ماہین ار یو شور کیا تم واقعی میں ایسا چاہتی ہوں۔
نومی نے ذرا حیرانی سے تصدیق چاہی ۔
“ماہین کبھی بھی کوئی کام بنا سوچے، سمجھے نہیں کرتی۔ تو اسی لئے تم میری فکر چھوڑ دو اور جیسامیں کہتی ہوں ویسا کرتے جاؤ ۔“
ماہین نے اپنے گھنگھریالے بالوں میں انگلی گھومآتے ہوۓ، عجیب پر اسرار لہجے میں کہا۔جس پر نومی قهقاہ لگا اٹھا۔
“جانتا ہوں،جانتا ہوں۔ویسے شایان کو سبق سکھانے کا یہ انداز بڑا اعلی ہے۔اس ڈرامے میں بڑا مزہ انے والا ۔بڑا مجنوں بنا پھرتا ہے تمہارے پیچھے۔”نو می کی دلی مراد بر آئی تھی جبھی خباثت سے آنکھ کا کونا دبا کر مسکرآیا۔
“ہاہاہا۔۔اب بس تم دیکھتے جاؤ کیسا سبق سکھآتی ہوں میں اس خان کو۔چلا ہے ماہین فیاض پر اس دو ٹکے کی لڑکی کو فوقيت دینے۔”ماہین کو اپنی تذلیل ہر گز گوارا نہیں تھی۔نخوت بھرے لہجے میں بولتی وہ اپنا شیطانی منصوبہ تیار کر چکی تھی۔
“مجھے اس شو کا انتظار رہے گا۔”نومی نے آنکھ دبا کر قہقاہ لگایا۔
“شو آرہا ہے بہت جلد۔“ماہین نے نزاکت سے بالوں کی لٹ انگلی پر لیپیٹے آنکھوں میں نفرت کی چنگاریاں لئے طنزیہ لہجے گویا ہوئی۔
___________________
”کہاں جا رہی ہو تم۔”آج شایان چھٹی پر تھا۔اور صبح سے گھر میں ہی موجود تھا۔
“کہیں نہیں!!قریب ہی میری دوست کا گھر ہے۔ بس اس سے ملاقات کرنے جا رہی ہوں۔ڈارک بلیو رنگ کی سلک کی پرنٹڈ شرٹ اور سادہ ٹراؤزر پر ہلکے آسمانی رنگ کا سٹولر لیپیٹے وہ اس سادگی میں انتہا کی حسین لگ رہی تھی۔
”اچھا جاؤ۔“شایان نے آئبرو اٹھا کر جائزہ لیتی نظروں سے اجازت دی۔جو اپنی چادر کا کونا سمبھالتی دروازہ کی جانب بڑھی تھی۔
”سنو !!جاؤ گی کیسے۔“شایان نے کمرے سے باہر آکر ایک سوال کیا ۔
”رکشے میں۔“سمبل نے ذرا چونک کر جواب دیا۔شایان ناگواری سے ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر خشک لہجے میں گویا ہوا۔
”کوئی ضرورت نہیں۔روکو ذرا دو منٹ،میں چینج کر کہ آتا ہوں۔“شایان سخت لہجے میں بولتا جلدی سے واشروم کی اور بڑھا تھا۔جبکہ سمبل ایک سرد سانس خارج کرتی لاونج میں پڑے سوفے پر ہی بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی تھی۔
___________________
”ام اتنے دن ہوگئے ہیں۔آپ کو نہیں لگتا۔اب سمبل اور شایان کو ٹھوڑے دن ہمارے ساتھ حویلی میں بھی گزارنے چاہئے۔“
آغا جان نے اپنی ماں سے کچھ دوری پر رکھے سوفے پر بیٹھ کر سولیہ انداز میں ہلکے پھلکے لہجے میں شایان کی اب تک کی غیر موجودگی کی جانب توجہ دلوائی۔
”ہاں بچہ۔سہی کہتا ہے تم بھی۔ہماری سمبل بچے سے بات ہوئی تھی۔وہ کہتا ہے کچھ دن میں اس کا امتحان ہیں۔تو وہ اب پیپرز کے بعد ہی آۓ گا۔”ام خانم نے اپنے مخصوص انداز میں آگاہ کیا۔تو وہ محض سر ہلا کر رہ گئے۔وہ ان دونوں سے لاتعلق ہر گز نہیں تھے۔شایان اب تک ماہین سے رابطے میں تھا۔اور یہی بات انہیں کھٹک رہی تھی۔نا جانے سمبل کو اس بات کا علم تھا بھی یا نہیں۔
