(Last Updated On: )
عید کے دن ڈاکٹر شہزور نے ڈاکٹر آصفہ نے اپنے گھر میں عید، کی دعوت دی تھی مگر جب عید کی نماز، کے بعد گل خان اپنے باپ کے ساتھ اس سے عید ملنے آیا اور گھر جانے کا اسرار کرنے لگا تو وہ ان کے گھر چلی گئی ۔جھوٹے سے گھر میں ان کی بے بے کے ہاتھ کا کھانا پیٹ بھر کر کھایا۔عید سے پہلے ہی اس نے ڈاکٹر تاجدار سے اس نے گل خان کے لئے سوٹ منگوایا تھا ۔مگر اب گھر آئی تو سب اس کے بہن بھائیوں کو عیدی دی۔وہ ایسا کر کے بہت خوش تھی ۔کافی سارا وقت وہاں گزار کر وہ حجت کے گھر گی۔اس کی ساس کو کھانسی سے افاقہ ہوا وہ بہت خوش تھی ۔بہت خوشی کا اظہار کیا اور جاتے اس نے حجت کے ہاتھ پر ہزار روپے رکھے وہ لیتے ہچکچا رہی تھی ۔یہ تمارے ہیں کسی کو نہیں دینا جو چیز چاہئے ہو لے لینا۔بڑی بہن کی طرح سمجھایا رات اس کی ڈیوٹی تھی ایسے میں اسے ڈاکٹر آصفہ کے ہاں جانے کا ٹائم نہیں ملا یہ بھی تھا کہ وہ برا نہ منا جائیں عید کے دوسرے دن اس کے ہاں ڈئنر تھا اس نے سوچا ناشتے سے فارغ ہو کر ان کے ہاں چلی جائے گی ۔
__________
دن کے گیارہ بج رہے تھے جب ہسپتال کے چوکیدار کو لے کر ان کے گھر آ گئی تھی ۔حالانکہ ان کا گھر بالکل پاس تھا مگر پھر بھی پہلی بار گئ تھی کافی بار انہوں نے شکوہ بھی کیا۔شام میں پہننے کے لئے شاپر میں انہی کا دیا ہوا، سوٹ لائی تھی۔کتنے پیار سے انہوں نے آج انوائٹٹ کیا تھا ضروری نہیں ہر پڑھا لکھا معزز ہو اس نے ان کے پرخلوص انداز پر اس نے سوچا تھا ۔
گیٹ پر بیل دینے کے ساتھ اس نے چوکیدار کو واپس بھیج دیا۔گیٹ کھلتے ساتھ جو اس کو نظر آیا اس کی موجودگی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی
اسلام علیکم وہ بھی تھوک نکلتے وعلیکم اسلام
دعوت تو شام میں ہے وہ بہت سنجیدگی سے بولا
اس کا موڈ ایک دم خراب ہو گیا اس کے چہرے پر سنجیدگی مگر منہ میں طنزیہ چمک دیکھی جا سکتی تھی دل تو اس کا چاہا بغیر بولے پلٹ جائے مگر دماغ نے دل کو عقل فراہم کی
یہ اس کا گھر نہیں جو شرمندگی ہو یہاں کے لوگوں نے بہت پیار سے بلوایا ہے ایک بار نہیں کئ بار
کون ہے اسفند اندر سے ڈاکٹر شہزور کی آواز آئی ایک دم گیٹ سے ہٹ کر اسے رستہ دیا۔
آج تو بڑے لوگ ہمارے گھر آئے ہوئے ہیں ۔ڈاکٹر شہزور شطرنج بچھائے بیٹھے تھے کھڑے ہو گئے ۔آصفہ دیکھو کون آیا ہے ۔وہ شاید کچن میں تھی۔فورا آگی۔ارے زوبیہ انہوں نے اگے بڑھ کر پر جوش گلے لگایا کل کتنا انتظار کیا ہم لوگوں نے تمارا۔
