شہر سے کچھ دور واقح اس ویران کھنڈر مکان سے گولیوں کی آوازیں مستقل آ رہی تھیں ۔۔۔
یہاں کچھ شر پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات تھیں ۔۔۔۔
زمان خان آج پورے دل اور ایمانداری سے دشمنوں کے خلاف میدان میں اترا تھا ۔۔۔
لیکن حیرت انگیز طور پر ابھی تک کسی ایک ملزم کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع نہیں ملی تھی ۔۔۔
بس ہر طرف سے اس پر گولیاں ہی گولیاں برس رہی تھیں ۔۔۔۔
دیوار کے پیچھے سے اچھی طرح ہر طرف کا جائزہ لیتے ہوئے وہ ٹھٹھک کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔
ذہن میں کچھ کلک ہوا تھا ۔۔۔
نواب کی رات آنے والی کال !!
“یعنی یہ کسی دشمن کی چال ہے ۔۔۔۔”
سر پر ہاتھ مار کر اس نے اسی ہاتھ کی مٹھی بنا کر دیوار پر بھی دے ماری تھی ۔۔۔۔
اس کے ساتھیوں میں سے بھی صرف ایک دو اس حقیقت سے انجان لگتے تھے ۔۔۔۔
باقی سب کا ٹارگٹ وہی تھا ۔۔۔!!!
“ڈیم اٹ !!!”
بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا تھا
****************************
“کون ؟ کون ہو ت۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
سوال ادھورا چھوڑ کر جاناں نے حلق تر کر کے اس انجان شخص کے پیچھے ہی ویڈیو کیمرہ لیئے آتے ظفر کو دیکھا تھا ۔۔۔
“کیا چاہیے تم لوگوں کو ؟
دور ہو جائو !!”
اس اجنبی شخص کو اپنے قریب آتے دیکھ کر جاناں تیزی سے پیچھے ہوئی تھی جب اس کا ہاتھ پکڑ کر اس شخص نے اپنے قریب کھینچا تھا ۔۔۔
جاناں کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر اس نے جھٹکے سے جاناں کا چہرہ ظفر کے سامنے کیا تھا ۔۔۔
“اچھی طرح دیکھ ! یہی ہے ؟؟؟”
“ہاں صاحب! سو فیصد یہی ہے !!!”
ظفر کے اطمینان پر جاناں چیخی تھی ۔۔۔۔
“کس کی بات کر رہے ہو ۔۔۔۔ میں زمان خان کی بیوی ہوں۔۔ زمان خان کو جانتے نہیں ہو تم ۔۔۔۔ ورنہ کبھی مجھے چھونے کی بھی غلطی نہ کرتے ۔۔۔! ”
“قاتلہ نہیں ہیں آپ ؟؟؟”
جاناں کے بالوں پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے وہ پھنکارا تھا ۔۔۔
خوفزدہ نظروں سے جاناں نے اس کی آنکھوں میں چمکتی شیطانیت دیکھی تھی ۔۔۔
وہ اپنا گزرا وقت بھول ہی چکی تھی ۔۔۔
وہ کیا تھی ؟
کس طرح اس نے مردوں کے معاشرے میں جینا سیکھا تھا ۔۔۔
اپنا وہ رنگ ، روپ ، انداز ۔۔
جاناں سب کچھ بھول چکی تھی ۔۔۔۔
اس کے اندر ایک مکمل مشرقی گھریلو سی لڑکی تھی جسے اس نے خود پر حاوی کر لیا تھا ۔۔۔
وہ ہر چیز کے لیئے زمان خان کی طرف دیکھتی تھی ۔۔
اس کی زندگی میں صرف ایک ہی مرد کا دخل تھا ۔۔ جو زمان خان تھا ۔۔۔۔۔
وہ زمان خان کے مہربان سائے تلے رہنا پسند کرتی تھی ۔۔۔
وہ معاشرے سے لڑنا بھول چکی تھی ۔۔۔
اسی لیئے اس کی جان بلکل ہوا ہو رہی تھی ۔۔۔
اس وقت بھی اس نے زمان خان کے نام کا سہارہ لیا تھا جب اس شخص کی طرف سے ملنے والے سوالیا جواب پر بری طرح روہانسی ہو گئی تھی ۔۔۔
“بندے کو ظہیر چوہدری کہتے ہیں ۔۔۔
آپ زمان خان کی بیوی ہیں تو ہم بھی خان کے دوست ہوا کرتے تھے ۔۔۔۔
مگر لگتا ہے خان کو یہ دوستی راس نہیں آئی ۔۔۔۔۔!!”
