(Last Updated On: )
“ریلیکس بچے ! میں آ گئی ہوں نا کچھ نہیں ہوگا۔” اس نے پیار سے اس کو گلے لگا کر اس کا سر تھپکا مگر اس کو مسلسل زار و قطار ہچکیوں سے روتا دیکھ کر وہ اپنے لب سختی سے بھینچ کر رہ گئی۔ اس کو پیچھے نہ ہٹتا دیکھ کر اس کی ماں نے آگے بڑھ کر پیچھے ہٹایا۔
“اب بس بھی کر ، بچی کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ پتر تُو بتا۔ تُو ٹھیک ہے نہ اور یہ باہر گولیوں کی آواز۔۔”
“کچھ نہیں ہوتا ماں جی۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ وہ جو یہاں آیا تھا اس نے ہی مجھ پر حملہ کیا ہے مگر اللہ کے فضل و کرم سے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ کچھ نہیں ہوا مجھے ۔” اس نے ان کو پریشان دیکھ کر وضاحت دی۔
“تُو یہاں کھڑی منہ کیا دیکھ رہی ہے جا کر بچی کے لیے پانی لا۔” اسماء کی ماں نے اسے ڈپٹا تو وہ آنسو پونچھتی ایک کچی سی کوٹھری میں چلی گئی۔ وہ دونوں میاں بیوی اسے لیے صحن میں لگے درخت کے نیچے رکھی چارپائی کی طرف لے آئے۔ اسماء نے اسے پانی کا گلاس تھمایا تو اس کی ماں نے اسے موڑھا لانے کو کہا۔ وہ بھاگ کر کمرے سے ایک پرانا سا موڑھا اٹھا لائی۔ دانین بیٹھ کر پانی پینے لگی اور ساتھ ہی ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگی کہ اس صورت میں اسے کیا کرنا چاہیئے۔ یہ بات تو طے تھی کہ یہ لوگ اب یہاں سیف نہیں تھے۔ احتشام کا وار نہ صرف خالی گیا تھا بلکہ وہ زخمی بھی ہوا تھا تو لازمی بات تھی کہ وہ طیش میں آ کر ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچا دیتا۔ اس کو سوچوں میں مگن دیکھ کر اسماء کا باپ کچھ اور سمجھا اس لیے دھیرے سے اسے مخاطب کیا۔
“پتر تُو بھی سوچتی ہوگی کہ کہاں پھنس گئی ہوں؟ ہماری وجہ سے خوامخواہ کی دشمنی مول لے بیٹھی۔”
وہ جو ان کا ٹھکانہ بدلنے کے بارے میں سوچ رہی تھی ان کی بات پر چونکی اور ان کے چہرے پر ندامت دیکھ کر نرمی سے مسکرائی۔
“نہیں چچا جی! ایسی بات نہیں ہے۔ یہ تو میرا فرض ہے بلکہ میرا کیا ہر اس انسان کا فرض ہے کہ جس نے وطن کے دفاع اور اس کے باسیوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے۔ بس کچھ لوگ ہیں جو اپنے فرض میں غفلت کر جاتے ہیں۔ خیر میں کچھ اور سوچ رہی تھی اور وہ یہ کہ آپ لوگ یہاں محفوظ نہیں ہیں۔ جو اتنی دیدہ دلیری سے پہلے یہاں آ سکتا ہے وہ یقیناً دوبارہ بھی آئے گا۔ پہلے تو اس کا نشانہ میں تھی مگر اب میرے ساتھ ساتھ وہ آپ لوگوں کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔” اس نے گلاس نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
“یا اللہ یہ لوگ کیوں نہیں جینے دے رہے؟ کیوں ہمارے پیچھے پڑ گئے ہیں؟” اسماء کی ماں نے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
“ریلیکس چچی ! اب آپ لوگوں کا مزید کوئی نقصان نہیں ہوگا اور اس بات کی میں گارنٹی بھی دیتی ہوں بس اس سلسلے میں مجھے آپ کی مدد درکار ہے۔”
“بول پتر ہمارے بس میں جو ہوا ہم کریں گے۔” اسماء کے باپ نے جلدی سے کہا۔
“جب تک یہ معاملہ ختم نہیں ہوجاتا تب تک آپ لوگوں کا منظر سے ہٹ جانا ہی بہتر رہے گا۔ اس طرح اگر آپ لوگ سامنے رہیں گے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔” اس نے ہونٹ چباتے ہوئے پریشانی سے کہا۔
“پر پتر ہم کہاں جائیں گے۔ ان حالات میں کوئی رشتے دار بھی ہمیں اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں ہوگا۔ اب ہر کوئی تیری طرح تو نہیں ہوتا کہ پرائی بلا اپنے سر لے لے۔”
“جانتی ہوں چچا کہ کوئی بھی رسک نہیں لے گا اسی لیے میں نے سوچا ہے کہ اگر آپ لوگ مجھ پر بھروسہ کریں تو کچھ دن کے لیے میرے ساتھ چلیں۔” اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
“کہاں؟” اسماء کی والدہ نے حیرت سے پوچھا۔
“میرے کسی ٹھکانے پر۔ یقین کریں ایک بار اگر آپ لوگ وہاں پہنچ گئے تو کوئی آپ کی گرد کو بھی نہیں پا سکے گا اور میں بھی آپ لوگوں کی طرف سے بے فکر ہوجاؤں گی۔”
“پتر جتنا تُو ہمارے لیے کر چکی ہے بھروسہ نہ کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا مگر اب تجھے اور تکلیف دینے کو دل نہیں کرتا۔ اب دیکھ نہ ابھی بھی ہماری وجہ سے تیری جان جاتے جاتے بچی ہے۔ روز روز تو خیر بھی نہیں ہوتی۔ میں تو کہتی ہوں جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔ مرنا تو ایک دن ہے ہی تو بھاگنے کا کیا فائدہ؟” انھوں نے افسردگی سے کہا۔
“چچی پلیز! ایسی باتیں تو مت کریں۔ کیا مجھ پر اعتبار نہیں ہے جو ایسی مایوسی کی باتیں کر رہی ہیں۔” دانین نے ان کا ہاتھ پکڑ کر محبت سے کہا۔
“نہیں پتر ایسی بات ۔۔۔۔”
“نیک بخت شاید قسمت کو یہی منظور ہے اس لیے بحث نہ کر۔ بچی جو کہہ رہی ہے مان لے۔” اسماء کے والد نے بیوی کو ٹوکا تو وہ خاموش ہوگئیں۔ دانین نے انہیں دیکھا تو سُن سی رہ گئی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل کر ان کی داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔ چالیس پینتالس سال کا وہ مرد جس پرغربت اور پھر بیٹی کے دکھ نے وقت سے پہلے بڑھاپا طاری کر دیا تھا سر جھکائے اپنی بےبسی پر رو رہا تھا۔ حالات اور وقت نے اسے اس موڑ پر لاکھڑا کیا تھا جہاں ایک غریب آدمی صرف اپنی قسمت پر رو ہی سکتا ہے۔ اس نے نچلا ہونٹ سختی سے دانتوں تلے دبا کر ضبط کرنا چاہا مگر تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی آنکھیں دھندلا گئیں۔
