(Last Updated On: )
رات کو مرال سونے کے لیے لیٹی تو جبران کے بارے میں سوچنے لگی اس نے بابا سے بات کرلی تھی سب کو ایگری کرلیا تھا پر۔۔۔۔۔ وہ کیسے اس کے سامنے جائے گی جسے دیکھتے ہی وہ بےخود ہو جاتی ہے جس کے سامنے وہ اپنی محبت پہ پردہ نہیں ڈال سکتی اور اگر محبت چھپانا چاہے بھی تب بھی نہیں کرسکتی وہ کیا کرے؟؟
” نہیں۔۔۔۔۔ میں ایسا نہیں کرسکتی کچھ دنوں میں میری شادی ہو جائے گی اور اگر تب یہ ہوا تو۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔۔ مجھے اسے خود سے دور کرنا ہو گا یہ میرے لیے بھی اچھا ہے اور اس کے لیے بھی۔۔۔۔۔ سب سے پہلے مجھے اسے اس کی یادوں کو بھلانا ہوگا” وہ سوچ چکی تھی۔
—–
وہ آج اپنے آفس آیا تھا پورے چار سال بعد سب کچھ بدل چکا تھا وہ اپنے آفس روم کی طرف بڑھا شیشے کے دروازے سے دیکھا آفس خالی تھا اس کے دل کی طرح وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ اس نے دیکھا مرال ایک فائل کی اسٹڈی کرتے کرتے مصروف سے انداز میں اس کی چئیر پہ آکے بیٹھی
جبران کو خوشگوار سی حیرت ہوئی آفس ک حصہ جو اسے خالی اور ویران لگ رہا تھا وہ ہرا بھرا محسوس ہوا پیچ کلر کے سوٹ میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی سر پہ سلیقے سے دپٹہ لیے وہ بہت باوقار عورت لگ رہی تھی
اسے دیکھ کر جبران کو فخر سا محسوس ہوا
کیا یہ اس کی مرال تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟
وہ سوچ کے رہ گیا وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے آگے بڑھا
دروازہ نوک ہونے پہ مرال نے سر اٹھایا اور دیکھتی رہ گئی جبران کھڑا مسکرا رہا تھا
” آپ۔۔۔۔۔”
” ہاں میں۔۔۔۔۔” وہ مسکرایا اور آگے بڑھا
” بہت خوشی ہوئی تمہیں یوں دیکھ کر۔۔۔۔۔ میں بتا نہیں سکتا تمہیں میں۔۔۔۔۔”
” مجھے کامیاب دیکھ کر۔۔۔۔۔” اس نے عجیب انداز میں کہا
” ہاں اور۔۔۔۔۔” وہ کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ وہ بولی
” آپ سوچ رہے ہوں گے یہ دبو سی مرال کیسے کامیاب ہو گئی جو آپ کے بقول صرف گھر کی چاردیواری میں ہی رہتی تھی جو لوزر تھی جس نے پڑھ لکھ کے سب گنوا دیا تھا وہ یہاں اس سیٹ پہ کیسے۔۔۔۔۔” مرال پہلی بار اس سے یوں بات کررہی تھی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں
” نہیں مرال میں۔۔۔۔۔”
” پتا ہے اس کا کریڈٹ میں آپ کو دیتی ہوں جس نے مجھے چھوڑ کے مجھے یہ بتایا کہ مجھ میں بھی کوئی ٹیلنٹ ہے۔۔۔۔۔ تھینکس ٹو یو جبران”
” مرال میں اپنے کیے پہ شرمندہ ہوں معافی چاہتا ہوں تم سے۔۔۔۔۔ پلیز معاف کردو”
” ناراض تو کبھی تھی ہی نہیں آپ سے جبران۔۔۔۔۔ کبھی ہو ہی نہیں سکی۔۔۔۔۔ تب بھی نہیں جب آپ مجھے چھوڑ گئے تھے اور اب بھی نہیں جب آپ آچکے ہو۔۔۔۔۔بس دل ویران سا ہو گیا ہے اب کوئی آئے جائے مجھے فرق نہیں پڑتا” جبران کی آنکھیں نم ہوئیں
