دستک کی آواز کر کمرے میں ٹہلتی ہوئی روشانے نے دروازہ کھولا
“بی بی سائیں نے آپ کو نیچے کمرے میں آنے کو کہا ہے” دروازے پر کھڑی شانو کی بیٹی نے روشانے کو کشمالا کا حکم سنایا۔۔۔ روشانے اقرار میں سر ہلا کر اس کے ساتھ نیچے چل دی
ضیغم کل سے ہی اُسے حویلی میں چھوڑ کر خود شہر میں موجود تھا۔۔۔ وہ کل سے ہی کشمالا کے کہنے پر اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔۔۔ اُس کا موبائل بھی کشمالا کے پاس تھا اور کھانا اُس کا اُسی کے کمرے میں پہنچا دیا جاتا اب رات ہونے کو آئی تھی تو ملازمہ کے کہنے پر وہ سیڑھیوں سے اُترتی ہوئی نیچے چلی آئی
ملازمہ کے اشارہ کرنے پر وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی کمرے میں اُس نے دائیں جانب صوفے پر تیمور خان کو بیٹھا دیکھا تو روشابے کی حیرت سے پوری آنکھیں کھل گئی۔۔۔ وہ بے خوف و خطر آرام سے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا
“میرے منع کرنے کے باوجود آپ یہاں پھر دوبارہ چلے آئے آخر کیوں کر رہے ہیں خان آپ میرے ساتھ ایسا”
روشانے غُصے میں تیمور خان کو دیکھ کر بولی تو وہ صوفے سے اٹھ کر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا
“میں یہاں پر تمہارے بلانے پر ہی آیا ہوں۔۔۔ تم ہی نے مجھے یہاں میسج کرکے بلایا ہے”
تیمور خان کی بات پر روشانے ابھی حیرت کا اظہار بھی نہیں کرتی کہ اچانک کمرے کا دروازہ بند ہو گیا
“یہ کمرے کا دروازہ کس نے بند کیا ہے کھولو اِس دروازہ کو”
روشانے دروازہ بجاتی ہوئی بلند آواز میں بولی جبکہ تیمور خان بنا ٹینشن لیے چلتا ہوا روشانے کے پاس آیا
“روشانے میری بات سنو”
تیمور خان اُس کے قریب آتا ہوا بولا تو روشانے ایک دم پیچھے ہٹی
“آپ دور رہے مجھ سے خان۔ ۔۔۔ آپکو شرم آنی چاہیے، ژالے جیسی لڑکی سے شادی کے باوجود آپ۔۔۔۔۔
روشانے نے اُسے غُصے میں شرمندہ کرنا چاہا
“وہ میری بیوی ہے اور تم میری پہلی چاہت”
تیمور خان روشانے کو دونوں کندھوں سے تھامتا ہوا بولا،، اِس سے پہلے روشانے تیمور خان کے ہاتھوں دور جھٹکتی، کھڑکی سے آتی فلیش لائٹ نے یہ منظر موبائل میں قید کرلیا گیا تھا
“میں ضیغم جتوئی کی بیوی ہو، کسی دوسرے کی بیوی پر نظر رکھتے شرم آنی چاہیے آپکو۔ ۔۔۔ شرم سے ڈوب مرے آپ”
روشانے غُصے میں تیمور خان کو دیکھتی ہوئی بولی،، وہ ایک بار پھر پریشانی سے دروازہ بجانے لگی
“شرم تو تمہیں آنی چاہیے جتنے فخر سے تم ضیغم جتوئی کو شوہر کہہ رہی ہو،، اُسی کے باپ نے تمہارے باپ کا قتل کیا تھا اِسی حویلی میں، روشانے میرا مقصد تمہیں حاصل کرنا نہیں ہے لیکن اب تم اُس حویلی میں نہیں رہ سکتی سمجھو میری بات کو دشمن ہیں یہ لوگ ہمارے۔۔۔ میں تمہیں واپس لینے آیا ہوں ویسے بھی آج نہیں تو کل یہ لوگ تمہیں دھکے دے کر یہاں سے نکال دیں گے جیسے تمہاری ماں کو نکالا تھا۔۔۔ آج تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا”
تیمور خان روشنانے کا رُخ اپنی طرف کرتا اُسے سمجھانے لگا تبھی کمرے سے باہر قدموں کی آوازیں آنے لگی جیسے کوئی کمرے کی طرف آ رہا ہو