“میں آتی ہوں۔” جب مزید خود پر قابو نہ پا سکی تو اٹھتے ہوئے بولی اور تیز تیز قدم اٹھاتی ان سے کچھ دور جا کھڑی ہوئی اور موبائل نکال کر افشین کا نمبر ملانے لگی ۔ فون کان سے لگا کر اس نے مڑ کر دیکھا تو اسماء اپنے باپ کے گھٹنوں پر سر رکھے رو رہی تھی۔ وہ اس منظر میں ایسا کھوئی کہ یہ بھی نہ جان سکی کہ افشین کال اٹھا چکی ہے۔ اس کے بار بار ہیلو ہیلو کرنے پر وہ ہوش میں آئی۔
“ہاں ہیلو۔” اس نے جواب دیا۔
“کہاں چلی گئی تھیں؟ کب سے بولے جا رہی ہوں۔”
“یہی تھی۔” اس نے ہولے سے کہا۔
“لگ تو نہیں رہی۔ جب سے جیجو کی گرل فرینڈ کا پتہ صاف ہوا ہے تم تو لفٹ کرانا ہی بھول گئی۔” دوسری طرف سے افشین کی شرارت سے بھرپور آواز پر وہ مسکرا بھی نہ سکی۔
“ایک کام ہے تم سے اور اشعر سے ۔” اس نے اس کے مذاق کو نظرانداز کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
“تم رو رہی ہو؟” اس کی بھیگی اور دھیمی آواز سن کر افشین ٹھٹھکی۔
“ہاں نہیں۔ بس ایسے ہی۔” اس نے ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے افشین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
“دانی کیا بات ہے؟ کچھ ہوا ہے؟ ارتضی نے کچھ کہا؟” افشین جو لاونج میں بیٹھی تھی تیزی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر کی طرف بڑھی۔
“نہیں میں ٹھیک ہوں۔ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ تم زرا اشعر کو لے کر اسماء کے گھر آجاؤ ۔” دانین گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز سن کر گہری سانس لے کر رہ گئی۔ مطلب وہ اس کو پریشان دیکھ کر اس سے ملنے کے لیے آ رہی تھی۔
“اسماء کے گھر ؟ تم کہاں ہو؟ مجھے اپنی لوکیشن بتاؤ میں دس منٹ میں تمہارے پاس پہنچ رہی ہوں۔”
“میں اسماء کے گھر ہوں تم دونوں یہاں آجاؤ اور خالی ہاتھ مت آجانا۔ اپنی گنز اور گولیاں وغیرہ چیک کر کے ساتھ لانا۔” وہ اسے تنبیہ کرنا نہ بھولی۔
“ڈی مسئلہ کیا ہے تم مجھے بتاؤ گی؟” اس کی گھما پھرا کر بات کرنے پر وہ جھنجھلائی البتہ گاڑی کا رخ وہ اسماء کے گھر کی جانب موڑتے ہوئے رفتار بھی تیز کر چکی تھی۔
“عدیل کا بھائی یہاں آیا تھا اور اسماء نے مجھے کال کر کے بتایا۔۔۔۔۔۔۔” اس نے مختصراً مگر محتاط لفظوں میں ساری بات بتا دی۔ جانتی تھی کہ ابھی اسے بہت سے لوگوں کے سامنے پیش ہونا ہے سو اس سے جس حد تک ہوسکتا تھا بات لپیٹنا چاہی مگر دوسری طرف بھی افشین تھی پل میں ساری بات سمجھ گئی۔ اس کی بات سن کر افیشن کا پاؤں خود بخود ہی بریک پر جا پڑا۔ ایک دم سے بریک لگنے پر گاڑی کے ٹائر پوری قوت سے چرچرائے جس کی آواز سے ارد گرد کے لوگ اچھل کر رہ گئے چونکہ وہ ابھی تک شہر کے مین روڈ پر ہی جا رہی تھی اس لیے اس کے اچانک بریک لگانے پر اس سے پیچھے آتی گاڑیوں کو بھی یکدم رکنا پڑا۔ نتیجتاً اس سے پیچھے آتی گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور ہارن بجنے کا ایک نہ رکنے والا طوفان کھڑا ہوگیا مگر وہ ان سب سے بےنیاز فون میں مگن دانین پر چیخ رہی تھی۔
“اتنا سب کچھ ہوگیا اور تم نے بتانا بھی گوارہ نہیں کیا۔ تم ٹھیک ہو نہ؟ کوئی چوٹ تو نہیں لگی۔ ہم لوگ کیا مر گئے تھے جو ایک کال بھی نہیں کی۔” غصے کی شدید لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
“ریلیکس افشین! مجھے کچھ نہیں ہوا۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔” دانین نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا۔
“اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تم ابھی تک وہاں کھڑی ہو؟ تمہارے پاس دفاع کے لیے کچھ بھی نہیں ہے سوائے ایک گولی کے۔ اگر وہ دوبارہ آگیا تو کیا کرو گی؟” اس کا لاپرواہ انداز دیکھ کر وہ پہلے سے بھی زیادہ زور سے چیخی۔ اتنے میں ٹریفک پولیس کا ایک سپاہی اس کے پاس آیا اور تھوڑے سے کھلے ہوئے شیشے سے جھانک کر اس سے کرخت لہجے میں مخاطب ہوا۔
“میڈم یہ کوئی کال کرنے کی جگہ نہیں۔ پیچھے اتنی گاڑیاں آپ کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔ سائیڈ پہ ہو کر کال کریں ورنہ بیچ سڑک بدنظمی پیدا کرنے پر آپ کا چلان بھی کیا جا سکتا ہے۔”
” اوہ جسٹ شٹ اپ! دیکھ نہیں رہے میں کتنی امپورٹینٹ بات کر رہی ہوں۔” افشین کا کہیں اور بس نہ چلا تو وہ اس سپاپی پر چڑھ دوڑی اور اس کو مزید بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر جیکٹ کی اندرونی جیب سے کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ وہ کارڈ دیکھ کر سیلوٹ کرتا ہوا خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔
“افشی یار مجھے اندازہ نہیں تھا تم غصہ کیوں کر رہی ہو اور وہ بیچارہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہے تم یوں روڈ بلاک کیوں کیے کھڑی ہو؟”
“شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ! میری طرف سے جہنم میں جاؤ” وہ جھلاتے ہوئے بولی اور موبائل بند کر کے سائیڈ سیٹ پر پھینکا۔ آنکھیں بند کر کے اس نے گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کیا اور سائیڈ مرر سے پیچھے کھڑی گاڑیاں دیکھ کر اس نے گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے نکالی اور اشعر کو بھی فون کر کے وہاں پہنچنے کا کہہ دیا ۔
وہ دونوں پانچ پانچ منٹ کے وقفے سے وہاں پہنچے تو وہ لوگ پہلے سے تیار کھڑے تھے۔ دانین نے ایک چھوٹے سے بیگ میں ان کی قیمتی اشیاء ہی رکھوائی تھیں۔ دیگر ضرورت کا سامان اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ خود ہی بندوبست کروا دے گی۔” اشعر ان لوگوں کو گاڑی میں بٹھا رہا تھا۔ افشین اسماء کی والدہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بیٹھنے میں مدد دے رہی تھی جب دانین چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
“اس بار کسی کو کچھ مت بتانا۔ اگلی بار ایسا کچھ نہیں کروں گی۔ پکا۔”
