بغداد بلائے جانے والے آسٹرونومر الفرغانی تھے۔ ان کا نام الخوارزمی یا یحیٰی بن ابی منصور جتنا مشہور تو نہیں لیکن ان کے کام نے یورپ کے احیائے نو پر اثر کیا۔ انہوں نے بطلیموس کی کتاب میں اضافہ کیا۔ ان کا ایجاد کردہ ایک اور آلہ دریائے نیل کی سطح کی پیمائش کے لئے المقیاس تھا۔ یہ آج بھی قاہرہ میں موجود ہے۔ دانتے نے آسٹرونومی میں اپنا زیادہ کام الفرغانی کی تحریروں سے سیکھا تھا۔ ایک اور مشہور اٹالین، کرسٹوفر کولمبس نے اپنے سفر میں سرمایہ کاری کیلئے قائل کے لئے الفرغانی کے اعداد سے مدد لی تھی۔
الفرغانی کے آسٹرولیب بنانے کے ریاضیاتی اصولوں پر تحریر ابھی تک باقی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بطلیموس کی کتاب میں فلکیاتی ریکارڈ کا سیٹ تھا۔ انہیں Handy table کہا جاتا تھا اور اس میں چاند، سورج، سیاروں کی جگہ، ستاروں کا طلوع و غروب، چاند اور سورج کے گرہن اس کا حصہ تھے۔ یہ عربوں کے ریکارڈ “زیج” کی بنیاد بنے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 828 سے 829 تک کے سال میں بطلیموس کے کام کا تنقیدی جائزہ مشاہدات کے ذریعے کیا جانے لگا۔ اور ان ریکارڈز کی دوبارہ ترتیب کی گئی۔ نئے مشاہدات کئے گئے۔ چوبیس فکسڈ ستاروں کی جگہ کے ٹیبل بنائے گئے۔ الشمسیہ کی رصدگاہ کے بعد مامون نے ایک دوسری رصدگاہ بنانے کا حکم دیا جو کہ دمشق کے قریب جبلِ قاسیون پر بنائی گئی۔
یحیٰی ابن ابی منصور کی وفات 830 میں ہوئی اور یہ کام خالد المروالروذی کے پاس آیا۔ انہوں نے کئی نئے آلات ڈیزائن کئے۔ سورج کے زاویوں کی پیمائش کیلئے سولہ فٹ اونچ mural quadrant بنایا گیا۔ پیتل کے اس آلے کو پہاڑ کی ایک سائیڈ پر سنگِ مرمر کی سِل کے اوپر اور meridian کے متوازی رکھا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں پر گرمی کی وجہ سے دھاتی آلات کے پھیلنے اور سکڑنے کی وجہ سے مسائل آئے۔
مشاہدات مکمل ہونے کے بعد 833 میں دونوں رصدگاہوں سے آنے والی نتائج کو مرتب کیا گیا۔ یہ “الزیج الممتحن” تھی۔ (جس کا ترجمہ مصدقہ ریکارڈ کا کیا جا سکتا ہے)۔ یہ کسی ایک شخص کا کام نہیں تھا۔ جس طرح آج کی سائنس میں کئی مصنفین ملک کر پیپر لکھتے ہیں۔ ویسے ہی یہ ماہرینِ فلکیات کے گروپ نے لکھا تھا جنہیں “اصحاب الممتحن” کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عام غلط فہمی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں لوگ زمین کو چپٹا سمجھتے تھے۔ کرسٹوفر کولمبس کے سفر نے دریافت کیا کہ زین گول ہے۔ ایسا تصور بالکل ہی غلط ہے۔ قدیم یونانی بھی اس بات کا پتا لگا چکے تھے کہ زمین ایک کرہ ہے۔ چھٹی صدی قبلِ مسیح میں فیثاغورث نے جمالیاتی وجوہات کی بنا پر زمین کو ایک کرہ کہا تھا۔ “یقیناً خدا نے زمین کو ایک کرے کے طور پر بنایا ہو گا کیونکہ یہ ریاضی کی سب سے خوبصورت ترین شکل ہے”۔ لیکن بعد میں اسی ماڈل کو عملی شواہدات کی وجہ سے افلاطون، ارسطو اور ارشمیدس نے اپنا۔ مثال کے طور پر چپٹی زمین میں اس بات کی وضاحت نہیں کی جا سکتی تھی کہ اگر جنوب کی طرف سفر کیا جائے تو قطبی تارے کی پوزیشن آسمان میں نیچے کیوں ہو جاتی ہے۔ جبکہ زمین کی گولائی اس کی وضاحت کر دیتی تھی۔ نہ صرف یہ کہ اس کی شکل کا علم تھا بلکہ سائز کے اندازے بھی تھے۔ ارسطو نے اس کا محیط چار لاکھ جبکہ ارشمیدس نے تین لاکھ سٹیڈیا کہا تھا۔ ایک سٹیڈین آج کی ایک میل کا تقریباً دسواں حصہ ہے تو یہ اس کے اصل سائز (پچیس ہزار میل) سے بہت دور نہیں تھے۔
جبکہ افلاطون زمین کے بارے میں بڑی دلچسپ وضاحت لکھتے ہیں، “اگر اصل زمین کو کوئی اوپر سے دیکھے تو یہ چمڑے کی گیند کی طرح نظر آئے گی۔ اس پر رنگ بکھرے ہوں گے۔ ویسے جیسے کسی رنگساز نے بکھیرے ہوں”۔ نہ صرف افلاطون کا زمین کی شکل کا آئیڈیا درست تھا جب زمین کو خلا سے دیکھا جائے تو سمندر، صحرا، برف پوش پہاڑ اور اس کے اوپر رقصاں موسم کے ڈیزائن کے ساتھ رنگساز کے بکھیرے رنگوں کا تصور ہی سامنے آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری صدی قبلِ مسیح کے ایک یونانی سکالر إراتوسثينيز زمین کے محیط پر محض اندازوں سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ اس کی پیمائش کر لیں گے۔ ان کا طریقہ سادہ تھا۔ اگر وہ سکندریہ سے اسوان تک کا فاصلہ ناپ لیں (یہ قدموں سے کیا گیا)۔ ان شہروں میں بننے والے نصف النہار کے سائے کا زاویہ ناپ لیں تو پھر یہ پتا لگ جائے گا کہ اس فاصلے میں زمین کا خم کتنا ہے۔ اگر اس کو 360 ڈگری تک لے جایا جائے تو پھر ہمیں زمین کے سائز کا پتا لگ جائے گا۔
إراتوسثينيز کا طریقہ سادہ تھا اور اس میں کئی غلطیاں تھیں۔ لیکن مامون کے وقت تک زمین کے سائز کی یہی پیمائش دستیاب تھی۔
اس سے ایک ہزار سال بعد مامون کو زمین کے سائز کا پتا لگانا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...