دو دنوں کے بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ تیسرے دن بھی وہ گھر سے باہر نہیں نکلا لیکن شام کے وقت اس کے جی میں جانے کیا سمائی کہ بازار سے مٹھائی خرید لی اور اپنے خیر خواہوں سے ملنے چلا گیا۔ در اصل عمارت کے اس منزلے پر شہلا کا گھر سب سے آخری تھا۔ اختر ان کے پڑوس میں رہتا تھا۔ شہلا کی امی سے اس نے ماہانہ ٹِفن طے کر لیا تھا لیکن کبھی بے وقت اسے چائے کی ضرورت ہوتی تو زیادہ تکلف کئے بغیر ہی ان کے یہاں چلا آتا۔ بھنڈی بازار کے بوہری محلے کی شاندارسیفی مسجد کے پاس مختلف قسم کے پکوان کھانے والوں کی بھیڑ سی لگی رہتی ہے۔ ان کی چار منزلہ عمارت کے چھوٹے سے صدر دروازے میں پڑوس کی دوکان کی مٹن سینڈوِچ اور رول کی خوشبو کو وہ اکثر اپنی سانسوں میں بھر لیا کرتا مگر کھاتا نہ تھا کہ بازار کے کھانے سے اس کی طبیعت بگڑ جایا کرتی تھی۔
کمرے میں صوفے پر کوئی بیٹھا ہوا تھا۔ اسے شبہ ہوا کہ کہیں یہی شہلا کا باپ تو نہیں! لیکن شہلا کیوں سجی سنوری اس کے سامنے بیٹھی ہے؟ اس کے چہرے سے بیزاری اور دکھ کے جذبات جھلک رہے تھے۔ وہ سلام کر کے اس شخص کے پاس بیٹھ گیا۔ پوری آستین کا کرتا اور پٹھانی شلوار پہنے، عطر کی بھینی بھینی خوشبو اُڑاتا ہوا، کاندھوں پر جھولتی زلفوں کی لٹوں سے وہ پینتیس سے اُس طرف کا ہی لگتا تھا۔ یہ کمال بیگ تھا۔ اختر نے کمال بیگ کو پہچان لیا۔ کچھ وقت پہلے وہ اخباروں میں اکثر نظر آ جاتا تھا۔ کمال نے اکتاہٹ سے اس کی جانب دیکھا۔
’’کون ہے؟‘‘ کمرے میں پارٹیشن کے پیچھے سے شہلا کی ماں چائے کا ٹرے لے آئیں۔
’’ارے بیٹا تم!‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ارے بیٹھو بیٹھو، جانتے ہو اِنہیں؟ کمال بیگ صاحب ہیں۔ ممبئی کے رئیسوں میں اِن کا شمار کیا جاتا ہے۔ اب شہلا کے ہونے والے دولہا ہیں۔ بس اگلے مہینے شادی ہے۔ اُسی کی دوڑ دھوپ میں لگی ہوں۔ ویسے تو کمال صاحب نے سختی سے منع کر دیا ہے مگر میں بھی تو لڑکی کی ماں ہوں۔ کیا کوئی یوں ہی بیا ہے گا بیٹی کو!‘‘ انہوں نے بیٹی اور ہونے والے داماد کو پیار بھری نظروں سے دیکھا! اختر حیرت زدہ رہ گیا۔ کم سن اچھی خاصی صورت والی بیٹی کو اس کم بخت سے ہی بیاہنا رہ گیا تھا مگر مصلحت یہی تھی کہ وہ شکریہ ادا کر کے چلا آیا۔
رات بھر اس کے ذہن میں شہلا اور کمال کا سراپا ہلچل مچاتا رہا۔ اختر نے کبھی کسی کے ذاتی یا گھریلو معاملوں میں دخل اندازی نہیں کی تھی اور نہ اب کرنا چاہتا تھا مگر اس کا دل اس کے اصولوں کو توڑنے کی ضد کر رہا تھا۔ اختر ممبئی یونیورسٹی میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ اس کی تحقیق آخری مرحلے میں تھی۔ صبح وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہوا تھا۔ اس نے کالے اور نیلے پٹّوں والی ٹی شرٹ اور جینس پینٹ پہنی اور باہر نکل آیا … مگر قدم سیڑھوں کی طرف جانے کے بجائے پڑوس والے کمرے کی طرف اُٹھ گئے تھے۔