اس نے ایک نظر سامنے بیٹھے اسفند پر ڈالی کل میں گل خان کے ساتھ گئ تھی اس نے آہستہ سے جواب دیا ۔تم بیٹھو میں آئی چولہے پر پیاز جل نہ جائے۔میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔کچن میں پیھلا سامان بتا رہا تھا دعوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں ایک ملازمہ ان کی اپنی تھی ایک اسفند اپنے گھر سے مدد کے لیے لایا تھا ۔میں آپ کی کچھ ہلیپ کروں ہاتھ پر ہاتھ رکھے کچن میں بیٹھنا اسے عجیب لگ رہا تھا ۔وہ کام کرتے اس سے باتیں کر رہی تھی ۔تم بادام کا قورمہ بنا لو گی آپ کو کوئی شبہ ہے میرے ہاتھ کے قورمے کی بہت دور تک دھوم ہے ۔اس نے اپنی تعریف خود کی وہ ہنس پڑی۔قورمے کی باریک پیاز کاٹتے وہ زور و شور سے آنسو بہہ رہی تھی ۔
کچھ چاہئے اسفند؟ جو اسی وقت کچن آیا تھا ۔ہاں اگر چائے پلا دین تو
ابھی سارے چالہے بزی ہیں تھوڑی دیر ٹہرو جلدی کس خوشی میں ہے ۔ایک چکر ہسپتال لگانا ہے پھر سائم اور کشمالہ کے ساتھ اوٹینگ کا پروگرام ہے ۔اسے دیکھ کر زوبیہ کا بے تکلف ہونا اور فر فر چلتی زبان دونوں بند ہو چکے تھے ۔
وہ گیا کچن سے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔اسے اتنا پتہ تھا ان لوگوں سے اس کی بہت انڈرسٹینڈنگ ہے مگر اتنی زیادہ ہے نہیں پتہ تھا ۔
زوبیہ تم زرا چائے بنا کر دے آؤ۔
وہ ٹرے میں چائے لے کر داخل ہوئی۔ آصفہ نے مہمان سے کام کروانا شروع کر دیا ڈاکٹر شہزور نے افسوس سے کہا۔وہ مسکرا کر کچن چلی گئی ۔
چائے پی کر وہ چلا گیا تو اسے اطمینان نصیب ہوا ۔سارا دن وہ ان کے ساتھ کھانے میں ہلپ کرتی رہی ۔اسفند کے جانے کے بعد ڈاکٹر شہزور بھی کچن آ گئے کافی ہلپ کی انہوں نے بھی
شام میں جب اس نے ان کا دیا، بلیک سوٹ پہناجس پر سرخ اپلک ورک ہوا تھا وہ بہت خوش ہوئی۔واؤ تمارے بال کس قدر خوبصورت ہیں تم ان کو لپیٹ کر ہمیشہ رکھتی ہو کہ کہیں نظر نہ لگ جائے ۔وہ روزانہ کی طرح بال بنانے کا ارادہ رکھتی تھی مگر انہوں نے ٹوکا۔کھولنا نہیں ہے تو کم سے کم چوٹی بنا لو ان کے کہنے پر چوچوٹی بنا لی براؤن لپ اسٹک لگاتے اس کے اندر جنگ چھڑ گئی ۔میں نے سوچا نہیں تھا خوبصورت آواز والی لڑکی اتنی خوبصورت بھی ہو گی۔ہم سمجھتے تھے تم بدل گئی ایسی بدکردار کو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دینا چاہئے ۔کئ جملے اس کے اوپر ہتھوڑے برسانے لگے۔مگر وہ ایک بات سے پر سکون ہو گئی ۔یہاں کوئی اس کا ماضی نہیں جانتا۔کوئی اس کے کردار پر شک نہیں کرے گا۔یہاں کوئی تیار ہونے پر طعنے نہیں دے گااس کا دل کرتا تھا وہ بھی اپنی ہم عمر کی طرح سجے سنورےاسے تھپکی دے کر سلا دیتی اج خوش تھی ۔
زرہ سے چینج سے کتنا بدل گئی تھی انہوں نے دل کھول کر تعریف کی ۔