“میری بلا سے تم لوگ جو بھی ہو ۔۔۔
یہاں کیوں آئے ہو ؟
اور میرا بچہ کہاں ہے ؟؟”
“آپ کا بچہ ! امان نام ہے نہ اس کا ؟
بہت کیوٹ ہے ۔۔۔۔
بلکل آپ کی طرح !”
جھٹکے سے جاناں کو بیڈ پر دھکیل کر اس نے ظفر کو ویڈیو بنانے کا حکم دیا تھا جبکہ جاناں ان کا مقصد سمجھ کے تیزی سے بیڈ کے دوسری طرف جا کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
مختصر سا قہقہ لگا کر ظہیر پلک جھپکتے میں بیڈ پر چڑھتا دوسری طرف کو کودا تھا ۔۔۔
اس کو خود سے دور رکھنے کی کوشش میں ہلکان جاناں کے کانوں سے امان کے رونے کی آواز ٹکرائی تھی ۔۔
بھیگی نظروں سے اس نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔
جس کے دوسری طرف اس کا بیٹا حلق پھاڑ کے رو رہا تھا ۔۔۔۔۔
امان کے رونے کی آواز اس کا دل چیر بھی رہی تھی ۔۔
اور اس کی ہمت بھی بڑھا رہی تھی ۔۔۔
اسے اپنی عزت اور جان ہی نہیں ۔۔۔
اپنے بیٹے کو بھی بچانا تھا ۔۔۔!
سرخ ہوتی بھیگی نظروں سے جاناں نے اس شیطان صفت چخص کو دیکھا تھا ۔۔۔
اگلے ہی پل اس نے ظہیر کا چہرہ ہاتھوں کی گرفت میں لے کر پوری قوت سے پشت سے لگی دیوار پر دے مارا تھا ۔۔
شائد کے ظہیر چوہدی اپنا بچائو کر لیتا ۔۔
اگر اسے تھوڑی سی بھی امید ہوتی کے چیختی چلاتی رو رو کر مزاحمت کرتی جاناں ایسا کوئی وار کر دے گی ۔۔۔
کچھ پل لگے تھے اسے سنبھلنے میں ۔۔
تب تک جاناں ایک شو پیس اٹھا کر ویڈیو بناتے ظفر کے سر پر بھی رسید کر چکی تھی ۔۔۔
دروازے کی طرف بڑھتے اس کے قدم ظہیر چوہدری کے اس کا دوپٹہ کھینچنے پر رکے تھے ۔۔۔۔
پہلے وہ یہ کھیل صرف دل پشوری کے لیئے کھیل رہا تھا ۔۔۔
مگر اب جاناں اسے ضد ہو گئی تھی ۔۔۔
“اوئے گینڈے ! ویڈیو بنانا شروع کر ۔۔”
سر پکڑے ہائے ہائے کرتے ظفر نے ابھی نیچے گر جانے والا کیمرہ اٹھایا ہی تھا جب بازئوں میں مچلتی جاناں کو سنبھالنے کی کوشش میں مصروف ظہیر چوہدری کا فون بجا تھا ۔۔۔۔
“فرقان !”
ظہیر چوہدری حلق پھاڑ کے چلایا تھا ۔۔۔
باہر سے فوراً ہی ایک ہٹا کٹا شخص بھاگا آیا تھا ۔۔۔
“اسے پکڑو !!! ”
جاناں کو اس شخص کی طرف دھکیل کر اس نے جیب سے فون نکالا تھا ۔۔۔
“فوراً سے پہلے وہاں سے نکلو ۔۔۔
پولیس وہاں پہنچ رہی ہے ۔۔۔”
“پولیس ہماری پالتو ہے ۔۔۔”
دوسری طرف سے اپنے باپ کے چیخنے پر وہ بھی چیخا تھا ۔۔۔
“سارے ہمارے پالتو نہیں ہیں ۔۔
جتنا کہا ہے اتنا کرو !!!”
اس کے ساتھ ہی فون کٹ گیا ۔۔۔
ظہیر چوہدری “ہیلو ہیلو” کرتا رہ گیا ۔۔۔
اور بالآخر اسے سمجھ آ ہی گیا کے ہر کوئی اس کا پالتو نہیں ۔۔۔
“اسے لے کر چلو !”