“ہوش میں تو ہیں آپ،، میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانے والی۔۔۔ آپ یہاں سے چلے جائیں ورنہ آج آپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے گے”
سوچنے سمجھنے کی صلاحیتں جیسے اُس کی مفلوج ہو چکی تھی روشانے بدحواسی میں بولی
“بےشک مجھے آج اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں مگر میں آج یہاں سے تمہارے بغیر ہرگز نہیں جاؤں گا”
تیمور خان اٹل لہجے میں بولا اُس سے پہلے روشانے اُس کا دماغ درست کرتی ایک دم کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔
تیمور خان اور روشانے دروازے کی طرف دیکھنے لگے سامنے ضیغم کے ساتھ شمشیر جتوئی اور کشمالا موجود تھے
“بہت فکر ہو رہی ہے تیری بیوی کو اپنے عاشق کی،، جبھی اُسے یہاں سے بھگا رہی ہے”
کشمالا طنزیہ لہجے میں اپنے برابر میں کھڑے ضیغم سے بولی تو روشانے بے یقینی سے کشمالا کو دیکھنے لگی جبکہ غُصے میں بھرا ہوا ضیغم چار قدم کا فاصلہ عبور کرتا ہوا تیمور خان پر جھپٹا
“ہمت کیسے ہوئی تیری یہاں قدم رکھنے کی”
ضیغم نے بولنے کے ساتھ ہی تیمور خان کے منہ پر دو مُکے جڑے اِس سے پہلے وہ تیمور خان کو مزید مارتا،، کشمالا بیچ میں آکر ضیغم کو پکڑ چکی تھی جبکہ حویلی کے دوسرے ملازموں نے وہاں آکر فوراً تیمور خان کے دونوں بازو پکڑے اور اُسے گھیرے میں لیا
“یہ خود یہاں پر نہیں آیا ہے اِسے تیری بیوی نے بلایا ہے اپنی بیوی کا موبائل چیک کر تجھے خود میسج دیکھ کر اندازہ ہوجائے گا۔۔۔ آج صبح ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے پاس موبائل ہے تبھی میں نے اِس کا موبائل قابو میں کیا اور تجھے یہاں آنے کو کہا”
کشمالا ضیغم کو پیچھے ہٹاتی ہوئی بولی روشانے ابھی بھی بے یقینی سے کشمالا کو دیکھ رہی تھی
“یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ مامی۔۔۔ میرا موبائل تو کل سے آپ کے پاس موجود ہے”
روشانے کو اب سب سمجھ میں آ رہا تھا کشمالا کا اُس سے موبائل لینا۔۔۔ تیمور خان کا اتنی بے خوفی سے حویلی کے اندر قدم رکھنا۔۔ روشانے کے بولنے پر کشمالا چلتی ہوئی اس کے پاس آئی
“جتنی تو شکل سے معصوم لگتی ہے نا، اندر سے اُتنی ہی مّکار ہے یوں سب کے سامنے جھوٹ بول کر ہمیں گمراہ مت کر،، کیا پہلی بار تُو نے اِس کو یہاں پر بلایا ہے یا تیرا عاشق پہلی بار تجھ سے یہاں ملنے آیا ہے”
کشمالا غُصّے اور حقارت سے روشانے دیکھتی ہوئی بولی جبکہ ہاتھ کا اشارہ اُس کا تیمور خان کی طرف تھا جو کہ اس وقت حویلی کے ملازموں میں گھیرے میں جکڑا کھڑا تھا۔۔۔ کشمالا چلتی ہوئی ضیغم کی طرف آئی جو کہ سرخ آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔ کشمالا نے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل اُس کی طرف بڑھایا
“یہ تصویر شانو کی بیٹی نے تھوڑی دیر پہلے لی ہے، جب یہ بد ذات اپنے اِس عاشق کو اپنے ماں بننے کی خبر سنا رہی تھی”