” میں بھی نہیں”
” نہیں” مرال نے دل پہ پتھر رکھ کے کہا
” تم تو محبت کرتی تھیں مجھ سے؟؟؟”
” کرتی تھی۔۔۔۔۔ پر اپنے شوہر سے۔۔۔۔۔ آپ سے نہیں” جبران کے دل میں ایک درد کی لہر اٹھی
” میرا شوہر مجھے چھوڑ چکا ہے اور میں اپنے شوہر کو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میری ڈائیورس ہو گئی ہے”
جبران خاموش ہو گیا ایک احساسِ ندامت احساسِ جرم دل میں بھر گیا تھا وہ الٹے قدموں واپس چلا گیا مرال اس کے جانے کے بعد پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
—–
جبران جب دوبارہ گھر آیا تو اسے گھر میں جگہ تو دے دی گئی تھی مگر دل میں نہیں
وہ احتشام کے گھر سامان لینے گیا وہ خوش تھا اس کے لیے اتنا بھی بہت تھا کہ اسے گھر میں جگہ مل گئی ہے اب اسے دلوں میں جگہ بنانی تھی
وہ گھر میں انٹر ہوا تو احتشام اسے پورچ میں ہی دکھ گیا وہ کہیں جا رہا تھا وہ وہیں چلا آیا
” کیا بات ہے بھائی۔۔۔۔۔ بڑے خوش دکھ رہے ہو”
” ہاں میں آج بہت بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔ پتا ہے بابا نے مجھے واپس گھر آنے کی اجازت دے دی ہے” وہ خوشی سے بولا
” اوہ دیٹس گریٹ یار کونگریچولیشنز میرے دوست”
” تھینک یو یار اچھا میں بس اپنا سامان لینے آیا ہوں” وہ پلٹتے ہوئے بتانے لگا
” ابھی جا رہے ہو۔۔۔۔۔ کل چلے جانا”
“نہیں اب انتظار نہیں ہوتا میں جاتا ہوں” تیزی سے گھر کے اندر جانے لگا احتشام ہنس دیا وہ خوش تھا اسے خوش دیکھ کر۔
—–
وہ گھر آچکا تھا اپنے کمرے میں داخل ہوا تو پہلا خیال مرال کا آیا وہ اندر آیا اور اس جگہ آیا جہاں مرال سوتی تھی پھر ڈریسنگ کی طرف جہاں مرال تیار ہوتی تھی پھر وارڈروب کی طرف بڑھا اور اسے کھولا وہ آج بھی اسی سلیقے سے سیٹ تھی جس طرح مرال کرتی تھی بس تبدیلی یہ تھی کہ اب یہاں مرال کا سامان نہیں تھا مرال نہں تھی اور یہی تبدیلی سب سے اذیت ناک تبدیلی تھی اس نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا اور اپنا سامان رکھنے لگا پنا سامان رکھنے کے بعد س نے کمرے کا جائزہ لیا یہ تو اب بھی خالی اور بے رنگ تھا اس کی زندگی کی طرح رنگ تو مرال کے دم سے تھے
—–
اگلے دن اسے گھر میں ایک ہل چل سی محسوس ہوئی وہ لاؤنج میں چلا آیا
اسمہ رافعہ نشاء کچھ ڈریسز اور جیولری دیکھ رہی تھیں شاپنگ سے تو شادی کی شاپنگ لگ رہی تھی
” ماما یہ میرو پہ اچھا لگے گا نا” نشاء ایک نیکلس کو اٹھا کے بولی
” ہاں بہت۔۔۔۔۔” رافعہ مسکرائیں
” چاچی کچھ کھانے کے لیے لائیں میرے لیے یا نہیں” وہ لوگ اسے نظرانداز کیے اپنی باتوں میں لگے تھے
” نشاء تم نے ابھی تک بے تکا کھانا نہیں چھوڑا موٹی چھوڑ دو اب ” اسمہ کچھ بولتیں کہ جبران بولا نشاء یک دم سنجیدہ ہوئی