’’شہلا کی ماں سوتیلی ہو گی، تبھی تو … ‘‘ اس نے خود کو تسلّی دی۔ ہو سکتا ہے بغیر دیکھے جانے یہ مکھّی سونے کے نِوالے میں چلی آئی ہو۔
آخر دل جیت گیا اور وہ دوسرے دن صبح ہی صبح پڑوس کے کمرے میں تھا۔
’’آؤ بیٹا!‘‘ شہلا کی ماں بستر سے تیزی سے اُٹھ بیٹھیں۔ بستر کو تہہ کر کے پاس رکھے ٹرنک میں رکھ دیا اور اختر کے پاس پڑی کرسی پر آ بیٹھیں۔
’’بیٹا ذرا چائے بھجوا دے۔۔ اختر آئے ہیں۔‘‘ انھوں نے پارٹیشن کی جانب منہ کر کے کہا اور اختر کی طرف مُڑیں۔
’’بیٹے! آج ناشتہ ہمارے ساتھ ہی کر لو‘‘
اختر نے شہلا کی ماں کے پر شفقت چہرے کو دیکھا اور سوچنے لگا، ’یہ عورت سوتیلی نہیں ہو سکتی!‘
ناشتے کے بعد اختر نے کمال کے بارے میں شہلا کی ماں کی معلومات پرکھنی شروع کی۔ وہ بہت ہی عقیدت اور محبت کے ساتھ اپنے ادھیڑ عمر داماد اور اس کے کام دھندے کے بارے میں بتاتی رہیں۔
’’آنٹی!‘‘ وہ آخر میں بڑی سنجیدگی سے بول پڑا، ’’ آپ نے اس شخص کا خاندان دیکھا ہے؟ اس کے کاروبار سے آپ مطمئن ہیں؟‘‘
شہلا کی ماں نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا اور بولیں، ’’ خاندان سے مجھے کیا لینا دینا؟ہاں ممبئی کے شاندار علاقے جُوہُو میں اس کا بنگلہ ہے۔ وہ شہلا کو وہیں رکھے گا اور رہا کاروبار کا سوال، تو یہ پوچھنے کی بات نہیں ہے۔ سارا محلہ کہتا ہے، میری شہلا خوش قسمت ہے۔‘‘
ان کے عجیب دھیمے لہجے نے اسے خبردار کیا، ’ ’اب بھی باز آ!‘‘ مگر
’’آپ کی معلومات کے لئے ایک بات بتلا دوں۔ آنٹی یہ آدمی ممبئی کے ڈونگری علاقے کا جانا پہچانا اسمگلر ہے۔‘‘ اس نے کہہ ہی دیا۔
’’تو کیا ہوا؟ آج کل تو ہر دوسرا آدمی اسگلر ہے۔ انھوں نے بے پروائی سے کہا۔
’’صرف اسمگلر ہی نہیں، وہ دلال بھی ہے۔ بھولی بھالی لڑکیوں کو خرید کر بزنس کرتا ہے۔‘‘
’’کیا کہتے ہو اختر؟ ہوش میں تو ہو؟‘‘ وہ پریشان ہو کر بولیں۔
’’اگر ایسی بات تھی تو اس نے شہلا کا ہاتھ کیوں مانگا؟اس سے اتنی دھوم دھام سے منگنی کیوں کی؟ اور اب شادی کیوں کر رہا ہے؟‘‘
’’آنٹی آپ سیدھی سادی عورت ہیں۔ اس قسم کے مردوں کے فریب کو نہیں پہچانتیں۔ اسی سے پوچھئے، آپ کی شہلا اس کی کون سے نمبر کی بیوی بنے گی؟ … پوچھئے، اس کے ڈونگری والے گھر میں کون کون رہتا ہے؟‘‘
’’اختر!‘‘ وہ بکھر گئیں، ’’تم یہ سب کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
’’آنٹی یہ سب سچ ہے۔ آگے آپ کی مرضی!‘‘
’’مگر … مگر میں کیا کروں؟‘‘ وہ سر تھام کر بیٹھ گئیں۔ پھرسر اُٹھا کر بولیں، ’’شہلا کو کہیں نہ کہیں بیاہنا تو ہے ہی، اور پھرحُسین … وہ تو ابھی صرف نو سال کا ہے۔ اس کی پرورش کا ذمّہ کون لے گا۔ میں ٹھہری ذیابیطس کی شکار، دل کی مریض … کسی بھی وقت سانس اُکھڑ سکتی ہے میری۔ میری معصوم بچی نے زمانے کی اونچ نیچ نہیں دیکھی۔ اس کی دادی نے اسے بارہویں سے زیادہ پڑھنے بھی نہیں دیا۔ باپ کا سایہ بھی سر پر نہیں۔ لے دے کر یہی گھر ہے۔ وہ بھی شاید میری بیماری کی نذر ہو جائے! اب بچی کی شادی کی خوشی میں بھاگ دوڑ کر لیتی ہوں ورنہ میری حالت سے بس خدا ہی واقف ہے۔ میں کیسے کمال کو ’نا ‘کہہ دوں بیٹے؟ ہو سکتا ہے، کل میری بچی کا معصوم چہرہ اسے خدا کی یاد دلا دے! خدا کی کار کردگی کی قائل ہوں۔ اختر بیٹے! میرے بچوں کو جب اس نے پیدا کیا ہے، اب تک عزت سے پیٹ بھرا ہے، تو آگے بھی عزت دے گا۔‘‘
’’انشاء اللہ‘‘
وہ اٹھ کر پارٹیشن کی دوسری جانب چلی گئیں۔ کچھ دیر بعد لوٹیں تو شاید خوب رو کر لوٹیں۔ منہ دھو کر آئی تھیں۔ وہ چہرے پر تازگی لانے کی کوشش کرتی رہیں۔ اختر کے ذہن میں اس خاتون کے مسئلے کا کوئی حل نہ تھا۔ وہ اٹھا اور ان کے کمرے سے چلا گیا۔
اختر کے جانے کے بعد کئی دن ماں بیٹی چھُپ چھُپ کر روتی رہتیں۔ ایک دوسرے کے سامنے رونے کا حوصلہ شاید ان میں نہیں تھا۔
اختر آج کل شام ہوتے ہوتے ہی گھر لوٹنے لگا تھا۔ وہ کمال کو ہر دوسرے دن پڑوس میں جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ مگر وہ کر بھی کیا سکتا تھا؟ اس نے کمال کے بارے میں بتا کر اپنا فرض تو پورا کر لیا تھا مگر اس مجبور عورت اور اس کی بے کس بیٹی کی آنکھوں سے آنسو نہ پونچھ سکا۔ اب وہ ایک اور الجھن میں گرفتار ہو گیا تھا۔ وہ کُڑھتا رہا۔ کمال کا آتا رہنا اس کے ضمیر کے چہرے پر طمانچہ مارتا رہا۔ مگر وہ چپ رہا۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ کس کے دل پر کیا گزر گئی، کون کہہ سکتا ہے! گرمی نے شدّت پکڑ لی تھی۔ دن بھر اپنے اندر کی آگ سے اُجالا پھیلا کر سورج دیوتا سِدھار گئے تھے۔ آسمان پر ہلکی ہلکی سُرخی ابھی باقی تھی اور دور ایک سہما سہما چاند تن تنہا اپنی مدھم مدھم روشنی کے ساتھ اب بھی دنیا کی اونچ نیچ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اختر کمرے میں داخل ہوا تو دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی شہلا پارٹیشن کے اُس طرف کہتی ہوئی چلی گئی۔ ’’امّی اختر صاحب آئے ہیں۔‘‘
شہلا کی امّی وہیں لیٹی ہوئی تھیں۔ آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اختر کو دیکھا اور اُٹھ بیٹھیں۔ وہ چپ چاپ سامنے بِچھی کرسی پر اس اُجڑی اُجڑی خاتون کو دیکھنے لگا۔ آنکھیں سُرخ، بال بکھرے ہوئے، ملگجے کپڑوں میں وہ بیمار نظر آ رہی تھیں۔ اختر کو وہ اس وقت ممتا کی مورت نظر آئیں۔ عقیدت سے اُس نے نظر جھکا لی، ’کاش! میری ماں بھی ایک ایسی ہی ماں ہوتی۔ میری ہر پریشانی پر تڑپنے والی … ماں ‘، اس کا رُواں رُواں چیخ رہا تھا۔
’’کل سے چکّر آ رہے ہیں۔ شاید بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے۔‘‘ وہ بولیں۔ وہ خاموش بیٹھا انھیں دیکھتا رہا۔ پھر وہ خود ہی بولیں، ’’تم چائے پیو گے؟‘‘ اور اس کا جواب سنے بغیر ہی آواز دی۔
’’شہلا بیٹے دو کپ چائے لانا۔ ایک میں شکر ڈالنا نہ بھولنا۔‘‘ وہ دھیرے سے مسکرائیں اور اختر کی طرف دیکھ کر بولیں۔