“اسماء تم دوسری سائیڈ سے آ کر بیٹھو۔ آنٹی کو تکلیف ہوگی۔” اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نے اسماء سے کہا۔
“افشی سنو نہ ۔ اٹس اے ریکویسٹ۔” اس نے ملتجی لہجے میں کہا مگر وہ کوئی جواب دیے بنا اپنی گاڑی کی طرف آئی اور فرنٹ سیٹ تھوڑی سی ہٹا کر اس میں سے پسٹل نکالا۔ اس کی گولیاں چیک کرنے کے بعد وہ واپس دانین کی طرف آئی۔
“ریجیکٹڈ۔” اس نے کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا پسٹل اسے تھمایا۔
“فل ہے۔ اب جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھو اور سیدھا آفس چلنا۔ میں بھی تمہارے پیچھے ہی ہوں۔”
“تم کسی کو کچھ نہیں بتاؤ گی۔” دانین نے اس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹتے ہوئے کہا۔
“رکھ لو لیکن کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں پہلے ہی باس کو بتا چکی ہوں اور وہ آفس میں بیٹھے شدت سے تمہارے منتظر ہیں۔” وہ موبائل اس کے پاس چھوڑے کسی مغرور حاکم کی طرح چلتی ہوئی اپنی گاڑی میں بیٹھی۔ اس کو وہیں کھڑا دیکھ کر افشین نے ہارن بجا کر اسے اپنی گاڑی کی طرف جانے کا اشارہ کیا تو وہ دانت پیستی ہوئی سڑک کی دوسری طرف چل دی جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی۔
اسماء اور اس کے والدین کو محفوظ مقام پر پُہنچانے کے بعد وہ دونوں آگے پیچھے ہی آفس میں داخل ہوئیں تو بے چینی سے ٹہلتی نوشین بیگم لپک کر اس کے پاس آئیں۔
“دانین! بیٹا تم ٹھیک تو ہو؟ کوئی چوٹ تو نہیں لگی۔” وہ اس کو گلے لگا کر پیچھے ہٹ کراس سے پوچھنے لگیں۔
“ریلیکس آنٹی! کچھ نہیں ہوا مجھے۔ میں اللّٰه کے کرم سے بالکل ٹھیک ہوں۔” اس نے ان کی پریشان صورت دیکھ کر ہاتھ تھام کر تسلی دی۔ احمد صاحب چہرے پر خطرناک حد تک سنجیدگی سجائے بیٹھے تھے۔ دانین نے ان کے تیور دیکھ کر چہرے پر جتنی ہو سکتی تھی معصومیت سجائی مگر ان کی آنکھوں سے نکلتے غصے کی چنگاریوں سے ظاہر تھا کہ وہ آج اسے بخشنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
“خدا کا شکر ہے تم ٹھیک ہو، میں تو بہت ڈر گئی تھی جب افشین نے تم پر حملے کا بتایا تھا۔ آؤ بیٹھو۔” نوشین بیگم نے بیٹھتے ہوئے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے بیٹھنے کی، کھڑی رہو اور مجھے جواب دو کہ یہ کیا حرکت ہے؟” وہ جو مسکراتی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھنے لگی تھی احمد صاحب کی کرخت اور سرد آواز پر اچھل کر رہ گئی۔
“کک کون سی حرکت؟” ان کے بدلے انداز پر وہ بوکھلا کر رہ گئی۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا تھا کہ وہ اپنی ٹیم ممبر سے سختی اور رعب سے بات کرتے تھے۔ اشعر بھی ان لوگوں کو چھوڑ کر اب آفس میں موجود تھا۔
“تم خود کو کیا بہت مہان سمجھتی ہو؟ ہر مشکل میں کودنا اپنا فرض ہی بنا لیا ہے؟”
“سر وہ۔۔۔۔ وہ۔۔” ان کا آگ برساتا لہجہ اس کو لرزانے کو کافی تھا۔ وہ غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے اٹھے۔
“کیا وہ وہ لگا رکھی ہے؟ میں نے ہر طرح کے گیجٹس تم لوگوں کو سیفٹی کے لیے لا کر دیے نہ کہ اس لیے کہ تم انہیں الماری میں رکھ کر خالی ہاتھ دشمن کی کچھار میں گھس جاؤ۔” ان کو اٹھ کر اپنے پاس آتے دیکھ کردانین نے اپنی آنکھیں زور سے میچیں۔
“سر ریلیکس۔” ان کو سخت غصے میں دیکھ کرافشین نے دھیرے سے کہا۔
“کیا ریلیکس؟ میں نے اسے منع کیا تھا کہ یہ اس معاملے میں نہ پڑے مگر اس نے میری بات نہیں مانی۔ پھر میں نے اسے محتاط رہنے کا کہا مگر اس نے میری یہ بات بھی بھاڑ میں جھونک دی۔ کوئی مجھے بتاؤ کہ میں کون ہوں؟ میری کوئی حیثیت ہے یا نہیں؟” وہ ایک دم غصے کی شدت سے دھاڑے۔ کمرے میں اتنے سارے لوگوں کی موجودگی کے باوجود بھی سکوت طاری تھا۔
“سوری سر۔” دانین نے مری مری آواز میں کہا۔
“واٹ سوری؟ تمہاری سوری سے کیا ہو گا؟ تم اندازہ کر سکتی ہو کہ جب درِ افشین نے مجھے اطلاع دی تو مجھ پر کیا گزری؟ اگر وہ ڈر کر نہیں بھاگتا تو سوچ سکتی ہو کیا ہوسکتا تھا؟ وہ مکمل تیاری کے ساتھ آیا تھا اور تمہارے پاس کیا تھا؟ محض دو گولیاں؟ میں پوچھتا ہوں تمہیں گن، میگزین، ہینڈ بم، لیزر پسٹل، سموگ بم ، کیا وہ سب الماری میں سجانے کے لیے دیے گئے ہیں؟”
“سر۔۔۔ وہ اسماء کی کال آئی تو ۔۔۔۔تو وہ کافی پریشان تھی اس لیے میں جلدی میں گولیاں چیک کرنا بھول گئی تھی۔” اس نے منمناتے ہوئے کہا۔ اس کی بھونڈی سی صفائی پر انہوں نے مڑ کر اسے جن نگاہوں سے گھورا اس کو اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی۔ وہ جو شیر کی طرح دھاڑتی تھی اب معصوم میمنے کی طرح منمنا رہی تھی۔
“اچھا بس بھی کر دیں اب، ہوجاتا ہے کبھی کبھی ایسا۔ اب کیا بچی کی جان لینی ہے؟” اس کو سرجھکائے کھڑا دیکھ کر نوشین بیگم نے احمد صاحب سے کہا۔ وہ ایک نظر انہیں دیکھتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر جا بیٹھے۔ کچھ دیر تک اسے دیکھتے رہنے کے بعد انہوں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی۔ وہ پیچھے کی جانب ہاتھ باندھے مؤدب سی کھڑی تھی ۔اس کو اگر کوئی اس طرح کھڑا دیکھ لیتا تو یقین ہی نہ کرتا کہ یہ وہی دانین ہے۔
“اپنی گن رکھو یہاں۔” انہوں نے میز کی جانب اشارہ کیا۔ اس نے کچھ تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے بیک سے گن نکال کر میز پر رکھی۔
“میگزین تو ہے نہیں رائٹ؟”
“جی سر۔” ان کے طنز پر اس نےآہستگی سے جواب دیا۔
“اپنا کارڈ بھی رکھو۔”
وہ جو گن رکھنے کے بعد واپس سے ہاتھ باندھے کھڑی تھی ان کی بات سن کر چونکی۔
“سر!” اس کے لہجے میں بے یقینی تھی۔
“واٹ؟” انہوں نے ابرو اچکائے.