” ہاں نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔ آپ نے چھوڑ دیا یہ ہی کافی تھا میرے لیے” اور اٹھ گئی جبران چپ ہوا سب کی ناراضگہ سہنا بہت مشکل تھا اس کے لیے پر۔۔۔۔۔ وہ سب ٹھیک کر لے گا اس نے ہمت کی اور پھر اسمہ اور رافعہ سے پوچھا
” یہ شاپنگ۔۔۔۔۔؟؟؟؟” نشاء جاتے جاتے پلٹی
” مرال کی شادی ہے اسی کی شاپنگ ہے” اور کہہ کر چلی گئی جبران سکتے میں آگیا تھا۔
اسے لگا جیسے اس نے سننے میں غلطی کی ہو اس نے پھر پوچھا
” کس کی شادی۔۔۔۔۔ ماما یہ کس کی شادی کی بات کررہی ہے؟؟؟”
” سنا نہیں تم نے مرال کی شادی ہے” اور کہہ کر اٹھ گئیں اسمہ بھی چلی گئیں وہ لؤنج میں سن سا بیٹھا رہ گیا
“مرال کی شادی۔۔۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے وہ تو۔۔۔۔۔ وہ تو مجھ سے محبت کرتی ہے تو شادی کسی اور سے کیوں کررہی ہے” اس کا دل ماننے سے انکاری تھا وہ اٹھ کے اپنے کمرے میں آگیا یہ ہی سوچ سوچ کے اس کا دماغ سن ہو گیا تھا کہ وہ اس سے دور چلی جائے گی
” نہیں ایسا۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا وہ صرف میری ہے میں کیسے اس خود سے دور کردوں۔۔۔۔۔ مجھے بات کرنی چاہیے اس سے” وہ سوچ کے اٹھا اور اس کے کمرے کی طرف بڑھا پھر یاد آیا کہ اس ٹائم تو وہ آفس میں ہوگی وہ واپس اپنے کمرے میں گیا گاڑی کی چابی اٹھائی اور آفس کے لیے وہ نکلا ریش ڈرائیونگ کر رہا تھا جس کی وجہ سے اس کا دو بار ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا وہ آفس پہنچا تو مرال آفس روم میں نہ تھی اس نے پوچھا تو پتا چلا وہ میٹنگ روم میں ہے وہ میٹنگ روم کی طرف بڑھا
مرال میٹنگ میں مصروف تھی آج ابتہاج اور وہاج آؤٹ آف سٹی تھے وہ ایزیلی بات کرسکتا تھا اس وقت وہ بہت غصے میں تھا اس کا دماغ پھٹ رہا تھا دل کی حالت تو ویسے ہی غیر تھی ڈور تھوڑا سا کھولا تو دیکھا مرال میٹنگ میں مصروف تھی گرین کلر کے ڈریس میں وہ بہت ایٹریکٹو لگ رہی تھی اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا وہ بہت اچھے طریقے سے میٹنگ ہینڈک کررہی تھی وہ اسے دیکھنے لگا اس کی اس خوبی سے تو وہ نا واقف تھا وہ اس کی ہر ہر ادا پہ فدا ہورہا تھا اس کے بولنے کا انداز اس کے دیکھنے کا انداز اس کی پلکیں جھکانے اٹھانے کا انداز اسے بے حد اچھا لگ رہا تھا اگر پوری زندگی مرال یونہی کھڑی رہتی تو وہ بھی ساری زندگی ایسے ہی اسے دیکھنے کے لیے کھڑا رہتا بس وہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہتی بس اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا
مرال کی نظر اچانک اس پہ گئی وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ ایک پل کے لیے رکی پھر نگاہوں کا زاویہ موڑ کے دوبارہ شروع ہوگئی جبران اس کی اس ادا پہ مسکرایا اور ڈھیٹوں کی طرح اسے دیکھتا ہی رہا جب تک میٹنگ نہیں ہوئی وہ اسے اگنور کرتی رہی اسے پتا تھا وہ اسے ہی دیکھ رہا ہے پر وہ تب بھی نظر انداز کرتی رہی
میٹنگ ختم ہونے کے بعد جب سب روم سے نکل گئے تو مرال بھی جانے لگی تو جبران نے راستہ روک لیا وہ سائڈ سے ہو کے جانے لگی اس نے پھر راستہ روک لیا وہ ناگواری سے بولی
” پلیز مجھے راستہ دیں”
” نہ دوں تو۔۔۔۔؟؟”
” جبران یہ گھر نہیں ہے جو آپ اس قسم کی حرکتیں کررہے ہیں آفس ہے۔۔راستہ دیں مجھے” وہ سختی سے بولی
” اوہ یعنی گھر پہ مجھے اس قسم کی حرکتوں کی اجازت ہے ” وہ مسکرایا
” اب آپ کو کسی چیز کی اجازت نہیں ہے جبران سو پلیز”
” چھوڑو ان سب باتوں کو بات کرنی ہے مجھے تم سے” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے اندر لے آیا وہ چیخی
” ہاؤڈئیر یو جبران”
” کہا ہے نا بات کرنی ہے تم سے”
” اور اگر میں نا کروں تو۔۔۔۔۔”
” تو نہ کرو پر میں تو کروں گا” وہ بھی ضدی تھا وہ بیزاری سے رخ پھیر گئی
” اففففف بالکل بیوی لگتی ہو ایسے روٹھتی ہوئی”
” میں آپ کی بیوی نہیں ہوں۔۔۔۔۔میں آپ کی بیوی تھی” اس نے یاد دلایا ” تھی” بولنے میں مرال کو بھی تکلیف ہوئی جبران خاموش ہوا
” میری شادی ہونے والی ہے جبران۔۔۔۔۔ میں آپ کی نہیں ہوں مجھ تک آنے میں بہت دیر کردی آپ نے۔۔۔۔۔” آنکھوں میں نمی اتری بولنا مشکل ہوا ” اور۔۔ میں نے آپ جیسا بننے میں”
” وقت بدل چکا ہے جبران۔۔۔۔۔ سب بدل گی سب۔۔۔۔۔ یہ مرال آپ کو پسند آرہی ہے نا” اس نے اپنی طرف شارہ کیا ” یہ مرال اندر سے کھوکھلی ہے کچھ رہا ہی نہیں اس میں۔۔۔۔۔ کب کی مرچکی مرال تو تین سال ہوگئے اسے مرے ہوئے آپ اب آئے ہو” آنسو تواتر سے گالوں پہ بہہ رہے تھے جبران خاموش تھا کہتا بھی کیا کچھ تھا ہی نہیں کہنے کو
” اس مرال نے بہت سسک سسک کے اپنی سانسیں لیں تھیں اپنے شوہر کا پل پل انتظار کیا تھا اس نے۔۔۔۔۔ اس نے آنے میں ہی اتنی دیر کردی اور آیا تو جب جب کوئی رشتہ باقی ہی نہیں بچا تھا۔۔۔۔۔ جب وہ مر گئی تھی”
” مرال ایسے مت کہو پلیز مرال۔۔۔۔۔ تم میری زندگی ہو مرال میری جان” اس نے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیے میں لیا ” میں مانتا ہوں میں نے تمہیں بہت تکلیف دی اپنی موجودگی میں بھی اور غیر موجودگی میں بھی میں زالہ کرنے کے لیے تیار ہوں مرال۔۔۔۔۔ میں کروں گا ازالہ بٹ مرال مجھے چھوڑ کے مت جاؤ مرال تم گئیں تو ٹھیک سے مر بھی نہیں پاؤں گا مرال مجھ سے دور مت جاؤ مرال” وہ گڑگڑا رہا تھا اس کے سامنے مرال نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اس سے دور ہوئی
” کیا ازالہ کرو گے اب۔۔۔۔۔ سب ختم جبران حقیقت کو تسلیم کریں میں آپ سے بہت دور جا چکی ہوں” وہ جانے لگی