جاناں کو پکڑے اپنے گارڈ سے کہتا وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلا تھا ۔۔۔۔
****************************
“ہاں فیاض کیا ہوا ؟”
فون کان سے لگائے زمان خان نے پوچھا تھا ۔۔۔۔
آواز میں تکلیف واضح تھی جسے محسوس کرتا فیاض پوچھ بیٹھا تھا ۔۔۔
تم ٹھیک ہو ؟”
“ابے مجھے گولی مارو !
گھر کی حالت بتائو !
سب خیریت سے ہے نہ ؟؟”
اپنے گولی لگے خونم خون ہوئے دوسرے بازو پر سرسری نظر ڈال کر وہ پریشانی سے گویا ہوا تھا ۔۔۔
“بھابی اور امان دونوں موجود نہیں ہیں ۔۔۔
اسٹور روم سے ملازمین ملے ہیں ہاتھ پیر بندھے ہوئے ۔۔۔۔!
اور کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے ۔۔۔۔!!”
“واٹ دی ہیل!”
فیاض کی طرف سے ملنے والی خبر پر زمان خان رونے کو ہو گیا تھا ۔۔۔
اور اس کی بھیگتی آنکھیں دیکھ کر ڈرائیو کرتا نواب ٹھٹھک کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔
کچھ ہداتیں ایک دوسرے کو دے کر انہوں نے رابطہ منقطح کیا تو نواب پوچھ بیٹھا ۔۔۔
“سب ٹھیک ہے نہ سر ؟”
“کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے نواب !
کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔
مگر دعا کرو سب ٹھیک رہے ۔۔”
اپنی خون آلود آستین کو چڑھاتے ہوئے وہ ان تمام لوگوں کے نام ذہن میں دہرا چکا تھا جن پر اسے شک تھا ۔۔۔۔
مگر بدقسمتی سے ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی ۔۔۔
وہ بلکل نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ سب سے پہلے کس کا گریبان پکڑے ۔۔؟؟
آنکھ سے نکلتے ناک پر پھسلتے آنسئوں کو انگوٹھے سے صاف کرتے ہوئے زمان خان نے اپنے بجتے فون کو پہلی رنگ پر ہی اٹھا لیا تھا ۔۔۔۔
“یس ؟”
“زمان خان ! پہچانا ؟”
ایک لمحے کو چپ ہو کر زمان خان مدھم آواز میں بولا تھا ۔۔۔
“ظہیر چوہدری !”
“آہا !! بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ یاد ہیں ہم !
لیکن لگتا ہے ہماری دوستی بھول گئے ۔۔۔!”
“میری تجھ سے کبھی بھی دوستی نہیں رہی تھی ۔۔۔”
زمان خان سمجھ چکا تھا کہ یہ سب کرنے والے وہی تھے ۔۔۔۔!
اور اب اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر چوہدریوں کے پاس پہنچ جائے ۔۔۔
“اوہ ہاں !! میں نے تجھے عزت دے دی ۔۔
جس کے تو قابل نہیں ۔۔۔۔
تُو تو ہمارا پالتو کتا تھا ۔۔۔!!
لیکن کتے بھی تجھ سے بہتر ہوتے ہیں ۔۔۔۔
جس کا کھاتے ہیں اس کے وفادار تو رہتے ہیں ۔۔۔!!”
“شٹ آپ !!! ”
پوری قوت سے چلایا تھا زمان خان جب ظہیر چوہدری قہقہ لگا کر ہنس پڑا تھا ۔۔۔۔
“آئوچ ! بہت زور کی لگی ؟”
“حرام کے پلے مجھے بتا کہاں ہے تو ؟
معاملہ تیرا اور میرا ہے ۔۔۔ اس میں میرے بیوی بچہ کو کیوں گھسیٹا !
مرد ہے تو مرد کا مقابلہ کر ۔۔۔”
“مردانگی کو مت للکار میری ۔۔۔۔!
میری مردانگی کو تو للکارے کا اور بھگتے گی تیری جاناں !!”
یہ وار ایسا تھا کہ زمان خان کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا ۔۔۔۔
“کیا چاہتا ہے ؟”
زمان خان کا اتنا ہارا ہوا انداز !
ظہیر خان کے دل و دماغ باغ باغ ہوگئے تھے ۔۔۔
“کسی بھی چالاکی کے بغیر اکیلے آ !