____________________
بلیک جینز کے ساتھ ہلکے آسمانی رنگ کی ٹی شرٹ پہنے اپنے سلکی نم بالوں میں ہاتھ پھیرتا شایان اگلے دس منٹ میں اپنی پوری تیاری کے ساتھ اس کہ سامنے موجود تھا۔جبکہ سمبل کی نظر ایک منٹ کو ٹھٹھک پر اس پر آکر ٹھر گئی تھی۔جو سمبل کی محویت کو بھانپ گیا تھا۔اور اب کرسٹک گرے آنکھوں میں عجیب سی چمک لئے قدم قدم چلتا اس کہ مقابل آیا تھا۔
“اگر مجھے نظر لگانا کا کام بھرپور طریقے سے سر انجام دے دیا ہو تو کیا ہم چلیں ؟ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔”شایان کی اتنی قریب سے آواز ابھری تھی وہ جو اپنے ہی خیال میں ارد گرد سے فراموش سی تھی۔یکدم ڈر کر خوف سے اچھل پڑی تھی۔جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔وہ اس کا حواس باختہ سا انداز دیکھتا اپنی مسکراہٹ ضبط کر رہا تھا۔
“جی۔۔جی۔۔چلیں۔۔سمبل نے ہڑبڑا کر کھڑے ہوتے جلدی سے فلیٹ کے باہر ڈور لگا دی تھی۔جبکہ وہ نفی میں سر ہلاتا مسکراتا ہوا۔اس کے پیچھے ہم قدم ہوا تھا۔
______________________
”آرام سے جاؤ تم۔میں شام تک تمھیں لینے اؤنگا۔اکیلے انے کی ضرورت نہیں۔سمجھ آگئی بات۔“شایان نے اس کی دوست کے گھر کے عین سامنے گاڑی کو بریک لگا کر اس کی جانب رخ پھیر کر تمبیہ کی۔سمبل خاموش سے سر ہلا گئی۔پھر ایک سمائل پاس کرتی گاڑی کا دروازہ کھولتی باہر نکلی جہاں اس کی دوست پہلے ہی اس کہ استقبال کے لئے دروازہ کھولے بیچ میں استازہ ہوۓ کھڑی تھی۔۔
شایان نے اس کی پشت پر نظر ڈال ایک گہری سانس بھری۔ کار اسٹیرنگ گھوما کر گاڑی کا رخ موڑا جو اب گیٹ سے اندر جا چکی تھی۔ابھی وہ آدھے راستے میں ہی تھا۔جب اس کا موبائل بلنک کرنے لگا۔
شایان نے ماہین کا نمبر دیکھ کر گاڑی سائیڈ میں لگا کر فوری کال پک کی تھی۔ایک ہفتے سے دونوں کے درمیان بات چیت نا کے برابر تھی۔شایان اسے منانے کی ایک دو بار پہلے بھی کوشش کر چکا تھا۔ مگر اس کے باوجود ماہین اسے نظرانداز کرتی نومی کے ساتھ چلی گئی تھی۔۔
مگر اب اس کی کال دیکھ شایان کو جیسے اطمینان سا ہوا تھا۔
ہیلو۔۔ماہی۔کیسی ہو یار تم۔”شایان نے ہشاش بشاش لہجے میں استفسار کیا۔
”میں ٹھیک ہوں ہنی۔تم بتاؤ کہاں ہو۔میں تم سے ناراض تھی۔مگر تم نے مجھے ایک بار ہی منانے کی کوشش نہیں کی۔“ماہین نے ذرا روٹھے ہوۓ لہجے میں کہا تھا۔
“یار ایسی بات نہیں۔بس اس روز نا جانے مجھے کیوں اتنا غصّہ اگیا تھا۔”شایان نے ندامت بھرے لہجے میں شرمندگی سے کہا۔
“اچھا اب چلو چھوڑو سب۔یہ بتاؤ۔کیا تم ابھی مجھ سے مل سکتے ہو۔”ماہین نے اپنے گھر کے ٹیرس سے ڈوبتے ہوۓ سورج کے دلکش مناظر سے خط اٹھاتے پوچھا۔
“کہاں ملنا ہے بتاؤ۔”شایان فوری راضی ہوا تھا۔
ماہین کے جگہ بتانے پر شایان نے موبائل اف کر کہ گاڑی اسی روڈ پر ڈال دی۔۔