’’کہیں غلطی سے تمہیں بھی پھیکی چائے نہ دے دے۔‘‘ وہ ان کی مسکراہٹ کا جواب مسکرا کر نہ دے سکا۔
’’آنٹی کمال بیگ اب بھی کیوں اِس گھر میں آتا ہے؟‘‘ وہ بغیر کسی تمہید کے بول اُٹھا تھا، ’’کیا اب بھی شہلا سج سنور کر اس کے سامنے بیٹھتی ہے؟‘‘
شہلا کی امّی کا چہرہ پیلا پڑنے لگا۔ شہلا نے چائے لاتے ہوئے اختر کا جملہ سنا اور ماں کی پھیکی رنگت کو دیکھ کر ٹرے کو جلدی سے تِپائی پر رکھ دیا:
’’میری امّی سے پلیز کچھ نہ کہئے … ‘‘ اختر حیران ہو کر شہلا کا منہ تکنے لگا۔ اِس گوں گی لڑکی کے زبان بھی ہے؟ اُس نے تو شہلا کی موجودگی ایسے محسوس کی تھی جیسے گھر کے کونے میں بد کی بِلّی، ’’آپ کی باتوں نے ہی اِنہیں بیمار کر ڈالا ہے۔ اگر اِنھیں کچھ ہو گیا تو! ۔۔ ۔ کون ہمارا ذمہ دار ہو گا؟‘‘
’’مگر شہلا، کمال … ‘‘
’’ہاں وہ جو کچھ بھی ہے، میری ماں کو خوش تو کر سکا تھا۔ نہ آپ آتے نہ سب کچھ کہتے … مجھ سے نہیں دیکھی جاتی اختر صاحب، میری ماں کی تڑپ۔‘‘ وہ سسک اٹھی، ’’میں شادی کر لوں گی امی!‘‘ وہ ماں کی طرف مُڑی، ’’میں کبھی انکار نہیں کروں گی امّی۔‘‘ وہ ماں کی بانہوں میں سما گئی، ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ میں کمال کو سُدھار لوں گی امی۔ میری امی!‘‘ وہ تڑپ تڑپ کر رونے لگی۔
’’بیٹا!‘‘ شہلا کی ماں نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’میں کیسے انکار کروں؟ اگر وہ سچ مچ اِتنا ہی بُرا ہے تب بھی میرے بچوں کا مستقبل برباد کرے گا۔ ہائے میرے اللہ! کس الجھن میں گرفتار کر دیا ہے تو نے … اِتنا امتحان تو نہ لے کہ بے کس بندہ تجھ سے ہی مُنکر ہو جائے!‘‘ اُن کی لرزتی کانپتی پلکیں چھت کی جانب اُٹھ گئیں۔
’’آنٹی، اگر میں شہلا کا ہاتھ تھام لوں تب؟‘‘ نہ جانے یہ فیصلہ کرنے کے لئے وہ کرب کی کن منزلوں سے گزرا تھا۔
اختر تینوں کو لے کر حیدرآباد چلا آیا تھا۔ یہاں ماصب ٹینک علاقے میں خواجہ مینشن کے قریب اس کا اپنا مکان تھا۔ زندگی نے کچھ اس طرح رنگ بدلا کہ خدا کے وجود سے منکر ہونے پر پچھتا رہے تھے۔
شہلا اور اختر ہنی مون کے لئے اوُٹی کُنّور ہو آئے۔ تقریباً روزانہ ہی اختر اسے وہاں کے قابلِ دید مقامات دکھانے لے جاتا۔ وہ شہلا کی امی اور حسین کو بھی ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر اپنی بیٹی کی خوشیوں میں ہی وہ خوش تھیں، البتہ کبھی کبھارحُسین کو ساتھ بھیج دیتیں۔ شہلا کی زندگی میں خوشیوں نے بسیرا کر لیا تھا۔
اُس دن نہرو زولوجیکل پارک کی آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے جانوروں کی عجیب حرکتوں پر وہ خوب قہقہے لگا رہی تھی۔ وہ کبھی سالار جنگ میوزیم میں قدرت کے دی ہوئی اُس نعمت کا اعتراف کرتی، جسے فن کہتے ہیں۔ ’’پینٹنگ، مورتیاں، گھڑیاں اور مختلف چیزیں نوابوں کے عیش کے سامان ہوں گے!‘‘ وہ تاریخ کے بابوں میں کھو سی جاتی … مگر آج اُسے ایک چیز بُری طرح کھٹک رہی تھی۔ اختر کی عجیب سی محبت۔ اختر کی چاہت کو جھٹلانا، خدا کی نعمتوں کو جھٹلانے کے مترادف تھا۔