جاناں ہمارے پاس ہے لیکن امان اس وقت کہاں ہے یہ میں بھی نہیں جانتا ۔۔
اس لیئے جو بھی قدم اٹھانا ۔۔۔۔
سوچ سمجھ کے اٹھانا ۔۔!!”
*****************************
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے زمان خان اس زیرِ تعمیر بلڈنگ کی تیسری منزل پر پہنچا تھا ۔۔۔۔
“جاناں !!!”
سامنے ہی نیم بیہوشی کی حالت میں زمین پر پڑی جاناں کو دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔
جب ایک گارڈ نے آگے بڑھ کر اسے روکا تھا ۔۔۔۔
خون کا گھونٹ پیتے ہوئے زمان خان نے جاناں کے قریب ہی ٹانگیں پسارے بیٹھے ظہیر چوہدری کو دیکھا تھا
جو گردن موڑ کر اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
“آگئے میرے دوست !!”
اٹھ کر ظہیر چوہدری اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
بہت مشکل سے زمان خان نے خود کو اسے مکا رسید کرنے سے روکا تھا ۔۔۔
“مجھے بہت متاثر کیا ہے جاناں نے ۔۔۔
یہ دیکھو ۔۔۔!”
ماتھے سے بال ہٹا کر اس نے اپنی سرخ ہوتی پیشانی زمان خان کو دکھائی تھی جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا تھا ۔۔۔۔
“اچھا نہیں لگا ؟
مجھے تو لگا تھا تجھےبڑا اچھا لگے گا ۔۔۔!”
“ظہیر چوہدری ! بہت ہوگیا ۔۔۔۔۔
میں آگیا ہوں اب میری بیوی اور بیٹے کو چھوڑ دو ۔۔۔۔!”
“ہاں بلکل !
فرقان ! اسے اٹھائو اور ۔۔۔۔۔۔۔”
“ہاتھ مت لگانا میری بیوی کو۔۔۔!”
گارڈ کو جاناں کی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ چلایا تھا ۔۔۔
“ووہ ! تو یہ بیہوشی میں اڑ کر جائے گی ؟”
“شٹ آپ ”
ظہیر چوہدری کے طنزیہ انداز میں پوچھنے پر ناگوار نظروں سے اسے گھورتا زمان خان جاناں کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔ جبکہ اس بار ظہیر چوہدری نے اسے نہیں روکا تھا ۔۔۔۔!
جاناں کو کندھے پر لاد کر وہ نیچے جانے والی سیڑھیاں اترنے لگا تھا جب ظہیر چوہدری کی آواز پر اس کے قدم ساکت ہوئے تھے ۔۔۔
“مت بھولنا خان ! امان اب بھی ہمارے پاس ہے ۔۔ کسی قسم کی چالاکی دکھانے کی کوشش مت کرنا ۔۔۔!”
“اور اسے کب چھوڑا جائے گا ؟”
زمان خان کے چلا کر پوچھنے پر اس نے بڑے اطمینان سے شانے اچکائے تھے ۔۔۔
“جب تم مر جائو گے !”
زمان خان کی آنکھوں میں نمی چمکی تھی ۔۔۔
ظہیر چوہدری پر یقین اور صبر کرنے کے سوا اس کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا ۔۔
اپنی اولاد اور جاناں کے لیئے ۔۔
اس کی زندگی کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔۔
نیچے گاڑی میں موجود نواب اسے جاناں سمیت آتا دیکھ کر پرسکون ہوا تھا لیکن زمان خان کے چہرے پر ایسا تھا جو اسے کچھ بھی کہنے سے روک گیا تھا ۔۔۔
گاڑی کی پچھلی طرف جاناں کو ڈال کر وہ واپسی کے لیئے پلٹا تھا ۔۔۔
جب نواب خود کو روک نہیں پایا تھا ۔۔۔
“سر اللہ سب خیر کرے گا ۔۔۔!”
“آمین !”
نرم سی ایک نظر نواب پر ڈال کر وہ حلق تر کرتا بلڈنگ کے اندر گیا تھا ۔۔۔
****************************
جونہی ایک گارڈ نے اس کے چہرے پر مکا رسید کیا زمان خان بے بھی پل کی دیر کیئے بغیر اس کا جبڑا سجا دیا ۔۔۔۔
“اوئے !!!”