_________________
“کیا سچ میں سمبل۔واہ میری چیتی کیا خوب کام کیا ہے۔مجھے تم سے اس بہادری کی قطعی کوئی امید نہیں تھی۔”دانین نے فخر سے گردن اکڑا کر اس کا کندھا تهپتهپا کر شرارتً کہا۔
“کیا مطلب ہے تمہارا۔تو کیا شایان کو دوسری شادی کی اجازت دے دیتی۔اتنا پاگل سمجھا ہوا تم نے مجھے۔”سمبل نے ناک چڑا کر ناگواری سے کہتے اس کا ہاتھ جھٹکا جو بیڈ پر پڑی قہقاہ لگا رہی تھی۔
“وہی تو میں کہ رہی ہوں۔تم نے تو بچارے شایان بھائی کو سہی کا محتاج کر دیا۔وہ میڈم کی اجازت کے بغیر شادی ہی نہیں کر سکتے۔”دانین کی شوخياں ابھی بھی عروج پر تھیں۔
“دفع ہوجاؤ تم۔کیسی دوست ہو بجاۓ مجھے کوئی اچھا سا آئیڈیا دینے کے ،کہ میں کیسی اس لال بالوں والی چڑیل کی چھٹی کروں۔ تمھیں اپنے بیچارے بھائی کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔”سمبل نے ذرا ناراضگی سے اس کی پیٹھ پر دهپ لگاتے ہوۓ کہا۔
”میں تو کہتی ہوں پاکستانی اچھی بیوی ہونا کا ثبوت دو۔اور کرنے دو انہیں اس لال بالوں والی سے شادی۔”دانین نے اپنی گول گول آنکھیں گھما کر شرارت سے مفید مشوارہ نوازا۔
“ایسا کبھی نہیں ہو سکتا بیٹا۔میں نے نکاح سے پہلے پکا کام کیا تھا۔جس میں میرا ساتھ آغا نے دیا۔شایان خانزاده کو تو اس بات کی کانوں کانوں خبر تک نہیں ہے۔کیوں کہ اس وقت تو وہ صرف میری وجہ سے غصّہ سے پاگل ہو رہے تھے۔۔”سمبل نے مزے لے کر اپنی کارستانی بتائی جس پر پہلے تو دانین آنکھیں پھیلا کر اس میسنی کو دیکھنے لگی۔جو شریف بنی گھومتی تھی اور پھر شایان کی قسمت پر قہقاہ لگا اٹھی۔جس میں سمبل کے بھی پیاری سے ہنسی شامل تھی۔۔
_______________
”ماہین یار۔۔۔۔یہ کیسی شرط ہے۔اب میں مطلب شایان خانزادہ اس طرح کی حرکتیں کرتا ہوا اچھا لگو گا بھلا۔”شایان نے ذرا بیزاری سے سر جھٹکا۔ماہین بگڑے تیوروں سے آنکھیں برو سمیٹ کر اسے غصّہ سے گھور رہی تھی۔۔
“شایان میں نے کونسی اتنی بڑی ڈیمانڈ کردی ہے۔ایک چھوٹی سی تو خواش ہے میری کیا اب تم وہ بھی پوری نہیں کر سکتے۔” شایان نے کندھے گرا کر مدد طلب نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔جو منہ پر نو لفٹ کا بورڈ لگا کر بیٹھی تھی۔
یار۔۔۔۔”شایان کو اس مطالبے پر ذرا کوفت سی ہو رہی تھی۔۔
کوئی کچھ نہیں۔میں تمہارے لئے اپنے لئے آیا ہوا رشتہ ٹھکرا سکتی ہوں۔اس سمبل کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے پر راضی ہو سکتی ہوں۔مگر تم میری اتنی سی وش نہیں پوری کر سکتے ۔۔۔”ماہین نے آنکھوں میں نقلی آنسو سمو کر شکوہ کیا۔۔
“اچھا اچھا یار ۔ٹھیک ہے بابا۔۔رو تو نہیں۔”شایان نے جیسے اس کہ آگے هتيار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔اپنی جیت پر فتح مندی سے مسکرائی تھی۔
“یہی تو بات تھی جو اسے مغرور بناتی تھی۔کسی کے آگے نا جھکنے والا شایان خانزادہ اس کہ آگے ہم وقت جھکنے کو تیار رہتا تھا۔
“تھنکیو شایان تمھیں نہیں معلوم تم نے مجھے کتنا خوش کر دیا ہے۔”ماہین نے ذرا چہک کر کہا تھا۔۔
