ایتالو کیلوینو (Occhi nemici) کا اطالوی افسانہ
پئیترو اس صبح چہل قدمی کر رہا تھا، تبھی اسے احساس ہوا کہ کچھ ایسا ہے جو اسے پریشان کر رہا ہے۔ وہ ایسا کچھ دیر سے محسوس کر رہا تھا لیکن وہ اس سے آگاہ نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا احساس تھا جیسے کوئی اس کے پیچھے ہو، کوئی ایسا جو نظر نہ آتے ہوئے اس پر نظر رکھ رہا ہو۔
اس نے اچانک سر موڑ کر دیکھا۔ وہ ایک الگ تھلگ سڑک پر تھا، جہاں مرکزی دروازوں کے ساتھ باڑیں اور لکڑی کی بنی چار دیواریاں تھیں اور ان پر پھٹے ہوئے اشتہار لگے تھے۔ وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پئیترو فوراً جھنجھلا گیا کہ اس نے ایسا خیال آتے ہی مڑ کر کیوں دیکھا تھا۔ وہ چلتا رہا اور اپنی سوچ کے سلسلے کی ٹوٹی ڈور پھر پکڑنا چاہی۔
یہ خزاں کی ایک صبح تھی اور سورج کی روشنی بھی کچھ کم کم ہی تھی۔ یہ ایسا دن ہرگز نہیں تھا کہ بندہ خوشی سے جھوم اٹھے لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ غمزدہ ہو۔ پھر بھی اسے خود پر بے چینی کا بوجھ محسوس ہوا۔ کچھ تھا، کچھ آنکھوں جیسا جو کندھوں کے اوپر، اس کی گردن کی پشت پر مرکوز ہوتا محسوس ہوا اور یہ اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دے رہا تھا۔ اِس کی موجودگی عناد بھری بھی تھی۔
اسے لگا کہ اسے لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے تاکہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پا سکے۔ وہ ایک مصروف سڑک کی طرف بڑھا لیکن نکڑ پر، اس نے پھر مڑ کر دیکھا۔ ایک سائیکل سوار وہاں سے گزر رہا تھا اور ایک عورت سڑک پار کر رہی تھی۔ وہ ان لوگوں اور چیزوں کے درمیان کوئی تعلق نہ جوڑ سکا اور گھبراہٹ اسے پھر سے کھانے لگی۔ اس نے جب مڑ کر دیکھا تھا تو اسی وقت ایک بندے نے بھی گردن موڑ کر اسے بھی دیکھا تھا۔ دونوں نے فوراً ہی اور ایک ساتھ ایک دوسرے سے نظریں چُرا لیں، جیسے وہ کسی اور کو دیکھنا چاہ رہے ہوں۔ پئیترو نے سوچا: ’شاید اس بندے نے یہ محسوس کیا ہو کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ شاید یہ صرف میں ہی نہیں ہوں، جسے آج کی صبح، حساسیت کی ایسی پریشان کن تیزی محسوس ہو رہی ہو۔ شاید یہ اس دن کے موسم کا اثر ہو جو ہمیں نروس کر رہا ہے۔‘
وہ اب ایک بھرے بازار میں تھا اور اسی سوچ کے ساتھ اس نے لوگوں کو دیکھنا شروع کر دیا اور یہ نوٹس کیا کہ وہ بلا ارادہ عجیب حرکات کر رہے تھے۔ وہ بیزارگی کے عالم میں اپنے ہاتھ چہرے تک لے جا رہے تھے۔ ان کی بھنویں یکلخت چڑھ جاتیں جیسے انہیں کسی پریشانی نے گھیر لیا ہو یا کوئی ناخوشگوار یاد تازہ ہو گئی ہو۔ ’کیا ہی گھٹیا اور دکھی کرنے والا دن ہے۔‘ ، پئیترو بار بار خود سے کہہ رہا تھا، ’کیا ہی بیکار اور بدقسمت دن ہے۔‘
ٹرام کے سٹاپ پر اپنا پاؤں زمین پر بجاتے ہوئے اس نے یہ بھی جانا کہ وہاں موجود دوسرے لوگ بھی اپنے پاؤں بجاتے ہوئے ٹرام کے روٹوں کے نوٹس بورڈ کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ کچھ ایسا پڑھنے کی کوشش میں ہوں جو وہاں لکھا ہوا ہی نہیں تھا۔