ظہیر چوہدری کے چلانے پر وہ دوسرا خون سے لت پت بازو سہلاتے ہوئے ہنسا تھا ۔۔۔
“اپنے بیس بندوں کی طاقت پر یقین نہیں تھا تو انہیں چوڑیاں پہناتے ۔۔”
تپانے والی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر زمان خان نے آس پاس کھڑے بہت سے گارڈز کو دیکھا تھا ۔۔۔
غصے سے کانپتے وہ سب ظہیر چوہدری کے اشارے پر ایک ساتھ اس پر پل پڑے تھے ۔۔۔۔
اٹھا کر پٹخ دیتا ایک ساتھ سب کو زمان خان ۔۔
اگر وہ کوئی فلمی ہیرو ہوتا ۔۔۔
مگر وہ تو بس ایک عام سا شخص تھا ۔۔۔۔
جس نے اپنی تمام صلاحیتیں پیسہ حاصل کرنے پر خرچ کر دی تھیں ۔۔۔
ایک ناکارہ ہاتھ کے ساتھ وہ ان بیس آدمیوں کا مقابلہ کر سکتا تھا ؟
یقیناً نہیں !
****************************
دھندلی آنکھوں سے زمان خان نے ان سب کو وہاں سے جاتے دیکھا تھا ۔۔۔
“اسے فوراً مت مارنا ۔۔۔
یہاں تڑپ تڑپ کر مرنے دو اسے ۔۔
خود کو ختم ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھے یہ غدار !”
ظہیر چوہدری کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی ۔۔۔
خون رستے ہونٹوں کے ساتھ وہ بے بسی سے ہنس دیا تھا ۔۔۔
اپنے قریب آتے کسی کیڑے کو دیکھتا وہ اپنا آگے کا حال سوچ سکتا تھا ۔۔۔
کتنےمظلوم لوگ تھے جن کی لاشیں اس نے ایسے ہی ویرانوں میں پھنکوائی تھیں ۔۔۔
وہ بھی ایک بھیانک خبر بن جائے گا ۔۔۔
جو اس کے ملک کے باشندوں کے لیئے بہت عام سی ہوگی ۔۔۔۔
“زیر تعمیر بلڈنگ سے مسخ شدہ لاش برامد ۔۔۔۔!!”
تحقیق پر پتہ چلے گا ۔۔
“ارے یہ تو زمان خان ہے !!”
اور پھر کتنے ہی لوگ ہوں گے جو اس خبر پر شکر ادا کریں گے !
کیا کوئی اس کے لیئے دعا بھی کرے گا ؟
روئے گا بھی ؟
“ہاں جاناں !! اور شائد کے مام بھی ۔۔
ہو سکتا ہے نواب بھی ۔۔۔
اور سونیا ! وہ بھی ۔۔۔۔ شائد !!”
بس ! اتنے مختصر سے لوگ ہوں گے ۔۔۔
زمان خان جو کے اپنے علاقے کا ایک بآثر شخص ہے ۔۔۔
اس کے لیئے بس اتنے سے لوگ ؟
وہ کیڑا اب اس کے خون سے بھرے ہاتھ پر موجود تھا ۔۔۔۔
“اتنی سی زندگی تھی بس ؟
اس کے لیئے میں نے کروڑوں جمح کیئے ۔۔۔ ہر غلط کام کر کے ؟
کیا ملا مجھے میری دولت سے ؟
میری دولت میری کیا مدد کر سکتی ہے ؟
مجھے کیا دے سکتی ہے ؟
ایک دعا تک تو دے نہیں سکتی ۔۔۔!!”
بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ زمان خان نے بہت سے کیڑوں مکوڑوں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تھا ۔۔۔۔
***************************
“کیا میں جنت میں ہوں ؟
میرے جیسا شخص بھی جنت میں جا سکتا ہے ؟”
دلفریب خوشبو اور دھنلاتی ہوئی ہر طرف بکھری سفیدی نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔
لیکن جونہی اس کی سوجی آنکھیں ماحول سے مانوس ہوئیں وہ چونک اٹھا ۔۔۔۔
یہ ہاسپٹل کا کمرہ تھا ۔۔۔
اور اس کے آس پاس پھول ہی پھول تھے ۔۔۔
“تو میں زندہ ہوں ؟
اور جاناں اور امان ؟”
وہ اٹھ کر بیٹھنا چاہتا تھا جب ایک ہاتھ کا دبائو اس کے سینے پر پڑا تھا ۔۔۔
جھٹکے سے زمان خان نے گردن موڑی تھی اور فیاض کو دیکھ کر اطیمنان کی ایک گہری سانس خارج کرتا واپس پڑ گیا ۔۔۔۔
“اٹھ گئے تم ۔۔۔ زندگی مبارک خان صاحب !”