کشمالا کی بات سن کر حیرت اور بے یقینی سے ضیغم نے روشانے کو دیکھا۔۔۔ اُس کی بیوی ماں بننے والی تھی اور ایسی کوئی بات کی اُسے خبر تک نہیں تھی۔۔۔ دوسری طرف روشانے افسوس بھری نظروں سے کشمالا کو دیکھ رہی تھی جو ایک کے بعد ایک اُس پر بہتان لگا رہی تھی مگر احتجاجاً بھی وہ اپنے لئے کچھ نہیں بولی یونہی خاموش کھڑی رہی
“میں ایک بار پھر تیرے سامنے قسم نہیں اٹھاؤں گی، تجھے یقین کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ تیرے اوپر ہے۔۔۔ لیکن میں اِس گُناہ کی پوٹ کو اب اِس حویلی میں نہیں رکھو گی۔۔۔ اِس کی کوکھ میں پلنے والا گند،، وہ اِس حویلی کا خون نہیں ہے اگر اپنی بیوی پر تُو آج بھی یقین رکھتا ہے تو بےشک اِسے اِس حویلی سے لے کر چلا جا”
کشمالا ضیغم کی طرف دیکھتی ہوئی بول رہی تھی اور وہ موبائل کی اسکرین پر خاموشی سے روشانے اور اُس انسان کی تصویر دیکھ رہا تھا جس سے وہ نفرت کرتا تھا، اِس بات سے خود روشانے اچھی طرح باخبر تھی۔۔۔ کشمالا کی بات سُن کر ضیغم چلتا ہوا روشانے کے پاس آیا جو آنکھوں میں بے شمار آنسو لئے اب ضیغم کو دیکھ رہی تھی
“مجھ سے اپنے بچے کا ثبوت مت مانگیے گا سائیں، ورنہ میں مر جاؤں گی”
وہ تڑپ کر ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی تھی جو کہ پہلے ہی اُس سے خفا ہوکر اُسے اکیلا حویلی میں چھوڑ کر چلا گیا تھا
“تم نے اِسے میسج کرکے یہاں بلایا تھا یا نہیں”
ضیغم روشانے کو دیکھ کر سوال اٹھانے لگا تو روشانے نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ ضیغم کے سر پر رکھا
“آپ کی قسم کھا کر کہتی ہوں سائیں میں نے اِسے کوئی میسج نہیں کیا تھا”
روشانے کے قسم اُٹھانے پر ضیغم نے اُس کا ہاتھ بری طرح اپنے سر سے جھٹک دیا
“دو دن پہلے بھی تم نے میرے سر کی قسم کھائی تھی،، وہ قسم سچی تھی یا جھوٹی تھی،، سچ سچ بتانا مجھے”
بے انتہا سنجیدگی سے ضیغم نے روشانے سے پوچھا روشانے ضیغم کی بات سُن کر ایک پل کے لیے خاموش ہوگئی۔۔۔ حویلی میں موجود تمام نفوس کی نظریں اُس وقت اُن دونوں پر ٹکی ہوئی تھی
“اگر میں آپ کو اُس وقت پورا سچ بتا دیتی تو آپ مجھ سے خفا ہوجاتے مگر وہ بھی پورا سچ نہیں تھا سائیں۔۔۔ میں آپ کو اصل حقیقت۔۔۔”
روشانے نے بولنا چاہا تب ضیغم نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے مزید کچھ کہنے سے روکا
“تم نے میری ناراضگی کے ڈر سے میری جھوٹی قسم کھائی یعنٰی اُس دن بھی یہ تم سے ملنے آیا تھا،، جو کچھ ماں نے تمہارے بارے میں بولا وہ سچ تھا۔۔ تو میں آج تمہاری قسم پر کیسے یقین کر لوں”
ضیغم غضب ناک نظروں سے روشانے کو دیکھتا ہوا بولا اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری دیکھ کر روشانے تڑپ اٹھی
“جب تمہیں اِس انسان کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی تو کیوں اُسے وضاحت دے رہی ہو،، آج اِس کو ہم دونوں کے رشتے کی حقیقت سچ بتا دو”
ملازموں کے بیچ جگڑا ہوا تیمور خان بے خوف ہو کر بولا ضیغم اُس کی بات سُن کر مشتعل انداز میں تیمور خان کی جانب اُس کو مارنے کے لیے بڑھا
