محمد فیروز شاہ(میانوالی)
وہ فلک کے گلے میں گلو بند تھا
یا کہ مالا تھی ست رنگ ہیروں کی ———–یا
آسمانوں کے آنگن میں
رنگوں کی منڈی سجی تھی——–وہ قوسِ قزح!
ہاں ! وہ قوسِ قزح
کہ جس کے دھنک رنگ آنچل کو اوڑھے
اُفق سج گیا دلہنوں کی طرح!
جمال فلک کی یہ ثروت
مری آنکھ اور میرے دل کی ریاست
میں—‘فاتح کی صورت جو اتری
تو میں نے یہ سوچا
کہ رنگوں کی یہ اصل اورنسلِ حقیقی ہے کیا
تب یہ مجھ پر کھلا
کہ جب روشنی آکے لمحوں کی دہلیز پر
خود کوقربان کر دیتی ہے سر بسر
تو اجالے کی قربانیوں کا ثمر
رنگ ورعنائی کا یہ طلسمی ہنر
فتح کرتا ہے دنیائے قلب ونظر !
اور مسّرت بھی تو روشنی کی طرح
ہے سخّی——– اور ایثار کی مدّعی!
میں نے دیکھا ہے اکثر کہ جب بھی خوشی
غمگساری کی چوکھٹ پہ واری گئی
تو سکوں سا ملاقلبِ مضطر کو بھی
صحنِ گل میں سفیرِبہار آگیا
سایہء گل میں بیٹھے ہوئے یوں لگا
جیسے خوشبو کی رُت پر نکھار آگیا!
یوں خوشی ایک خوشبو کا پیکر بنی
روشنی ٹوٹ کر رنگ میں ڈھل گئی
اور خوشی
اپنی جاں،اپنا تن وار کر
زندگی کے نئے ڈھنگ میں ڈھل گئی
مطمئن قلب کے انگ میں ڈھل گئی!!!