جس پر وہ صرف مسکرا کر رہ گیا تھا۔وہ ماہین کو یہ بات قطعی نا کہ سکا کہ تم تو سمبل کہ ساتھ ایڈجسٹ کرنے پر راضی ہوگئی ہو مگر سمبل تمھیں کبھی برداشت نہیں کرے گی ۔اسی ساری صورتحال میں اس وقت وہ سمبل کو بلکل فراموش کر گیا تھا۔کہ وہ اس کا انتظار کر رہی ہوگئی۔۔اس کا موبائل ماہین پہلے ہی کوئی ڈسٹرب نا کرے اس باعث سلینٹ پر لگا چکی تھی۔جبکہ دوسری جانب رات گہری ہوتی دیکھ سمبل پریشان ہوگئی تھی۔۔
_______________
”یار سمبل تم پریشان نہیں ہو۔میں نے پتہ کروایا ہے ۔ڈرائیور گاڑی کسی کام سے لے کر گیا ہے۔وہ جیسے ہی آتا ہے۔میں خود تمھیں گھر چھوڑ کر اؤنگی۔”دانین ں نے سمبل کو تواتر سے شایان کہ نمبر پر کال ملاتے دیکھ تسلی دی۔۔
“نہیں یار۔انہوں نے کہا تھا۔میں خود تمھیں لینے اؤنگا۔اور اب رات کے دس بج رہے ہیں۔ان کا نمبر بھی نہیں لگ رہا۔اللّه خیر کرے نا جانے کیا ہوا۔۔”جیسے جیسے وقت گزر رہا رہا سمبل کو گهبراہٹ ہو رہی تھی۔
اچھا اچھا ریلكس۔۔کیا پتہ وہ کسی کام میں پھنس گئے ہوں۔”دانین نے اس کہ ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا۔۔
“نہیں نا۔۔میں اکیلے ہی جا رہی ہوں۔تمہارا ڈرائیور تو پچھلے ڈیڑ گھنٹے سے آہی نہیں رہا۔۔”سمبل نے چڑکر جلدی سے اٹھ کر اپنی چادر لی۔اور دانین کی پکار نظر انداز کرتی بھاگتی ڈورتی باہر کو بڑھی تھی۔۔
“یار دانین اتنی رات ہو رہی ہے۔یہاں پر کسی سواری کا ملنا نا ممکن سی بات ہے کیسے جاؤ گی۔۔دانین نے اسے سمجھانا چاہا۔جو مسلسل گارڈ سے دروازہ کھولنے پر باضد تھی۔
”یار میں چلی جاؤ نگی۔میں مزید یہاں نہیں رک سکتی۔تم دروازہ کھلواؤ۔”سمبل نے چڑ کر کہا۔تو دانین بھی خاموش ہوگئی۔جبکہ سمبل نے باہر اتے ہی گلی میں چارو جانب نظر دوڑآئی گلی مکمل سن سان پڑی ہوئی تھی۔۔
“سمبل دهيان سے جانا یار۔۔میں تو کہ رہی ہوں تھوڑا اور انتظار کر لو ڈرائیور آتا ہی ہوگا۔۔”سمبل دانین کو نظر انداز کرتی بڑے بڑے قدم لیتی باہر کو بڑھ گئی۔۔
گلی میں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں قدم اٹھاتی وہ پیدل ہی گلی پار کرتی وہ کافی دور نکل آئی تھی۔بیگ میں بجتے موبائل کے باعث مسلسل وئیبریشین ہو رہی تھی مگر سنیچنگ کے ڈر سے سمبل نے اپنا بیگ بھی چادر میں ہی چھپا رکھا تھا۔۔تیز تیز قدم اٹھاتی ارد گرد پر نظر ڈالے چلتی چلی جا رہی تھی مگر مین روڈ ابھی بھی کافی دور تھا۔۔
ابھی کچھ ہی دور آئی تھی۔کہ اپنے برابر سے ایک گاڑی کو زناٹے سے گزرتا دیکھ خوف سے چیخ کر پیچھے کو گر پڑی۔۔سمبل نے ایک دم ہراسہ ہو کر ارد گرد میں دیکھا تھا۔جہاں گاڑی گزرنے کے باعث ماحول میں آرتعاش سا برپا ہوگیا تھا اب وہاں ایک بار پھر سناٹہ چاہ گیا تھا۔جبکہ گاڑی آگے بڑھ گئی تھی۔
سمبل اپنی چادر درست کرتی کھڑی ہونے لگی مگر یکدم پیر موڑ جانے کے باعث درد سے کراہ کر رہ گئی۔۔