سردی کی وجہ سے اندر ہال میں ڈینر کا اہتمام کیا گیا ۔سب لوگ آنا شروع ہو گئے تھے ۔اسفند کے ساتھ بی جان اور گیتی کشمالہ اور سائم بھی تھے ۔ڈاکٹر آصفہ اور شہزور نے بہت پرجوش سے ان کا خیرمقدم کیا ۔سب جا جا کر بی جان سے مل کر دعائیں لے رہے تھے آپ کیا ہم لوگوں سے عید بھی نہیں ملیں گی ۔کشمالہ اور سائم نے شکوہ کیا ۔ارے نہیں میں بس آ رہی تھی وہ ان دونوں کے ساتھ وہی بیٹھ گئی ۔میں سوچ رہی تھی عید کرنے تو تم لوگ گھر ضرور آؤ گے جی ہاں تب ہی تو آج شہزور انکل کے ہاں ملی ہیں وہ بھی اس دن افطار ڈینر نہیں تھی کل ہم آئے تو پتہ نہیں کہا گم تھی ۔تم لوگ آئے تھے وہ حیران ہوئی۔تو کیا ہم جھوٹ بول رہے ہیں گیتی اور بی جان اسے دیکھ چکے تھے ۔اسے اپنی بدتمیزی کا احساس ہوا تو ان سے سلام کرنے گئی
کیسی طبیعت ہے بیٹا؟ رسمی جملے کے بعد بی جان نے پوچھا وہ حیران کے میں بیمار کب تھی ۔
اس دن میں نے افطاری پارٹی میں بلانے کو فون کیا پتہ چلا تھا تم جلدی چھٹی لے کر چلی گئی اس روز بھی مجھے پتہ یوتا تم اسفی کی وجہ سے جا رہی ڈیوٹی نہیں ہے تو میں جانے نہیں دیتی۔ہسپتال میں ڈاکٹر اور اوپر نیچے والا کام ہے گھر میں نہیں اسفی اوپر سے سخت لگتا ہے اندر سے بہت محبت کرنے والا ہے مجھے کشمالہ نے بھی کہا کہ شاید تم نہیں آؤ اس لیے فون کیا تھا ۔
تمہیں بلانے کے لیے لیکن اسفی سے بات ہوئی اس نے بتایا وہ تو چھٹی لے کر چلی گئی ۔
محبت کرنے والا پیارا بیٹا کچھ فاصلے پر کھڑا ڈاکٹر شہزور سے باتیں کر رہا تھا اور یقینا یہ تمام جملے اس نے بھی ضرور سن لیے ہوں گے ۔اتنی بری طرح تو وہ ان کے گھر جانے پر شرمندہ نہیں ہوئی تھی جتنی ان کے منہ سے اس وقت باتیں سن کر ہوئی۔
سوبر سا امیج جو بنانے میں کامیاب ہوئی تھی کتنی بری طرح ٹوٹا تھا ۔مگر یہ ان کو بتا کس نے؟
یہ متحرمہ ہیں نا انہوں نے اس دن جب آپ ہم لوگوں سے ناراض ہو گئی تھیں ۔میں نے کتنے اشارے کیے کمر چٹکی کاٹی مگر یہ بولتی چلی گئی جو جو آپ نے ہم لوگوں سے کہا تھا سب بول دیاوہ بھی ممی بی جان اور لالہ کے سامنے۔سائم نے کھانا کھاتے ہوئے کشمالہ کی طرف اشارہ کر کے کہا تو اس کا دل چاہا وہاں سے نکل کر بھاگ جائے ۔آپ مجھ سے ناراض ہو گئی کشمالہ ڈر گئی اسے ناران دوست اور دانا دشمن والی کہاوت یاد آ گئی تھی ۔
نہیں آپ سے ناراض ہو کر کدھر جاؤں گی۔
ایندہ کم از کم اس نے کشمالہ کے سامنے سوچ سمجھ کر بات کرنے کا سوچتے ہوئے جواب دیا۔
سسٹر رضیہ کو واپس ڈیوٹی جوائن کرنے کی جلدی تھی ۔موقع غنیمت جان کر وہ بھی ان کے ساتھ آ گئی ۔ابھی ڈینر چل رہا تھا ۔واپس جانے والی وہ دونوں سب سے پہلی مہمان تھیں۔اگلے کئ دن وہ ڈاکٹر اسفند سے کتراتی رہی۔