“رک جاؤ، اِس کے گندے خون سے اپنے ہاتھ خراب مت کرو،، اچھا ہے جو اِس وقت فیروز یہاں موجود نہیں ہے۔۔۔ میں اب کوئی خون خرابہ نہیں چاہتا۔۔۔ بے شک ہماری عزت کا جنازہ نکل چکا ہے۔۔۔ اپنی بیوی کو طلاق دے کر ابھی اِسے، اس کے ساتھ رخصت کرو یہ میرا حکم ہے”
شمشیر جتوئی جو سارے عرصے خاموش، چپ کا لبادہ اوڑھے صوفے پر بیٹھا تھا کھڑا ہوکر بولا۔۔۔ اپنے چھوٹے بیٹے کی موت کے بعد سے اُس کی طبیعت میں وہ روعب اور طنطنعہ نہیں بچا تھا مگر حویلی میں آج بھی اُس کے حکم کو بجا لایا جاتا
“یہ اِس حویلی سے اِسی کے ساتھ جائے گی مگر میں اِسے طلاق دے کر نہ تو آزادی بخشو گا،، نہ کسی کی دلی مراد پوری کرو گا۔۔۔ بیشک یہ میرے نکاح میں رہ کر ساری زندگی میرے اِس دشمن کے ساتھ گزارے مگر میں اسے آزاد نہیں کروں گا”
ضیغم روشانے کو غُصے میں دیکھتا ہوا شمشیر جتوئی سے بولا اور قہر آلود نظروں سے وہ تیمور خان کو دیکھتا ہوا وہاں سے جانے لگا۔۔۔ کشمالا خاموش کھڑی سارا تماشہ دیکھ رہی تھی
“سائیں۔۔۔ سائیں میری بات سنیں،، آپ بے شک مجھ سے خفا رہے یا مجھ سے بات نہیں کریں مگر میں یہاں سے نہیں جاؤں گی”
وہ روتی ہوئی ضیغم کے سامنے آ کر بولی اُسے لگا اگر آج وہ اِس حویلی سے نکل گئی تو ضیغم کی زندگی سے بھی ہمیشہ کے لیے نکل جائے گی جسے اب وہ اپنی زندگی سمجھنے لگی تھی
“چلی جاؤ اِس وقت،، میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔۔ کہیں یہ نہ ہو کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے اور اِس حویلی میں ایک بار پھر قتل ہو”
ضیغم غضب ناک نظروں سے روشانے کا روتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بولا جس کی آنکھ میں آنسو اُسے بے چین کر دیتے تھے۔۔۔
ضیغم سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں جا چکا تھا روشانے ڈبڈبائی نظروں سے ابھی تک سیڑھیاں تک رہی تھی
“چھوڑ دو اِس بدبخت کو اور حویلی سے دور کرو اِن دونوں بے شرموں کو”
شمشیر جتوئی اپنے ملازموں سے بولتا ہوا وہاں سے چلا جبکہ کشمالا مسکراتی ہوئی روشانے کو دیکھنے لگی جو اب تک سیڑھیاں دیکھتی ہوئی آنسو بہا رہی تھی
“تیری ماں اور تیرے نصیب میں اِس حویلی کا سُکھ نہیں لکھا ہے،، جا چلی جا یہاں سے اور آج کے بعد آئندہ اپنی شکل مت دکھانا”
کشمالا تفکر سے گردن اکڑا کر بولی
جو اُس نے سوچا تھا وہ کر لیا،، جیسے آج سے 18 سال پہلے وہ اپنا سوچا ہوا پایا تکمیل تک پہنچ چکی تھی
“میں آپ کو کبھی معاف نہیں کرو گی نہ ہی آپ کو کبھی اوپر والے سے معافی ملے گی،، یہ بات آپ یاد رکھیے گا”
روشانے اُس عورت کو دیکھ کر بولی جس نے اُس کی ماں کو بھی حویلی سے نکالا تھا۔ ۔۔ آج اُس نے اِس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا تھا جیسے اٹھارہ سال پہلے اُس کی ماں کے ساتھ ہوا تھا
اچانک اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا جس کی وجہ سے وہ اپنا وجود سنبمال نہیں پائی اِس سے پہلے چکرا کر وہ زمین بوس ہوتی تیمور خان اُسے تھام چکا تھا
“اگر آج میں اپنے بیٹے کو بُلانے کی بجائے یہاں پر میں اپنے شوہر کو شہر سے بلوا لیتی،، تو تیری جان نہیں بچ پاتی۔۔۔ اب اپنے وعدے کے مطابق اِسے یہاں سے لے کر چلے جاؤ”