“سر پلیز!” وہ ملتجی لہجے میں گویا ہوئی۔
“کارڈ۔” انھوں نے ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
سر میں جانتی ہوں مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے لیکن ایک بار معاف کر دیں آئندہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔”
“کانفیڈینٹ ہونا اچھی بات ہے مگر اوور کانفیڈینٹ ہونا نری بےوقوفی ہے۔ تم اچھے سے واقف ہو کہ ہمارے شعبے میں کوتاہی اور بےوقوفیوں کی گنجائش ہی نہیں ہوتی کیونکہ اس کا انجام موت کی صورت میں نکلتا ہے اور تم نہ صرف اس کی مرتکب ہوئی ہو بلکہ موت کے منہ میں جا کر واپس آئی ہو۔ اس کی سزا تو تمہیں بہرحال ملے گی
مزید میں کوئی بحث نہیں سننا چاہتا۔ چپ چاپ اپنا کارڈ رکھو ۔” ان کے حتمی لہجے پر اس نے چارو ناچار کارڈ نکال کر ایک نظر اس کو دیکھتے ہوئے میز پر رکھا۔
“یو آر سسپینڈڈ فار فیفٹین ڈیز۔” انہوں نے دونوں چیزیں اٹھا کر دراز میں ڈالتے ہوئے کہا۔
“اوکے سر۔”
“پندرہ دن کے لیے تم گھر سے باہر نہیں نکلو گی، کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کرو گی، نہ ہاتھ سے نہ گن سے اور بحالت مجبوری اگر باہر جانا پڑے تو کسی نہ کسی کو ساتھ لے کر جاؤ گی۔ آج سے بلکہ ابھی سے تم ان رولز کو فالو کرو گی۔ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کی تو سسپینشن کا دورانیہ بڑھ سکتا ہے۔ ڈو یو انڈرسٹینڈ ۔”
“یس سر۔” اس نے سرجھکا کر کہا۔
“میں جاؤں سر۔” اس نے ان کو خاموش دیکھ کر پوچھا۔
“ہوں جاؤ مگر افشین اور اشعر تمہیں چھوڑ دیں گے۔” انہوں نے کہا تو وہ سلیوٹ کرتی باہر نکل گئی۔ نوشین بیگم نے ان دونوں کو اشارہ کیا تو وہ بھی سلیوٹ کرتے نکل گئے۔
“آپ نے کچھ زیادہ نہیں کر دیا۔” ان کے جانے کے بعد نوشین بیگم نے ناراضگی سے احمد صاحب کو دیکھا۔
“یہ ضروری تھا بیگم۔ پہلے عدیل اور اب احتشام۔ آپ نہیں جانتی ایسے لوگوں کو۔ پہلے وہ اپنے مجرم کے بارے میں نہیں جانتے تھے مگر اب وہ نہ صرف جانتے ہیں بلکہ اس نے دانین کو دیکھا بھی ہے۔ یہ تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اپنا بدلہ نہ لے لیں۔ اسی لیے میں نے اُس وقت منع کیا تھا۔ میں نے اسے سسپینڈ بھی اسی لیے کیا ہے ورنہ یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی۔ ابھی کچھ دن اسے گھر سے باہر مت جانے دیجیئے گا اور اکیلے تو بالکل بھی نہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔” احمد صاحب کی بات پر انہوں نے متفق ہوتے ہوئے سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کس کی گاڑی میں جانا ہے۔” اس نے پارکنگ لاٹ میں پہنچ کر اپنے پیچھے آتے اشعر اور افشین سے پوچھا۔
“میری گاڑی میں چلتے ہیں۔” اشعر نے کہا۔
“شیور ۔” وہ سپاٹ انداز میں کہتی اس کی گاڑی کی طرف بڑھی۔ وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھی تو افشین بھی جلدی سے اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
اشعر نے گاڑی سٹارٹ کر کے پارکنگ سے نکالی اور بیک ویو مرر سے افشین کو اشارے سے اس کی جانب متوجہ کیا جو شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی۔
“آئی ایم سوری۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ سر اتنا رئیکٹ کریں گے۔ مجھے لگا بس تھوڑے سے تمہارے کان کھینچیں گے،
سنو تو ۔” اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے اس کا بازو ہلایا۔
“میں نے تمہاری بھلائی کے لیے ہی کیا ہے میں بہت ڈر گی تھی ۔”
“جو بھی ہے مگر تمہیں یوں سر کو ایک دم سے نہیں بتانا چاہئے تھا۔ ڈی کی اتنی انسلٹ آج تک نہیں ہوئی جتنی تم نے کروائی ہے۔” اشعر نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تو افشین کا منہ کھلا۔
“اشعر تم۔”
“کیا میں؟ سچ ہی تو کہہ رہا ہوں تمہاری وجہ سے ہی وہ معطل ہوئی ہے۔” اشعر نے مبالغہ آرائی کی حد کرتے ہوئے کہا ۔
“شٹ اپ اشعر۔” اس کو باز نہ آتا دیکھ کر افشین نے اسے جھڑکا۔ وہ کان دباتا گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔
“یار اب تم ایسے تو نہیں کرو نہ۔ سر کا وقتی غصہ ہے ایک دو دن میں نارمل ہوجائیں گے۔ ” وہ اشعر کو گھورتی ہوئی دوبارہ دانین سے بولی۔
“پلیز در افشین ۔ میں اس وقت کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی۔” اس نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا تو وہ لب بھینچتی پیچھے ہٹ گئی۔ گاڑی اپنی رفتار سے گھر کی جانب رواں دواں تھی۔ ماحول کی گرمی دیکھ کر اشعر نے ایک ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روکی۔
“کچھ کھاؤ گی؟”
“زہر کھانا ہے۔ لا دو گے؟” دانین تو نہیں بولی مگر افشین نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں جواب دیا۔ اشعر سر ہلاتا گاڑی سے نکل گیا۔ چند منٹوں بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دو برگر تھے۔ ایک لا کر اس نے دانین کی سائیڈ سے دروازہ کھول کر اس کے سامنے کیا۔
“لے لو پاٹنر، آئی سوئیر میری زرا سی بھی غلطی نہیں ہے یہ سب کیا دھرا مس افشین کا ہے۔” اس کو نہ پکڑتے دیکھ کر اشعر نے کہا۔ اس کی بات پر افشین نے اسے گھوری سے نوازا۔
“میں سچ کہہ رہا ہوں۔”
دانین نے خاموشی سے برگر پکڑا تو اس نے دوسرا ہاتھ جس میں برگر تھا جان بوجھ کر گاڑی کے اندر بڑھایا۔افشین کو لگا کہ شاید وہ اسے دے رہا ہے۔ اس نے جیسے ہی پکڑنے کو ہاتھ آگے کیا، اشعر اسی ہاتھ میں پکڑے ٹشو سیٹ پر رکھتا ہاتھ پیچھے لے گیا۔ اس کی اس حرکت پر دانین کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔
“سوری دوست تمہاری مطلوبہ چیز نہیں ملی۔تمہاری خواہش کے مطابق میں نے ان سے ایک چٹکی زہر کی قیمت پوچھی تھی مگر انہوں نے کہا ہے کہ یا تو کسی کیمیکل سٹور سے ملے گا یا میڈیکل۔زرا آگے ایک میڈیکل سٹور ہے وہاں سے پتہ کرتے ہوئے جائیں گے۔” اس کا کھلا منہ دیکھ کر وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اپنی سیٹ پر جا بیٹھا اور افشین اس کی بے نیازی پر تلملا کر رہ گئی۔
گاڑی احمد صاحب کے گھر کے باہر رکی تو دانین باہر نکل کر چلتی ہوئی افشین کی سائیڈ پر آئی او کھلے ہوئے شیشے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا نیچے جھکی
یاد رکھنا درافشین ۔ میں بھولوں گی نہیں۔”
دانی آئی سوئیر۔۔۔۔۔۔” جانتی تھی اس کا بدلہ بہت برا ہوتا ہے اس لیے اس نے جلدی سے صفائی دینا چاہی مگر وہ ہاتھ اٹھا کر ٹوکتی گیٹ کی طرف بڑھ گئی
گھر میں داخل ہوئی تو رابیل اور ارسل کے ساتھ ارتضی بھی لاونج میں بیٹھا تھا۔ وہ سب کو مشترکہ سلام کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔رابیل جو اسے کچھ کہنے کے لیے منہ کھول ہی رہی تھی لیکن اس کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے خاموش ہو گئی۔ ارتضی اس کی پشت کو تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ کمرے میں داخل نہ ہوگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو نظر بند ہوئے دسواں دن تھا۔ اس دن کے بعد سے اس نے بھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ احمد صاحب کو اچھے سے جانتی تھی کہ وہ بہت کم ہی کرنل کے روپ میں آتے تھے اور وہ مزید کوئی ضد دکھا کر یا سزا کے خلاف جا کر اپنی سزا کا دورانیہ نہیں بڑھا سکتی تھی اس لیے نہایت ہی فرماں برداری سے ہمہ وقت گھر میں ہی موجود ہوتی۔ دوپہر تک وہ فروا بھابھی کے ساتھ کچن اور دیگر کام کرتی اور اس کے بعد رابیل اور ارسل کے ساتھ پڑھائی میں مدد کرواتی اور شام میں وہ تینوں کبھی فٹ بال کھیلتے تو کبھی کرکٹ۔ جب سے علیزہ والا قصہ ختم ہوا تھا تب سے حیرت انگیز طور پر ارتضی کا رویہ بھی کافی حد تک بدل گیا تھا۔ ان دونوں میں اب تھوڑی بہت بات چیت ہوجاتی تھی یہی نہیں اب وہ شام میں اکثر ان تینوں کے اردگرد ہی منڈلاتا پایا جاتا۔ کبھی کبھار تو بنا بات کے بھی وہ دانین کو مخاطب کرنے کی کوشش کرتا جس کو خوب سمجھتے ہوئے وہ کافی سردمہری سے جواب دیتی۔
شام کا وقت تھا اور سردیوں کی اپنے عروج پر تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا کے ساتھ اب دھیرے دھیرے سردی اور خنکی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا مگر وہ تینوں موسم سے بےپرواہ بڑے شوق اور انہماک سے بیڈمینٹن کھیلنے میں مصروف تھے۔ احمد صاحب ،ارتضی ،مرتضی اور نوشین بیگم کے ساتھ لاونج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب کہ فروا بھابھی کچن میں چائے بنا رہی تھیں۔ رابیل سے شٹل کاک گری تو ارسل نے یاہو کا نعرہ لگایا جو اندر لاونج میں بیٹھے ارتضی کے کانوں تک پہنچا ۔ اس نے چونک کر کھڑکی کی طرف دیکھا جہاں اب ارسل اپنی باری لینے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ کچھ سوچ کر وہ اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا۔
“چاہے جتنی بھی کوشش کرلو آپی کے سامنے نہیں ٹک پاؤ گے۔” رابیل نے ارسل کو چڑایا۔
“کیوں بھئی تمہاری آپی کہیں کی چمپئین ہیں کیا؟” ارتضی نے دانین کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا جو بہت ہی دلجمعی سے پنجوں کے بل اچھل اچھل کر ارسل کی جانب شٹل کاک اچھال رہی تھی۔ پھرتی سے ریکٹ سے شٹل کاک کو ضرب لگاتی وہ اسے کسی جاپانی گڑیا کی مانند لگی۔ اس کے شانوں تک آتے پونی میں مقید بالوں سے کچھ لٹیں نکل کر اس کے چہرے پر آگئی تھیں جن کو پیچھے کیے بغیر وہ کھیل رہی تھی۔ وہ مکمل دھیان سے ایسے کھیل رہی تھی جیسے اس سے اہم کوئی کام ہی نہ ہو اور زرا سے بے توجہی سے کھیل خراب ہوجائے گا جبکہ ارتضی ارد گرد کا ہوش بھلائے مکمل طور پر اس کا جائزہ لینے میں مگن تھا۔ ناجانے ایسا کیا تھا مگر جب سے علیزہ سے تعلق ختم ہوا تھا تب سے ہی اس کا دل دانین کی طرف ہمکنے لگا تھا۔ اسے سوچنا، اسے دیکھنا، بہانے بہانے سے اس سے بات کرنے کی کوشش کرنا اسے ایک انجانی سی خوشی دینے لگا تھا۔ اس سے پہلے کہ اس کے دانین کو تکتے رہنے کا دورانیہ لمبا ہوتا کہ پیچھے سے آتی رابیل کی آواز پر وہ ایک دم ہڑبڑاتا ہوا اس کے چہرے سے نظریں ہٹا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
“ارے بھائی آپ کو کیا پتہ؟ آپی کسی چیمپئن سے کم نہیں کھیلتیں۔ ہم روز ہی کھیلتے ہیں اور روز ہی ہار جاتے ہیں ۔” رابیل نے جتنے جوش سے بات شروع کی تھی آخر میں اتنا ہی مایوسی سے منہ بنایا۔
“ارے بھئی ہوں گی تمہاری آپی چیمپئین مگر ہم بھی کالج میں کیپٹن رہے ہیں۔” ارتضی نے مدہم سا مسکراتے ہوئے کہا۔
“رہنے دیں بھائی ہار جائیں گے۔” رابیل نے ارسل کو تھک کر ہاتھ کھڑے کرتے دیکھ کر کہا۔
“ایسی بات ہے تو چلو ٹرائے کرتے ہیں۔” وہ اپنی جیکٹ اتار کر اسے تمھاتا ہوا ارسل کی طرف بڑھا جو لان میں ٹانگیں پھیلائے ہانپ رہا تھا جب کہ دانین بھی لمبے لمبے سانس لے کر اپنا سانس بحال کر رہی تھی۔
“ایسے نہیں پھر شرط لگاتے ہیں۔ جو ہارا وہ ٹریٹ دے گا۔” رابیل نے ارسل کو ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور سائیڈ پر لے جاتے ہوئے کہا۔ اس کے چہرے سے بہتے پسینے سے صاف لگ رہا تھا کہ مسلسل کھیلنے سے اس کی حالت کافی خراب ہوچکی ہے۔ اس نے رابیل کا ڈوپٹہ کھینچ کر اس سے چہرہ اور گردن صاف کی اور ہاتھوں کی ٹیک بنا کر پیچھے ہو کر بیٹھا۔
“میں نہیں کھیل رہی چلو رابیل اندر چلتے ہیں سردی بڑھ رہی ہے ۔” دانین نے ایک ہاتھ سے اپنے چہرے پر آیا پسینہ صاف کیا اور پاس رکھی پانی کی بوتل اٹھا کر پانی پینے لگی۔ ارتضی چلتا ہوا اس کے پاس آ کر رکا۔