“زندگی کی مبارک باد دینے سے پہلے مجھے میری زندگی کا حال تو سنائو !”
کراہتے ہوئے زمان خان نے اپنا تکیہ درست کرنا چاہا تھا جسے فیاض نے ٹھیک کر دیا تھا ۔۔۔
اب وہ کمر ٹکائے بیٹھا تھا ۔۔۔۔
“تمہاری زندگی بلکل ٹھیک ہے ۔۔۔
مگر بہت روتی ہے ۔۔۔۔!!”
“امان کے علاوہ جاناں بھی روتی رہی ہے ؟”
زمان خان کو یہ جان کر ناخوشگوار سی حیرت ہوئے تھی ۔۔۔
“بلکل !”
فیاض دھیرے سے ہنسا تھا پھر زمان خان کی آنکھوں میں آنسو بھرتے دیکھ کر چونک اٹھا تھا ۔۔۔
اس کے لیئے یہ بہت حیرت انگیز منظر تھا ۔۔۔
“اللہ نے مجھ جیسے گنہگار پر کتنی مہربانیاں کر دی ہیں فیاض !”
” تمہاری توبہ قبول کر لی گئی ہے زمان !
بس آئندہ اس راہ کی طرف پلٹنے کا سوچنا بھی مت !!”
فیاض کے شانہ تھپک کر کہنے پر اس نے ایک ہاتھ سے چہرہ چھپائے چھپائے سر ہلا دیا تھا ۔۔۔
“ان کا کیا ہوا ہے ؟”
کچھ لمحوں بعد زرا سنبھل زمان خان نے بھیگا سرخ چہرہ اٹھا کر پوچھا تھا ۔۔۔
نواب کی طرف سے اطلاع ملنے پر ہم جب تک وہاں پہنچے ۔۔ ظہیر چوہدری وہاں سے جا چکا تھا ۔۔۔
بعد میں اس کے ملک چھوڑ جانے کی ہی خبر مل گئی ۔۔
ہاں اس کا باپ بروقت ہاتھ لگ گیا ۔۔۔
وہ بھی اڑان بھرنے کو تیار تھا ۔۔!!
اسی کے پاس سے ملا تھا امان ۔۔۔
مجھے یقین ہے وہ جلد ہی ان معاملوں سے اپنی جان چھڑوا لے گا ۔۔۔
آفٹرآل وہ ایک نامور سیاست دان ہے اور یہ پاکستان ہے !!”
آخر میں فیاض کے انداز میں تکلیف جھلکی تھی ۔۔۔
“زمان !”
“ہمم ؟”
“تمہیں خود کو بہت مضبوط کرنا ہوگا ۔۔۔
آگے ناجانے تمہیں اور کتنے ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔۔۔”
“جب میرے اتنے گناہوں کے باوجود میری توبہ پر میرا اللہ مجھے موت کے منہ سے کھینچ کر زندگی کی طرف لا سکتا ہے ۔۔
تو جب میرے ساتھ بہت سی دعائیں بھی ہوں گی ۔۔۔
یقیناً اللہ مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا ۔۔”
زمان خان کے انداز میں عزم تھا ۔۔ یقین تھا ۔۔۔
****************************
لب بھینچ کر زمان خان نے اس بوڑھی عورت کو دیکھا تھا جس کا اکلوتا بیٹا اس کے تشدد سے ذہنی توازن کھو چکا تھا ۔۔۔
دروازے سے جھانکتی وہ سانولی سلونی تین چار نو عمر لڑکیاں بڑِی آس سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔
“تمہارے یہ پیسے میرے بیٹے کا شعور واپس لا سکتے ہیں ؟”
نمکین پانی حلق میں اتار کرجھکی نظروں کے ساتھ زمان خان نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔۔۔
“تو لے جائو انہیں واپس !!!”