ٹرام میں کنڈیکٹر نے چھُٹا دیتے وقت غلطی کی اور غصہ کھا گیا۔ ڈرائیور نے پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں پر جھلا کر تکلیف دہ انداز میں لگاتار ہارن بجایا، جس پر مسافروں نے ہتھیوں پر اپنی انگلیاں یوں کس دیں جیسے وہ کسی ڈوبتے بحری جہاز میں سفر کر رہے ہوں۔
پئیترو نے ٹرام میں بیٹھے اپنے دوست کوریڈو کے بھاری بھرکم وجود کو پہچان لیا۔ اس نے ابھی تک پئیترو کو نہیں دیکھا تھا اور اپنی ایک گال میں ناخن گاڑے، کھڑکی سے باہر بدحواسی سے دیکھ رہا تھا۔
”کوریڈو!“، اس نے داہنی طرف سے اس کے سر پر سے اسے پکارا۔
اس کا دوست بولا، ”اوہ تو یہ تم ہو، میں نے تمہیں دیکھا نہیں۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھا۔‘‘
”تم پریشان لگتے ہو۔‘‘، پئیترو نے کہا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنی حالت دوسروں میں دیکھ رہا تھا۔ وہ بولا، ”میں بھی آج خاصا پریشان ہوں۔‘‘
”کون نہیں ہے؟“، کوریڈو نے کہا۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی اور اس پر ایسی قناعت جھلک رہی تھی کہ ہر ایک نے اس کی بات سنی اور اس پر اعتبار کیا۔
”تمہیں پتہ ہے، کوریڈو، میں کیسا محسوس کر رہا ہوں؟“، پئیترو نے کہا۔ ”مجھے لگتا ہے جیسے کہیں آنکھیں ہیں جو مجھے گھور رہی ہیں۔‘‘
”آنکھیں؟ کیا مطلب ہے تمہارا۔۔‘‘
”کسی ایسے کی آنکھیں، جس سے میں پہلے مل چکا ہوں، لیکن وہ مجھے یاد نہیں۔ سرد آنکھیں، معاندانہ سی۔۔‘‘
’’ایسی آنکھیں، جن کو آپ دیکھنا بھی نہ چاہتے ہوں، لیکن ایسی، جنہیں آپ کو ہر حال میں سنجیدگی سے لینا پڑتا ہے۔‘‘
”ہاں۔ ۔ ۔ سچی۔۔ آنکھیں جیسے۔۔‘‘
”جیسے جرمنوں کی؟“، کوریڈو نے پوچھا۔
”ہاں، ہاں، بالکل ویسی ہی جیسی جرمنوں کی آنکھیں۔‘‘
”اچھا، خیر یہ بات سمجھ آتی ہے۔‘‘، کوریڈو نے کہا اور اس نے اپنا اخبار کھولا۔ ’’اس طرح کی خبر کے ساتھ۔۔‘ ، اس نے ایک سرخی کی طرف اشارہ کیا: کیسلرنگ* کو معافی دے دی گئی۔۔ ایس ایس کے جلوس۔۔ امریکی نیو۔ نازی’ز کی مالی مدد کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ’’اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ہم ان کی واپسی کو محسوس کر رہے ہوں۔ ۔ ۔‘‘
’’اوہ، ایسا ہے۔۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہی کارن ہے۔۔ لیکن ہم یہ ابھی ہی کیوں محسوس کر رہے ہیں؟ کیسلرنگ اور ایس ایس تو یہاں عرصے سے ہیں، سال سے بلکہ دو سال سے۔ شاید وہ تب جیل میں ہی ہوں لیکن ہمیں اچھی طرح پتہ تھا کہ وہ وہاں ہیں، ہم انہیں نہیں بھولے تھے۔۔‘‘
’’آنکھیں۔‘‘، کوریڈو بولا، ’’تم نے کہا کہ تمہیں محسوس ہوا کہ یہ آنکھیں تمہیں گھور رہی ہیں۔ یہ اب تک گھور نہیں رہی تھیں کیونکہ انہوں نے نگاہیں نیچی کر رکھی تھیں اور ہم ان کے عادی نہیں رہے تھے۔۔ وہ ہمارے ماضی کے دشمن تھے، ہم ان سے اُن کے کیے کی وجہ سے نفرت کرتے تھے، زمانہ حال میں نہیں۔ ۔ ۔ لیکن اب انہیں اپنی پرانی گھُوری واپس مل گئی ہے۔۔ ویسی ہی جیسی وہ آٹھ سال پہلے ہم پر ڈالا کرتے تھے۔۔ یہ ہمیں یاد ہے اور ہم نے ایک بار پھر ان کی آنکھوں کو خود پر محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔
پئیترو کا بھائی ایک جبری کیمپ میں مرا تھا۔ پئیترو اپنی ماں کے ساتھ، پرانے خاندانی گھر میں رہتا تھا۔ شام ڈھلے وہ واپس آیا۔ دروازہ اسی طرح چرچرایا، جیسا کہ ہمیشہ چرچراتا تھا اور اس کے جوتوں تلے بجری اسی طرح کُٹی جس طرح ان دنوں میں کُٹتی تھی، جب ہمارے کان قدموں کی آ واز پر لگے ہوتے تھے۔
اس شام، جب جرمن آیا تھا تو وہ کہاں گھوم رہا تھا؟ شاید وہ پُل پار کر رہا تھا، شاید نہر کنارے چل رہا تھا، یا پھر شاید نیچی چھتوں والے گھروں کی قطار کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا۔ ان کی بتیاں جل رہی تھیں۔ یہ جرمنی کا ایک شہر تھا جو کوڑا کرکٹ اور کوئلے سے بھرا تھا۔ اس نے عام سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، تبھی سبز ٹوپی، گلے تک بند بٹنوں والے کالے کوٹ اور چشمہ پہنے وہ شخص اسے گھورے جا رہا تھا۔۔ پئیترو کو گھورے جا رہا تھا۔
اس نے دروازہ کھولا۔ ”یہ تم ہو!“، اسے ماں کی آواز سنائی دی۔ ’’آخر تم آ ہی گئے۔‘‘
’’آپ کو پتہ تو تھا کہ میں نے اس وقت سے پہلے نہیں لوٹنا تھا۔‘‘، پئیترو نے کہا۔
”تم بھی نا، لیکن مجھ سے انتظار کی پیڑھا سہی نہیں جا رہی تھی۔‘‘، وہ بولی، ”سارا دن میرا کلیجہ منہ کو آتا رہا۔۔ مجھے پتہ نہیں، کیوں۔ ۔ ۔ یہ خبر۔۔ کیا یہ جرنیل پھر سے قابض ہونے لگے ہیں۔ ۔ ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے راستی پر تھے۔۔‘‘
’’آپ بھی!‘‘، پئیترو بولا۔ ”پتہ ہے کوریڈو کیا کہتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ہمیں، ہم سب کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے ان جرمنوں کی نظریں ہم پر ہیں۔ ۔ ۔ اسی لیے ہم سب پریشان ہیں۔ ۔ ۔‘‘
وہ پھر یوں ہنسا جیسے یہ صرف کوریڈو ہی تھا جو ایسا سمجھتا تھا۔
اس کی ماں نے، لیکن اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ ”پئیترو، کیا جنگ ہونے والی ہے؟ کیا وہ واپس آ رہے ہیں؟“
’کل تک تو۔‘ ، پئیترو نے سوچا، ’یہاں جب بھی کوئی ایک اور جنگ کے خطرے کی بات کرتا تھا تو بندوں کو کوئی مخصوص بات نہ سُوجتی کیونکہ پرانی جنگ میں تو ان کے چہرے صاف نظر آتے تھے لیکن نئی جنگ کیسی ہو گی یہ کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اب البتہ ہمیں پتہ چل گیا ہے جنگ کا چہرہ پرانا ہی ہے اور یہ انہی کا ہے۔‘
کھانے کے بعد پئیترو باہر گیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔
”پئیترو؟“، اس کی ماں نے پوچھا۔
”کیا ہے؟“
”تم اس موسم میں باہر جا رہے ہو۔۔‘‘
”تو کیا ہوا؟“
”کچھ نہیں۔ ۔ ۔ لیکن جلدی لوٹنا۔۔‘‘
”ماں، اب میں بچہ نہیں رہا۔۔‘‘
”ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے۔۔ اچھا الوداع۔۔‘‘
