مہر شروع سے سکول تو نہیں گئی تھی لیکن ذہین کافی تھی گھر میں دوسری بہنوں کی کتابوں سے پڑھ پڑھ کر بہت زیادہ حد تک انگلش تک کی پہچان رکھتی تھی
دامل کے مطابق ابھی اُسکی عمر شادی شدہ زندگی کا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں تھی نہ ہی اُن دونوں کا اپنی نئی زندگی اتنی جلدی شروع کرنے کا اردہ تھا
"میں تمہارا ایڈمشن کروا دیا ہے مہر تم نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات اکھٹے ہی دو گی”
کچن میں کام کرتی مہر کے سر پر بم پھوڑا
"نہیں آپ نے وعدہ کیا تھا کے کوئی پڑھائی نہیں کروائیں گے مجھ سے”
سبزی بناتے ہوئے جھٹکے سے پیچھے ہوئی اور چند پہلے کیا ہوا وعدہ یاد کروا جو زبردستی رو رو کر مہر نے لیا تھا
"وہ تو مذاق تھا میری جان ”
چند قدم چل کر اُسکے قریب آیا
"آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں دامل ”
کمزور لڑکی تو نہیں تھی لیکن اُس سے اپنے لاڈ اٹھوانے بہت اچھے لگتے تھے ۔۔۔۔دامل نے محسوس کیا تھا کہ وہ بات بات پر رونے والوں میں سے نہیں تھی بس کبھی کبھی اُسکی مبحت میں اُسکے تنگ کرنے کے لئے چند آنسو بہا کر ساری محبتیں وصول لیتی تھی
"مہر ابھی مجھے گھر بھی جانا ہوتا ہے ۔۔۔پڑھائی بھی چل رہی ہے تم پھر سارا سارا دن گھر میں اکیلی ہوتی ہو وہی ٹائم پڑھ لیا کرنا ورنہ تھماری بوریت کا کوئی اور حل ڈھونڈنا پڑے گا”
ذو معنی الفاظ میں کہتا اُسکے نرم سے گال کھنچنے لگا
"میں کیسے پڑھوں گی اتنا سارا اور شروع سے نہیں پڑھا مجھے وہ کمرہ امتحان سے نکال دیں گے”
ذہن میں پہلے نہ پڑنے والی بات آئی تو چہرے پر مسکراہٹ در آئی
"میری معصوم سی بیوی میں نے سب کچھ کروا دیا ہے اب تم بس پڑھنے پر توجہ دو”
خود کاؤنٹر پر بیٹھ چُکا تھا اور مہر کے تاثرات کو انجواۓ کر رہا تھا
"پھر کام کون کرے گا ۔۔۔دیکھیں گھر میں سو کام ہوتے ہیں میں پڑھا کرو گی یہ گھر کے کام کیا کروں ۔۔۔مجھ سے اتنا کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ویسے بھی یہ کتابیں انگلش میں ہیں اور مجھے تو انگریزی کی کوئی سمجھ ہی نہیں ہے میں ایسے ہی ٹھیک ہوں ۔۔۔آپ پڑھ تو رہے ہیں یہی بہت ہے”
اچھی خاصی معلومات میں اضافہ کرنے کے بعد زور زور کے پیازوں کے بڑے بڑے سلائیس کاٹ رہی تھی
"دیکھو میں تو گھر سے باہر ہوا کروں گا ۔۔۔اب بچوں کو تو تمہیں ہی پڑھنا پڑے گا تو کیسے پڑھایا کروگی آج کل بہت مشکل سلیبس ہوتا ہے بچوں کا”
اُسکے ہاتھ سے چھری لے کر خود پیاز کاٹنے لگ گیا کجا کے مہر پیازوں کے ساتھ اُسے بھی نہ کاٹ دے
"آپ کہاں جایا کریں گے پھر ۔۔۔دیکھیں دامل یہ آوارہ لڑکوں والی عادتیں میں آپ کو اپنانے نہیں دونگی ”
سیدھی ٹیپیکل بیوی کے روپ میں آئی تو دمل کے قہقہے بند ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے
پھر خود ہی اپنے کہے پر شرمندہ ہوئی
"اگر تم نہیں پڑھو گی تو میں دوسری شادی کرواؤں گا اور وہ پڑھی لکھی ہوگی تو مجھے کم از کم بچوں کے مستقبل کی فکر تو نہیں ہو گی اور کوئی نوکری وغیرہ کرے گی وہ تو میرا ہاتھ بھی بٹ جائے گا تم گھر کا کام کرلیا کرنا اس طرح تم بھی خوش میں بھی خوش ۔۔۔بچوں کی ٹنشن مت لو دو ہمارے ہونگے اور دو اُسکے اُس کے ”
مہر کے چہرے پر ہر سیکنڈ میں بدلتے رنگ دیکھ کر پوری وضاحت دی جس کے بعد وہاں پڑے تمام پیاز اور ٹماٹر دامل کی نظر ہوئے
"بہت بُرے ہیں آپ”
تھک کر خود ہی کاؤنٹر سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی
"نوازش”
دل پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا نیچے کی طرف جُھکا
"اور اگر میں پڑھوں تو…؟
آنکھیں پٹپٹا کر معصوم سا سوال کیا
"تو مجھے دوسری شادی نہیں کرنے پڑے گی تمہارے ساتھ ہی گزرا کرلونگا”
کچن میں بکھرے ہوئے پیازوں کو دیکھتے ہوئے کہا
"کتابیں کدھر ہیں ۔۔۔۔۔یہ سالن دیکھ لی جیۓ گا”
اُسکے پاس سے کتابیں اٹھاتی وہاں سے چلی گی
"جب بھی بیویاں کوئی بات نہ مان رہیں ہوں تو دوسری شادی کی دھمکی آزما لانی چاہیے ”
کان میں دوست کی آواز گونجی تو ایمپریس ہونے والے انداز میں کھڑا پیاز براؤن کر رہا تھا
"شوہر سے سیدھا ماسی بن گیا ہوں اللہ رحم کرے مجھ پر”
با آواز بولا تو باہر کتابیں لے کر بیٹھی مہر نے پیار بھری نظروں سے اپنے شوہر نامدار کو دیکھا
•°•°•°•°°••°•°°•°•°•°°
سات ماہ کتنی مشکل سے گزرے تھے یہ دیب ہی جانتی تھی ہر وقت اُسے اُس لمحے کا انتظار رہا تھا جب اُسکا بچہ اُسکی گود میں آنا تھا
اب مہر اور دامل بھی اُنکے ساتھ اُسی گھر میں رہ رہے تھے
آج وہ دونوں دونوں نارمل چیک اپ کے لیے ہاسپٹل آئیں تھیں
تالش اپنا بزنس سٹل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چُکا تھا دامل نے اپنی ماں سے چوری اپنے حصے کی تمام جائیداد بیچ کر وہ پیسہ تالش کے بزنس پر لگا چُکا تھا
جھنگ کیوں گنے کی فصل میں کافی مشہور ہے اسلیے اُنہوں نے شوگر کے بزنس کی مانگ دیکھتے ہوئے ایک چھوٹا شوگر ایکسچینج کا کاروبار شروع کیا تھا جس میں زیادہ رقم کی ضرورت نہیں تھی
آج وہ دونوں اُسے کے کاغذات کی وجہ سے لاہور گے تھے تو دیب کو مہر کو ساتھ لے جانے کا کہا تھا
دونوں سیاہ چادریں اوڑے کیبن میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہیں تھیں
باہر ایک کالی نئے ماڈل کی کار آکر رکی اور ایک لڑکا اپنی ٹائی نٹ ڈیلی کرتا اندر کی طرف بڑا تو ایک نظر رُک کر دیب کے بھرے بھرے سے وجود کو دیکھا تو نظریں اُسکے چہرے پر ساخت ہوئیں
نظروں کی تپش محسوس کرتی دیب نے چند سیکنڈ کے لیے اوپر کی طرف دیکھا اور عجیب سی نظروں سے گھن آئی اور ساتھ بیٹھی مہر کا ہاتھ پکڑ لیا جو سامنے لکھا بورڈ پڑھنے میں مصروف تھی