ہاتھ میں پکڑا لفافہ اس کے منہ پر مار کر وہ عورت چیخی تھی ۔۔۔
یہ پہلی بار نہیں تھا ۔۔۔
وہ جہاں بھی گیا تھا اب تک ۔۔۔
اس کے ساتھ یہی سلوک ہوا تھا ۔۔
اور ہر بار وہ سر کو ہلکی سی جنبش دے کر بولا تھا ۔۔۔
“آپ کو جب بھی کوئی ضرورت ہو مجھے کہ دیجیئے گا ۔۔۔!”
پیسوں کا لفافہ اٹھا کر پلنگ پر رکھتا وہ اس بوسیدہ سے مکان سے باہر نکل آیا تھا ۔۔۔
پیچھے اس عورت کے چلانے اور رونے کی آوازیں سنتا وہ بوجھل دل لیئے اپنی گاڑی ک طرف بڑھا تھا ۔۔۔
اس کی نیت صاف تھی ۔۔۔
شائد کے لوگوں کے دل بھی صاف ہوجائیں ۔۔۔
ایک امید سے اس کی آنکھیں چمکی تھیں جب جیب میں رکھا فون گنگنایا تھا ۔۔۔۔
“امان کے پاپا ! کچھ کہا تھا میں نے آپ سے ۔۔۔۔!!”
“اتنا کچھ کہا تھا ۔۔۔ کیا کیا یاد رکھتا ۔۔۔!!”
مسکراہٹ دباتا وہ گاڑی میں بیٹھ چکا تھا ۔۔۔
امان نے جب سے اپنا پہلا لفظ “پاپا” کہا تھا جاناں اسے یونہی مخاطب کرتی تھی ۔۔۔
انداز میں حسد ہوتا تھا ۔۔۔
“رات بھر جاگ جاگ کے اس کی نیپیاں میں بدلوں اور پیارے انہیں پاپا ہو گئے ۔۔۔۔!!!”
اکثر ہی وہ ان باپ بیٹے کو محبتیں جتاتا دیکھ کر کہتی تھی ۔۔۔
“بسمہ کی شادی ہے ۔۔۔۔ رخسانہ آنٹی نے کئی دن پہلے پہنچنے کا کہا تھا ۔۔۔
آپ مجھے ٹالتے رہے ۔۔
میں انہیں ٹالتی رہی ۔۔۔
نتیجتاً اب ان کا ناراضگی بھرا فون آیا ہے ۔۔۔۔
باتیں سنائی انہوں نے مجھے ۔۔۔!!”
“انہوں نے باتیں سنائیں ۔۔۔ یقین آتا ہے ۔۔ تم نے سنیں ۔۔۔ یقین کرنا مشکل ہے ۔۔۔!!”
زمان خان کے چڑانے پر وہ تپ اٹھی تھی ۔۔۔
“اتنا ہی بدتمیز سمجھتے ہیں آپ مجھے ۔۔۔؟”
“ایسا ویسا !!”
ان کی نوک جھونک شروع ہو چکی تھی ۔۔۔
ان کے درمیان بہت ہی کم نارمل انداز میں بات ہوتی تھی ۔۔۔
زیادہ تر وہ ایک دوسرے کو تپانے کی کوشش میں رہتے تھے ۔۔۔
ہاں کچھ دن پہلے تک ۔۔۔
زمان خان کے دل میں ایک تشنگی تھی ۔۔
کیا جاناں اس سے محبت کرتی ہے ۔۔۔؟
یہ تشنگی بھی اس وقت مٹ گئی تھی جب ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کر وہ فیاض کے ساتھ سرپرائز کے خیال سے بنا بتائے شاہ ولا پہنچا تھا ۔۔۔
اور وہاں جاناں نے کسی کی بھی پروہ کیئے بغیر اس کے سینے سے لگ کر زار و قطار روتے ہوئے کوئی دس بار تو “کتنا پیار کرتی ہوں میں آپ سے” کہا تھا ۔۔۔
سرشار سے انداز میں فون کان سے ہٹا کر اس نے گاڑی خان ولا کی راہ پر ڈالی تھی ۔۔۔۔
جہاں اس کی جاناں اس سے ناراض ہو کر منتظر بیٹھی تھی کہ کب زمان خان آ کر اسے منائے ۔۔۔ اور وہ ایک بار پھر اس سے چھوٹی سی برگر شاپ کھولنے کی فرمائش کرے ۔۔
ہاں جی ! ابھی تک جاناں کے سر سے یہ بھوت نہیں اترا تھا ۔۔۔۔!!
ختم شد !!!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...