کشمالہ اور سائم عید کرتے ہی واپس ہو گئے ۔جانے سے پہلے وہ اس سے ملنے آئے تو وہ دونوں کے ساتھ اسی جگہ آ گئی جہاں وہ پہلی بار ملے تھے ۔سائم نے دکھ بھرے انداز میں پوچھا زوبیہ آپی آخر ہم لوگ اس طرح چھپ چھپ کر کب تک ملیں گے ۔اس کا فیلمی انداز سے جملہ بولتے سن کر بہت ہنسی آئی ۔
فیلمیں زرا کم دیکھا کرو کشمالہ نے کہا۔
دیکھیں نا اسپتال ہم مل نہیں سکتے گھر آپ آتی نہیں ہیں یہ سماج کی دیواریں کب تک ۔
اب میں کچھ بولی تو تماری عقل مند بہن صاحبہ وہاں جا کر سب الم نشرح کر دے گی اس بات کا جواب تمہیں اکیلے دوں گی ۔
_______________
اس دن اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی ۔وہ فارغ اونگھ رہی تھی تو اسے شرافت بابا کا خیال آیا۔بے چاروں کے گردے ناکارہ ہو گئے تھے ۔ہفتے میں تین بار ان کا ڈایالیس ہوتا ہے۔وہ اپنے گھر کے واحد کفیل تھے رضیہ نے اسے بتایا تھا کے ایدے مریضوں کی اسفند خفیہ مدد کرتا ہے بلکہ صرف وہ نہیں ڈاکٹر شہزور بھی مگر چرچا نہیں کرتے ۔
اسپتال کے اخراجات کے علاوہ بھی ان کی مالی مدد کرتے ۔اسپتال میں امیر بندہ دخل ہوتا اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جاتی ۔
کسی سردار کا بیٹا آج کل ایڈمنٹ تھا وہ آج راونڈ پر اسفند کے ساتھ آئی تھی وارڈ میں وہ اس کے کمرے تک پہنچنے تو اسفند یار اس سے بولا بس آپ جائیں اب۔وہ اس بات پر توجہ دیے بغیر کے اس نے جانے کا کیوں بولا تو فورا وہاں سے چل دی اس کے ساتھ تو سر پر تلوار لٹکی محسوس ہوتی ہے ۔
سسٹر سے تھوڑی دیر آنے کا کہتی وہ مردوں کے وارڈ آ گئی ۔وہ شرافت بابا کے پاس بیٹھ گئی ان کی بوڈھی آنکھیں لمہ بھر کے لئے مسکرائی۔آدھا پونا گھنٹہ ان کے پاس رہ کر اٹھ گئی کوریڑور میں چلتے اس نے آواز سنی
ایکسکیوزمی ڈاکٹر۔ وہ پلٹی تو حلیہ سے ہی سمجھ گئ پرسوں داخل ہونے والا جاگیردار کا بیٹا ہے گلے میں سونے کی چین قیمتی گھڑی قیمتی لباس جی وہ اس کے پاس آ گئی ۔
میرا دل بہت بری طرح گھبرا رہا ہے چکر آ رہے ہیں ہاتھ پاؤں بے جان سے لگ رہے ہیں ۔وہ ایک دم الر ٹ ہو گئی ۔
آپ لیٹیں میں چیک آپ کرتی ہوں ۔
وہ سنجیدگی سے اس کا معائنہ کر رہی تھی اچانک اسے عجیب سا محسوس ہوا بے اختیار نظریں اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا وہ گہری بے باگ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اسے اس کی نگاؤں سے خوف آیا وہ پیچھے ہٹنے لگی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