“صاف کہیں نہ کہ ہار سے ڈر رہی ہیں۔ بیچارے بچوں پر ایسے ہی دھاک بٹھائی ہوئی ہے جب اپنے مقابلے کا کوئی آیا تو بھاگ رہی ہیں۔” ارتضی نے ایک طرح سے اسے چیلنج کیا۔ وہ پانی کی بوتل پاس پڑی کرسیوں کے سامنے رکھے میز پر رکھتی اس کے سامنے آئی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اعتماد سے گویا ہوئی۔
“بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں اور رہی بات ہار ماننے کی تو دانین ابراہیم ہار ماننے کے بجائے لڑ کر جان دینے پر یقین رکھتی ہے۔”
اس کی گہری سیاہ آنکھوں اور ان کی مقناطیسی کشش سے وہ سحرزدہ سا ہوا۔
“تمہاری آنکھیں ۔۔۔۔” بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا تو دانین جلدی سے پیچھے ہو کر پونی اتار کے بال سمیت کر دوبارہ لگانے لگی۔
“چلیں آپ کی یہ غلط فہمی بھی دور کر دیتے ہیں۔” وہ اپنی جگہ پر کھڑی ہوتی ہوئی بولی مگر وہ وہیں کھڑا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا کہ وہ ایک بار اس کی طرف دیکھے تو وہ دوبارہ سے اس کی آنکھوں میں جھانک سکے۔ ارسل نے اس کو وہیں کھڑا دیکھ کر گلا کھنکھارا تو اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ دونوں معنی خیزی سے مسکرا رہے تھے. وہ کھسیا کر سر پہ ہاتھ پھیرتا واپس چل دیا۔ رابیل چونکہ کافی دیر سے بیٹھی ہوئی تھی سو وہ ارسل کے مقابلے میں خاصی فریش دکھائی دے رہی تھی لہٰذا اس نے ایمپائر کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے منہ سے سیٹی بجا کر کھیل کا آغاز کرنے کا اشارہ کیا۔ دانین تو ایکٹو ہوگئی تھی مگر ارتضی کا دھیان بٹ چکا تھا۔ اس کو رہ رہ کر لگ رہا تھا کہ جیسے وہ یہ آنکھیں پہلے بھی کہیں دیکھ چکا ہے۔ وہ بظاہر تو کھیل رہا تھا مگر دماغ اس کا وہیں ان گہری سیاہ آنکھوں پر ہی اٹکا ہوا تھا۔
“مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے میں یہ آنکھیں پہلے بھی کہیں دیکھ چکا ہوں اور وہ بھی خاصی قریب سے ۔” وہ شٹل اس کی جانب اچھالتے ہوئے بڑبڑایا۔
“بھائی کیا ہوگیا ہے؟ ٹھیک سے کھیلیں نہ۔ آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ کیپٹن رہے ہیں ۔” اس کو بے ڈھنگے انداز میں کھیلتا دیکھ کر رابیل زور سے اونچی آواز میں بولی۔
“ہاں، ہاں کھیل رہا ہوں۔” اس نے جواب دیا۔ دانین اسے اچھا خاصا ٹف ٹائم دے رہی تھی۔ کچھ ویسے ہی اس کا دماغ الجھ گیا تھا اور کچھ اس کو بغیر رکے کھیلتا دیکھ کر اسے ماننا پڑا کہ وہ ایک اچھی کھلاڑی ہے۔ وہ چونکہ اپنے ہی خیالوں میں مگن تھا اس لیے شٹل کاک کی سمت کا ٹھیک سے تعین نہ کر سکا اور وہ اڑتی ہوئی اس کے سر سے گزر کر پیچھے جا گری۔
“یس۔” وہ رابیل کے پاس آ کر اسے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنسی اور وہ اس کی ہنسی میں ہی کہیں کھو سا گیا۔
“چلیں اب ہمیں کسی اچھی سی جگہ کھانا کھلائیں۔” رابیل نے جھٹ سے کہا۔
“نہ بھئی میں تو کہیں نہیں جا رہا اور نہ ہی کہیں جانے کی ہمت بچی ہے۔ مجھے تو اب کوئی اٹھا کر اگر میرے کمرے میں چھوڑ آئے تو اس کی مہربانی ہوگی۔” ارسل نے بےچارگی سے کہا۔ اس کا انداز ایسا تھا اب کی بار رابیل اور دانین کے ساتھ ساتھ ارتضی بھی ہنسا۔ ارسل نے رابیل کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا اور اس کے اثبات میں سر ہلانے پر اس نے ارتضی کو مخاطب کیا۔
“بھائی آپ ایسا کریں کہ آج آپ دونوں چلے جائیں ۔ہم لوگ پھر کبھی چلے جائیں گے۔ ہمارا صبح ٹیسٹ ہے تو ہمیں تیاری بھی کرنی ہے اور ویسے بھی میں بہت تھک گیا ہوں۔”
“ارے میں تو ٹیسٹ بھول ہی گئی تھی۔” رابیل نے ماتھے پر ہاتھ مار کر اپنی یاداشت کو کوسا۔
“ارسل ٹھیک کہہ رہا ہے آپ لوگ چلے جائیں ہم پھر کبھی چلے جائیں گے۔ آؤ ارسل۔” اس نے کہتے ہوئے ہاتھ دے کر ارسل کو اٹھایا اور اندر کی طرف بڑھ گئی۔
“ہم لوگ کل اکٹھے ہی چلے جائیں گے۔” دانین بھی ریکٹ اور پانی کی بوتل اٹھا کر پاؤں میں چپل پہنتی ہوئی بولی۔
“رکیں!” اس کو جاتے دیکھ کر ارتضی نے اسے پکارا۔ اس نے مڑ کر اسے دیکھا جو اسی کی طرف آ رہا تھا۔
“وہ کل بھی ہمارے ساتھ نہیں جائیں گے۔ بہرحال آپ چلیئے میرے ساتھ مجھے آپ سے کچھ بات بھی کرنی ہے۔” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
“آج نہیں میں کچھ مصروف ہوں پھر کبھی۔” اس نے ریکٹ گھماتے ہوئے جواب دیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو اس کے ساتھ جانے میں مسئلہ نہ ہوتا مگر اس وقت وہ اپنی سزا کاٹ رہی تھی اس لیے چاہ کر بھی نہیں جاسکتی تھی۔
“میں جانتا ہوں میں نے کافی مس بہیو کیا ہے اور مجھے اسی سلسلے میں ہی بات کرنی ہے۔ میں اپنے اس رویے کی وضاحت بھی کروں گا لیکن مجھے ایک موقع تو دیں پلیز۔” اس کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر اس نے ملتجی لہجے میں کہا۔
“اوکے میں چینج کر کے آتی ہوں۔” اس نے ہامی بھری اور اندرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
ریکٹ ملازمہ کو تھما کر وہ کچن میں آئی اور پانی کی بوتل سلیب پر رکھ کر پلٹ ہی رہی تھی کہ نوشین بیگم کچن میں داخل ہوئیں۔
“آنٹی مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔” اس نے فریج کا دروازہ کھولے کھڑی نوشین بیگم کو مخاطب کیا۔
“ہاں بولو بیٹا۔” وہ خوشدلی سے مسکرائیں۔
“آنٹی۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے ارتضی ۔۔۔۔ ارتضی نے باہر ڈنر۔۔۔” اس نے جھجھکتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔ کچھ بھی تھا وہ اس کی ساس تھیں اور ابھی تک ان کا کوئی مضبوط رشتہ بھی نہیں تھا ۔چاہے اس رشتے میں سب سے زیادہ ان کا ہاتھ تھا مگر ایک جھجھک آڑے آ رہی تھی۔ نوشین بیگم اس کا مطلب سمجھ کر مسکرا دیں اور اس کی ٹھوڑی سے اس کا جھکا ہوا چہرہ تھام کر اوپر کیا