گاڑی خاصی دور جاکر کر واپس موڑ کر اس کی جانب آرہی تھی۔سمبل کی خوف کے مارے آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ماتھے پر پسینہ اگیا تھا۔نا جانے کون تھا۔جبکہ اس علاقے میں دور دور تک نا آدم نا تھا نا آدم کی ذات۔سمبل خوف کے مارے ہمّت جٹاتی جیسے تیسے کھڑی ہوئی جب تک گاڑی اس کہ بلکل نزدیک آکر رکی تھی۔جبھی کوئی دھڑ سے دروازہ کھولتا اسکی جانب آیا تھا جبکہ اس نے اپنا چہرہ خوف کے مارے چادر میں چھپا لیا تھا۔۔
_________________
ماہین کے ساتھ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں لگا تھا۔شایان سمبل کو بلکل فراموش کر چکا تھا۔ماہین کو گھر چھوڑنے کے بعد جب اس نے ایک سرسری سی نظر موبائل پر ڈالی تو سمبل کی ان گنت کالز دیکھ یکدم دماغ میں جهماکا ہوا تھا۔بیشتر سے پہلے مزید وقت کا ضیاع کئے بغیر گاڑی کا رخ اس کی دوست کے گھر کی جانب کیا تھا۔
ساتھ ہی سمبل کے نمبرز پر کال بھی ملائی۔مگر جانے کیوں وہ اٹھاہی نہیں رہی تھی۔پرشانی سے اپنی پیشانی مسلتا وہ گھر کے نزدیک ہی تھا۔کہ اپنی گاڑی کے قریب سے گزرتے کسی وجود اور پھر چیخ پر چونک سا گیا۔پہلے تو سمبل کی پریشانی میں سوچا کہ اگنور کردے۔مگر کسی خیال کے تحت دور جا کر گاڑی موڑ کر واپس وہیں لایا۔بلیک چادر میں کھڑی لڑکی کو دیکھ شایان فوری اس کی جانب لپكا۔جو شاید نہیں یقیناً سمبل تھی۔۔
“سمبل اتنی رات کو اکیلے یہاں کیا کر رہی ہوں۔۔”حواس بختہ سا سمبل کو چہرہ چھپاتے دیکھ وہ الٹا اسی سوال کر گیا تھا۔۔
اس کی آواز کی رسائی کانوں کو میسر اتے ہی جیسے سمبل کی جان میں جان آئی تھی۔مگر اس کہ سوال پر اس کہ ماتھے پر تیوری چڑ گئی تھی۔۔
”کیا مطلب ہے۔ظاہر ہے اتنی رات کو اپنے گھر جا رہی ہوں۔دوسروں کہ گھروں۔میں تو رکنے سے رہی۔۔”سمبل نے غصّہ میں یکدم پھاڑ کھاتے لہجے میں کہا۔شایان کو ایک بار پھر اپنی غلطی کا احساس ہوا۔جبکہ اس کی آواز آنسو کے باعث رندھ سی گئی تھی۔۔
“اچھا۔۔خاموش ہوجاؤ۔میں آگیا نا۔بس چلو گھر۔۔”شایان نے اطمینان سے کہتے جلدی سے اس کہ لئے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ہاتھ کا سہارا دیا۔سمبل بھی ہاتھ کی پشت سے آنسو رگڑتی غصّہ سے کھولتے ہوۓ انداز میں بیٹھ گئی تھی۔۔۔
شایان گھوم کر دوسری جانب سے ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا۔۔
“چوٹ زیادہ تو نہیں لگ گئی نا؟۔۔”شایان نے اسے پیر سیٹ پر رکھتے دیکھ پریشانی سے پوچھا۔جو اپنا پیرا سہلاتی نفی میں سر ہلا گئی۔۔
“اتنی رات گئے اس ایریا میں اکیلے نکلنے کی ضرورت کیا تھی۔میں بس آہی رہا تھا۔۔”شایان نے آہستہ سے اپنی صفائی دی۔۔
سمبل نے اس پر ایک غصّہ بھری نظر ڈال کر رخ پھیر لیا تھا۔مطلب وہ اس کی لاپرواہی پر خفا ہوگئی تھی۔جبکہ شایان تاسف سے ایک گہری سانس کھینچ کر رہ گیا تھا۔ایک کو مناؤ تو دوسری ناراض ہو جاتی ہے۔۔