اس کی ماں نے اس کے جانے کے بعد دروازہ بند کیا اور کھڑی، بَجری پر اس کے قدموں اور گیٹ بند ہونے کی آواز سنتی رہی۔ وہ کھڑی بارش کی ٹپ ٹپ کو بھی سنتی رہی۔ جرمنی بہت دور ایلپس کے پہاڑوں کے پیچھے تھا۔ شاید وہاں بھی بارش ہو رہی ہو۔ کیسلرنگ: ایس ایس جو اس کے بیٹے کو اٹھا لے گیا تھا، اپنی کار میں بیٹھا کیچڑ بکھیرتا چلا گیا۔ اس نے چمکیلی برساتی پہن رکھی تھی، اپنی فوجیوں والی پرانی برساتی۔ ’بہرحال اس رات فکر کرنا بیوقوفی کی بات ہے، اسی طرح اگلی رات بھی اور شاید اگلا پورا سال بھی۔‘ اسے لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کب تک فکر سے آزاد رہ سکتی تھی کیونکہ جنگ میں بھی ایسی راتیں ہوتی ہیں جب پریشانی لاحق نہیں ہوتی لیکن لوگ تیار رہتے کہ اگلی رات پریشانی لا سکتی ہے۔
وہ اکیلی تھی۔ باہر بارش کا شور تھا۔ بارش میں بھیگے یورپ میں پرانے دشمنوں کی آنکھیں رات کو چھیدتی، اس کے اندر گھس رہی تھیں۔
’میں ان کی آنکھیں دیکھ سکتی ہوں۔‘ ، اس نے سوچا، ’لیکن اب انہیں ہماری بھی دیکھنا ہوں گی۔‘ اور وہ ثابت قدمی سے کھڑی اندھیرے میں گھورتی رہی۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
*۔ کیسلرنگ = Albert Kesselring (1885ء۔ 1960ء)، نازی جرمنی کا اہم جرنیل۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دیگر کے ہمراہ ’وار کرائم‘(War Crime) کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور اسے آرڈیتین قتلام (Ardeatine massacre) میں 335 اطالوی شہری ہلاک کرنے کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی۔ یہ سزا بعد ازاں عمر قید میں بدل دی گئی تھی۔ اس کی حمایت میں، اس کی صحت کے حوالے سے ایک سیاسی و میڈیا مہم چلائی گئی تھی جس کے نتیجے میں اسے اکتوبر 1952ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس پر اٹلی میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ کیسلرنگ نے اسی برس سابقہ نازی فوجیوں کی تین تنظیموں کی اعزازی صدارت بھی قبول کی تھی اور وہ مرتے دم تک نازی سرگرمیوں میں جرمنی اور بیرون جرمنی سرگرم رہا۔
یہ افسانہ پہلی بار ’’Prima che tu dica ‘Pront‘‘ نامی مجموعے میں 1993ء میں ایتالو کیلوینو کی موت کے بعد شائع ہوا جس کا پیش لفظ اس کی بیوہ ایشتھر نے لکھا۔ ایتالو کیلوینو (Italo Calvino) نے، لیکن، اِسے 1943ء تا 1958 کے درمیانی عرصے میں کسی وقت، غالباً 1952 میں، اکتوبر میں ’کیسلرنگ‘ کی رہائی کے بعد لکھا ہو گا کیونکہ یہ اِس کتاب میں اُن 21 حکایات و کہانیوں میں 13ویں نمبر پر ‘ Occhi nemici’ کے نام سے شامل ہے جو اِس عنوان تلے موجود ہیں۔ کتاب میں موجود بقیہ تحاریر ’’کہانیاں اور مکالمے 1968 – 1984‘‘ کے عنوان تلے ہیں۔ انگریزی میں اس مجموعے کا ترجمہ 1996ء میں ”Numbers in the Dark and Other Stories‘‘ کے نام سے سامنے آیا۔ اسے برطانوی ادیب اور ترجمہ نگار Tim Parks نے انگریزی قالب میں ڈھالا تھا۔
اس افسانچے کے ترجمے کے لیے اصل اطالوی ٹیکسٹ سے مدد لی گئی ہے
٭٭٭