“تو چلی جاؤ۔ مشکل کیا ہے؟”
“آپ جانتی تو ہیں میں نظر بند ہوں۔” اس نے کچھ شکایتی نگاہوں سے انہیں دیکھا۔
“ہوں۔۔۔۔ اچھا تم اپنے کمرے میں جاؤ میں تمہارے انکل سے بات کر کے تمہیں بتاتی ہوں ۔” انہوں نے اس کا گال تھپتھپایا۔
“آنٹی ایک اور بات۔” وہ جاتے جاتے پلٹیں
“کہو۔”
” آنٹی مجھے یہاں آئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے ۔ میں ماما بابا کو بہت مس کر رہی ہوں۔ آپ انکل سے کہیں نہ مجھے گھر جانے کی اجازت دے دیں۔ آئی پرومس میں اپنی سزا مکمل ایمانداری سے پوری کروں گی ۔”
“دیکھو بیٹا ! تم شاید معاملے کی نزاکت کو سمجھ نہیں رہی ہو۔ ابھی صرف تم ان کی نظر میں آئی ہو۔ وہ تم پر پوری پوری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ایسے میں تم گھر جا کر اپنے ماما بابا کو بھی خطرے میں ڈالو گی ۔ میری مانو تو جب تک یہ معاملہ ختم نہیں ہوجاتا تم یہیں رہو۔ خدانخواستہ ہم تمہیں قید تھوڑی نہ کر رہے ہیں ۔ تمہاری سیفٹی کے لیے ہی یہ قدم اٹھایا ہے۔ تم نہیں جانتیں مجھے اور تمہارے انکل کو تم لوگوں بالخصوص تمہاری زندگی کتنی عزیز ہے۔ سمجھ رہی ہو نہ میری بات”
“جی آنٹی۔” اس نے آہستگی سے کہا۔
“چلو شاباش تم جا کر تیار ہوجاؤ۔ تمہارے انکل سے میں بات کر لوں گی۔” انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے اسے کہا۔
“پر آنٹی انکل غصہ کریں گے۔”
“وہ میری زمہ داری ہے۔ تم جاؤ میں دیکھ لوں گی ۔”
“چلیں ٹھیک ہے جیسے آپ کہیں۔” وہ کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ الماری کے سامنے کھڑی کپڑے دیکھ رہی تھی جب رابیل آ ٹپکی اور اس کے ہاتھ میں بلیک جینز پر بیلک ٹاپ دیکھ کر اس کا وہ سرعت سے اس کی پاس آئی
“کیا مطلب آپی آپ ڈنر پر یہ پہن کر جائیں گی ؟”
ہاں تو ان کو کیا ہے اور ویسے بھی بلیک کلر میرا فیورٹ ہے۔” اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ساتھ لگا کر دیکھتے ہوئے۔ رابیل اپنا سر پیٹ کر رہ گئی
“اف آپی آب بھی نہ۔ رکیں یہیں میں آتی ہوں۔ چینج مت کیجئیے گا۔” وہ کہہ کر باہر بھاگ گئی ۔
“ہیں اسے کیا ہوا ہے؟” اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔ چند منٹوں بعد وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں بلیک کلر کا فراک اور مٹھی میں چھوٹے چھوٹے جھمکے تھے
“یہ پہنیں ۔آپ ڈنر پر جا رہی ہیں کسی کو لڑھکانے نہیں جو ایسے حلیے میں جا رہی ہیں۔” رابیل نے اس کے ہاتھ سے اس کا ڈریس جھپٹ کر الماری میں رکھا اور اسے واش روم کی طرف دھیکلا
وہ چینج کر کے واش روم سے باہر آئی تو رابیل ابھی تک وہیں کھڑی تھی ۔
“آئیں میں آپ کا میک اپ کر دوں۔”اس کو کنگھی اٹھاتے دیکھ کر رابیل نے کہا تو اس نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے تیوری چڑھاتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر دروازے تک لائی ۔
“نکلو یہاں سے۔ دادی اماں بننے کی ضرورت نہیں ہے سمجھی۔” اس کو باہر بھیج کر وہ دروازہ بند کر کے واپس آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی
وہ تیار ہو کر اپنے کمرے سے نکلی تو سب سے پہلے اس کا سامنا رابیل سے ہوا جو اسے دیکھتے ہی سرعت سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی ۔ دانین اس کے انداز سے ہی سمجھ گئی کہ وہ اسی کے کمرے کے باہر ہی ٹہل رہی تھی۔ وہ نفی میں سر ہلاتی اس کے پیچھے آئی۔ اس کے پکارنے پر وہ یوں پلٹی گویا اس کے اپنے پیچھے آنے سے بے خبر ہو۔
“تمہیں جاسوسی کرنے کا خاصا شوق نہیں ہے۔” اس نے رابیل کو گھوری سے نوازتے ہوئے کہا۔
“کک ۔۔۔ کیا مطلب؟ میں سمجھی نہیں۔” وہ بھرپور انجان بنی۔
“اس میں کیا مشکل ہے میں ابھی سمجھا دیتی ہوں۔” اس نے کہتے ساتھ ہی رابیل کا کان پکڑ کر مروڑا۔
“آہ آپی! چھوڑیں تو، میں نے سچی میں کچھ نہیں کیا۔”
“بدتمیز لڑکی، خیر مجھے یہ بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں ۔” اس کا کان چھوڑتے ہوئے دانین نے پوچھا۔ رابیل نے اپنا کان مسلتے ہوئے اس کے گرد ایک چکر لگایا اور پھر رک کر تنقیدی نگاہوں سے اس کا جائزہ لینے لگی۔ سیاہ رنگ کی فراک کے ساتھ سیاہ پاجامہ اورکندھے پر نفاست سے پھیلے ہم رنگ دوپٹے کے ساتھ بالوں کی درمیان سے مانگ نکال کر کھلے چھوڑے ہلکا سا میک اپ کیے وہ کھڑی اس کے کچھ بولنے کی منتظر تھی مگر وہ اس کا سر تا پیر جائزہ لینے کے بعد سر ہلاتی ایک بار پھر اس کے گرد گھومنے لگی۔ اس کو یوں گھومتا دیکھ کر دانین جھنجھلا کر رہ گئی ۔۔
رابیل یہ تھرڈ کلاس مووی کے لفنگوں کی طرح کی حرکتیں بند کرو اور منہ سے بھی کچھ بولو۔””
“ہمیشہ کی طرح خوبصورت مگر پہلے کی نسبت زیادہ باوقار، کیوٹ اور رعب دار لگ رہی ہیں مگر۔۔۔۔” اس کے ڈرامائی انداز پر اس نے اسے گھورا
“مگر کیا؟”
“مگر کچھ کمی ہے مگر کہاں ہے یہ سمجھ نہیں آ رہا۔” اس نے گال پر ہاتھ رکھ کر سوچتے ہوئے کہا۔
“دفع کرو کمی کو۔ میں جا رہی ہوں۔” اس کی شرارت سمجھ کر وہ آگے بڑھی۔
“مل گئی ۔” اس نے چٹکی بجائی اور اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گئی۔ دانین کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا کر کے اس نے ڈریسنگ کا نیچے والا دراز کھولا اور اس میں سے ڈبہ نکال کر میز پر رکھا اور کھول کر دیکھنے لگی۔ اس میں ہر رنگ کی چوڑیاں موجود تھیں۔ رابیل نے سیاہ رنگ کی چوڑیاں نکال کر اس کے ہاتھ میں پہنانا شروع کیں۔
“ویسے تو یہ حق بھائی کا تھا مگر معاف کیجئیے گا میں یہ بونگی مار رہی ہوں۔” جتنے تیزی سے اس کے ہاتھ چل رہے تھے زبان اس سے دوگنی رفتار پر تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے رابیل نے اس کی دونوں کلائیاں چوڑیوں سے بھر دیں حالاں کہ دانین نے اسے تھوڑی تھوری چوڑیوں پر ہی بس کرنے کو کہا مگر وہ ان سنی کرتی اپنے کام میں مصروف رہی۔