تین مہینے چپکے سے گزر گئے تھے۔ اختر حسبِ معمول رات گئے تک کتابیں لئے بیٹھا رہتا۔ آج شہلا روزانہ کی طرح سوئی نہیں تھی۔ وہ بے چین نگاہوں سے اختر کے سراپے کو دیکھتی رہی۔ ایک دو بار کہا بھی۔
’’اختر پلیز مجھے نیند نہیں آ رہی ہے۔‘‘
’’تم سو جاؤ شہلا ڈئیر۔ میں ذرا اس کتاب کو ختم کر کے ہی آؤں گا۔‘‘
’’یعنی تم نے ٹھان لیا ہے، روزانہ مجھے سُلا کر ہی سوؤ گے۔‘‘
’’نہیں تو، ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘
’’پھر آ جاؤ نا تم بھی۔‘‘
اختر خاموش رہا۔ شہلا اٹھ بیٹھی۔ شب خوابی کا گلابی لباس اس کے چہرے سے میل کھانے لگا۔ اختر کے پیچھے کھڑے ہو کر اس نے کتاب پر نظر ڈالی۔ اکنامکس کی موٹی سی کتاب تھی۔ اس نے دھیرے سے اختر کے کاندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ اختر نے آنکھیں بند کر لیں۔
’’چلو نا، اتنی خشک کتاب پڑھنے کے لئے یہی وقت رہ گیا ہے کیا؟‘‘ اس نے پیار سے جھک کر کتاب اٹھانی چاہی۔ نازک سا بوجھ پڑا تو اختر گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ شہلا ہنس دی۔
’’کیوں ایسے کیوں گھبرا گئے؟‘‘
’’پلیز شہلا، مجھے پڑھنے دو۔‘‘ وہ ہال میں نکل آیا۔ شہلا بھی پیچھے پیچھے آئی۔
’’کیا صبح امتحان دینے جانا ہے؟‘‘ اس نے اپنا سر اختر کے کندھے سے لگا لیا۔
’’شہلا … میری اچھی شہلا! جا کر سو جاؤ۔‘‘
’’نہیں، میں اکیلی نہیں جاؤں گی۔‘‘ وہ بے تحاشہ اِسرار کرنے لگی تھی، جیسے آج ہر گز نہیں مانے گی۔
’’دن میں اتنا پیار اور رات میں یہ بے رُخی! ایسا کیوں اختر؟‘‘ اس نے اختر کی آنکھوں کی گہرائی میں جھانکا۔ وہ ہڑبڑا گیا۔
’’میں تمہارے لئے ایک اچھا سا شوہر تلاش کر دوں گا، شہلا۔‘‘ اس نے درد سے کہا۔ شہلا پرے ہٹ گئی۔
’’کیا کہا؟ اچھا سا شوہر!!!‘‘ شہلا کا جھٹکا اختر کو بھی دو قدم پیچھے ہٹا گیا۔
’’چھوڑو پھر کبھی بات کرتے ہیں۔‘‘ اختر نے ہاتھ آگے بڑھایا جسے شہلا نے پرے ہٹا دیا۔
’’نہیں … ابھی بتاؤ … کیا میں اِتنی ہی بری ہوں؟‘‘
’’شہلا، شہلا‘‘ اختر نے اپنی پیشانی دونوں ہاتھوں سے تھام لی۔
’’کہہ دو اختر کہ میں اس لائق نہیں کہ تمہاری بیوی کہلاؤں۔‘‘
’’شہلا، میں ہی اس لائق نہیں کہ تمہارا شوہر بنا رہوں۔‘‘ وہ سر اٹھا کر بولا۔
’’کیوں کیوں اختر؟ کہہ دو آج کہہ دو۔ آج مجھے اس درد سے بھی گزر جانے دو۔‘‘
’’میں تمہاری امی … سے … ساری بات پہلے ہی … ۔‘‘
’’پہلے ہی … امی سے کی تھی؟؟ … مجھ سے۔؟؟ … مجھ سے کیوں نہیں کی … اب کرو نا بات!‘‘ شہلا کی آواز حلق میں پھنس رہی تھی۔
’’ نہیں کر سکتا۔‘‘
اور اختر نکل گیا۔
کار کی آواز سے وہ تڑپ گئی۔ اس نے تیزی سے اپنی خواب گاہ کا دروازہ کھولا۔ اس کی امّی آنکھوں میں آنسو لئے کھڑی تھیں۔ شہلا کو دیکھتے ہی انہوں نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑا وِزِٹنگ کارڈ اس کے سامنے بڑھا دیا۔