آپ کو کبھی کسی نے بتایا ہے ڈاکٹر آپ بہت خوبصورت ہیں ۔میں نے اپنی زندگی میں ایسی مکمل حسین لڑکی نہیں دیکھی۔
کیا بدتمیزی ہے آپ ہوش میں تو ہو چھوڑو میرا ہاتھ
وہ بلند آواز میں چلائی۔دل خوف کے مارے بند کے قریب تھا اچانک خود ہی اس نے ہاتھ چھوڑ دیا گھبرائی آواز میں بولا
آیئے ڈاکٹر اسفند یار
اس کے منہ سے کلمہ شکر نکلا۔بے اختیار اس نے پلٹ کر دیکھا میں ڈاکٹر صاحبہ سے کہہ ہی رہا تھا کاش ڈاکٹر اسفند آ جائیں تو بہتر دیکھ بھال ہو۔
وہ بے غیرتی کی حد کرتے پینترا بدل گیا وہ سن کھڑی رہ گئی ۔اس کے ہاتھ پاؤں بری طرح کانپ رہے تھے ۔اسے لگ رہا تھا ابھی گر جائے گی اسفند اندر آیا ایک بار بھی زوبیہ کی طرف نہیں دیکھا مسلسل آوز سلطان کو دیکھ رہا تھا ۔
مجھے بھی یہی لگ رہا ہے آپ کی ٹریٹمنٹ اب مجھے ہی کرنی پڑے گی ۔وہ طنزیہ انداز میں بولا
آپ جا، سکتی ہیں ایک سرد کاٹتی ہوئی نظر ڈال کر اسے کہا۔اتنے سخت اور کراخت الفاظ میں اس نے اس سے پہلے کبھی بات نہیں کی تھی ۔وہ فورا باہر نکل آئی۔وہ پیر کئ رکھ رہی تھی پڑ کئ رہا تھا ۔اسے کچھ دکھائی نہیں رہے رہا تھا یا الله یہ کیا ہونے جا رہا تھا میرے ساتھ ۔۔وہ ابھی بھی کانپ رہی تھی ۔کمرے میں آ کر دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر سوچ میں گم سم اتنے میں انٹر کام بجا۔
آپ زرا میرے کمرے میں آیئے۔وہی سرد لہجہ وہ بامشکل خود کو گسیٹتھی اس کے کمرے تک پہنچی۔دونوں ہاتھ پیچھے باندھنے وہ کمرے میں گھوم رہا تھا ۔اسے دیکھ کر رک گیا ۔اس کے بالکل سامنے آ کر بولا۔
میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں ڈاکٹر زوبیہ خلیل کہ یہ سب کیا تھا آپ وہاں کیوں گئی کس کی اجازت سے اپ کو تماشا بننے کا شوق ہو تو ہو مجھے اپنی نیک نامی عزیز ہے وہ غصے سے چلایا۔ڈاکٹر تاجدار ڈیوٹی نہیں تھے؟ ایسا کون سا کیس تھا جسے آہ ہنیڈل کرنے گئ۔
ہماری عزت کو داغ لگا کر آئی ہے یہ بے غیرت میں اس کا خون کر دوں گا۔اسے اسفند کی آواز نہیں بلکہ کچھ اور آوازیں سنائی دے رہی تھی ۔آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں اسطرح کی لڑکی نہیں ہوں ۔آواز بعد میں نکلی آنسو پہلے۔وہ کبھی بھی کسی کے سامنے نہیں روئی تھی اس شخص کے سامنے تو کبھی بھی نہیں رونا چاہتی تھی مگر اس وقت وہ زاروقطار رو رہی تھی ۔
اس کا جملہ اور رونا دونوں غیر متوقع تھے ۔تھوڑی دیر وہ اسے آنسو بہتا دیکھتا رہا ۔پھر گہری سانس لے کر آستگی سے بولا