اُسکی ہاتھ پکڑنے پر نظریں سامنے کھڑے انسان کی طرداری اُٹھیں
"بھابھی کُچھ نہیں ہوتا ریلیکس”
تھر تھر کانپتی دیب کو تسلی دی
وہ انسان وہاں سے چلا گیا تو دیب نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بوتل کو منہ لگایا اور سارا پانی پی گئی
"بھابھی آپ جانتی ہیں اُسے ؟؟؟”
مہر نے دیب کی اُکھڑی ہوئی سانسوں کو دیکھ کر پوچھا
"ن۔۔۔۔نہ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔تو۔”
دیب جلدی سے بولی
°•°•°°•°°•°••°°••°°•
پورے کراچی اور لاہور کی پولیس شہروں کا چپا چپا چھین چُکی تھی لیکن حنان مغل کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا
"آپ لوگ منان مغل کے بھائی کو نہیں ڈھونڈ سکے ”
تمام بڑے افسران اِس وقت اُسکے روم میں سر جھکائے بیٹھے تھے
"اعلان کروا دو جو میرے بھائی کو ڈھونڈے گا اُسے پانچ کروڑ روپے اُسی وقت انعام دیا جاۓ گا ”
اُسے اپنا آپ بے بس لگ رہا تھا دو دن جس طرح سے وہ خود سڑکوں پر ڈھونڈ رہا تھا لیکن ہر جگہ مایوسی ہی ہوئی تھی
"کیا ہے ”
ابھی افسران گے ہی تھے جب اُسکا آفس کا فون بجا
"سر بازل شاہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں”
اگلی طرف سے آواز سن کر جبڑے بھینچے ۔۔۔۔اُسکا پارٹنر تھا بات سنی بھی ضروری تھی
"بہت افسوس ہُوا منان مغل آپکے بھائی کا ۔۔۔اگر میری کسی مدد کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیے گا ۔۔۔۔یہ سر بازل کا پیغام تھا میں اُنکا سیکٹری بات کر رہا ہوں”
اُسکی غلط فہمی کو جلدی سے دور کیا اب بازل شاہ ہر ایرے غیرے کو خود فون تھوڑی کرتا ہے
جبکہ منان نے زور سے فون زمین پر دے مارا
"بہت جلد تمہارا گریبان میرے ہاتھوں میں ہوگا بازل شاہ ”
چند لمحوں کے لیے وہ بھائی کو بھول کر بس بازل کو یاد رکھے ہوئے تھا اور یہی تو بازل شاہ چاہتا تھا وہ اُسکے علاوہ کسی کو سوچ ہی نہ سکے
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
اپنے اوپر وزن محسوس کرتے ہوئے مایا نے اپنی مندی مندی سے آنکھیں کھولیں تو ایک خوش گوار سا احساس روح تک کو محظوظ کر گیا
ذہن آہستہ آہستہ بیدار ہُوا تھا گزُری شب کہ کچھ لمحات ذہن میں ائے جب نور اُسکے بغیر سو ہی نہیں رہی تھی
"مایا نور کو اپنے ساتھ سلا لو ”
دروازہ کھولتے ہوئے بازل اندر داخل ہُوا اُسکی بھی نیند سے آنکھیں بوجل ہوچکی تھی لیکن نور میڈم کا ابھی سونے کوئی ارادہ نہیں تھا
"مام اوئی ”
اُسے دیکھ کر جوش سے ہاتھ ہلایا
پہلے تو اُسے بازل کا نام پکارنے پر حیرت ہوئی دوسرا اُسکا نرم لہجہ
"آجاؤ مام کی جان”
مایا جو ولیم کی کتاب لیے ابھی صوفے پر ہی بیٹھی تھی اُٹھ کر بازل تک آئی اور نور کی طرف بازو کیے اور وہ گود کر اُسکی گود میں آگئی
"اوکے گڈ نائٹ بابا کا شیر ”