’’ڈاکٹر بشیر نورانی
sexologist‘‘
شہلا نے پڑھا … اور کتنی ہی دیر وہ بُت بنی کھڑی رہی۔ اختر کب کا جا چکا تھا مگر اس کی آواز شہلا کے ذہن میں سنسناتی رہی۔ گھڑی نے دو بجائے تو وہ چونکی اور اب وہ بستر پر پڑی بیتی یادوں کی کڑیاں جوڑ رہی تھی۔
’’تو اختر نے مجھ سے اسی لئے شادی کی ہے؟‘ اس کے منہ سے نکلا، ’نہیں نہیں!‘‘ اس کے ذہن نے اسے جھنجھوڑا۔
’’اگر ان کا یہی مقصد ہوتا تو وہ میری دوسری شادی کی بات نہ کرتے۔‘‘
’’جانے اس قابلِ پرستش شخص نے کتنے درد سہے ہیں۔ زندگی نے اسے کتنا دتکارا ہے۔ زمانے نے کتنی ٹھوکریں لگائی ہیں … ‘‘ وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی۔
’’نہیں۔‘‘ وہ ایک ارادے کے ساتھ اٹھی، ’’اختر آج تک تم میرا سہارا بنے رہے۔ آج سے میں تمہارا سہارا بنوں گی۔‘‘ اس نے پیار سے شو کیس پر رکھی اختر کی تصویر سے کہا، ’’یقین نہیں نا؟ آزما کے دیکھ لو۔‘‘ اس نے وہی ساڑی نکال کر پہن لی جو اختر نے اسے ہنی مون کے دنوں میں بڑے پیار سے خرید دی تھی۔
پھر وہ اِکنامکس کی وہی کتاب ہال سے اٹھا لائی، جو اختر پڑھتے پڑھتے چھوڑ گیا تھا۔ کتاب میں مورپنکھ بُک مارک کی طرح رکھا ہوا تھا۔ اُس نے وہ صفحہ کھولا۔
Fridman Milton کے اصول ’’”Theory of Consumptionکے تین سو صفحات پر بکھرے ہوئے تھے۔ شہلا اپنے بیڈ روم میں پڑی آرام کرسی پر بیٹھ گئی۔ اختر اپنے کمرے میں اُسی آرام کرسی پر بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا۔ شہلا اکنامکس کے اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے صبح کا انتظار کرنے لگی۔
… لیکن آج کی رات امّی پر بھاری تھی۔
وہ بیٹی کے کمرے کے باہر ہال کے صوفے پر پڑی کراہ رہی تھیں۔
’’ … جیسے دوبارہ اُنھیں حالات میں پہنچ گئی ہوں۔، جن کے بھنور سے نکلنے کے لئے اختر کا سہارا لینا پڑا تھا۔‘‘ وہ بڑبڑائیں۔ یادیں منظر منظر آنکھوں سے گُزرنے لگیں۔ دو دنوں میں سامان سمیٹ کر وہ اختر کے ساتھ رات کے تیسرے پہر گھر سے نکل گئے تھے۔ کسی سے نہیں بتایا تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ حیدرآباد پہنچتے ہی جاوید نے اپنے کچھ دوستوں رشتے داروں کی موجودگی میں شہلا سے نکاح پڑھوا لیا تھا۔
’’آج میں پھر اُسی دورا ہے پر کھڑی ہوں۔‘‘
وہ صوفے پر اُٹھ بیٹھیں۔ صوفے کی موٹھ پر لیٹی ہوئی انسان کے نوزائیدہ بچے جیسی دکھائی دینے والی گڑیا کو اٹھا کر انہوں نے اپنے پلّو میں چھپا لیا۔ سامنے بیٹی اپنے کمرے میں آرام کُرسی پر جھولتے ہوئے کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔
’’بیٹی تم اِتنی پُرسکون کیسے ہو!‘‘ انہوں نے شہلا سے پوچھا مگر شہلا نے کب سُنا تھا!
اپنی سُرخ ساڑی پر لہراتی سنہری جھالروں میں وہ انہیں کانٹوں کی باڑ میں پھنسی ہوئی زخمی ہرنی سی لگ رہی تھی جو کسی امید کے تحت مسکرا رہی ہو!
٭٭٭