ای کامرس کا تصور ہمارے ملک میں ابھی زیادہ فروغ نہیں پایا مگر مغرب میں نہ صرف یہ تصور عام ہو گیا ہے بلکہ بہت مفید بھی ثابت ہو رہا ہے اور یقیناً جلد ہی ہمارے ملک میں بھی عام ہو جائے گا۔ اس کے ذریعے لوگ نہ صرف گھر بیٹھے بیٹھے اپنی پسند کی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں بلکہ یہ اشیاء انہیں بہت سستی بھی پڑتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر تیار ہونے والی اشیاء میں بالعموم مڈل مین کافی منافع لے جاتا ہے۔ اشیائے تجارت مینیو فیکچرز بناتے ہیں اور ڈسٹری بیوٹر تقسیم کرتے ہیں اور عام دکاندار انہیں صارف تک پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ عام صارف تک پہنچتے پہنچتے جتنے لوگ بیچ میں آئیں گے چیز اتنی ہی مہنگی ہو جاتی ہے۔ تاہم انٹرنیٹ سائٹس کے ذریعے ایک مینیو فیکچر یا ڈسٹری بیوٹر صارف کو وہی چیز براہِ راست بیچ دیتا ہے۔ مڈل مین کی مداخلت نہ ہونے کی بنا پر صارف کو یہ چیز کافی سستی پڑتی ہے۔ یہ طریقہ ایسی اشیاء کی فروخت میں بے حد کامیاب ہے جس میں خریدار کی پسند اور انتخاب پہلے سے واضح ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ایک کتاب خریدنی ہے تو ایک صارف بالعموم نصف قیمت پر گھر بیٹھے وہ کتاب خرید سکتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس طرح کے معاملات میں کریڈٹ کارڈ استعمال ہوتا ہے۔
ای کامرس کی طرح اب ای بینکنگ اور ای گورنمنٹ کے تصورات بھی بہت عام ہو چکے ہیں۔ جن میں بینک اور حکومتی اداروں سے لین دین کے معاملات گھر بیٹھے بیٹھے باآسانی انجام پا جاتے ہیں۔ مثلاً گھر بیٹھے بیٹھے مختلف ادئیگیاں کی جا سکتی ہیں، بل بھرے جا سکتے ہیں اور ہر طرح کی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...