھی سے۔۔۔ نہیں تم مذاق کر رہے ہو۔۔۔ ابھی تو شام بھی ختم نہیں ہوئی۔۔
انور: آپ جانتی ہیں کہ۔۔
صابرہ: مطلب یہ کہ تمھیں صبح سویرے فیکٹری کو جانا ہوتا ہے۔ تو ٹھیک ہے، ہم رات گئے تک تمھیں نہیں روکیں گے۔ مگر وعدہ کرو اب جو آؤ گے تو زیادہ دیر ٹھہرو گے۔۔ تمھارے لئے کونسی شام مناسب رہتی ہے۔۔ ہفتہ وار چھٹی سے ایک رات پہلے۔
انور ؛ مجھے فرصت ہی کہاں ملتی ہے۔
صابرہ: ہاں دو دو ملازمتیں۔۔۔ ایک دن میں، ایک رات کو
انور: اور پھر سلمیٰ
حیرت کا صوتی تاثر)
صابرہ: سلمیٰ۔۔۔ کون ہے سلمیٰ
انور: بس ایک لڑکی۔۔۔ اگلے ہفتے جس کے ساتھ میری شادی ہو رہی ہے۔
صابرہ: (خود پر قابو پاتے ہوئے) اوہ۔۔۔۔ بڑی خوشی کی بات ہے
انور: میں جانے میں جلدی نہ کرتا۔۔۔ مگر سلمیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں، سمندر کے کنارے جانے کا۔
صابرہ: اچھا، تو خدا حافظ۔۔ زندگی میں تمھیں خوشیاں نصیب ہوں۔ کامیابیاں نصیب ہوں۔
نسرین بھی یہی دعا دیتی ہے۔۔ کیوں نسرین
نسرین: جی ہاں
انور: اچھا خدا حافظ
(جاتا ہے)
صابرہ: بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں، کہ ہم انھیں دیکھ اور سمجھ لیتے ہیں، اور وہ کچھ اور نکلتی ہیں
ظفر: آتے ہوئے) امی، میں چاٹ کے لئے لیمو خرید لایا
صابرہ: اس کی شادی کہیں اور طے ہو چکی ہے۔
ظفر: جی امی
صابرہ: تم نے ہم سے یہ مذاق کیوں کیا
ظفر: جی مجھے خبر نہیں تھی ذرا بھی
صابرہ: تم تو کہتے تھے وہ فیکٹری میں تمھارا سب سے قریبی دوست ہے
ظفر: جی ہاں ہے
صابرہ: تمھیں اتنے قریبی دوست کی شادی کی خبر نہیں
ظفر: کبھی یہ ذکر ہی نہیں آیا
صابرہ: آج اس گھر میں بڑی مزاحیہ بات ہوئی ہے۔۔۔ اورت م۔۔۔ تمھیں کسی بات کی خبر ہی نہیں رہتی۔۔۔۔ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے خود غرض لڑکے۔۔ اب کہاں چلے
ظفر: فلم دیکھنے
صابرہ: ہاں، اب تم ٹھنڈے دل سے فلم دیکھو گے۔ مجھے بے وقوف بنا کر جا رہے ہو نا۔۔ اتنی محنت، اتنی کوشش۔۔ اتنا خرچہ۔۔۔ نیا لیمپ، نیا قالین، نسرین کے لئے نئے کپڑے۔۔۔۔ یہ سب کچھ کس لئے تھا۔۔۔ کسی اور لڑکی کے منگیتر کی خاطر مدارات کے لئے ؟ جاؤ فلم دیکھنے جاؤ۔۔۔ ہمارا کچھ خیال نہ کرو۔۔۔۔ ایک دکھیاری ماں جس کا شوہر لاپتہ ہے اور ایک کنواری بہن جو لنگڑی ہے۔۔۔ جاؤ خود غرض لڑکے جاؤ۔۔۔
ظفر: آپ مجھے خود غرض سمجھتی ہیں تو میں ضرور جاؤں گا۔۔۔ مگر امی جان فلم دیکھنے نہیں !
صابرہ: جاؤ کہیں بھی جاؤ۔۔۔ میری بلا سے۔۔ چاند پر جاؤ۔۔۔ خود غرض لڑکے !