“اب لگ رہی ہیں آپ دیسی گرل ورنہ تو آپ لڑکی نما لڑکا ہی بن کر رہ گئی تھیں۔” وہ ڈبہ واپس اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے بولی۔
“واہ دانین تیری قسمت۔ جن ہاتھوں میں کبھی گن ہوا کرتی تھی آج ان میں چوڑیاں ہیں وہ بھی درجنوں کے حساب سے۔” اس نے دونوں کلائیاں سامنے کرتے ہوئے آہ بھر کے سوچا۔
“ارے ارے آپ آہیں کیوں بھر رہی ہیں؟ آج آپ کا یہ نکھرا نکھرا اجلا اجلا روپ دیکھ کر یہ ڈیوٹی تو بھائی سنبھالیں گے۔ پہلے تو پتہ نہیں آپ منہ بھی دھوتی تھیں یا نہیں۔”
“تم کچھ زیادہ ہی نہیں فری ہو رہیں؟” دانین نے خجل ہوتے ہوئے اس کی کمر میں تھپڑ جڑا۔
“حد ادب ! ہم آپ کی ہونے والی نند ہیں۔” اس نے کسی ملکہ کی طرح ہاتھ کھڑا کیا۔
“زرا میری الماری سے پسٹل تو نکال کر لانا۔”
“کیا آپی آپ تو مذاق بھی نہیں سمجھتیں۔” وہ فورا ڈھیلی پڑی۔
“اگر تمہارا ہوگیا ہو تو میں جاؤں؟”
“کیوں نہیں، بلکہ آئیں میں چھوڑ کر آتی ہوں۔” رابیل نے ایک جانب سے دلہنوں کی طرح اسے پکڑا اوردوسرے ہاتھ سے اس کی فراک اٹھا کر چل دی۔
“رابیل” اس نے دانت کچکچائے تو وہ قہقہ لگاتی پیچھے ہٹی۔
“لَو یُو یار آپی۔ آپ سچ میں بہت کیوٹ ہیں۔” اس نے ہنستے ہوئے اس کا گال کھینچا تو وہ چھینپ سی گئی۔
“خیر جائیں۔ بھائی کافی دیر سے نیچے گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔”
وہ اسے گھوری دکھاتے ہوئے نیچے آئی تو فروا بھابھی سے اس کا ٹکراؤ ہوا۔ اسے دیکھ کر وہ لاونج سے اٹھ کر اس کے پاس آئیں۔
“مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ جناب ڈیٹ پر جا رہی ہیں۔ یقین کرو مجھے تو سن کر ہی جھٹکا لگا تھا۔” ان کی ذومعنی مسکراہٹ پر وہ شرماتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
“اللہ اللہ میری گناہگار آنکھیں یہ کیا دیکھ رہی ہیں؟ محترمہ ڈی اے عرف وائلڈ کیٹ شرما رہی ہیں۔” انہوں نے اس کے گال پر چٹکی کاٹتے ہوئے ہنس کر کہا۔ ابھی وہ فروا بھابھی کے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں ہی تھی کہ اسٹڈی سے نکل کر اسی طرف آتیں نوشین بیگم کو دیکھ کر اس کا دل چاہا کہ ٹریت پر لعنت بھیج کر یہیں سے الٹے قدموں بھاگ جائے۔ اس سے پہلے کہ وہ اس پر عمل کرتی نوشین بیگم ان کے پاس آ کر رکیں۔
“چشم بدور، ماشاءاللہ میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے۔ اللہ نظر بد سے بچائے اور ڈھیروں خوشیاں عطا کرے۔” انہوں نے پرخلوص لہجے میں کہتے ہوئے اس کا ماتھا چوما۔
“ارے ماما اس کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کے لیے بھی دعا کریں مجھے نہیں لگتا کہ آج آپ کا بیٹا خیر و عافیت سے واپس آئے گا۔” فروا بھابھی نے اسے چھیڑا تو وہ شرم سے سرخ ہوتا چہرہ چھپانے کو سر جھکا گئی۔ ان دونوں کے ساتھ ساتھ بیرونی دروازے پر کھڑے ارتضی نے بھی یہ منظر دلچسپی سے دیکھا۔ وہ کافی دیر سے اس کا انتظار کرنے کے بعد اسے بلانے کے لیے آیا تھا مگر فروا بھابھی کو اسے گھیرے کھڑا دیکھ کر وہیں رک گیا۔ اس کا یہ روپ فروا تو فروا نوشین بیگم کے لیے بھی نیا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ ہی اسے ماردھاڑ کرتے اور گرجتے برستے دیکھا تھا مگر اب یوں لگ رہی تھی جیسے وہ موم کی گڑیا ہو۔
“میرے بیچارے دیور کو قتل کرنے کے لیے محترمہ کی یہ چار درجن چوڑیاں ہی کافی ہوں گی۔” فروا بھابھی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
“یار بھابھی میں نے نہیں پہنی۔ رابیل نے زبردستی پہنائی ہیں۔” اس نے منہ بسورا۔
“آپ اس کو دیور تک پہنچنے دیں گی تو ہی دیور کی قسمت کا فیصلہ ہوگا ناں وہ بیچارہ کب سے باہر کھڑا سوکھ رہا ہے۔” ارتضی کی آواز پر انہوں نے مڑ کر دیکھا تو وہ دروازے میں کھڑا تھا۔
“لو بھئی جاؤ۔ تمہارا پرنس آن پہنچا ہے۔ جاؤ۔” انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا تو اس نے ایک پل کو نظر اٹھا کر دیکھا اور دوبارہ سے جھکا گئی۔
“چلیں ماما۔ یہ تو گئی ۔” اس کو عام لڑکیوں کی طرح شرماتا لجاتا دیکھ کر وہ ہنستی ہوئی لاونج میں چلی گئیں اس کے پیچھے ہی نوشین بیگم بڑھیں۔
“بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ بھابھی ٹھیک کہہ رہی تھیں کچھ تو میرا بھی خیال کر لیتیں۔” ارتضی نے مدہم سے لہجے میں کہا مگر وہ کوئی جواب دینے کی بجائے خاموشی سے کھڑی رہی۔
“ویسے آپ کا یہ روپ میرے لیے بالکل نیا ہے۔” اس کی جانب سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے دوبارہ کہا۔
“آجائیں باہر میں انتظار کر رہا ہوں۔” وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی اس نے سر اٹھا کر اس کی پشت دیکھی اور پھر ایک نظر خود کو۔
“کیا مصیبت ہے؟ یہ میں اتنا شرما کیوں رہی ہوں؟ حد ہوگئی یار اور یہ درجن بھر چوڑیاں، ان کو دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے قربانی کے لیے سجی سنوری کوئی گائے۔” وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔
“ریلیکس دانین ریلیکس۔ کیا ہوا ہے تمہیں؟ محض یہ کپڑے چینج کرنے سے تم اتنی کیسے بدل گئیں، حد ہے یار۔بس بہت ہوگیا یہ شرمانے کا سیشن ، اب واپس اپنی ٹون میں آجاؤ ورنہ یہ ٹھرکی انسان پتہ نہیں کیا سمجھے کہ میں اس پر ریجھ گئی ہوں۔” وہ خود سے بڑبڑائی۔
“پہلے علیزہ کے پیچھے تھا اور اب مجھے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے پہلی بار دیکھا ہو۔” اس کی ذہنی رو مکمل طور پر بھٹک چکی تھی اور وہ جو کچھ دیر پہلے شرم سے لال پیلی ہو رہی تھی اب خود پر پھر سے سنجیدگی اور کرختگی کا خول چڑھانے کو تیار تھی۔ گاڑی کا ہارن سن کر وہ سنجیدہ اور سخت تاثرات سجائے باہر کی طرف بڑھی۔