کشمالا تیمور خان کو بولتی ہوئی ایک نظر روشانے کے بے ہوش وجود پر ڈال کر وہاں سے چلی گئی
****
“تو اپنا کہا تم نے پورا کر ہی لیا آخر۔۔۔ لے آئے تم روشانے کو واپس حویلی میں”
صبح سویرے جب تیمور خان بیدار ہوا تو ژالے اُس کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
کل رات وہ جلدی سو گئی تھی،، اِس لیے حویلی میں روشانے کو دیکھ کر کیا طوفان برپا ہوا اُسے اندازہ ہی نہیں تھا۔۔۔ تیمور خان بے ہوش روشانے کا وجود کو اپنے ساتھ حویلی میں لے کر آیا تھا۔۔۔ کبریٰ خاتون سمیت سردار اسماعیل خان اور زرین کے پوچھنے پر اُس نے صرف اتنا ہی بتایا کہ ضیغم جتوئی اور اُس کے گھر والوں نے روشانے کو حویلی سے نکال دیا۔۔۔ بہت سارے سوالوں کے جواب وہ اُن سب کے ذہن میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا آیا تھا جہاں پر ژالے پہلے ہی سو رہی تھی
“خان اپنی زبان کا پّکا ہے جو کہتا ہے وہ کر دکھاتا ہے”
بیڈ پر بیٹھا ہوا وہ تھوڑا اکڑ کر ژالے کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
روشانے کی رات سے ہی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ڈپریشن کے سبب وہ وقفے وقفے ہوش میں آتی پھر ہوش و خروش سے بیگانہ ہو جاتی۔۔۔ ڈاکٹر نے اُس کی کنڈیشن کے سبب اُس کے مائنڈ کو ریلیکس رکھنے کے لیے اینٹی ڈپریشن دیا تھا۔۔۔ زرین کل رات سے ہی روشانے کے کمرے میں اُس کے پاس موجود تھی۔۔۔ صبح ژالے کو جب ساری صورت حال معلوم ہوئی تو اُسے روشانے پر ترس آنے لگا
“تو اب تم اُس کا گھر توڑنے کے بعد، ضیغم جتوئی سے اُس کا رشتہ ختم کروا کر خود روشانے سے شادی کرو گے”
ژالے نے بولتے ہوئے اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا سا محسوس کیا
“ایسا میں نے کب کہا کہ میں اُس سے شادی کروں گا”
تیمور خان بیڈ سے اٹھ کر ژالے کے پاس آتا ہوا ژالے سے پوچھنے لگا
“اُس سے شادی نہیں کرو گے؟؟ اگر اُس سے شادی نہیں کرنی تو اُسے یہاں کیوں لے کر آئے ہو۔۔ آخر کیوں رکھنا چاہتے ہو اُسے اپنے سامنے حویلی میں”
ژالے اب اُلجھ کر تیمور خان سے پوچھنے لگی
“میرے چچا کی بیٹی ہے وہ، اُس کی رگوں میں سرداروں کا خون دوڑتا ہے تو اِس حساب سے اُس کا ہمارے دشمنوں کی حویلی میں کیا کام۔۔۔ اب میں اُسے اپنے دشمن کا جی بہلاتے کے لیے تو وہاں نہیں چھوڑو گا ناں۔ ۔۔ بے شک روشانے میری پسند رہی مگر اب اُس کا شوہر اُس پر اپنی مکمل چھاپ چھوڑ چکا ہے۔۔۔ میں اُس کو اپنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن وہ کمینہ جتوئی خوش اور آباد رہے میں یہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔۔ اِس لیے اب روشانے کو ہمیشہ کے لیے یہی رہنا ہوگا،، تمہاری ذات کو اُس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے تم اُس طرف سے بالکل بے فکر رہو اور اپنے خان پر دھیان دو”
تیمور خان نے بولتے ہوئے ژالے کو اپنے حصار میں لینا چاہا،، ژالے فوراً اُسکے ہاتھ جھٹک کر دور ہوئی