_____________________
فلیٹ میں داخل ہوتے ہی سمبل بغیر کچھ کھاۓ یا اسسے رات کا کھانا پوچھے بغیر ہی بستر پر دراز ہوتی غصّہ میں کڑتی۔جانے کب نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔
شایان نے ایک نظر کچن میں ڈالی۔جہاں افغانی پلاؤ پکا رکھا تھا۔جو یقیناً سمبل نے دوپہر میں بنایا تھا۔اب اسے کھانا کھانا ہو یا نا ہو شایان کی وجہ سے وہ روز کھانے کا احتمام ضرور کرنے لگی تھی۔
شایان نے آگے بڑھ کر پلاؤ مائیکرو ویو میں گرم کر خود ہی اپنی پیٹ پوجا کا انتظام کیا۔سمبل بی بی تو اب یقیناً اسے منہ نہیں لگانے والی تھیں۔
ویسے کبھی کبھی وہ سمبل کہ انداز و اطوار دیکھ کر حیران ہی رہ جاتا تھا۔پہلے حویلی میں اس کی جب بھی اس کی سمبل سے ملاقات ہوئی وہ اسے کم گو،سیدھی سادھی شریف سی لگی تھی ۔مگر نکاح کے وقت اس کہ شایان کو دوسری شادی کی اجازت نا دینے پر شایان کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ صرف شکل سے ہی شریف ہے۔
_____________________
“سمبل اٹھ جاؤ۔اور کتنا سو گی۔صبح کے دس بج رہے ہیں۔”آج اتوار کا چھٹی کا دن تھا۔شایان کو اٹھے گھنٹہ ہونے کو آیا تھا۔مگر سمبل کا فلحال جاگنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اس کے پیٹ میں تو چوہے ڈورنے لگے تھے۔مگر جب سے سمبل یہاں آئی تھی شایان نے تمام کام کرنا ترک کر دیے تھے۔اور ابھی بھی سستی سے بیزاا سا بھوکا ہی بیٹھا ہوا تھا۔
“سمبل اٹھ جاؤ بھئی۔مجھے بھوک لگ رہی ہے۔“شایان نے اس کا کندھا پکڑ کر تقریبً جهنجھوڑ ہی ڈالا تھا۔
”نیند آرہی ہے۔مجھے سونے دیں۔”سمبل نے ایک آنکھ کھول کر جمائی روکتے کہ کر کروٹ بدل لی۔
شایان کو تو جیسے پتنگے لگ گئے تھے۔وہ یکدم ہی غصّہ میں آیا تھا۔اور پاس رکھا پانی سے لبالب جگ اٹھا کر اس کہ سر پر انڈیل دیا تھا۔۔
“یہ کیا بد تمیزی ہے۔“سمبل ہڑبڑا کر اٹھتی گہرے گہرے سانس لیتی غصّہ سے تلملا کر چیخ اٹھی تھی۔
”کوئی بد تمیزی نہیں ہے۔انسانوں کی طرح اٹھو فورا اور ناشتہ بناؤ۔یہ کیا ہر ہفتے نیستیوں کی طرح دن چڑہے تک سوتی رہتی ہو۔”شایان نے بوڑھی اماوں کی طرح جھڑکا تھا۔
“کیا مطلب ہے۔یہ کونسا طریقہ ہے کسی کو اٹھانے کا۔”اس کا غصّہ ہنوز برقرار تھا۔
انسانوں والے طریقے سے تو تم اٹھتی نہیں۔اب آئندہ بھی یہی طریقہ استعمال میں لایا جائے گا۔“شایان نے طنزیہ کہتے۔شیشے کا خالی جگ اس کی نظروں کے سامنے لہرا کر کہا۔
”میں۔۔۔
”اٹھو جلدی ناشتہ بناؤ۔پھر مجھے اپنے ایک دوست سے ملنے بھی جانا ہے۔”سمبل کچھ کہنے ہی لگی تھی جب شایان نے تیز لہجے میں کہتے اسے خاموش کروادیا۔
سمبل غصّہ سے جلتی بھنتی بڑبڑا کر کھڑی ہوتی سلیپر پیر میں اڑاس کر باتھ روم میں بند ہوگئی۔
جبکہ شایان نے گیلے بستر کو دیکھ بڑی مشکل سے اپنا قہقاہ ضبط کیا تھا۔