” پلیز۔۔۔۔۔ مجھ سے دور رہیں جبران۔۔۔۔۔ اور میری بات مانیں تو آپ بھی شادی کرلیں اور نئے سرے سے اپنی زندگی کی شروعات کریں”
” یہ ممکن نہیں”
” سب ممکن ہے جبران “
” پھر تم کیوں نہیں”
” بہت دیر ہوگئی جبران” اور کہہ کر چلی گئی۔
” کہاں ہو میرے دوست تم تو گم ہی ہوگئے ہو تین دن سے نظر ہی نہیں آرہے” وہ اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹا تھا کہ احتشام کی کسل آئی اس نے رسیو کی تو وہ فوراً بولا
” کچھ نہیں بس۔۔ طبیعت نہیں ٹھیک “
” کیا ہوا ہے جبران سب ٹھیک تو ہے”
” احتشام میں خالی ہاتھ رہ گیا میرے پاس کچھ نہیں بچا سب کھو دیا میں نے”
” جبران کیا ہوا ہے کیسی باتیں کررہے ہو” وہ فکرمند ہوا
” سہی کہہ رہا ہوں وہ۔۔ وہ مجھے چھوڑ کے جا رہی ہے”
” جبران جبران ریلکس سہی سے بتاؤ ہوا کیا ہے”
” اس کی شادی ہے احتشام۔۔ کیا میں نے اتنا بڑا گناہ کیا ہے کہ اللٰہ مجھ سے اس قدر ناراض ہو گیا ہے کہ وہ لڑکی جسے میں حد سے زیادہ چاہتا ہوں وہ مجھ سے اسی قدر دور ہوتی جا رہی ہے”
” جبران ایسا نہیں ہے اللٰہ جو بھی کرے گا تمہارے حق میں بہتر کرے گا تم پریشان نہ ہو اللٰہ پہ بھروسہ رکھو کچھ نہیں ہو گا وہ انشآاللٰہ صرف اور صرف تمہاری ہو گی دیکھنا تم” وہ اسے کافی دیر تک سمجھتا رہا تھا
مرال گھر آئی چہرہ ستا ہوا تھا جبران کو اس طرح دیکھ کے اس کا دل پگھل رہا تھا اسے جبران کا گڑگڑانا یاد آرہا تھا اس کے آنسو۔۔۔۔۔
اسمہ روم میں آئیں تو اسے دیکھا
” تمہیں کیا ہوا مرال تم روئی ہو” انہوں نے پوچھا
” نہیں ماما”
” مجھ سے مت چھپاؤ بولو کیا ہوا ہے بیٹا بتاؤ” وہ ان کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رودی
” ماما ماما مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔۔۔۔۔ میں نہیں کرسکتی”
” مرال ہوش میں تو ہو کیا کہہ رہی ہو” انہوں نے اسے خود سے الگ کیا “شادی میں اتنے کم دن رہ گئے ہیں اور تم ایسی باتیں کررہی ہو جانتی ہوں میں یہ سب جبران کی وجہ سے ہے نا”
” ماما میرا دل نہیں مان رہا کیا کروں میں”
” تو دل کو مناؤ مرال یہ شادی ہر حال میں ہوگی سمجھی تم” اور کہہ کر چلی گئیں وہ بہت دیر تک بیٹھ کے روتی رہی۔
رات کے کھانے کے بعد وہ باہر لان میں آگئی دو تین دن رہ گئے تھے اس کی شادی میں
اس کا دل خالی خالی سا تھا جیسے اب کوئی احساسات ہی نہ بچے ہوں
اچانک گیٹ کھلنے پہ اس نے گردن موڑ کے دیکھا جبران گاڑی لے کے اندر داخل ہوا مرال کی دھڑکن یک دم تیز ہوئی کیا وہ اب بھی اس کے لیے اتنا ہی اہم تھا جیسے پہلے ہوا کرتا تھا۔۔۔۔۔ وہ اس کو یک ٹک تکے جا رہی تھی اس نے بھی مرال کو دیکھا اور وہیں چلا آیا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی
” ایسے کیا دیکھ رہی ہو قتل کرنے کا ارادہ ہے کیا” وہ شرارت سے بولا مرال نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں شرارت پنہا تھی اور وہاں سے جانے کے لیے قدم بڑھائے ہی تھے کہ جبران اس کی راہ میں حائل ہو گیا
” مجھ سے کیوں بھاگتی ہو تم مرال۔۔۔۔۔ جہاں بھی میں آؤں تم وہاں سے چلی جاتی ہو ہمیشہ مجھے یہ باور کراتی ہو کہ مجھ سے تمہار کوئی رشتہ نہیں نا ہی تم مجھ سے محبت کرتی ہو لیکن تمہاری آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں تم جتنا مرضی جھٹلاؤ سچ یہ ہے کہ تم اب بھی مجھ سے محبت کرتی ہو”
” پہلی بات۔۔ میں آپ سے بھاگتی نہیں ہوں میں آپ سے دور رہنا چاہتی ہوں اور دوسری بات میں نےآپ جو اس دن بھی بتایا تھا کہ میں آپ سے محبت نہیں کرتی میں محبت کرتی تھی پر صرف اپنے شوہر سے جب وہ چلا گیا تو محبت پھر کہا رہ گئی” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اور وہ بار بار نظریں چرا رہی تھی
” یہ ہی بات میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو” جبران نے کہا تو مرال کی جان مشکل میں آگئی وہ سب کرسکتی تھی پر جبران کی آنکھوں میں دیکھ کر اپنی محبت کا انکار کرنا بہت مشکل تھا
” بولو مرال” وہ پھر بولا
” پلیز ہٹیں جبران”
” پہلے میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو کہ مجھ سے محبت نہیں کرتیں” وہ بضد تھا مرال نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبت کا ایک جہاں آباد تھا
کوشش کی پر نہیں کہہ پائی اور جانے لگی جبران مسکرایا اور اس کا ہاتھ تھاما
” ایک دن میں نے تم سے یہیں کھڑے ہو کر اپنی نفرت کا اظہار کیا تھا اور آج یہیں کھڑے ہو کر میں اپنی محبت کا اقرار کرتا ہوں کہ مجھے اس لڑکی سے بےانتہا محبت ہے” اس نے مرال کی طرف اچارہ کیا “مجھے مرال سے بےانتہا محبت ہے” مرال کی آنکھیں بھر آئیں جبران نے انگلیوں کی پوروں سے اس کے آنسو چنے
” اب نہیں مرال اب نہیں” وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولا مرال نے ذرا کی ذرا نظر اٹھائی اور اس سے دور ہوئی اور روتے بھاگ گئی وہ وہیں کھڑا رہ گیا
اپنے کمرے میں آکے وہ بے تحاشا روئی
” کاش جبران کاش۔۔۔۔۔۔ کاش کہ میں تم سے محبت نہ کرتی۔۔۔۔۔۔ کاش کہ یہ ہی محبت تم مجھ سے کرتے تو آج سب ٹھیک ہوتا۔۔۔۔۔” وہ زور زور سے روتے ہوئے بول رہی تھی “میں چاہوں بھی تو کچھ نہیں کر سکتی جبران کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ تم مجھے اپنی محبت کی تپش سے پگھلا رہے ہو جبران پر میں پھر بھی تمہاری نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔ میں اب تمہارا نصیب نہیں بن سکتی۔۔۔۔۔ ہماری راہیں کب کی الگ ہو چکی ہیں جبران کاش جبران کاش تم میرے ہوتے کاش۔۔۔۔۔۔” وہ بہت دیر تک روتی رہی تھی۔
——