“تم کتنے خود غرض انسان ہو خان،، اگر تمہیں تمہاری پسند نہیں مل سکی تو تم نے روشانے سے بھی اُس کی خوشیاں چھین لی،، اُس کا گھر برباد کر دیا تم نے۔۔۔ صرف اس وجہ سے کہ تمہارا دشمن آباد نہ رہ سکے۔۔۔ تم واقعی ظالم بے حس اور سفاک انسان ہو،، اپنے علاوہ تمہیں کسی دوسرے کی پروا نہیں۔۔۔ تم کسی دوسرے کو خوش اور آباد نہیں دیکھ سکتے،، تمہاری فطرت میں بے حسی اور خود غرضی کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔۔۔ اب اصل حقیقت جاننے کے بعد میں تمہاری سوچ دادی حضور اور بڑے خان کے سامنے رکھو گی بے شک تم میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو”
ژالے تیمور خان کو آئینہ دکھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلنے لگی تبھی تیمور خان نے ژالے کا بازو پکڑا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے اُس کا منہ دبوچا
“اگر میں تمہارے ساتھ نرمی برت رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تم اپنی حد بھول جاؤ،، اگر تم نے کسی کے سامنے زبان کھولی یا کچھ بھی الٹا سیدھا کسی کے سامنے بولا تو میں تمہاری یہ زبان کاٹ ڈالوں گا ژالے”
تیمور خان اُس کا منہ دبوچے غُصّے میں ژالے وارن کرنے لگا تبھی دروازے پر دستک ہوئی تو تیمور خان نے جا کر دروازہ کھولا
“چھوٹے خان۔۔۔ وہ روشانے بی بی”
ملازمہ گھبراتی ہوئی تیمور خان کو دیکھ کر بولی
“کیا ہوا روشانے کو”
ملازمہ کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر تیمور خان ماتھے پر بل ڈالے اُس سے پوچھنے لگا
“جی تھوڑی دیر پہلے ہی بڑے خان اور زرین بی بی آرام کرنے کے غرض سے روشانے بی بی کے کمرے سے اپنے کمرے میں گئے تھے اُن دونوں کے کمرے سے جاتے ہی روشانے بی بی حویلی سے باہر نکل گئی”
ملازمہ گھبراتی ہوئی تیمور خان کو بتانے لگی
“ایسے کیسے حویلی سے باہر نکل گئی،، کس نے جانے دیا اُسے حویلی سے باہر”
تیمور خان چیختا ہوا بولا اور خود بھی حویلی سے باہر نکل گیا جبکہ ژالے کمرے سے نکل کر سردار اسماعیل خان کے پاس جانے لگی
“روشانے کیونکہ پیدل تھی اِس لیے اُسے حویلی سے دور جاتے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی تیمور خان خود بھی پیدل بھاگتا ہوا اُس کے پاس پہنچ گیا
“روشانے یہ کیا فضول حرکت کی ہے تم نے،، کیوں نکلی ہو تم حویلی سے باہر”
بڑی سی چادر پہنے وہ تیز قدم اٹھائے جا رہی تھی تیمور خان بھاگتا ہوا اُس کے پیچھے آیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بولا
“اچھا نہیں کیا آپ نے میرے ساتھ خان، میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی اور نہ ہی یہاں رہو گیں، اپنے شوہر کے پاس جا رہی ہوں میں”
روشانے نڈر ہو کر تیمور خان کے سامنے بولی
وہ جلدی جلدی سڑک کراس کرنے لگی اُسے ضیغم کے پاس پہنچنا تھا
“روشانے”
سامنے سے آتا بڑا سا ٹرالر دیکھ کر تیمور خان چیخا۔۔ ۔ نہ صرف چیخا بلکے روشانے کو بچانے کی خاطر اُس نے روشانے تک پہنچ کر اسے زور سے دھکا بھی دیا جس سے روشانے دور جا گری مگر وہ ٹرالر تیمور خان کو کُچلتا ہوا چلا گیا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...