بیٹھ جائیے ڈاکٹر زوبیہ ۔۔۔اس بار لہجہ پر سکون تھا وہ ایک دم روتی ہوئی کمرے سے بھاگ کر نکل گئی ۔واش روم میں خود کو بند کر کے نل کھول کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔میری بدنصیبی کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔یہاں کسی کو میرا ماضی نہیں پتہ میں بہت خوش تھی سب مجھے شریف پاکباز حیادار لڑکی سمجھتے ہیں ۔مگر اب نہیں سمجھیں گے ۔ڈاکٹر اسفند کے سامنے میری کیا عزت رہ گئی وہ سوچ رہے میں جان بوجھ کر وہاں گی مجھے مشکوک کرادار قرار دے کر نکال دیں گے پھر سب جان جائیں گے میری اصلیت۔حجت گل خان شہزور کشمالہ صائم وہ سب مجھے پیار کرتے ہیں مجھ پر تھوکیں گے میرے خدا موت دے مجھے اب مجھے نہیں جینااب اور کتنی زلت سہوں
میری طبیعت ٹھیک نہیں کوئی پوچھے تو بتانا میں ہاسٹل میں ہوں پتہ نہیں کتنی دیر بعد وہ واش روم سے نکلیتیز چلتی ریسپشن میں آ گئی وہ اس وقت کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی نہ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر تاجدار کا نہ رہی راضیہ کا وہ کمرے میں پہنچا چاہتی تھی جلدی۔وہ صبع تک ایسی حالت میں رہی میں اپنے حق میں کچھ نہیں ثابت کر پاؤں گی۔وہ رات بھر دعائیں مانگتی رہی۔
_________________
شکر ہے تمارا ٹمپریچر تو نارمل تکلیف سے کراتے اس نے آنکھیں کھولی تو ڈاکٹر صآصفہ اس کے پاس تھی خود پر کام کا بوجھ نہیں ڈالا کرو طبعیت ٹھیک نہیں تھی تو چھٹی کر لیتی۔ان کی اپنائیت اسے حیرانی میں مبتلا کر رہی تھی ۔
اب آنکھیں کھولو اور ہمت کر کے تھوڑا دودھ پی لو تا کہ دوا دی جا سکے۔انہوں نے پیچھے تکیہ رکھ کر اسے بیٹھایا اور پاس کھڑی سسٹر کو دودھ لانے کا بولا۔نظریں سامنے لگی گھڑی پر پڑی تو شام کے پانچ بج رہے تھے اسے بخار کب ہوا بس اتنا یادتھا اس کے سر میں بہت درد تھا آنکھیں کھل نہیں رہی تھی اور شاید کوئی زور سے اسکے کمرے کا دروازہ پیٹ رہا تھا سوتے جاگتے شاید سسٹر رضعہ اور ساتھ کسی کی آوازیں تھی ۔
رات تک سب ڈاکٹر کے علاوہ کئ لوگ عیادت کو اتے رہے ہر کوئی اس کے لئے فکر مند تھا ۔اس کے سرانے پھولوں پھلوں اور دوائیوں کا انبار لگا ہوا تھا ۔ڈاکٹر آصفہ رات تک اس کے پاس رہی۔اگے روز صبع سویرے حجت چلی آئی اسے یقیناً شہباز نے بتایا ہو گا۔آپ اپنا خیال نہیں رکھتی دیکھیں رنگ کیسے پیلا ہو رہا ہے ۔میں آپ کے لیے حلوہ بنا کر لائی ہوں دیسی گھی کا کھا کر آپ کو طاقت آ جائے گی ۔وہ اپنے ہاتھ سے چمچ بھر کے اس کے منہ میں ڈالنے لگی۔پھر گل خان اور اس کی بے بے آئی وہ اپنے آپ سے ایک ہی سوال کر رہی تھی کہ کیا میں اتنی اہم ہوں کہ سب کو میری فکر لگ گئی اس کی نظروں میں بہت منظر گھومے کے اس کے خونی رشتوں نے بیماری میں اس کا ساتھ نہیں دیااسے نظرانداز کیا کبھی نہیں پوچھا کھانا کیوں نہیں کھا، رہی اندر کیوں پڑی ہے یہ انجان لوگ کس طرح چاہت نچھاور کر رہے تھے