تیز قدم، دروازہ زور سے بند ہوتا ہے)
نسرین: (چیختی ہے) بھیا
میوزک)
٭٭
(انور اپنے گھر میں، خود کلامی)
بے وقوف کہیں کا۔۔۔ مجھ پر جال پھینکا تھا۔۔ ہاہاہا۔۔ میں نے بھی کیسا صاف جھوٹ بولا، میری شادی ہو رہی ہے۔۔۔ شادی شادی ہاہاہا۔۔۔۔ اے بڑی بی کس کی شادی کیسی شادی، میں نے تو تمھیں جھانسا دیا ہے۔۔۔ بہترین ڈیکوریشن، بہترین ڈنر سیٹ، کافی سیٹ، لباس، بہترین کھانا۔۔۔۔ اور بہترین چکنی چپڑی باتیں۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔ میں زندگی میں بلند ارادے رکھتا ہوں۔۔۔ اپنے پاؤں میں کوئی لنگڑی زنجیر نہیں ڈال سکتا۔۔۔ لنگڑی زنجیر ہاہاہا۔۔ لڑکی مانا کہ سیدھی سادی ہے، بھولی بھالی ہے۔ کسی حد تک ہم اسے حسین بھی کہہ سکتے ہیں، مگر وہ اس کی ٹانگ۔۔۔ میں ڈیڑھ یا پونے دو ٹانگ والی لڑکی کے ساتھ زندگی کے راستے پر کیسے چل سکتا ہوں۔۔۔ اسکول کے دنوں سے دل ہی دل میں چاہتی ہے تو چاہا کرے۔۔۔ ہر گھٹیا چیز بڑھیا چیز کو چاہتی ہے۔۔۔ گھنٹے دو گھنٹے کے لئے۔۔۔ خوش کام ہوئے اور چل نکلے۔۔ ہاہاہا۔۔ وہ اپاہج لڑکی اور اس کا وہ شیشے کا چڑیا گھر۔۔ اے لڑکی تیرا مقدر یہی ہے کہ اس شیشے کی کرچیوں کے درمیان بیٹھی ہوئی پرانے گراموفون رکارڈ سنتی رہا کر جو تیرا بھگوڑا باپ چھوڑ گیا ہے۔ تیرے لئے یہی بہت ہے کہ میں اتنی دیر تجھ سے رومینٹک باتیں کرتا رہا۔۔ اُن باتوں کو میری طرف سے خیرات سمجھ اور اپنے خیالوں کی جھولی میں انھیں سنبھال کے رکھ۔۔ اداس لمحوں میں تیرے کام آئیں گی۔۔۔ آج سو کر بھی تو دیر میں اٹھنا ہوا۔۔۔ (جمہائی) شیو بھی تو کرنا ہے۔۔ (گاتا ہے) نانانا۔۔۔ نانانا۔۔۔ میں آوارہ بادل۔۔۔ نانانا
اُس ہری شاخ نے بازو تو بہت پھیلائے
ابرِ آوارہ تلک ہاتھ نہ جانے پائے
شیونگ کریم کدھر گئی۔۔۔ برش۔۔۔۔ اور آئینہ یہ رہا۔۔۔ ہاں بھائی تو مسٹر انور، یہ تم ہو اس آئینے میں۔۔۔ کہو کیسی رہی۔۔ ایک گھنٹے کا رومانس، اور پھر سب کچھ چکنا چور۔۔ ہاہاہا
ابرِ آوارہ تلک ہاتھ نہ جانے پائے
ہیں۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ میرا چہرہ کہاں گیا (بینگ) ارے۔۔۔ میرے آئینے میں تو کہاں سے آ گئی لنگڑی لڑکی۔۔۔ کیوں میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی ہے۔۔۔ میں تجھے reject کر چکا ہوں۔
نسرین: (آئینے میں) تم مجھے reject نہیں کر سکتے۔
انور: میرا تیرا کوئی ساتھ نہیں
نسرین: تم نے فریب دے کر میرا سب سے قیمتی راز معلوم کر لیا ہے۔ وہ راز جو کہیں میرے دل کی گہرائیوں میں خوابیدہ تھا۔ میں نے فریب کھا کر وہ راز تم پر کھول دیا۔
انور: تم میرے سامنے سے دور ہو جاؤ
نسرین: کیا تم نہیں جانتے کہ کسی لڑکی کے دل کا دروازہ جب کھلتا ہے تو اپنے محبوب کو آغوش میں لے کر ہی بند ہوتا ہے۔۔۔ ہاہاہا
انور: میرے آئینے میں داخل ہونے کی تمھیں کس نے اجازت دی۔۔ گیٹ آؤٹ۔۔
نسرین: ہاہاہا۔۔۔ میں تنہا نہیں آئی ہوں۔۔ یہ سب بھی میرے ساتھ ہیں۔۔۔
میرے چڑیا گھر کے باسی، شیشے کے چڑیا گھر کی مخلوق۔۔۔ اب انھوں نے شیشے کا بدن چھوڑ کر جنگل کا بدن لے لیا ہے
(جنگلی درندوں کی آوازیں)
تم ان سب کے قاتل ہو۔۔ ان سب کا خون تمھاری گردن پر ہے۔
(درندے اور دہاڑتے ہیں)
یہ۔۔ یہ اپنی زبان میں انتقام انتقام چلا رہے ہیں
(درندوں کا شور)
انور: میں ان کے ہاتھ نہیں آؤں گا۔۔۔ کسی دوسرے شہر چلا جاؤں گا۔
نسرین: ہاہاہا۔۔۔ جہاں جاؤ گے، یہ تمھارا پیچھا کریں گے۔ تم ان سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔
انور: میں اس آئینے کو توڑ دوں گا۔
نسرین: اس آئینے کے ساتھ تم خود بھی ٹوٹ جاؤ گے۔۔ ہاہاہا
(درندوں کا شور)
نسرین: اچھا اب میں جاتی ہوں۔ مگر میرا شیشے کا چڑیا گھر ہر وقت اور ہر جگہ تمھارے ساتھ رہے گا۔۔۔ میرے پاس تمھارے لئے یہی تحفہ ہے۔۔ ہاہاہا
(درندوں کا بہت زیادہ شور اور اس کے پیچھے نسرین کی ہنسی دیر تک)
انور: ابھی نہ جاؤ نسرین۔۔۔۔ بچاؤ بچاؤ۔۔۔ مجھے درندوں سے بچاؤ۔۔ نسرین تم کہاں چلی گئیں۔۔۔۔ اپنے دل کا دروازہ کھلا رہنے دو۔۔۔ نسرین میں آ رہا ہوں۔۔۔ میں آ رہا ہوں نسرین نسرین۔
اختتام)
٭٭٭