____________________
رات کے تقریبً آٹھ بج رہے تھے۔شایان اور سمبل دونوں ہی خاموشی سے موبائل اور لیپ ٹاپ میں مصروف تھے۔سمبل ليپ ٹاپ میں کوئی انگلش ہورر موی کھولے بیٹھی تھی۔جبکہ شایان ایک پیاری سی مسکان ہونٹوں پر سجاُۓ فیس بک پر کچھ فنی ویڈیوز دیکھتا مسلسل مسکرا رہا تھا۔یہی بات تھی جو سمبل کو بری طرح کھٹک رہی تھی۔
وہ چور نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔جب شایان نے اچانک اس کی جانب دیکھا وہ گڑبڑا کر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔شایان ایک انگڑآئی لیتا واشروم میں چلا گیا۔جبکہ سمبل اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتی آہستہ سے قدم اٹھاتی سوفے تک آئی۔سائیڈ پر رکھا موبائل اٹھایا۔جس میں پاسورڈ لگا ہوا تھا۔لٹکے منہ کے ساتھ موبائل واپسی رکھنے لگی تھی کہ موبائل سکرین روشن ہوئی اور ماہی کا نمبر جگمگ کرنے لگا۔سمبل نے غصّہ میں جلدی سے اس کی کال پک کی تھی۔۔
“شایان پھر تم تیار ہو نا۔میں امید رکھوں کہ تم جلد میری وش پوری کرو گئے۔“ماہین کال پک ہوتے ہی بولنا شروع کر چکی تھی۔جبکہ سمبل کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
“مسٔلہ کیا ہے۔تمہارے ساتھ۔کس قسم کی چیپ لڑکی ہو تم ۔شرم نہیں آ۔۔۔۔۔۔۔۔”سمبل کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ پیچھے سے کسی نے موبائل جھپٹنے کے انداز میں چھینا تھا۔
سمبل چونک پر پلٹی۔شایان نے جلدی سے کال کٹ کی۔
“تمہاری ہمّت کیسے ہوئی۔میرے موبائل کو بغیر اجازت ہاتھ لگانے کی۔”شایان غصّہ کی شدّت سے بہت زور سے دهاڑا تھا۔
شایان وہ۔۔میں ۔۔۔میں ۔۔ “اس کہ خطر ناک حد تک سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ سمبل کی خوف سے زبان تالو سے چپک گئی تھی۔۔
”کیا شایان۔۔ میں پوچھ رہا ہوں۔تمہاری ہمّت کیسے ہوئی۔میرے موبائل کو ہاتھ بھی لگانے کی۔”شایان سخت لہجے میں چبا چبا کر گویا ہوا۔
“وہ میں۔۔ماہی سے بات۔۔۔”اس نے صفائی پیش کرنی چاہی۔۔
“شٹ اپ۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔تم ہوتی کون ہو۔میرے معملات میں داخل اندازی کرنے والی۔اگر میں تحمل مجازی سے کام لے رہا ہوں۔اور تمھیں کچھ کہ نہیں رہا۔تو تم اپنی منمانی کرتی پھرو گی ہاں۔۔”شایان نے اس کا بازو پکڑ کر جھٹکا دیا۔سمبل کی آنکھوں سے آنسو جھرنے کی مانند گر نے لگے تھے۔تھوڑی رونے کی شدّت سے خوف سے کپکپانے لگی تھی۔
“دفع ہوجاؤ یہاں سے۔نکلوں یہاں سے ابھی اور اسی وقت نکلو۔اپنی شکل مت دکھانا مجھے سمجھ آئی۔”شایان نے غصّہ میں اس کا ہاتھ پکڑ تھا۔اور دروازہ کی جانب دھاکیل دیا تھا۔سمبل روتی ہوئی ایکدم باہر نکل گئی تھی۔۔
شایان غصّہ میں سر پر ہاتھ پھیرتا خود کو قابوں میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔کتنی مشکل سے اس نے ماہین کو منایا تھا مگر جب سے یہ لڑکی اس کی زندگی میں آئی تھی۔مجال ہے جو کوئی بات بن پائی ہو۔۔۔
_______________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...