ڈاکٹر شہزور اور ڈاکٹر آصفہ دونوں نے آکر آج پھر خیر خیریت پوچھی سارے اسٹاف کی طرف سے Get well soon
کا کارڈ اور پھول یہ چار دن اس کے بھر پور چاہت کے تھے کسی کی انکھیں نہیں بدلی لہجہ نہیں بدلہ بہت فکر خیال رکھا گیا۔مگر وہ ڈاکٹر اسفند یار اس نے کئ بار سوچا شاید وہ یہ بات کسی کو بتانا نہیں چاہتے لیکن یقینا اب تک میرے بارے میں کوئی فیصلہ کر لیا ہو گا۔بہتر ہو گا ان کے کہنے سے پہلے خود استعفیٰ دے دوں کم سے کم نکالے جانے کی زلت سے تو بچ جاؤں گی ۔وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی کہ یہاں سے جا کر کرے گی کیا ۔
وہ اپنا استعفیٰ لکھنے میں مصروف تھی ۔جب اسے ڈاکٹر اسفند کے ٹیلی فون کی اطلاع ملی ۔وہ کامن روم میں آ گئی ۔
اسلام وعلیکم بہت بجھے بجھے الفاظ میں سلام کیا
وعلیکم السلام طبیعت کیسی ہے اب؟ بڑے خشک انداز میں دریافت کیا ۔
ٹھیک ہے
ٹھیک ہے تو ڈیوٹی کیوں نہیں آ رہی؟ آپ کی وجہ سے ڈاکٹر آصفہ پر بہت بوجھ ہے
میں کل سے آ جاؤں گی ۔اس کے زہین میں اپنا ادھورا لکھا استعفیٰ گھوم رہا تھا ۔
دوسری طرف ٹھیک ہے کہہ کر لائن کٹ کر دی۔
کمرے میں آ کر استعفیٰ پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال کر پرسکون ہو گئی ۔ایسے جیسے کسی پھانسی والے مجرم کی اچانک سزا معاف ہو جائے ۔اسے زندگی میں کبھی معافی نہیں ملی تھی آج جہاں سے امید نہیں تھی وہاں سے معاف ہوئی۔زندگی اچانک مہربان ہو گئی اس نے خود سے سوال کیا۔
جب اسپتال آئی سب نے اچھے سے خیر مقدم کیا۔ایسے جیسے بہت وی ائی پی ہے اسفند کے اسٹائل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہی روکھا غلطی پر ڈنٹ ڈپٹ کچھ نہیں بدلہ تھا ۔
اسے دوبارہ جوائین کیے کافی دن ہوئے تھے اسفند نے کبھی اس واقعہ کا زکر، نہیں کیا۔بہت بار اس کے کمرے میں کام کے لئے گئ بہت دل کرتا، خود زکر چھیڑ دے مگر ہمت ہار جاتی۔آصفہ سے باتوں باتوں میں سلطان کے بارے میں پوچھا وہ سوچ کر بولی وہ تو بہت دن پہلے ڈسجرج ہو کر چلا گیا تم بیمار تھی اس لیے نہیں پتہ ویسے وہ کچھ خاص بیمار بھی نہیں تھا بڑے لوگ تھے دل تو ان کا تھا اب یہی رہے میں نے بھی اسفند سے بالا، رہنے دو ہمارا کیا جاتا ہے وہ مسکرائیں زوبیہ مسکرا، نہیں سکی۔ہر طرف سے اطمینان تھا سوائے اسفند کے ۔ایک شخص تو ایسا، تھا جس کی نظروں میں وہ گر گئی تھی ۔
_______________