اپریل ۱۸۷۹ء میں جب عید الاضحی آئی تو ہم نے ایک بیل خریدا او دستور کے مطابق قربانی کا ارادہ کیا، مگر قربانی کے وقت بلوہ کرکے ہندؤوں نے ہم سے بیل چھین لینا چاہا، مگر ہمارے ساتھیوں نے ان کے حملہ کو غیر واجبی قرار دیتے ہوئے بیل دینے سے انکار کر دیا، ہندو حسب عادت بڑے جوش و خروش میں تھے، ہم نے عین اس وقت بیل کو قربان کردیا، سب ہندو بیل کی قربانی کے ساتھ ہماری قربانی کرنے کے لیے ہمارے سروں پر مسلّح ہو کر کھڑے تھے، ہم مسلمان صرف چار پانچ تھے ؛جبکہ ہندو دوسو سے بھی زیادہ تھے، اتنی قلیل جماعت کے لیے یہی قرین مصلحت تھا کہ وہ اتنی کثیر اور پرجوش جماعت کا مقابلہ نہ کریں، مگر مذہبی جوش اور ادائے فرض نے ہمیں بھی مجبور کردیا تھا، جب ہندؤوں کے سامنے بیل ذبح ہوا اور اس کی گردن سے خون کے فوارے بہ نکلے تو انہوں نے بڑا بلوہ کیا اور شور و شغب کے ساتھ آسمان کو سر پر اٹھا لیا، ممکن تھا کہ دس بیس لاشے خاک و خون میں تڑپ جاتے، مگر پولیس اور اوورسیر کے جلد پہنچ جانے کے باعث کشت وخون کی نوبت نہ پہنچی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...