دونوں گالوں پر پیار کیا جبکہ بازل کو اتنا غریب دیکھ کر اُسکی سانسیں مایا کے چہرے پر گر رہیں تھی مایا کی دھڑکنیں یکدم تیز ہوئیں
جبکہ نور نے اُسکا کالر پکڑ رکھا تھا
"بابا ۔۔۔مام…”
اپنے اشاروں سے کچھ سمجھانا چاہ رہی تھی جو دونوں جان بھوج کر سمجھنا نہیں چاہتے تھے
لیکن بازل جلدی سے کچھ کے ملائم سے ہاتھ اپنے کالر سے ہٹاتا پیچھے کی طرف موڑا
جبکہ نور اپنا پورا سپیکر پھاڑ کر گھر سر پر اُٹھا چُکی تھی
"کیا ہوا بیٹا ”
جلدی سے واپس آیا
"آپ جب تک نور جاگ رہی ہے ادھر بیٹھ جائیں ”
مایا کے منہ سے یکدم سلپ ہُوا تو خود ہی دانتوں تلے زبان دبائی
کُچھ دیر بعد منظر یہ تھا کے نور نے مایا کے سارے بال جو پہلے ہی چھوٹے سے بیکھیر دے تھے بازل کے سینے پر بیٹھی کبھی تھوڑا دور بیٹھی مایا کے بال کھنچنے جاتی تو واپس آکر بازل کے کھنچنے لگ جاتی اُنکے منہ پر دُکھ بھرے تاثرات دیکھ کر خود بھی زور زور سے کلپنگ شروع کردیتی
دونوں ایک دوسرے سے یکسر انجان بنے اپنی اپنی جگہ پر ماجود تھے
اُس سے کھیلتے ہوئے کب بازل نیند کی آغوش میں چلا گیا مایا کو معلوم ہی نہیں ہوا
اب اُسکا اردہ دوسرے کمرہ میں جانے کا تھا لیکن نور میڈم کا دور دور تک سونے کا کوئی اردہ نہیں تھا بیٹھ بیٹھ کر مایا بھی تھک چکی تھی تو خود مخلف سمت میں تھوڑی سی جگہ پر لیٹ گئی اُسکے بعد کا کوئی علم نہیں تھا
اب اپنے پہلو میں لیٹی ہوئی نور کو دیکھا جو پیٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی ٹانگیں بازل کے پیٹ پر جبکہ منہ مایا کی گردن میں دیا ہوا تھا اور بازو اُسکے سینے پر ماجود تھیں
اُسکا منہ سیدھا کرکے گال پر پیار کیا لیکن وہ ابھی نیند کے مزے لوٹ رہی تھی
بہت عرصے بعد تینوں کو سکون کی نیند آئی تھی
نیند سے پوری طرح بیدار ہوئی تو اپنے ہاتھ تلے کُچھ ہرچل محسوس ہوئی تھوڑا سا سر اٹھا کر ہاتھ کو دیکھا تو وہ بازل کے سینے پر ماجود تھا جھٹکے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا
"اللہ”
اب وہی ہاتھ اپنے دل پر رکھ کر اُسکی دھڑکنیں کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو بلا وجہ ہی دھڑک رہا تھا
نور کو جلدی سے سائڈ پر کیا اور خود تیز تیز قدم چلتی باہر بھاگ گی
"اللہ میں کیوں کمزور ہو رہی ہوں مجھے بدلہ لینا ہے۔۔۔۔۔۔ملک مجھے ہمت دے ۔۔۔۔۔۔۔میں محبت کے قابل نہیں ہوں اور نہ وہ شخص محبت کے قابل ۔۔۔مجھے کیا ہو رہا ہے ”
باہر آکر خود کو مطمئن کر رہی تھی الصبح کا وقت تھا اور دعائیں قبول ہوتیں تھیں تھی اس وقت اُسکے مطابق
"مجھے جانا چاہیے یہاں سے اگر رہی تو اپنے وعدہ سے منکر ہو جاؤں گی ”
اُسکے مطابق محبت بس کمزور کرتی ہے اور اُسے کمزوروں میں سے نہیں ہونا تھا
•°•°••°•°•°•°••°•°°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...